• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برائیوں کی جڑ نجد یا عراق

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اوپر پوسٹ میں نجد عراق کو مدینہ کے عین مشرق میں لکھا گیا ہے جس کا مجھے نہیں پتا کہ کس پس منظر میں لکھا گیا ہے البتہ میرے خیال میں اسی کو دیکھ کر بہرام صاحب اتنی لمبی بحث سے شاہد یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نجد عراق جغرافیائی لحاظ سے مدینہ کے عین مشرق میں نہیں بلکہ اس لحاظ سے سعودی نجد ہی مدینہ کے عین مشرق میں ہے
تو میں یہ کہتا ہوں کہ حدیث میں مشرق کے لفظ کی تشریح آجکل کی اصطلاحات یا جغرافیہ سے کرنا غلط ہے جیسے کہ اس طرح کی اور حدیثیں بھی پھر آتی ہیں جیسے بخاری کی حدیث کہ راس الکفر نحو المشرق- تو کیا آجکل کے مغربی ممالک ہی پھر صحیح مسلمان ہیں ہم مشرق والے پھر کیا ہوئے
ذرا مفرد کے لفظ کو دیکھیں جب عدد کے لحاظ سے دیکھیں گے تو یہ تثنیہ اور جمع کے مقابل نظر آئے گا مثلا رجل(مفرد)، رجلان (تثنیہ)، رجال(جمع) مگر جب ترکیب کے لحاظ سے دیکھیں گے تو مرکب کے تو مقابل میں نظر آئے گا مگر تثنیہ اور جمع اس کے اندر آ جائیں گے مثلا رجل رجلان رجال (مفرد)، غلام رجل (مرکب)
اسی طرح کبڈی کے میچ میں ایمپائر درمیان میں لائن لگاتا ہے اور اور لائن کے درمیان میں کھڑا ہو کر اے ٹیم کو کہتا ہے کہ مشرق کی طرف آ جائیں اور بی ٹیم کو کہتا ہے کہ مغرب میں آ جائیں تو اے ٹیم کے ہر کھلاڑی یہ مطلب بالکل نہیں سمجھتا کہ کہ وہ ایمپائر کے عین مشرق میں کھڑا ہو بلکہ مطلقا مشرق کا ذکر ہے
پس اس میں ہر وہ علاقہ آ سکتا ہے جو نجد کہلاتا ہو اور مطلقا مدینہ سے مشرق میں ہو


اوپر والی بحث کے بعد اب اگلا مرحلہ آتا ہے کہ جب تمام نجد جو مطلقا مشرق میں ہیں وہ اس حدیث کے تحت آ سکتے ہیں ہمارے لئے کیا حکم ہے تو
1-جب تک کسی حدیث سے یا شیطانی عمل (جو نص سے ثابت ہو) سے یہ نہیں واضح ہو گا کہ فلاں میں اس حدیث کی پیشن گویہ پوری ہوئی ہے ہم متعین نہیں کریں گے
2-اگر کسی حدیث میں اس نجد کا تعین پایا جائے تو وہ متعین ہو جائے گا جیسے سالم بن عبداللہ بن عمر نے مسلم کے حوالہ سے اہل عراق کے گناہوں کے ارتکاب پر انکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ


سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏ان الفتنة تجيء من ها هنا واوما بيده نحو المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان

کہ شیطان کے سینگ ادھر مشرق سے ہی نکلیں گے یعنی انھوں نے مشرق سے عراق مراد لی
اسی طرح کی اور کئی حدیثیں ہیں اللہ حق کو باطل سے گڈ مڈ کرنے سے بچائے امین
اس پوسٹ میں دو اشکال اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ
اول ۔ مشرق کا تعین موجودہ جغرافیہ کی مدد سے نہیں کرنا چاہئے
دوم۔ نجد بہت سے علاقے کہلاتے ہیں
ان دو اشکال پر غور اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مشرق

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ابو انبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان ہونے والے مناظرے کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے
(اے حبیب!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس وجہ سے کہ اﷲ نے اسے سلطنت دی تھی ابراہیم (علیہ السلام) سے (خود) اپنے رب (ہی) کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ (بھی) کرتا ہے اور مارتا (بھی) ہے، تو (جواباً) کہنے لگا: میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا! سو وہ کافر دہشت زدہ ہو گیا، اور اﷲ ظالم قوم کو حق کی راہ نہیں دکھاتا
سورہ بقر آیت 258
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے یعنی سورج ہمیشہ مشرق کی جانب سے ہی طلوع ہوتا ہے اب مدینۃ النبی ﷺ میں بھی سورج مشرق کی جانب سے ہی طلوع ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی مراد جس مشرق سے ہے وہ بھی وہ ہی مشرق ہے جہاں سے سورج نکلتا ہے آئیں اب دیکھے کہ مدینہ منورہ میں سورج عراق کی سمت سے طلوع ہوتا ہے یا سعودی نجد کی سمت سے

