• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برائیوں کی جڑ نجد یا عراق

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام صاحب آپ نے میرے اعتراضات کے ٹھیک جواب نہیں دیے مجھے لگتا ہے کہ زیادہ باتیں ہونے سے گڈ مڈ ہو رہا ہے اب میں ایک ایک اعتراض لکھ رہا ہوں جواب دیں

آپکا دعوی ہے کہ عراق اہل نجد نہیں اور عراق اہل مشرق بھی نہیں
لیکن اس سے پہلے جن 3 پوائنٹ کی آپ نے توثیق یا اصلاح اور اضافہ کا آپ نے حکم فرمایا اس میں یہ اعتراض یا یہ پوائنٹ تو تھا ہی نہیں اب ایک بلکل نیا پوائنٹ ذکر فرما رہیں خیر اس پر بھی آپ کی تسلی کر دیتے ہیں لیکن جن 3پوائنٹ کی توثیق یا اصلاح اور اضافہ کا آپ“ نے حکم فرمایا تھا اس کا جواب میں نے کچھ اس طرح عرض کیا تھا لیکن آپ نے ان 3 پوانئٹ کی وضاحت کے اس پر اپنی رائے دینے کی بجائے ایک اور حیلہ کرتے ہوئے نیا پوائنٹ ذکر فرمادیا
آپ نے تین پوائنٹ ذکر کئے یہ
بہرام کے بنیادی اصول
1-مشرق کے لفظ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2-مشرق کے لفظ کو جغرافیہ کی روشنی میں دیکا جائے گا
3-نجد کے لفظ کو آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں دیکھا جائے گا
اور مجھے یہ حکم فرمایا
یاد رہے صرف ان اصولوں کی توثیق یا اصلاح و اضافہ کرنا ہے
جب میں نے آپ کے حکم کی بجاآوری میں ان 3 پوائنٹ کی توثیق یا اصلاح اور اضافہ اس طرح عرض کیا کہ
1- مشرق کے لفظ نہیں مشرق کی سمت کو قرآن و حدیث نبویﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے گا
2۔ یہاں بھی مشرق کے لفظ نہیں بلکہ مشرق کی سمت کو جغرافیہ کی روشنی میں
3- نجد لفظ ہی نہیں نجد کے محل وقوع کو بھی سب سے پہلے اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے اور عہد نبویﷺ کے معاشرے میں معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آجکل کے معاشرے کے اندر معروف معنی میں بھی دیکھا جائے گا اور آج کل کے معروف معنی میں نجد جس خطے کو کہا جاتا ہے اگر اس کی تائید احادیث صحیح بخاری سے ہوجائے تو ایسے ماننا آپ کے لئے دشوار نہ ہوگا

