• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برائیوں کی جڑ نجد یا عراق

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حدثنا قبيصة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن زيد بن أسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت ابن عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يقول جاء رجلان من المشرق فخطبا فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن من البيان سحرا ‏"‏‏.‏
- جاء رجلان من المَشرِقِ فخَطَبا، فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( إن من البَيانِ لَسِحرًا ) .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5146
ترجمہ داؤد راز
دو آدمی مدینہ کے مشرق کی طرف سے آئے، وہ مسلمان ہو گئے اور خطبہ دیا، نہایت فصیح و بلیغ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ بعض تقریر جادو کی اثر کرتی ہے۔

ان دو آدمیوں کے بارے ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ دونوں قبیلہ بن تمیم کے وفد کے ساتھ آئے تھے ان کا نام بھی ابن کثیر نے ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کا نام زبرقان بن بدر اور دوسرے کا نام عطارد بن حاجب تھا انھوں نے بڑا فصیح و بلیغ خطاب کیا ۔
حوالہ : تاریخ ابن کثیر 9 ھجری کے واقعات میں وفد بنی تمیم کے بیان میں

صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب میں شائع ہوئے نقشہ کے مطابق قبیلہ نبی تمیم کا مقام مدینہ منورہ کے عین مشرق میں دیکھایا گیا ہے اور یہ محمد بن عبدالواھاب نجدی کا قبیلہ ہے مسعود عالم ندوی کے مطابق محمد بن عبدالوھاب کی جنم بھومی نجد کا قلب میں ہیں
یہ تمام شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں نجد مدینہ منورہ کے مشرق میں ہے کیونکہ نجد سے آنے والے وفد بنی تمیم کو صحیح بخاری کے الفاظ کے مطابق مدینہ کی مشرق کی سمت سے آنے والے کہا گیا
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
إذا أتى أحدُكم الغائطَ ، فلا يَسْتَقْبِلِ القِبْلَةَ ولا يُولِّها ظهرَه ، شرِّقوا أو غَرِّبوا .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 144

ترجمہ داؤد راز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدینہ شریف کہ نہ مشرق میں کعبہ اللہ ہے نہ مغرب میں جبکہ جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ عراق مشرق کی سمت ہے اس قاعدے سے یقیناً کعبہ اللہ مغرب کی سمت ماننا پڑے گا جو کہ اس حدیث کے خلاف ہے اگر سعودی عرب کا نقشہ دیکھا جائے تو مدینہ کے مشرق میں نجد مغرب ریڈ سی اور افریقہ شمال میں شام اور عراق اور جنوب میں کعبۃاللہ اور یمن واقع ہے

 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب تک میں نے جتنے بھی دلائل دئے ان کا مصادر نمبر وار اس طرح سے ہے
میں تو صرف یہ درخواست ہی کرسکتا ہوں کہ ان سات مصادر جو میں نے نمبر وار گنوائے ہیں ان میں سے قرآن سے تو آپ اختلاف کرنہیں سکتے اس کے علاوہ آپ کو کون سے عالم کی لکھی ہوئی کتاب سے اختلاف ہے وہ اس بندہ ناچیز کے گوش گذار فرمادیں تو آئیندہ ان مصادر سے دلیل دینے کی جراءت نہیں کرونگا لیکن ساتھ میں یہ بھی عرض ہی کرسکتا ہوں کہ آپ ان عالموں سے اپنی براءت کا اعلان بھی فرمادیں شکریہ
غیر متعلق

میں نے اپنی دوسری حدیث کے انکار کی پوسٹ میں بھی لکھا ہےکہ جب والی بال کھیلی جاتی ہے تو دونوں طرف لائنیں لگائی جاتی ہیں تاکہ دوسرا جب بال ادھر پھینکے تو پتا چلے کہ بال مخالف کے کورٹ کے اندر گری ہے یا باہر مگر آپ ہمیشہ اپنی طرف کی لائنیں نہ خود لگاتےئ ہیں اور نہ دوسرے کو لگانے دینا چاہتے ہیں تاکہ دوسرا جتنی بالیں آپکی طرف پھینکے آپ فارغ ہونے کی وجہ سے ہر وقت شور کر کے خود کو بچا لیں
آپ سے میں نے کہا تھا کہ پہلے مجھے وہ اصول بتائیں کہ جس کی بنیاد بنا کر آپ نجد کو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ان اصولوں کے بارے میں نص میں بعد میں مانگوں گا کیونکہ آپ اصولوں سے ہی پھر جاتے ہیں کبھی جغرافیہ کو مانتے ہیں کبھی نہیں مانتے
ذرا میری بات ملاحظہ کریں
میرا دعوی