22 جون کو صبح 5 بجکر 15 منٹ پر سورج طلوع ہونے کی پوزیشن
http://www.timeanddate.com/worldclock/sunearth.html?n=1942&day=22&month=6&year=2012&hour=5&min=16&sec=0

اس میں واضح طور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ سورج نجد ہی کی سمت سے طلوع ہورہا ہے نہ کہ عراق کی سمت سے اور دلچسپ بات یہ کہ اس نقشے کی مطابق پورے سال میں ایک دن بھی ایسا نہیں جب مدینہ منورہ میں سورج نجد کے علاوہ کسی اور جانب سے مدینہ منورہ میں نکلتا ہو یعنی سال میں کسی بھی دن سورج عراق کی جانب سے مدینہ میں طلوع نہیں ہوتا اس سے ثابت ہوا کہ " نجد " سے مراد موجودہ سعودی نجد ہی ہے اور مشرق سے مراد بھی نجد ہی ہے کیونکہ یہ مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اور قرآن کے مطابق مشرق وہ جہاں سورج نکلتا ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
نجد

جب صرف " نجد " کہا جائے تو اس سے مراد کون سا خطہ ہوتا ؟؟
جیسا کہ کہ میں نے اطلس سیرت النبی کتاب کے جو نقشے پیش کیئے ان میں جابجا نجد کا ذکر ہے اور اس نجد سے مراد سعودی نجد ہی لیا گیا ہے حتیٰ کہ یہ تک کہا گیا کہ
اٹھارہویں صدی میں محمد بن عبدالواھاب نے نجد میں اصلاح دین کا کام کیا
جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کے یہ سو کال اصلاح دین کا کام سعودی نجد میں ہی کیا گیا نہ کہ عراق میں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب صرف نجد کہا جائے تو اس سے مراد سعودی نجد ہی ہوتا ہے نہ کہ عراق
اور جس حدیث میں شیطان کے سینگ کے نکلنے کی پشنگوئی رسول اللہﷺ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے اس میں تین خطوں کا ذکر ہے یعنی شام ،یمن اور نجد لیکن کچھ لوگ شام اور یمن کو اس کے ظاہری معنوں میں لے کر نجد کے لئے لغت اٹھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ چاہئے یہ تھا کہ جب شام اور یمن کے ظاہری معنیٰ لئے تو نجد کے بھی ظاہری معنیٰ لینے چاہئے تھے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں یہ بات زور پکڑ لیتی ہے کہ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
دوسری بات یہ کہ اس حدیث میں الفاظوں کامفہوم یہ ہے کہ " کچھ لوگوں نے یہ عرض کی کہ ہمارے نجد کے لئے بھی دعا فرمادیں " لیکن رسول اللہﷺ نے دعا نہیں فرمائی اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا کبھی کسی عراقی نے بارگاہ نبوی میں حاضری دی تھی ؟؟ یقینا کوئی عراقی بارگاہ نبویﷺ میں حاضر نہیں ہوا لیکن احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ نجد میں رہنے والے کئی قبائل کے وفود بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے
آئیں اب اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نجد میں رہنے کی نسبت سے کون لوگ ہیں جو اہل نجدکہلاتے ہیں
قال وقال ابن كثير عن سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي نعم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال بعث علي ـ رضى الله عنه ـ إلى النبي صلى الله عليه وسلم بذهيبة فقسمها بين الأربعة الأقرع بن حابس الحنظلي ثم المجاشعي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعيينة بن بدر الفزاري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وزيد الطائي ثم أحد بني نبهان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلقمة بن علاثة العامري ثم أحد بني كلاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فغضبت قريش والأنصار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالوا يعطي صناديد أهل نجد ويدعنا‏.‏ قال ‏"‏ إنما أتألفهم ‏"‏‏.‏ فأقبل رجل غائر العينين مشرف الوجنتين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ناتئ الجبين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كث اللحية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ محلوق فقال اتق الله يا محمد‏.‏ فقال ‏"‏ من يطع الله إذا عصيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أيأمنني الله على أهل الأرض فلا تأمنوني ‏"‏‏.‏ فسأله رجل قتله ـ أحسبه خالد بن الوليد ـ فمنعه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما ولى قال ‏"‏ إن من ضئضئ هذا ـ أو في عقب هذا ـ قوم يقرءون القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا يجاوز حناجرهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يقتلون أهل الإسلام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويدعون أهل الأوثان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لئن أنا أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد ‏"‏‏.‏
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3344