اضافہ
ایک پوائنٹ کا اضافہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں ادنیٰ سا طالب علم سمجھ کر معاف فرمادینا
نجد کو سمجھنے کے لئے لغت سے پرہیز کیا جائے اگر لغت کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہو تو صرف نجد کے لئے ہی نہیں بلکہ ایسے شام ، یمن اور عراق کے لئے بھی اس کا استعمال کیا جائے ۔
مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے اپنی اس عرض کو سرخ رنگ سے تحریر کیا شاید آپ کو لال رنگ دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے اس لئے اب میں نے اس تحریر کو نیلا اور ہرا رنگ دیا ہے تاکہ آپ آسانی سے ایسے پڑھ سکے
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کو تمام ہی رنگ دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے پہلے میں سمجھ رہا تھا کہ آپ کو صرف سرخ رنگ دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے
اب آپ نے اوپر خود حدیث لکھی ہے مگر ترجمہ نہیں لکھا کیوں کہ ترجمہ لکھنے سے آپ کے دلائل کی ساری عمارت گر جانی تھی
آپ کی پیش کردہ دلیل میں عراقی کہتا ہے کہ اللہ کے نبی نے تو ہمارے اہل نجد کے لئے قرن کی جگہ متعین کی ہے مگر وہ ہمارے لئے مشکل ہے تو آپ ہمارے لئے جگہ تبدیل کر دیں یعنی وہ اپنے آپ کو اہل نجد میں سمجھتے تھے یہ میں نے پہلے بھی پوچھا تھا مگر گول مول کر دیا گیا
یہاں بھی آپ سے خطاء ہوئی اور میرے خیال میں یہ بصری کمزوری کی بناء پر ہوا احرام بندھنے والی صحیح بخاری کا ترجمہ بھی میں نے ساتھ میں پیش کردیا تھا اپنی پوسٹ نمبر 13 میں اور یہ ترجمہ داؤد راز صاحب کا کیا ہوا ہوا ترجمہ تھا آپ تھوڑی سی زحمت فرمالیں اور پوسٹ نمبر 13کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیں لیکن اس سے پہلے میرا یہ مشورہ ہے آپ پہلے کسی اچھے ماہر چشم سے اپنی بصارت کا ٹیسٹ کروالیں پھر اس کا مکمل علاج بھی کروالیں تاکہ پھر اس طرح کی کوئی خطاء نہ ہو اور آپ کو مختلف رنگ دیکھنے میں جو دشواری کا سامنا ہے یہ بیماری بھی دور ہوجائے
آپ کی سہولت کے لئے پوسٹ نمبر 13 کا لنک حاضر ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/برائیوں-کی-جڑ-نجد-یا-عراق.8357/page-2#post-147753

