• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
گھر کی دلیل
احمد رضا بریلوی نے احکام شریعت میںاس حدیث کی رو سے اہل میت کے ہاں کھانے پکانے اور اجتماع کو حرام فرمایاہے اور اس پر تفصیلاً بحث کی ہے۔
ایصالِ ثواب کی مجالس کا انعقاد
ممکن ہے مولوی صاحب موصوف الاصل فی الاشیاء الاباحۃ کے اصول کے تحت باوجود عدم ثبوت کے جائز اور مشروع جانتے ہوںلیکن یہ خیال رہے کہ یہ اصل شوافع کی ہے اور امام شافعیؒ فرماتے ہیںکہ فوت شدہ گان کوثواب پہنچانایا ھِبہ کرناقرآن وحدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ہی نہیں ۔
چنانچہ امام ابن کیثر ؒ سورۃ نجم کی تفسیر میں آیت کریمہ ،و ان لیس للانسان الا ماسعیٰ النجم ۳۸۔۳۹
یعنی انسان کیلئے نہیں ہے مگر وہی جو اس نے خود کوشش کی
اور پچھلی آیت مبارکہ أن لاتزر وازرۃ وزریٰ أخریٰ کے مطابق جیسے دوسرے کا بوجھ کفر اور گناہوں کا مجر م کے سواکوئی نہیں اٹھانے گا اور اس پر دوسرے کا بوجھ نہیں لادا جائے گا۔
ایسے ہی وہ اس اجروثواب کے علاوہ جو اس نے خوداپنے لیے کمایاہے حاصل نہیں کرپائے گا۔فرماتے ہیں
"من ھذہ الآیۃ الکریمۃ استنبط الشافعی ؒ ومن اتبعہ ان القرأۃ لا یصل اھداء ثوابھا الی الموتیٰ لانہ لیس من عملھم ولاکسبھم ولھذا لم یندب الیہ رسول اللّٰہ ﷺ امتہ ولا حثھم علیہ ولا أرشد ھم الیہ بنص ولا ایماء ولم ینقل ذالک عن احد من الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم ولو کان خیر اً لسبقونا الیہ ،و باب القربات یقتصر علی النصوص ولا یتصرف فیہ بأنواء الا قسیۃ والآراء فاما الدعاء والصدقۃ فذاک مجمع علی وصولھما منصوص من الشارع علیھا ابن کثیر ص۲۵۸ج ۴
ترجمہ:۔ اس آیت کریمہ سے امام شافعی ؒ اور آپ کے متّبعین نے یہ استنباط کیا ہے کہ تلاوت ِقرآن کا اھداء ثواب فوت شدہ گان کونہیں پہنچتاکیونکہ وہ ان کا عمل نہیں اور نہ وہ ان کی کسب وکمائی ہے۔اسی لئے رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو اس کی ترغیب نہیں دلائی نہ انہیں اس پر شوق دلایا اورنہ ان کو اس کی طرف نص اورایماسے راہنمائی فرمائی اور نہ ہی صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی ایک سے منقول ہوا اوراگر اِھداء ثواب میں خیر ہوتی تو وہ ہم سے اس کی طرف سبقت لے جاتے اور قربات کے باب میںنصوص پر اقتصار کیا جاتا ہے اور اس میں طرح طرح کے قیاس اور آراء سے تصرف نہیں کیا جاتا۔البتہ دعا میت کیلئے اور صدقہ اس کی طرف سے مجمع علیہ مسئلہ ہے کہ اس کا ثواب اس کو پہنچتا ہے اور یہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے نصوص کے ساتھ ثابت ہے ۔ابن کثیر ص۲۵۸ج ۴
نوحہ کی ترغیب (معاذاللہ)
اب قابل غور یہ بات ہے کہ ایصال ثواب کی مجالس کے انعقاد میں اس قدر اہتمام کرنا،بلا بلاکر اعلانات کرکے دعوت نامے چھپواکر دیے جاتے ہیں۔یہ تحری اور دعوتیں ایک طرح سے نعی اور ایسا اجتماع ودعوت ہے جو بالا تفاق حرام ہے اور یہ ماتم قائم کرنے اور غم تازہ کرنے کی مجلسیں ہیں۔جن کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں اور یہ شریعت میں اضافہ ہیںاور یہی بدعت شرعی ہے جو ضلالت اور گمراہی ہے اور یہ غیر ثابت امر کو سنت کا درجہ دینا ہے اور یہی سنت کی تبدیلی ہے جیساکہ امام شافعی ؒ سے منقول ہوا۔
حدیث شریف میں حدیث ِابی ھریرہؓ میں جتنا بیان آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اذامات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاث الخ
یہ بھی امام شافعی کے موقف کی تائید کرتا ہے۔بہر صورت اس مسئلہ کی قانونی حیثیت بیان کردی گئی ہے اور ان دعوتوںکو علماء کا کھانا بھی مکروہ ہے اور پھر اہل میت کیلئے تو اقرباء کھانے کا انتظام کریںعلماء حنفیہ نے لکھا ہے کہ دعوت سرور میں ہوتی ہے نہ کہ مصیبت میں اور قرآن خوانی کرکے دعوت لینا مکروہ ہے اور بدعت ِقبیحہ ہے۔لہذاجب ان مجالسِ ایصال ِثواب کا کچھ ثبوت قرآن سنت سے اور صحابہ سے نہیںتو کیا بتایا جائے کہ ان کے اہتمام سے کس سنت میں تبدیلی آتی ہے۔عدم ثبوت کی وجہ سے یہ مجالس اپنی خصوصیت کی وجہ سے ناجائز ہونگی کیونکہ ان میں ایک طرح کی تشریع پائی جاتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تشریع کامنصب