ترجمہ داؤد راز
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظرانداز کر دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ حضرت خالد بن ولید تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔
اس حدیث میں چار لوگوں کا ذکر ہوا جن میں رسول اللہﷺ نے مال تقسیم فرمادیا اور انصار اور قریش کی ایک جماعت کے قول کے مطابق یہ چاروں اہل نجد تھے اور یہ چاروں سردار کوئی عراق کے رہنے والے نہیں تھے بلکہ یہ سعودی نجد کے رہنے والے تھے اور ایسی نسبت سے اہل نجد کہلاتے تھے ایسی حدیث میں ایک گستاخ رسول خبیث کا ذکر بھی ہے دیگر روایات میں اس نام ذوالخویصرہ بیان ہوا ہے اور اس کا تعلق محمد بن عبدالوھاب کے قبیلے بنی تمیم سے تھا اور یہ بھی ایک نجدی ہی تھا یعنی یہ بھی سعودی نجد کا رہنے والا تھا
دوسری دلیل
سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم يقول : مُهَلُّ أهلِ المدينةِ ذُو الحُلَيْفَةَ، ومُهَلُّ أهلِ الشأْمِ مَهْيَعَةُ، وهي الجُحْفَةُ، وأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنٌ . قال ابنُ عمرَ رَضِيَ اللهُ عنهما : زعَموا أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم قال - ولم أَسْمَعْهُ - : ومُهَلُّ أهلِ اليمنِ يَلَمْلَمُ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1528


ترجمہ داؤد راز
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ مدینہ والو ں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذولحلیفہ اور شام والوں کے لئے مہیعہ یعنی حجفہ اور نجد والوں کے لئے قرن منازل۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ یمن والے احرام یلملم سے باندھیں لیکن میں نے اسے آپ سے نہیں سنا۔
اس حدیث میں رسول اللہﷺ کے ارشاد کے مطابق اہل نجد کے لئے احرام باندھنے کا مقام قرن منازل ہے جیسا کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس حدیث میں اہل نجد سے مراد سعودی نجد میں رہنے والے لوگ ہی ہیں اور جو لوگ سعودیہ کے دارخلافہ ریاض سے مکہ آتے ہیں وہ قرن منازل میں ہی احرام باندھتے ہیں
تیسری دلیل
لما فُتِحَ هذان المِصْران ، أتَوْا عمرَ ، فقالوا : يا أميرَ المؤمنين ، إن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم حدَّ لأهلِ نجدٍ قَرْنًا ، وهو جَوْرٌ عن طريقِنا ، وإنا إن أَرَدْنا قَرْنًا شقَّ علينا . قال : فانظروا حَذْوَها مِن طريقِكم . فحدَّ لهم ذاتَ عِرْقٍ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1531
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]


ترجمہ داؤد راز
جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہو گی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کر لو۔ چنانچہ ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کر دی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عراق کے شہر بصرہ و کوفہ حضرت عمر کے دور میں فتح ہوئے تب جاکر وہان کے لوگ مسلمان ہوئے تو اب ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کا مسئلہ حضرت عمر کے پاس آیا تو انھوں نے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق کا تعین کردیا
اس سے ثابت ہوا کہ جو لوگ عراق اور نجد کو گڈ مڈ کرکے پیش کرتے ہیں وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں کیونکہ اس روایت میں واضح طور سے معلوم ہو رہا ہے کہ عراق ایک الگ خطہ ہے اور نجد ایک الگ خطہ زمین اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حدیث نجد میں جن نجد والوں نے رسول اللہﷺ سے نجد کے لئے دعا کے لئے عرض کیا لیکن رسول اللہﷺ نے رحمت عالمین ہونے کے باوجود نجد کے لئے دعا نہیں فرمائی اس سے مراد سعودی نجد ہی ہے کیوں کہ عراق تو حضرت عمر کے دور میں فتح ہوا لیکن سعودی نجد رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی اسلامی ریاست کا حصہ تھا
یہ ہے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی گواہی ۔
والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس پوسٹ میں دو اشکال اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے
ان دو اشکال پر غور اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ
اگرچہ آپ نے میری پوسٹ کی بہت سی باتوں سے صرف نظر کیا ہے جو ضرورت کے وقت بتاتا جاؤں گا ابھی آپ کی انہیں دو اشکال والی باتوں کو باری باری آپ کے دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں
اول ۔ مشرق کا تعین موجودہ جغرافیہ کی مدد سے نہیں کرنا چاہئے
اس پر آپنے مندرجہ ذیل دلیل دی ہے
مشرق