ترجمہ داؤد راز
جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہو گی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کر لو۔ چنانچہ ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کر دی۔
پہلی بات
داؤد راز کے اس ترجمے میں ہمارے نجد نہیں جس کا اضافہ آپ نے کیا ہے
دوسری بات
اگر عراق والوں کے اس قول پر غور کیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ ظاہر ہوگا کہ اہل نجد کے لئے رسول اللہﷺ احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور چونکہ ہم اہل عراق بھی جب تک نجد کو عبور نہ کریں ہم مکہ مکرمہ نہیں جاسکتے اور اگر ہم اہل نجد کے میقاد یعنی قرن پر جاکر احرام باندھیں تو ہمیں قرن تک جانے میں دشواری ہوگی یعنی ایکسٹرا سفر کرنا پڑے گا اس لئے عراق والوں کے لئے حرام باندھنے کی جگہ ذات عرق تعین کردی گئی یہاں آپ سے پھر ایک خطاء ہوئی کہ آپ نے عراق والوں کے قول میں ہمارے نجد کا اضافہ فرمادیا جو کہ داؤد راز صاحب کے ترجمے میں بھی نہیں کمزوری بصارت کی وجہ سے اس طرح کی خطاء ہوجایا کرتی ہے اللہ آپ کو صحت کامل عطاء فرمائے آمین
اور اہل نجد کے علاوہ اپنے آپ کو اہل مشرق بھی سمجھتے تھے ملاحظہ کریں
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الشَّامِ، مِنَ الْجُحْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ يَلَمْلَمَ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ، مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْمَشْرِقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ»[سنن ابن ماجه 2/ 972 رقم2915 صحیح بالشواہد، نیزملاحظہ ہو:شرح معاني الآثار (2/ 119)رقم3529]
صحابی جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا اہل مدینہ کیلئے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور اہل شام کیلئے جحفہ ہے اور اہل یمن کیلئے یلملم ہے اور اہل نجد کیلئے قرآن ہے اور اہل مشرق کیلئے ذات عرق ہے
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقہ کو مشرق کہا ہے جہاں‌ کی میقات ''ذات عرق '' ہے۔
اور''ذات عرق'' عراق والوں کی میقات ہے۔
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يُسْأَلُ عَنِ الْمُهَلِّ فَقَالَ: سَمِعْتُ - أَحْسَبُهُ رَفَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: «مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَالطَّرِيقُ الْآخَرُ الْجُحْفَةُ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ»[صحيح مسلم 2/ 841 رقم (1183)]
صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کی جگہوں یعنی میقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ منورہ والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذی الحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے اور نجد والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن ہے جبکہ یمن کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ یلملم ہے۔
یہ تمام دلائل اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے متصادم ہیں وہ کس طرح کہ اوپر جس حدیث کا ترجمہ آپ کو ضعف بصارت کی وجہ سے نظر نہیں آیا اس روایت میں بیان ہوا کہ جب عراق کے شہر دور عمر میں فتح ہوئے اور یہاں کے باشندے مسلمان ہوئے تو ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کا مسئلہ حضرت عمر کے پاس آیا تب جاکر حضرت عمر کے دور میں عراق والوں کے میقاد کا مسئلہ حضرت عمر نے حل کیا یعنی اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عراق والوں کے احرام بندھنے کی جگہ کا تعین رسول اللہﷺ نے نہیں فرمایا بلکہ یہ تو حضرت عمر نے کیا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہ تمام دلائل اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے متصادم ہیں وہ کس طرح کہ اوپر جس حدیث کا ترجمہ آپ کو ضعف بصارت کی وجہ سے نظر نہیں آیا اس روایت میں بیان ہوا کہ جب عراق کے شہر دور عمر میں فتح ہوئے اور یہاں کے باشندے مسلمان ہوئے تو ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کا مسئلہ حضرت عمر کے پاس آیا تب جاکر حضرت عمر کے دور میں عراق والوں کے میقاد کا مسئلہ حضرت عمر نے حل کیا یعنی اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عراق والوں کے احرام بندھنے کی جگہ کا تعین رسول اللہﷺ نے نہیں فرمایا بلکہ یہ تو حضرت عمر نے کیا
تو؟؟؟۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میں نے اس نجد پر اس فورم پر بہت بحث دیکھی ہے پس میں نے سوچا کہ جب تک اس کو ایک منظم طریقے سے علیحدہ علیحدہ ٹکڑے کر کے نہیں چلائیں گے گول مول کرنے والوں سے بچنا ممکن نہیں پس میں نے اسکو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے
1-کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نجد صرف سعودی نجد تھا یا عراقی نجد بھی ہوتا تھا (اس کے لئے علیحدہ دھاگہ شروع ہو چکا ہے)
2-کیا مشرق سے مراد صرف سورج طلوع ہونے کہ جگہ ہی ہے یا کچھ اور بھی معنی ہو سکتا ہے (اسکے لئے بھی علیحدہ دھاگہ شروع ہے)
3-ان دونوں دھاگوں کے فیصلے کے بعد شیطان کے سینگوں والی حدیث والا دھاگہ میں ان شاء اللہ شروع کروں گا مگر اس میں بنیاد انھہیں دو بحثوں کو بنایا جائے گا
4-شیطان کے سینگ کا اطلاق عراق یا سعودی نجد پر ثابت ہونے کر بعد یہ موضوع شروع کروں گا کہ کسی خطے پر شیطان کا سینگ کا اطلاق ثابت ہونے پر ہم اسکے اندر پیدا ہونے والے ہر آدمی کو مطلقا اسکا مصداق نہیں ٹھرا سکتے بلکہ اس کے لئے خارجی دلائل بھی چاہیئے ہوں گے پس نہ تو امام ابو حنیفہ پر اور نہ محمد بن عبد الوھاب پر ہم مطلقا اس کا حکم لگا سکتے ہیں
کیا تمام بھائی اس ترتیب سے اتفاق کرتے ہیں

خصوصا کیا محترم شاکر بھائی اس میں تعاون کریں گے اللہ جزا دے امین
 

Abdul_Haq

رکن
شمولیت
جنوری 19، 2018
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
حیرت کی بات ھے لوگ کیسے اپنے نبی پاک کے روشن نشانات کو اپنی خیالی باتوں سے جھٹلاتے ہیں ؟!!