تشریع کامنصب صرف اللہ تعالی ٰ کا ہے اورمحمد ﷺ باذن اللہ مطاع ہیں ہمیں ان کی اتباع کرنی فرض ہے۔
اَمْ لَھم شرکَاء شَرعُوالَھُم مِنَ الدِّینِ مَالَم یَاذَنْ بِہِ اللّٰہ( سورۃالشورٰی)
کیا انھوں نے اللہ کے شریک بنا لیے ہیں جنھوں نے ان کے لیے ایسا دین بنا لیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ۔
پرخلوص دعوت
آپ اپنے معمولات پر نظر ثانی فرمائیں اور ٹھنڈے دل سے غور کریں،نئے نئے طریقوں اور بدعات سے شریعت کی ترقی اور تحفظ نہیں ہوتا بلکہ اس کی شکل بگڑتی اور مجروح ہوتی ہے۔اعاذنااللہ من ھذہ البلیۃ
نہایت قابل غور بات یہ ہے کہ مولوی صاحب نے ص۷میں امام شافعی ؒ سے بدعت بمعنی محدثات نو ایجاد کردہ امور کے متعلق یہ تعریف نقل کی ہے کہ آپ فرماتے ہیں :
المحدثات من الامور ضربان احدھما ما احدث مما یخالف کتابا او سنۃ او اثرااواجماعافھذہ البدعۃ الضلالۃ والثانیہ مااحدث من الخیرلاخلاف فیہ لواحد من العلماء وھذہ محدثۃ غیرمذمومۃ
اور یہی تعریف بریلوی علماء مثلاً نعیم الدین نے کشف الحجاب عن مسئلہ ایصال ثواب میں پیش کی ہے یعنی بدعات ومحدثات کی دو قسمیں ہیں
۱۔ایک نیا کام جو کتاب وسنت أثر واجماع کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالت ہے۔
اب امام حافظ ابن کیثرؒکی عبارت پر غور کریں کہ امام شافعی ؒنے عدم وصول ِاھداء ثواب الیٰ الموتی کیلئے کتاب وسنت اثرواجماع کی مخالفت کسی معنی میں بیان فرمائی ہے ۔فرمایا
لم یندب الیہ رسول اللّٰہ ﷺ امتہ ولا حثھم علیہ ولا أرشد ھم الیہ بنص ولا ایماء ولم ینقل ذالک عن احد من الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم ولو کان خیر اً لسبقونا الیہ الخ
یہاں آپ نے رسول اللہﷺکے ترغیب وتشویق نہ دلانے اور نص و ایماء کے ذریعے ارشاد نہ فرمانے اور صحابہ ؓ سے عدم نقل پر اپنے موقف کی بنیاد رکھی ہے اور فرمایا۔ولو کان خیر اً لسبقونا الیہ الخ اگر اس میں خیر ہوتی تو وہ ہم سے سبقت لے جا کر اسے اختیار کرتے۔
اس کے مقابلہ میں بریلوی علماء جو مخالفت کے معنی لیتے ہیںکہ کسی عقیدہ عمل کی ممانعت وارد ہو تب وہ کتاب وسنت اجماع واثر کے مخالف سمجھی جائے گی تویہ امام شافعی ؒ کی بات کو ناسمجھنے کے مترادف ہے۔
لہذا جب یہی تعریف امام شافعیؒکی محدثات کیلئے دلیل ہے تو انہی کے ارشاد کی روشنی میں اس کو سمجھنا ضروری ہے۔پھرانہوں نے فرمایا اگر اس میں خیر ہوتی تو صحابہ اس میں ہم سے سبقت لے جاتے ۔معلوم ہوا کہ اس میں خیر نہیں ہے۔لہذا بقول امام شافعی ؒ کے اھداء ثواب کی بدعت مذمومہ اور مردود ہے۔
اگر ان کی مراد مخالفت بمعنی ممانعت وارد ہونے کے ہوتی تو وہ وصول اھداء ثواب الی الموتیٰ کے قائل ہوتے کیونکہ انہوں نے ممانعت کے بجائے عدم ِثبوت پر بنیا د رکھی ہے۔چونکہ رسالہ بدعت کی حقیقت میں ان مسائل میں استفسارکیاگیا ہے ہم نے بھی ضمناً جواب دیا ہے۔بتوفیق اللہ تعالیٰ
اصل موضوع بدعت شرعی کی تحقیق تھا۔سو الحمدللّٰہ اس کی وضاحت کرکے کتاب وسنت پاک کی حمایت میں چند سطور عرض کر دی گئی ہیںتاکہ اللہ تعالیٰ ہر کلمہ گو مسلمان کو قرآن وحدیث کی روشنی میں اسوۂ نبوی کی اتباع نصیب فرمائے اور اپنی بارگاہ میں مع الذین انعم اللّٰہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین کے ساتھ حشر فرمائے اورہمارے والدین کریمین اساتذہ کرام زملاء عظام اعزہ واقرباء اولاد وتلامذہ اور جملہ مسلمین أحیاء أموات کواپنی رحمت بخشش سے نوازے اور راہ حق پر استقامت بخشے اور اس کاوش کو صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
ربنا اغفرلنا ولاخوانناالذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلاّللذین آمنوا ربناانک رؤوف رحیم
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
الحمد للہ رب العالمین
یہ مضمون مکمل ہو چکا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ماشاء اللہ! جزاک اللہ خیرا محترم ساجد بھائی! اللہ تعالی آپ کی محنت قبول کرے۔ آمین!
 
Top