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ابو انبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان ہونے والے مناظرے کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے ------------- بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا![/h2]
سورہ بقر آیت 258
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے یعنی سورج ہمیشہ مشرق کی جانب سے ہی طلوع ہوتا ہے اب مدینۃ النبی ﷺ میں بھی سورج مشرق کی جانب سے ہی طلوع ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی مراد جس مشرق سے ہے وہ بھی وہ ہی مشرق ہے جہاں سے سورج نکلتا ہے آئیں اب دیکھے کہ مدینہ منورہ میں سورج عراق کی سمت سے طلوع ہوتا ہے یا سعودی نجد کی سمت سے
-------------
اس میں واضح طور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ سورج نجد ہی کی سمت سے طلوع ہورہا ہے نہ کہ عراق کی سمت سے اور دلچسپ بات یہ کہ اس نقشے کی مطابق پورے سال میں ایک دن بھی ایسا نہیں جب مدینہ منورہ میں سورج نجد کے علاوہ کسی اور جانب سے مدینہ منورہ میں نکلتا ہو یعنی سال میں کسی بھی دن سورج عراق کی جانب سے مدینہ میں طلوع نہیں ہوتا اس سے ثابت ہوا کہ " نجد " سے مراد موجودہ سعودی نجد ہی ہے اور مشرق سے مراد بھی نجد ہی ہے کیونکہ یہ مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اور قرآن کے مطابق مشرق وہ جہاں سورج نکلتا ہے
یعنی آپ قرآن کی آیت سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن و حدیث میں جب بھی مطلقا مشرق کا لفظ آئے گا اس سے مراد وہ جگہ ہو گی جہاں سے سورج نکلتا ہے
آپ ثابت یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ میرا جغرافیہ کا انکار کرنا غلط ہے اور جو قرآن کی آیت لکھ رہے ہیں وہ جغرافیہ کا انکاو کر رہی ہے
جغرافیہ میں عرض بلد(latitudes) کو دیکھیں تو خط استوا ان کا درمیان مانا جاتا ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف ہے اور سورج سارا سال اس کے اوپر یا اس سے تھوڑا دائیں یا بائیں چلتا ہے دائیں طرف سورج کا deviation یا جھکاؤ 23.5 ڈگری اور اسی طرح بائیں طرف جھکاؤ ہوتا ہے اب مدینہ غالبا چوبیس سے اوپر طول بلد پر ہے اور جو سورج طلوع ہونے کی لائن میں تو کبھی نہیں آتا اور دوسرا پھر اسی رینج میں ایران کے بھی کچھ شہر آتے ہیں جو پھر مدینہ سے مشرق میں ہونے کی وجہ سے وہ میری اوپر والی حدیث راس الکفر نحو المشرق کی زد میں آتے ہیں کیا آپ اس کو مانیں گے کہ کفر کا راس ایران کے وہ شہر ہیں
دوسرا اگر ہم دکھائی دینے کے لحاظ سے سورج کو لیں تو پھر بھی بہت سے علاقے راس الکفر نحو المشرق کی زد میں آئیں گے جس سے آپ نے اوپر صرف نظر کر رکھا ہے
پس آپ کی خود ساختہ دلیل سے کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ مشرق کا لفظ قرآن و سنت میں جس بھی جگہ آیا ہے یا ہماری زندگی میں جس بھی معنی میں استعمال ہو اس سے مراد سورج کے دکھائی دینے کی جگہ ہے جیسے ہم مشرق اور مغرب کو اور معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں اور شریعت میں اسکا مفہوم میں نے اوپر مسلم کی ایک حدیث میں بیان کر دیا تھا کہ سالم بن عبداللہ کی حدیث میں اسکا کیا مفہوم لیا گیا ہے اور باقی احادیث میں بھی اس کی صراحت موجود ہے

دوم۔ نجد بہت سے علاقے کہلاتے ہیں
اس پر آپ نے مندرجہ ذیل دلائل دیے ہیں
نجد

جب صرف " نجد " کہا جائے تو اس سے مراد کون سا خطہ ہوتا ؟؟
جیسا کہ کہ میں نے اطلس سیرت النبی کتاب کے جو نقشے پیش کیئے ان میں جابجا نجد کا ذکر ہے اور اس نجد سے مراد سعودی نجد ہی لیا گیا ہے حتیٰ کہ یہ تک کہا گیا کہ-----------
جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کے یہ سو کال اصلاح دین کا کام سعودی نجد میں ہی کیا گیا نہ کہ عراق میں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب صرف نجد کہا جائے تو اس سے مراد سعودی نجد ہی ہوتا ہے نہ کہ عراق
اور جس حدیث میں شیطان کے سینگ کے نکلنے کی پشنگوئی رسول اللہﷺ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے اس میں تین خطوں کا ذکر ہے یعنی شام ،یمن اور نجد لیکن کچھ لوگ شام اور یمن کو اس کے ظاہری معنوں میں لے کر نجد کے لئے لغت اٹھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ چاہئے یہ تھا کہ جب شام اور یمن کے ظاہری معنیٰ لئے تو نجد کے بھی ظاہری معنیٰ لینے چاہئے تھے
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
آپ کی ابلیسیت پر قربان جائیں کہ آپ جس دور میں نجد سے مراد ریاض لینا پر اتفاق کی بات کر رہے ہیں وہ آج کا دور ہے اور حدیث جس دور کی پیش کر رہے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی ہے آپ صلی الہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس نجد پر اتفاق تو ذرا ثابت کریں بلکہ میں نے ابن عمر والی جو حدیث پیش کی ہے اس سے تو عراق پر اتفاق لگتا ہے
اب اس بارے میں آپ سے سوال ہے کہ آج کل شیعہ کن کو کہا جاتا ہے اس پر ساروں کا اتفاق ہے اب میں قرآن کی ایک آیت پیش کرتا ہوں آپ نے شیعہ کا آجکل کا ظاہری معنی ہی لینا ہے
ثم لننزعن من کل شیعۃ ایھم اشد علی الرحمن عتیا
یعنی تمام شیعوں سے ان منحوسوں کو علیحدہ کھینچ لیا جائے گا جو رحمن کے باغی ہیں
کیا آپ کا آجکل کے شیعہ کے مفہوم پر اتفاق اس آیت پر فٹ کیا جا سکتا ہے
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
اب اسکی بجائے نیا محاورہ آیا ہے کہ
یہی ابلیسیت ہے جس کی کوشش جاری ہے