میں نے جہاں تک پڑھا ہے بہرام کی اوپر جتنی دلیلیں ہیں انکی بنیاد انھیں تین اصولوں پر رکھی گئی ہیں
پس میں پہلے اس کی توثیق کروانا چاہتا ہوں
میرا چیلنج


1-بہرام صاحب پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ اوپر 3 باتوں میں سے آپ نے کون سی بات کو دلیل بنانا ہے
2-اگر ان کے علاوہ کسی اور بات کو آپ نے دلیل بنایا ہے اور مجھے سمجھ نہیں آ سکی تو وہ اصول صرف یہاں لکھیں دلیل کا مطالبہ بعد میں کریں گے
پس آپ غیر متعلقہ بات نہ کریں

جہاں تک بات ہے ان پوائنٹ کی تو یہ عرض ہے کہ
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
مشرق کے لفظ نہیں مشرق کی سمت کو قرآن و حدیث نبویﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
یہاں بھی مشرق کے لفظ نہیں بلکہ مشرق کی سمت کو جغرافیہ کی روشنی میں
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
ایک پوائنٹ کا اضافہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں ادنیٰ سا طالب علم سمجھ کر معاف فرمادینا
نجد کو سمجھنے کے لئے لغت سے پرہیز کیا جائے اگر لغت کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہو تو صرف نجد کے لئے ہی نہیں بلکہ ایسے شام ، یمن اور عراق کے لئے بھی اس کا استعمال کیا جائے ۔
والسلام
آپ نے بات گول مول کر دی تاکہ واضح لائنیں نہ لگ سکیں
میں نے کوئی وضاحت نہیں پوچھی نہ ہی میں نے اپنے اصول پوچھے ہیں کہ آپ نے لکھ دیا کہ لغت سے نہ ثابت کیا جائے بلکہ آپ کے اصول پوچھے ہیں اور آپ کے اصولوں سے ہی آپ کی غلطی ثابت کروں گا
آپ سے پھر التجا ہے کہ آپ نے نجد کو جو ثابت کیا ہے اس میں اصول کون سے لئے ہیں میں دوبارہ لکھتا ہوں آپ توثیق کر دیں یا اصلاح کر دیں
بہرام کے بنیادی اصول
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
یاد رہے صرف ان اصولوں کی توثیق یا اصلاح و اضافہ کرنا ہے
محترم شاکر بھائی سے گزارش ہے کہ ایک وارننگ دی تھی اب بھی اگر اپنے اصول کی توثیق کے علاوہ بات کریں تو آخری وارننگ دی جائے اور اگلی دفعہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی جائے کیونکہ وقت کا ضیاع ہوتا ہے جزاک اللہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
غیر متعلق

یاد رہے صرف ان اصولوں کی توثیق یا اصلاح و اضافہ کرنا ہے
بہرام کے بنیادی اصول
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
محترم شاکر بھائی سے گزارش ہے کہ ایک وارننگ دی تھی اب بھی اگر اپنے اصول کی توثیق کے علاوہ بات کریں تو آخری وارننگ دی جائے اور اگلی دفعہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی جائے کیونکہ وقت کا ضیاع ہوتا ہے جزاک اللہ
اصول کی توثیق ، اصلاح و اضافہ

یہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہون ایک بار پھر پیش خدمت کئے دیتا ہوں تھوڑا بڑا کرکے تاکہ آپ کو نظر آجائے
جہاں تک بات ہے ان پوائنٹ کی تو یہ عرض ہے کہ
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا

مشرق کے لفظ نہیں مشرق کی سمت کو قرآن و حدیث نبویﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے گا

2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
یہاں بھی مشرق کے لفظ نہیں بلکہ مشرق کی سمت کو جغرافیہ کی روشنی میں

3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
نجد لفظ ہی نہیں نجد کے محل وقوع کو بھی سب سے پہلے اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے اور عہد نبویﷺ کے معاشرے میں معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور آج کل کے معروف معنی میں نجد جس خطے کو کہا جاتا ہے اگر اس کی تائید احادیث صحیح بخاری سے ہوجائے تو ایسے ماننا آپ کے لئے دشوار نہ ہوگا