۔۔۔۔اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے ‘ دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ ( قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئیں اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ (بخاری)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسیح دجال آئے گا مشرق کی طرف سے ارادہ اس کا مدینہ کا ہو گا یہاں تک کہ اترے گا کوہ احد کے پیچھے اور فرشتے اس کا منہ وہیں سے شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں تباہ ہو جائے گا۔“ (مسلم)


۔۔۔۔۔۔دجال کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہو گا ، وہ روئے زمین پر دائیں بائیں فساد پھیلاتا پھرے گا ، اللہ کے بندو ! ایمان پر ثابت قدم رہنا “۔۔۔۔۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۲۰ (۲۱۳۷)، سنن ابی داود/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۱)، سنن الترمذی/الفتن ۵۹ (۲۲۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۸۱، ۱۸۲) (صحیح)

جس نجد (آج کا سعودی) پر گمراہ لوگ اپنی خیالی باتوں سے اٹیک کرتے ہیں انکو معلوم ہونا چاہئے اللہ اسے اور اسکے ذریعے سے ھمیشہ فتنوں سے اسلام کو بچائے رکھے گا ۔ وہ اور انکے دجال کے اس نجد پر حملے ضایع جائیں گے ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”مدینہ کے ناکوں پر فرشتے ہیں کہ اس میں طاعون اور دجال نہیں آ سکتا۔“ (مسلم)


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسیح دجال آئے گا مشرق کی طرف سے ارادہ اس کا مدینہ کا ہو گا یہاں تک کہ اترے گا کوہ احد کے پیچھے اور فرشتے اس کا منہ وہیں سے شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں تباہ ہو جائے گا۔“ (مسلم)
 

Abdul_Haq

رکن
شمولیت
جنوری 19، 2018
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
ایک اور حدیث کے مطابق سب سے بڑے فتنے دجال کا خروج مشرق کے جس خطے سے ہوگا وہ ایران ھوگا -

ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ”دجال مشرق (پورب) میں ایک جگہ سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے، اس کے پیچھے ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے“ ۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۳۳ (۴۰۷۲) (تحفة الأشراف: ۶۶۱۴) (صحیح)

اور اسکے جانسار پیروکار سبائی مذھب کے ایرانی ہونگے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال کے ساتھ ہو جائیں گے اصفہان کے ستر ہزار یہودی سیاہ چادریں اوڑھے ہوئے۔ )۔(مسلم)

دجال کے پیروکار اسکو اپنا مسیحا اپنا رب سمجھے گے جسکا کا اصل ٹارگیٹ مدینہ ہوگا۔

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال نکلے گا۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف چلے گا۔ راہ میں اس کو دجال کے ہتھیار بند لوگ ملیں گے وہ اس سے پوچھیں گے: تو کہاں جاتا ہے؟ وہ بولے گا: میں اسی شخص کے پاس جاتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ کہیں گے:(أَوَ مَا تُؤْمِنُ بِرَبِّنَا؟) تو کیا ہمارے مالک پر ایمان نہیں لایا؟ وہ کہے گا: ہمارا مالک چھپا ہوا نہیں ہے۔ دجال کے لوگ کہیں گے: اس کو مارڈالو۔ پھر آپس میں کہیں گے: ہمارے مالک نے تو منع کیا ہے کسی کو مارنے سے جب تک اس کے سامنے نہ لے جائیں“۔۔۔۔۔۔۔ (مسلم)

حالاںکے عرب اس وقت تعداد میں تھوڑے ہوںگے

سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ دجال سے بھاگیں گے پہاڑوں میں۔“ ام شریک نے کہا: یا رسول اللہ! عرب کے لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ (یعنی وہ دجال سے مقابلہ کیوں نہ کریں گے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرب ان دنوں تھوڑے ہوں گے۔“ (اور دجال کے ساتھی کروڑوں ہوں گے)۔ (مسلم)

اسکے باوجود انکے جھوٹے مسیحا کو للکارنے والا مومن بھی انھی عرب مدینہ یعنی آجکے سعودی عرب سے ہوگا جسکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص سب لوگوں سے بڑا شہید ہے رب العٰلمین میں کے نزدیک۔“ (مسلم)
 
Top