نجد
دوسری دلیل
سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم يقول : مُهَلُّ أهلِ المدينةِ ذُو الحُلَيْفَةَ، ومُهَلُّ أهلِ الشأْمِ مَهْيَعَةُ، وهي الجُحْفَةُ، وأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنٌ . قال ابنُ عمرَ رَضِيَ اللهُ عنهما : زعَموا أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم قال - ولم أَسْمَعْهُ - : ومُهَلُّ أهلِ اليمنِ يَلَمْلَمُ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1528

اس حدیث میں رسول اللہﷺ کے ارشاد کے مطابق اہل نجد کے لئے احرام باندھنے کا مقام قرن منازل ہے جیسا کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس حدیث میں اہل نجد سے مراد سعودی نجد میں رہنے والے لوگ ہی ہیں اور جو لوگ سعودیہ کے دارخلافہ ریاض سے مکہ آتے ہیں وہ قرن منازل میں ہی احرام باندھتے ہیں
تیسری دلیل
لما فُتِحَ هذان المِصْران ، أتَوْا عمرَ ، فقالوا : يا أميرَ المؤمنين ، إن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم حدَّ لأهلِ نجدٍ قَرْنًا ، وهو جَوْرٌ عن طريقِنا ، وإنا إن أَرَدْنا قَرْنًا شقَّ علينا . قال : فانظروا حَذْوَها مِن طريقِكم . فحدَّ لهم ذاتَ عِرْقٍ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1531
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عراق کے شہر بصرہ و کوفہ حضرت عمر کے دور میں فتح ہوئے تب جاکر وہان کے لوگ مسلمان ہوئے تو اب ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کا مسئلہ حضرت عمر کے پاس آیا تو انھوں نے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق کا تعین کردیا
اس سے ثابت ہوا کہ جو لوگ عراق اور نجد کو گڈ مڈ کرکے پیش کرتے ہیں وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں کیونکہ اس روایت میں واضح طور سے معلوم ہو رہا ہے کہ عراق ایک الگ خطہ ہے اور نجد ایک الگ خطہ زمین اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حدیث نجد میں جن نجد والوں نے رسول اللہﷺ سے نجد کے لئے دعا کے لئے عرض کیا لیکن رسول اللہﷺ نے رحمت عالمین ہونے کے باوجود نجد کے لئے دعا نہیں فرمائی اس سے مراد سعودی نجد ہی ہے کیوں کہ عراق تو حضرت عمر کے دور میں فتح ہوا لیکن سعودی نجد رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی اسلامی ریاست کا حصہ تھا
یہ ہے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی گواہی ۔
آپ کی تیسری دلیل ہی دوسری کے خلاف ثابت ہو رہی ہے کہ اہل اپنے آپ کو نجد میں شامل سمجھتے تھے مگر تنگی کی وجہ سے انہوں نے دوسری جگہ متعین کروانا چاہی