اضافہ

ایک پوائنٹ کا اضافہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں ادنیٰ سا طالب علم سمجھ کر معاف فرمادینا
نجد کو سمجھنے کے لئے لغت سے پرہیز کیا جائے اگر لغت کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہو تو صرف نجد کے لئے ہی نہیں بلکہ ایسے شام ، یمن اور عراق کے لئے بھی اس کا استعمال کیا جائے ۔

والسلام
امید ہے آب اپ کو یہ جواب نظر آجائے گا اور ان اصولوں کی روشنی میں بغیر کسی حیلہ بہانہ کے آپ میری پوسٹوں کا جواب عنایت فرمائیں گے۔اور اس طرح کے حیلے بہانے آپ جیسے صاحب علم و فن کو زیبا بھی نہیں دیتے
والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اصول کی توثیق ، اصلاح و اضافہ

امید ہے آب اپ کو یہ جواب نظر آجائے گا اور ان اصولوں کی روشنی میں بغیر کسی حیلہ بہانہ کے آپ میری پوسٹوں کا جواب عنایت فرمائیں گے۔اور اس طرح کے حیلے بہانے آپ جیسے صاحب علم و فن کو زیبا بھی نہیں دیتے
والسلام
میں نے اوپر لکھا ہے کہ آپ اپنی لائنیں نہیں لگانے دینا چاہتے اس لئے آپ سے توثیق کرانا لازمی ہے اگر آپ کی توثیق کے بعد بھی میں حیلہ کروں تو پھر میں ملزم ہوں مگر آپ توثیق میں بھی جب گول مول لکھیں تو پھر کس کو الزام دیں گے
پھر بھی میں آپ کی توثیق و اضافہ کی گئی گول مول بات کو علیحدہ علیحدہ لے کر اعتراض لکھ رہا ہوں آپ نے اسی طرح باری باری سب کا جواب دینا ہے تاکہ پتا چل سکے کہ حیلے بہانے کون کر رہا ہے

1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
مشرق کے لفظ نہیں مشرق کی سمت کو قرآن و حدیث نبویﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-یہاں بھی مشرق کے لفظ نہیں بلکہ مشرق کی سمت کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکھا جائے گا
میرا اعتراض

کیا جب قرآن و حدیث میں مشرق کا لفظ ایک جگہ آئے اور اس کی تفسیر بالحدیث دوسری جگہ ہو تو پھر بھی ہم مشرق کا معنی اپنی طرف سے کریں گے اور نعرہ بھی لگائیں گے کہ ہم نے مشرق کی سمت کا معنی قرآن و حدیث سے کیا ہے یا للعجب- جیسے سالم والی حدیث سے میں سینگوں والی حدیث کی تفسیر سالم والی روایت سے کی ہے
ویسے ایک جگہ آپ نے جغرافیہ سے مدد نہ لینے والی میری بات کو غلط کہا ہے اور دوسری جگہ کہا ہے کہ جغرافیہ کی مدد سے میں گمراہی پھیلا رہا ہوں
اسی وجہ سے میں نے آپ کی ہر بات پہلے آپ سے ماننے کا کہا تھا
2-یہاں بھی مشرق کے لفظ نہیں بلکہ مشرق کی سمت کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکھا جائے گا
میرا اعتراض

کیا آپ راس الکفر نحو المشرق پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے ایران کے ان علاقوں کو اس میں لے کر آئیں گے جو اسی طرح مدینہ کے مشرق میں ہیں جس طرح آپ سعودی نجد کو ثابت کر رہے ہیں

3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
نجد لفظ ہی نہیں نجد کے محل وقوع کو بھی سب سے پہلے اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے اور عہد نبویﷺ کے معاشرے میں معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور آج کل کے معروف معنی میں نجد جس خطے کو کہا جاتا ہے اگر اس کی تائید احادیث صحیح بخاری سے ہوجائے تو ایسے ماننا آپ کے لئے دشوار نہ ہوگا
میرا اعتراض

بہرام صاحب پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ اب آپ نے معروف کے اوپر اپنا موقف بدل لیا ہے پہلے آپ نے یہ دعوی کیا تھا

علی بہرام نے کہا ہے: ↑
نجد
جب صرف " نجد " کہا جائے تو اس سے مراد کون سا خطہ ہوتا ؟؟
جیسا کہ کہ میں نے اطلس سیرت النبی کتاب کے جو نقشے پیش کیئے ان میں جابجا نجد کا ذکر ہے اور اس نجد سے مراد سعودی نجد ہی لیا گیا ہے حتیٰ کہ یہ تک کہا گیا کہ-----------
جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کے یہ سو کال اصلاح دین کا کام سعودی نجد میں ہی کیا گیا نہ کہ عراق میں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب صرف نجد کہا جائے تو اس سے مراد سعودی نجد ہی ہوتا ہے نہ کہ عراق
اور جس حدیث میں شیطان کے سینگ کے نکلنے کی پشنگوئی رسول اللہﷺ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے اس میں تین خطوں کا ذکر ہے یعنی شام ،یمن اور نجد لیکن کچھ لوگ شام اور یمن کو اس کے ظاہری معنوں میں لے کر نجد کے لئے لغت اٹھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ چاہئے یہ تھا کہ جب شام اور یمن کے ظاہری معنیٰ لئے تو نجد کے بھی ظاہری معنیٰ لینے چاہئے تھے
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


اب آپ سے گزارش ہے کہ میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قرآن و حدیث سے ہی نجد سے مراد عراق ثابت اوپر کیا تھا جس کو آپ نے جان بوجھ کر اگنور کر دیا وہاں معروف معنی آپ کا کہاں چلا گیا

نتیجہ:
سینگوں والی حدیث میں نجد سے میرے نزدیک عراق مراد ہے آپ کے نزدیک سعودی نجد ہے میں نے اپنے دعوی کو عبارۃ النص سے (سالم والی حدیث سے ثابت کیا ہے ذرا آپ دکھا دیں کہ آپ نے کوئی ایک ایسی دلیل دی ہے جس پر عبارۃ النص کا اطلاق یا خالی نص کا ہی اطلاق ہو سکتا ہو وہ دلیل مع نوع ذرا بتا دیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ نے تین پوائنٹ ذکر کئے یہ
بہرام کے بنیادی اصول
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
اور مجھے یہ حکم فرمایا
یاد رہے صرف ان اصولوں کی توثیق یا اصلاح و اضافہ کرنا ہے
جب میں نے آپ کے حکم کی بجاآوری میں ان 3 پوائنٹ کی توثیق یا اصلاح اور اضافہ اس طرح عرض کیا کہ

1- مشرق کے لفظ نہیں مشرق کی سمت کو قرآن و حدیث نبویﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے گا

2۔ یہاں بھی مشرق کے لفظ نہیں بلکہ مشرق کی سمت کو جغرافیہ کی روشنی میں

3- نجد لفظ ہی نہیں نجد کے محل وقوع کو بھی سب سے پہلے اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے اور عہد نبویﷺ کے معاشرے میں معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور آج کل کے معروف معنی میں نجد جس خطے کو کہا جاتا ہے اگر اس کی تائید احادیث صحیح بخاری سے ہوجائے تو ایسے ماننا آپ کے لئے دشوار نہ ہوگا


اضافہ
ایک پوائنٹ کا اضافہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں ادنیٰ سا طالب علم سمجھ کر معاف فرمادینا
نجد کو سمجھنے کے لئے لغت سے پرہیز کیا جائے اگر لغت کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہو تو صرف نجد کے لئے ہی نہیں بلکہ ایسے شام ، یمن اور عراق کے لئے بھی اس کا استعمال کیا جائے ۔

مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے اپنی اس عرض کو سرخ رنگ سے تحریر کیا شاید آپ کو لال رنگ دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے اس لئے اب میں نے اس تحریر کو نیلا اور ہرا رنگ دیا ہے تاکہ آپ آسانی سے ایسے پڑھ سکے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میرا اعتراض