نجد
اس سے ثابت ہوا کہ جو لوگ عراق اور نجد کو گڈ مڈ کرکے پیش کرتے ہیں وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں
یہ ہے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی گواہی ۔
والسلام
اسی بارے میں نے اوپر مسلم کی حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں اس کو گڈ مڈ نہیں بلکہ واضح طور پر عراق کی طرف منسوب کیا گیا ہے پس آپ کیا گمراہ کرنے کا یہ الزام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن عمر پر لگانا چاہتے ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یعنی آپ قرآن کی آیت سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ قرآن و حدیث میں جب بھی مطلقا مشرق کا لفظ آئے گا اس سے مراد وہ جگہ ہو گی جہاں سے سورج نکلتا ہے
آپ ثابت یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ میرا جغرافیہ کا انکار کرنا غلط ہے اور جو قرآن کی آیت لکھ رہے ہیں وہ جغرافیہ کا انکاو کر رہی ہے
اس جملے کو اس طرح پڑھا جائے کہ
مدینہ منورہ میں بھی سورج مشرق سے ہی طلورع ہوتا ہے اور مدینہ منورہ میں جس سمت سے سورج طلوع ہوتا ہے ایسی سمت نجد بھی ہے تو اس قاعدے میں تو کوئی ابہام نہیں
سورج طلوع ہونے کے لائن میں اگر مدینہ منورہ کبھی نہیں آتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مدینہ میں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا جس سمت سے یہ طلوع ہوتا ہے وہی سمت مشرق ہے اور ایسی سمت میں نجد بھی ہے
پہلے آپ اپنی فتنوں کی سرزمین نجد کو تو بچالیں پھر دوسرے موضوعات پر بھی بات ہوتی رہے گی ان شاء اللہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک اور دلیل
نجد کا حدود اربعہ
مسعود عالم ندوی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے محمد بن عبدالواھاب کا دفاع کرنے کے لئے " محمد بن عبدالوھاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح " اس کتاب کے صفحہ 27 کے حاشیہ میں انھوں نے کچھ اس طرح نجد کا حدود اربعہ بیان کیا ہے​
نجد کے تین بڑے حصہ ہیں​
1۔ شمالی مشرقی حصہ جس کا نام شمر ہے اس کے مشہور شہر حامل اور القصر ہیں​
2۔ شمالی مشرقی حصہ ( یہاں کتابت کی غلطی ہے ) جس کا نام القصیم ہے اس کے مشہور مقامات غنیرہ اور بریدہ ہیں​
3۔ جنوبی حصہ جو العارض کہلاتا ہے اس کے مشہور شہر ریاض ہے جو آج سعودی عرب کا پایہء تخت ہے عارض کو جبل یمامہ بھی کہتے ہیں اصل میں یہ ایک پہاڑی کا نام ہے اور اس کے گردونواح کی زمین وادی حنیفہ اور یمامہ کہلاتی ہے محمد بن عبدلواھاب کی جائے پیدائش عنیہ اور دعوت کا مقام درعیہ دونوں اس وادی میں واقع ہیں جو نجد کے قلب کی حثیت رکھتے ہیں
یعنی مسعود عالم صاحب تو فرمارہے ہیں کہ نجد محمد بن عبدالوھاب کی جو جنم بھومی ہے وہ نجد کی جان یعنی قلب ہے اور لوگ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ یہی خطہ نجد ہے یعنی ندوی صاحب یہ بتارہے ہیں کہ جب صرف نجد کہا جائے تو اس سے کون سا علاقہ مراد ہوتا ہے​
ندوی صاحب نے جو حدود اربعہ نجد کا بیان کیا ہے اگر اس کے مطابق جزیرہ عرب کا رف نقشہ کے بنا یا جائے تو نجد کی لوکشن کچھ اس طرح ہوگی​
یہی وہ نجد ہے جس سمت سے سورج سال کے 365 دن مدینہ منورہ میں طلوع ہوتا ہے​
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
دلیل مدینہ کے مشرق کی
إنَّ أولَ جُمُعةٍ جُمِّعتْ ، بَعدَ جُمُعةٍ في مسجدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ، في مسجدِ عَبْدِ القيْسِ ، بِجُوَاثَى مِنَ البَحْرَينِ .
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 892
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]


ترجمہ داؤد راز
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دور رسالت ﷺ میں مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں پڑھا گیا جو بحرین میں تھی
آئیں اب دیکھتے ہیں کہ بنو عبدالقیس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے کیا ارشاد فرمایا
خيرُ أهلِ المشرِقِ عَبدُ القَيْسِ
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 3302
خلاصة حكم المحدث: صحيح

یعنی اہل مشرق یعنی مشرق کی جانب رہنے والوں میں بنو عبدالقیس سب سے بہتر ہیں

جیسا کہ ہمیں حدیث بخاری سے معلوم ہوا کہ قبیلہ بنو عبدالقیس بحرین میں قیام پزیر تھا عہد نبویﷺ میں آئے اس کے لئے رابطہ عالم اسلامی کے منعقدہ سیریت نگاری کے مقابلے اول انعام پانے والی کتاب الرحیق المختوم میں شائع ہونے والے نقشے کی مدد سے دیکھتے ہیں کہ بحرین مدینہ منورہ کی مشرقی سمت میں ہے یا نہیں

الرحیق المختوم اردو ترجمہ صفحہ 42

صفی الرحمٰن مبارک پوری نے تو یہ مسئلہ ہی حل کردیا کہ بحرین اور قبیلہ بنو عبدالقیس کو مدینہ منورہ کے بلکل مشرقی سمت دیکھا دیا شکریہ مبارکپوری صاحب
لیجئے گوگل میپ بھی حاضر ہے اس میں بھی بحرین کی لوکشن مدینہ کے مشرق کی جانب ہی ہے


جغرافیہ کو لے کر جو گمراہی پھیلائی جارہی تھی ان کا منہ مبارکپوری صاحب کی دلیل نے بند کردیا شکریہ مبارکپوری صاحب
والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
پہلے بہرام صاحب نے پوسٹ کی تھی کہ
مشرق