کیا جب قرآن و حدیث میں مشرق کا لفظ ایک جگہ آئے اور اس کی تفسیر بالحدیث دوسری جگہ ہو تو پھر بھی ہم مشرق کا معنی اپنی طرف سے کریں گے اور نعرہ بھی لگائیں گے کہ ہم نے مشرق کی سمت کا معنی قرآن و حدیث سے کیا ہے یا للعجب- جیسے سالم والی حدیث سے میں سینگوں والی حدیث کی تفسیر سالم والی روایت سے کی ہے
ویسے ایک جگہ آپ نے جغرافیہ سے مدد نہ لینے والی میری بات کو غلط کہا ہے اور دوسری جگہ کہا ہے کہ جغرافیہ کی مدد سے میں گمراہی پھیلا رہا ہوں
اسی وجہ سے میں نے آپ کی ہر بات پہلے آپ سے ماننے کا کہا تھا
قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے
یہ قرآن کی آیت ہے یانہیں ؟؟؟
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ کس بات پر تعجب فرمارہے ہیں کہ اس آیت سے واضح ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی سمت سے طلوع فرماتا ہے اگر آپ عراق کو مدینہ منورہ کےمشرق میں مانتے ہوتو پھر یہ آپ کے ذمہ ہے کہ آپ سورج کو مدینہ منورہ میں عراق کی سمت سے طلوع ہوتا ہوا دیکھا دیں جیسا کہ میں نے مدینہ منورہ میں سورج کو نجد بلکہ عین ریاض کی سمت سے طلوع ہوتا ہوا دیکھا دیا ہے
اور دوسری عرض یہ کہ میں نے صحیح بخاری کی ایک حدیث پیش کی ہے جس میں رفع حاجت کے آداب سکھلائے گئے ہیں اس میں رسول اللہ کا فرمان ہے کہ " رفع حاجت کے وقت اپنا منہ اور پیٹھ قبلہ کی سمت مت کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی سمت کرلیا کرو " یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ مدینہ منورہ کی مشرقی اور مغربی سمت کعبۃ اللہ نہیں ہے اور اگر جدید ضغرافیہ کی تائید اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے ہورہی ہو تو ایسے ماننے میں کیا دشواری ہے اور جدید جغرافیہ سعودی نجد کو ہی مدینہ منورہ کے مشرقی سمت بتاتا ہے بلکہ ریاض شہر کو تو عین مشرق کی سمت ظاہر کرتا ہے اس کے علاوہ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ رسول اللہٖﷺ جب بھی کسی لشکر کو جہاد کرنے کے لئے نجد کی طرف روانہ کیا تو وہ لشکر ہمیشہ سعودی نجد میں ہی جہاد کرنے لگا
سالم والی حدیث چونکہ قرآنی آیت اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے متصادم ہے اس لئے اس پرآپ کا اعتبار سمجھ سے باہر ہے
میرا اعتراض

کیا آپ راس الکفر نحو المشرق پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے ایران کے ان علاقوں کو اس میں لے کر آئیں گے جو اسی طرح مدینہ کے مشرق میں ہیں جس طرح آپ سعودی نجد کو ثابت کر رہے ہیں
اگر ہم ایسا کریں تو یہ امام بخاری کی فقہ کے خلاف ہوگا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں امام بخاری نے حدیث نجد کو جس ترجمہ باب کے تحت صحیح بخاری میں بیان کیا اس کا عنوان ہے کہ
" رسول اللہﷺ نے فرمایا فتنہ مشرق سے اٹھے گا "

پھر حدیث نجد کو بیان کیا اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نجد مدینہ کے مشرقی سمت میں واقع ہے اور پھر تاریخ اسلام شاھد ہے کہ رسول اللہﷺ کے وسال کے فورا بعد ہی تمام فتنے سعودی نجد والے خطے سے اٹھے

میرا اعتراض

بہرام صاحب پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ اب آپ نے معروف کے اوپر اپنا موقف بدل لیا ہے پہلے آپ نے یہ دعوی کیا تھا

علی بہرام نے کہا ہے: ↑
نجد
جب صرف " نجد " کہا جائے تو اس سے مراد کون سا خطہ ہوتا ؟؟
جیسا کہ کہ میں نے اطلس سیرت النبی کتاب کے جو نقشے پیش کیئے ان میں جابجا نجد کا ذکر ہے اور اس نجد سے مراد سعودی نجد ہی لیا گیا ہے حتیٰ کہ یہ تک کہا گیا کہ-----------
جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کے یہ سو کال اصلاح دین کا کام سعودی نجد میں ہی کیا گیا نہ کہ عراق میں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب صرف نجد کہا جائے تو اس سے مراد سعودی نجد ہی ہوتا ہے نہ کہ عراق
اور جس حدیث میں شیطان کے سینگ کے نکلنے کی پشنگوئی رسول اللہﷺ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے اس میں تین خطوں کا ذکر ہے یعنی شام ،یمن اور نجد لیکن کچھ لوگ شام اور یمن کو اس کے ظاہری معنوں میں لے کر نجد کے لئے لغت اٹھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ چاہئے یہ تھا کہ جب شام اور یمن کے ظاہری معنیٰ لئے تو نجد کے بھی ظاہری معنیٰ لینے چاہئے تھے
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


اب آپ سے گزارش ہے کہ میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قرآن و حدیث سے ہی نجد سے مراد عراق ثابت اوپر کیا تھا جس کو آپ نے جان بوجھ کر اگنور کر دیا وہاں معروف معنی آپ کا کہاں چلا گیا
لال رنگ زدہ تحریر سے میں نے ایک سوال کھڑا کیا کہ

جب صرف " نجد " کہا جائے تو اس سے مراد کون سا خطہ ہوتا ؟؟

اور پھر میں نےکتاب اطلس سیرت نبویﷺ سے یہ ثابت کیا کہ سعودی نجد کو ہی نجد کہا جاتا تھا عہد نبویﷺ میں
حدیث سالم پر میں نے اوپر عرض کردی ہے
نتیجہ:
سینگوں والی حدیث میں نجد سے میرے نزدیک عراق مراد ہے آپ کے نزدیک سعودی نجد ہے میں نے اپنے دعوی کو عبارۃ النص سے (سالم والی حدیث سے ثابت کیا ہے ذرا آپ دکھا دیں کہ آپ نے کوئی ایک ایسی دلیل دی ہے جس پر عبارۃ النص کا اطلاق یا خالی نص کا ہی اطلاق ہو سکتا ہو وہ دلیل مع نوع ذرا بتا دیں
آپ جیسے عبارۃ النص فرمارہیں وہ کتاب اللہ اور اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے متصادم ہے اس لئے اس سے دلیل لینا آپ کے لئے سود مند نہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
الإيمانُ ها هنا - وأشار بيدِه إلى اليمنِ - والجفاءُ وغلظُ القلوبِ في الفدَّادينَ - عند أصولِ أذنابِ الإبلِ ، من حيث يطلع قرنَا الشيطانِ - ربيعةَ ومضرَ
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4387


ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایمان تو ادھر ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کیا اور بےرحمی اورسخت دلی اونٹ کی دم کے پیچھے پیچھے چلانے والوں میں ہے، جدھر سے شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں (یعنی مشرق) قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر جس سمت رہتے ہیں وہاں سے شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں اور داؤد راز صاحب کی تشریح کے مطابق وہ مشرق کی سمت ہے

رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے منعقدہ سیرت نگاری کے مقابلے میں اول انعام پانے والی کتاب الرحیق المختوم میں شائع ہونے والے ابتداء نبوت کے زمانے میں جزیرہ نما عرب نقشے کے مطابق قبیلہ مضر کو مدینہ منورہ کے مشرقی سمت میں ہی دیکھایا گیا ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نقشے کی تائید صحیح بخاری کی حدیث کر رہی ہے
اس نقشے کی تائید میں ایک اور دلیل پیش خدمت ہے
أشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده نحو اليمن ، فقال : الإيمان يمان هنا هنا ، ألا إن القسوة وغلظ القلوب في الفدادين ، عند أصول أذناب الإبل ، حيث يطلع قرنا الشيطان ، في ربيعة ومضر .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3302


ترجمہ داؤد راز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے یمن میں! ہاں، اور قساوت اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں کی دمیں پکڑے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں سے شیطان کی چوٹیاں نمودار ہوں گی، یعنی ربیعہ اور مضر کی قوموں میں۔
یعنی جس سمت قبیلہ مضر رہتا ہے اس سمت سے شیطان کی چوٹیاں نمودار ہوں گی مذکورہ بالا نقشے کے مطابق قبیلہ مضر مدینہ طیبہ کے مشرق کی سمت میں آباد تھا عہد نبویﷺ میں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بعث رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خيلًا قبل نجدٍ، فجاءت برجلٍ من بني حنيفةَ يقال له ثمامةُ بن أثالٍ، سيدُ أهلِ اليمامةِ، فربطوه بسارية من سواري المسجدِ، فخرج إليه رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، قال : ما عندك يا ثمامةُ . قال : عندي يا محمدٌ خيرٌ، فذكر الحديث . قال : أطلِقوا ثُمامةَ .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 2422