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے اور مشرق سے مراد بھی نجد ہی ہے کیونکہ یہ مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اور قرآن کے مطابق مشرق وہ جہاں سورج نکلتا ہے
اور یہ پوسٹ انھوں میرے اس پوسٹ کی جواب میں کی تھی کہ جس میں میں نے جغرافیہ سے نجد کو ثابت کرنے کو غلط کہا تھا تو انھوں نے اسے میرا اشکال کہا تھا ذرا بہرام کی پوسٹ پڑھیں

اس پوسٹ میں دو اشکال اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ
اول ۔ مشرق کا تعین موجودہ جغرافیہ کی مدد سے نہیں کرنا چاہئے
اور میرے اشکال کے جوواب میں انھوں نے آہت پیش کی
مشرق

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے اور مشرق سے مراد بھی نجد ہی ہے کیونکہ یہ مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اور قرآن کے مطابق مشرق وہ جہاں سورج نکلتا ہے
اب جب میں نے اس پر جغرافیہ کی مدد سے پکڑ کی تو اب اپنی بات سے پھر کر الٹا جغرافیہ کا الزام مجھ پر لگا دیا

اس جملے کو اس طرح پڑھا جائے کہ
مدینہ منورہ میں بھی سورج مشرق سے ہی طلورع ہوتا ہے اور مدینہ منورہ میں جس سمت سے سورج طلوع ہوتا ہے ایسی سمت نجد بھی ہے تو اس قاعدے میں تو کوئی ابہام نہیں
سورج طلوع ہونے کے لائن میں اگر مدینہ منورہ کبھی نہیں آتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مدینہ میں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا جس سمت سے یہ طلوع ہوتا ہے وہی سمت مشرق ہے اور ایسی سمت میں نجد بھی ہے
جغرافیہ کو لے کر جو گمراہی پھیلائی جارہی تھی ان کا منہ مبارکپوری صاحب کی دلیل نے بند کردیا شکریہ مبارکپوری صاحب



اب کوئی بتائے کہ میں کس چیز کا جواب دوں
ویسے بہرام صاحب نے کہا ہے کہ باقی جواب پھر لکھوں گا مگر جیسے اللہ نے کہا تھا کہ فان لم تفعلوا ولن تفعلوا تو آپ بھی سب باتوں کا جواب دو مگر چیلنج ہے کہ سب باتوں کا کبھی جواب نہیں لکھیں گے

اب میں اگلی پوسٹ میں بہرام صاحب کی اس طرح مرتد مغلظ کی مثل ایک بات پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے اگلی پوسٹ میں کچھ اصول طے کرنے لگا ہوں انتظامیہ سے درخواست ہے کہ بہرام صاحب کو ان اصولوں کے مطابق چلائے اور ایک دو وارننگ کے بعد غیر متعلقہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی جائے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب میں اگلی پوسٹ میں بہرام صاحب کی اس طرح مرتد مغلظ کی مثل ایک بات پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے اگلی پوسٹ میں کچھ اصول طے کرنے لگا ہوں انتظامیہ سے درخواست ہے کہ بہرام صاحب کو ان اصولوں کے مطابق چلائے اور ایک دو وارننگ کے بعد غیر متعلقہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی جائے

میرے علم کے مطابق ابھی تک بہرام صاحب نے نجد کو سعودی نجد ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کو بنیاد بنایا جس کے لئے پھر مختلف دلیلں پیش کیں پس پہلے میں ان بنیادی باتوں کو بہرام صاحب سے متعین کرواؤں گا تاکہ بعد میں وہ یہ نہ کہ سکے کہ
اس جملے کو اس طرح پڑھا جائے کہ
تو یہ ساری تشریحیں میں پہلے کروانا چاہتا ہوں پھر ان سے دلیل مانگوں گا چاہے وہ نص ہو (یعنی عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص یا اقتضاء النص) یا پھر نص کی غیر موجودگی میں اصول فقہ کی روشنی میں کوئی اور دلیل- لیکن وہ یاد رکھ لیں کہ میں نے عراق کے نجد ہونے پر نص (عبارۃ النص) سے دلیل دی ہوئی ہے جو سب دلائل سے مقدم ہوتی ہے

بہرام کے بنیادی اصول
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا

میرا دعوی

میں نے جہاں تک پڑھا ہے بہرام کی اوپر جتنی دلیلیں ہیں انکی بنیاد انھیں تین اصولوں پر رکھی گئی ہیں

پس میں پہلے اس کی توثیق کروانا چاہتا ہوں

میرا چیلنج



1-بہرام صاحب پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ اوپر 3 باتوں میں سے آپ نے کون سی بات کو دلیل بنانا ہے
2-اگر ان کے علاوہ کسی اور بات کو آپ نے دلیل بنایا ہے اور مجھے سمجھ نہیں آ سکی تو وہ اصول صرف یہاں لکھیں دلیل کا مطالبہ بعد میں کریں گے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام کے بنیادی اصول
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا

میرا دعوی

میں نے جہاں تک پڑھا ہے بہرام کی اوپر جتنی دلیلیں ہیں انکی بنیاد انھیں تین اصولوں پر رکھی گئی ہیں

پس میں پہلے اس کی توثیق کروانا چاہتا ہوں

میرا چیلنج



1-بہرام صاحب پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ اوپر 3 باتوں میں سے آپ نے کون سی بات کو دلیل بنانا ہے
2-اگر ان کے علاوہ کسی اور بات کو آپ نے دلیل بنایا ہے اور مجھے سمجھ نہیں آ سکی تو وہ اصول صرف یہاں لکھیں دلیل کا مطالبہ بعد میں کریں گے
اب تک میں نے جتنے بھی دلائل دئے ان کا مصادر نمبر وار اس طرح سے ہے
1۔ قرآن کی آیت جس سے میں نے ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی سمت سے طلوع کرتا ہے
2۔ قرآن کے بعد اصح کتاب یعنی صحیح بخاری سے میں نے یہ ثابت کیا کہ فتنوں کی سرزمین نجد ہے ۔
3- جزیرہ نما عرب میں نجد کا محل وقوع میں نے مسعود عالم ندوی کی کتاب سے ثابت کیا ۔
4۔ قبیلہ عبدالقیس کو رسول اللہﷺ نے اہل مشرق میں سب سے بہتر فرمایا محدیث العصر البانی صا حب نے اس حدیث کو بیان کیا
5۔ قبیلہ بنو عبدالقیس بحرین میں رہتا تھا یہ میں نے اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے ثابت کیا
6۔ عہد نبویﷺ میں بحرین اور قبیلہ بنو عبدالقیس کو میں نے مدینہ منورہ کے مشرقی سمت میں بتایا ربطہ عالم اسلام مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے مقابلے میں اول انعام یافتہ کتاب میں دئے گئے نقشے کے مطابق اور ایسی سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موجودہ جغرافیہ اور عہد نبوی ﷺ کے جغرافیہ میں کوئی فرق نہیں یہ میں نے ثابت کیا گوگل میپ کی مدد سے
7۔ اس کے علاوہ میں نے شروع میں اطلس سیرت نبویﷺ کے کچھ صفحے اور نقشے پیش کئے کہ رسول اللہﷺ نے جب کسی لشکر کو نجد کی طرف جہاد کرنے کے روانہ کیا تو وہ لشکر ہمیشہ سعودی نجد ہی میں جاکر جہاد کرتا رہا نہ کہ عراق میں

اب میں چیلنج تو نہیں کروں گا نہ یہ میری بساط ہے میں تو صرف ایک ادنا سا طالب علم ہوں چیلنج تو آپ جیسے صاحبان علم کو ہی زیبا دیتا ہے میں تو صرف یہ درخواست ہی کرسکتا ہوں کہ ان سات مصادر جو میں نے نمبر وار گنوائے ہیں ان میں سے قرآن سے تو آپ اختلاف کرنہیں سکتے اس کے علاوہ آپ کو کون سے عالم کی لکھی ہوئی کتاب سے اختلاف ہے وہ اس بندہ ناچیز کے گوش گذار فرمادیں تو آئیندہ ان مصادر سے دلیل دینے کی جراءت نہیں کرونگا لیکن ساتھ میں یہ بھی عرض ہی کرسکتا ہوں کہ آپ ان عالموں سے اپنی براءت کا اعلان بھی فرمادیں شکریہ


بہرام کے بنیادی اصول
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
جہاں تک بات ہے ان پوائنٹ کی تو یہ عرض ہے کہ
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
مشرق کے لفظ نہیں مشرق کی سمت کو قرآن و حدیث نبویﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
یہاں بھی مشرق کے لفظ نہیں بلکہ مشرق کی سمت کو جغرافیہ کی روشنی میں
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
نجد لفظ ہی نہیں نجد کے محل وقوع کو بھی سب سے پہلے اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے اور عہد نبویﷺ کے معاشرے میں معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور آج کل کے معروف معنی میں نجد جس خطے کو کہا جاتا ہے اگر اس کی تائید احادیث صحیح بخاری سے ہوجائے تو ایسے ماننا آپ کے لئے دشوار نہ ہوگا
ایک پوائنٹ کا اضافہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں ادنیٰ سا طالب علم سمجھ کر معاف فرمادینا
نجد کو سمجھنے کے لئے لغت سے پرہیز کیا جائے اگر لغت کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہو تو صرف نجد کے لئے ہی نہیں بلکہ ایسے شام ، یمن اور عراق کے لئے بھی اس کا استعمال کیا جائے ۔
والسلام
 
Top