ترجمہ داؤد راز
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند سواروں کا ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا۔ یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا اور جو اہل یمامہ کا سردار تھا، پکڑ لائے اور اسے مسجدنبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ثمامہ! تو کس خیال میں ہے؟ انہوں نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں اچھا ہوں۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا تو انھوں نے قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک سردار ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرلیا جو کہ اہل یمامہ کے بھی سردار تھے
جیسا کہ پہلے کتاب الرحیق المختوم میں شائع ہوئے نقشے کو پیش کیا گیا اس نقشے کے مطابق یمامہ اور قبیلہ بنو حنیفہ مدینے کے مشرقی سمت میں واقع ہے اور اس حدیث کے مطابق رسول اللہﷺ نے لشکر کو نجد کی طرف روانہ کیا اس لئے اب اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اس حدیث میں بیان ہوا نجد موجودہ سعودی نجد ہی ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب صرف نجد کہا جائے تو اس مراد سعودی نجد ہی ہوتا ہے
والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بہرام صاحب آپ نے میرے اعتراضات کے ٹھیک جواب نہیں دیے مجھے لگتا ہے کہ زیادہ باتیں ہونے سے گڈ مڈ ہو رہا ہے اب میں ایک ایک اعتراض لکھ رہا ہوں جواب دیں

آپکا دعوی ہے کہ عراق اہل نجد نہیں اور عراق اہل مشرق بھی نہیں


نجد

لما فُتِحَ هذان المِصْران ، أتَوْا عمرَ ، فقالوا : يا أميرَ المؤمنين ، إن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم حدَّ لأهلِ نجدٍ قَرْنًا ، وهو جَوْرٌ عن طريقِنا ، وإنا إن أَرَدْنا قَرْنًا شقَّ علينا . قال : فانظروا حَذْوَها مِن طريقِكم . فحدَّ لهم ذاتَ عِرْقٍ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1531
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عراق کے شہر بصرہ و کوفہ حضرت عمر کے دور میں فتح ہوئے تب جاکر وہان کے لوگ مسلمان ہوئے تو اب ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کا مسئلہ حضرت عمر کے پاس آیا تو انھوں نے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق کا تعین کردیا
اب آپ نے اوپر خود حدیث لکھی ہے مگر ترجمہ نہیں لکھا کیوں کہ ترجمہ لکھنے سے آپ کے دلائل کی ساری عمارت گر جانی تھی
آپ کی پیش کردہ دلیل میں عراقی کہتا ہے کہ اللہ کے نبی نے تو ہمارے اہل نجد کے لئے قرن کی جگہ متعین کی ہے مگر وہ ہمارے لئے مشکل ہے تو آپ ہمارے لئے جگہ تبدیل کر دیں یعنی وہ اپنے آپ کو اہل نجد میں سمجھتے تھے یہ میں نے پہلے بھی پوچھا تھا مگر گول مول کر دیا گیا
اور اہل نجد کے علاوہ اپنے آپ کو اہل مشرق بھی سمجھتے تھے ملاحظہ کریں
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الشَّامِ، مِنَ الْجُحْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ يَلَمْلَمَ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ، مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْمَشْرِقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ»[سنن ابن ماجه 2/ 972 رقم2915 صحیح بالشواہد، نیزملاحظہ ہو:شرح معاني الآثار (2/ 119)رقم3529]
صحابی جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا اہل مدینہ کیلئے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور اہل شام کیلئے جحفہ ہے اور اہل یمن کیلئے یلملم ہے اور اہل نجد کیلئے قرآن ہے اور اہل مشرق کیلئے ذات عرق ہے
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقہ کو مشرق کہا ہے جہاں‌ کی میقات ''ذات عرق '' ہے۔
اور''ذات عرق'' عراق والوں کی میقات ہے۔
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يُسْأَلُ عَنِ الْمُهَلِّ فَقَالَ: سَمِعْتُ - أَحْسَبُهُ رَفَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: «مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَالطَّرِيقُ الْآخَرُ الْجُحْفَةُ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ»[صحيح مسلم 2/ 841 رقم (1183)]
صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کی جگہوں یعنی میقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ منورہ والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذی الحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے اور نجد والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن ہے جبکہ یمن کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ یلملم ہے۔
 
Top