• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا آن لائن بزنس

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
جناب تھوڑی سی اور مزید وضاحت کردوں :سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229 میں دو موضوع ہیں ایک طلاق کا اور دوسرا خلع بالمال کا۔ آیت نمبر 230 کا تعلق خلع بالمال سے ہےچونکہ خلع بالمال کے فورًا بعد آیت نمبر 230 شروع ہورہی ہے اور گرائمر کے لحاظ سے بھی ان میں تعلق بنتا ہے جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے ۔شکریہ۔
اگر دو طلاقوں کے بعد مرد و عورت میں جدائی ہو جاتی ہے تواللہ تعالٰی نے او تسریح باحسان کیوں فرمایا ؟
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 230 میں فان طلقھا کیا تیسری طلاق کی تصریح نہیں کرتی؟
براہِ کرم ان سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں تاکہ ہم اپنا نقطہ ٔ نظر بیان کر سکیں!
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
اگر دو طلاقوں کے بعد مرد و عورت میں جدائی ہو جاتی ہے تواللہ تعالٰی نے او تسریح باحسان کیوں فرمایا ؟
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 230 میں فان طلقھا کیا تیسری طلاق کی تصریح نہیں کرتی؟
براہِ کرم ان سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں تاکہ ہم اپنا نقطہ ٔ نظر بیان کر سکیں!
دو طلاقوں(طلاقان) نہیں بلکہ دو بار طلاق(الطلاق و مرّٰتٰن)کے بعد ہی تو فرمایا ہے کہ یا تو رکھ لینا ہے بھلے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ یعنی جو کچھ تم ان کو دے چکے ہو اسے ان سے واپس نہ لو۔ دوبار طلاق کے بعد اگر رکھ لی یعنی رجوع کرلیا تو معاملہ ختم اور اگر رخصت کردیا تو طلاق موثر ہوگئی۔ جب طلاق موثر ہوگئی تو پھر اس کو تیسری بار طلاق دینے کی کوئی ضرورت رہ گئی کہ فان طلقھا کہا جائے؟ سو اس کا تعلق اپنے سے ما قبل جملے سے ہی بنتا ہے جہاں پر عورت خود مال دے کر طلاق حاصل کرتی ہے۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
اگر آپ کا یہ سوال TKH کی وساطت سے آتا تو بہتر تھا ۔ لیکن اللہ کے کلام کا معاملہ ہے جواب دیا جاتا ہے۔
فَطَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوْا الْعِدَّۃَ : (الطلاق:1)۔ترجمہ: پس طلاق دو تم عورتوں کواس طرح کہ وہ عدت شروع کرسکیں اور ٹھیک ٹھیک شمار کرو عدت۔یہاں پر قرو کا ذکر نہیں ہے جس کا معنی طہر کئے جاتے ہیں۔لیکن چونکہ طلاق کی عدت تین قرو ہوتی ہے اس لئے عدت کا شمار کرنے کے لئے طلاق طہر میں دینی چاہئے اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔اس کی مصلحت یہ ہے کہ جب طلاق طہر میں دی جائے گی تو عورت کے حاملہ ہونے کا امکان بہت کم ہوگا ۔ ہاں البتہ کچھ نہ کچھ امکان ضرور ہوسکتا ہے کیونکہ بعض عورتوں کو کبھی کبھارایک آدھ حیض کسی وجہ سے نہیں بھی آتا جس عام طور ہمارے ہاں عورتیں حیض کا چڑھ کر آنا بولتی ہیں۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لئے عدت تین قرو یا تین طہر رکھی گئی ہے تاکہ حاملہ ہونے کا امکان بالکل ہی نہ رہے۔ اگر دوران عدت یعنی تین قرو کے اندر اندر حمل ظاہرہوجائے تو عدت پھر تین قرو نہیں رہے گی بلکہ وضع حمل تک بڑھ(Extend) جائے گی۔ایک بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ اگر طلاق طہر میں نہ بھی دی جائے تو طلاق ہوجائے گی ۔کیونکہ پھر بھی باقی دو قرو میں اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ عورت حمل سے ہے کہ نہیں ۔ لیکن زیادہ محتاط طریقہ وہی تھا جو اوپر اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ یہاں پر پہلی بار طلاق کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔
”وَالّٰٓئِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّ تُھُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْھُرٍ،وَالّٰٓئِی لَمْ یَحِضْنَ، وَاُولَاتُ الاَحمَالِ اَجَلُھُنَّ اَن یَّضَعنَ حَملَھُنَّ، وَمَن یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجعَل لَّہٗ مِن اَمرِہٖ یُسرًا“ (الطلاق:4)۔ترجمہ: اور تمہاری وہ عورتیں جو مایوس ہو چکی ہوں حیض آنے سے،اگر(ان کی عدت کے تعین میں) تمہیں کوئی شبہ لاحق ہو جائے توان کی عدت تین ماہ ہے،اور انکی بھی جن کو حیض آتاہی نہ ہو اور حاملہ عورتیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ بچہ جن لیں۔ جو شخص ڈرے اللہ سے پیدا کر دیتا ہے وہ اس کے لئے اس کے معاملے میں آسانی۔
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے تین قسم کی عدت کی مدت بیان کی ہے (1) جو عورتیں بوڑھی ہو چکی ہوں اور ان کو حیض آنا بند ہوگیا ہو انکی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے کیونکہ ان کی عدت کا شمار قرو سے نہیں ہوسکتا۔(2) اسی طرح ایسی عورتیں جو بوڑھی تو نہیں ہوئیں لیکن ان کو کسی بھی وجہ یعنی بیماری وغیرہ کی وجہ سے حیض نہیں آتا ان کی بھی عدت تین مہینے بتائی گئی ہے۔(3) حاملہ عورتوں کے لئے وضع حمل تک عدت ہے۔بیان عدت کی مدت کا ہو رہا ہے دوسرے طہر کا ذکر یہاں پر کہاں سے آگیا؟
3
۔”وَالمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصنَ بِاَنفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوٓءٍ، وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَن یَّکتُمنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی اَرحَامِھِنَّ اِن کُنَّ یُؤمِنَّ بِاللّٰہِ وَالیّومِ الآخِرِ“ (البقرہ:228)۔ ترجمہ:اور طلاق یافتہ عورتیں روکیں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک، اور نہیں جائز ہے ان کے لئے یہ کہ چھپائیں وہ کہ اس کوپیدا کیا ہے اللہ نے ان کے رحم میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر۔
یہاں ان عورتوں کی عدت کا بیان ہے جن کو حیض آتا ہو ان کی عدت تین قرو بتائی گئی ہے۔یہا ں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر عورت حاملہ ہوں تو اس کو وہ نہ چھپائیں کیونکہ اس صورت میں ان کی عدت بڑھ جائے گی وضع حمل تک جیسا کہ الطلاق :4 میں اوپر بیان کیا جا چکا۔اس کا تیسرے طہر سے کیا تعلق؟
4
۔”وَبُعُولَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِی ذلِکَ اِن اَرَادُوااِصلَاحًا“
(البقرہ:228)۔ ترجمہ: اور ان کے خاوند زیادہ حق دار ہیں ان کو لوٹانے کے (اپنی زوجیت میں) اس(عدت کے دوران) میں اگر وہ چاہیں صلح کرنا۔اس کا بھی طلاق کی گنتی اور تیسرے طلاق سے کیا تعلق یہ تو رجوع کی بات ہے۔
5۔الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان۔ وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَنْ یَّخَافَااَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ (البقرہ:229)۔ طلاق دو بار ہے پھر روک لینا ہے بھلے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو ان کوکچھ بھی مگر یہ کہ دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی حدوں کو۔طلاق دو بار ہے پہلی بار انتباہ (Warning) اور دوسری بار فیصلہ(decision)۔ اب اصولی طور پر تو فیصلے کے بعد عورت کو رخصت ہی کر دینا چاہیے تھا ۔ دنیا کا کوئی بھی ادارہ ہو اور دنیا کی کوئی بھی عدالت ہو یہی کرے گی کہ فیصلے کے بعد رخصت ہی کرنا پڑے گا۔ لیکن اللہ کی ذات اپنے بندوں پر بڑی ہی رحیم ہے کیونکہ اس فیصلے سے سارا خاندان متآثر ہونے والا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہونگے جن کا کوئی قصور نہیں وہ بھی اس سے متاثر ہونگے۔ اس لئے اس نے ایک چانس دیا کہ اگر عورت فیصلہ سننے کے بعد بھی رہنا چاہے تو اسے رکھ لو اور اگر نہ رہنا چاہے تو اسے رخصت کردو اور جو کچھ تم نے اس کو دیا ہے وہ واپس نہ لو یہ اس پر احسان کردو۔ اس کو یونہی سمجھو جیسے کوئی خدا ترس انسان اپنے ملازم کو فارغ کرنے کے بعد بھی کہے کہ میاں اگر بندہ بن کر کام کرنا چاہتے ہو تو تم کام پر دوبارہآسکتے ہو ورنہ فارغ تو تم کئے جاچکے ہو۔ اب وہ ملازم مان جاتا ہے تو وہ دوبارہ کام پر آجاتا ہے تو فیصلہ(Termination letter) واپس لے لیا جائے گا اگر نہیں آئے گا تو تیسری بار لیٹر نکالنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے وہ پہلے ہی فارغ کیا جا چکا ہے ۔ اب یہاں پر تیسری طلاق کہاں سے آگئی جب دوسری بار فیصلہ سنا دیا گیا کہ تم فارغ ہو۔
فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَاوَمَنْ یَّتَعَدَّحُدُوْدَ اللہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ(البقرہ:229)۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ، فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَن یَّتَرَاجَعَھَااِن ظَنَّا اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللہِ، وَ تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ یُبَیِّنُھَا لْقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(البقرہ:230) ۔ترجمہ:
پھر اگر ڈر ہو تم کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس میں جو بطور فدیہ میں دے عورت ، یہ ہیں اللہ کی حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر طلاق دے دی اس مردنے اس عورت کو ،تو نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے اس کے بعد جب تک کہ نہ نکاح کرے وہ کسی اور خاوند سے اس کے سوا ۔پھر اگر طلاق دے دے خاوند اس کو تو نہیں ہی کچھ گناہ اس بات میں کہ رجو کرلیں ایک دوسرے کی طرف بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ قائم رکھیں گےدونوں اللہ کی حدوں کو ۔ اور یہ ہے اللہ کی حدیں جن کو وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ فدیہ دینے سے طلاق خود بخود واقع نہیں ہو جائے گی جب تک مرد طلاق نہیں دے۔ پس فَاِنْ طَلَّقَھَا سے مراد وہی طلاق ہے جو اس نے فدیہ دینے والی عورت کو دی۔ ایک بات اور ہے اور وہ یہ ہے کہ آیت نمبر 230 میں جو فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَن یَّتَرَاجَعَھَا میں جس رجعت کا ذکر ہے وہ دوسرے خاوند سے ہی ہے۔ پہلے خاوند سے رجعت نہیں اب نکاح ہی ہوسکتا ہے اس سے رجعت کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اگر آپ کا یہ سوال TKH کی وساطت سے آتا تو بہتر تھا ۔ لیکن اللہ کے کلام کا معاملہ ہے جواب دیا جاتا ہے۔
فَطَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوْا الْعِدَّۃَ : (الطلاق:1)۔ترجمہ: پس طلاق دو تم عورتوں کواس طرح کہ وہ عدت شروع کرسکیں اور ٹھیک ٹھیک شمار کرو عدت۔یہاں پر قرو کا ذکر نہیں ہے جس کا معنی طہر کئے جاتے ہیں۔لیکن چونکہ طلاق کی عدت تین قرو ہوتی ہے اس لئے عدت کا شمار کرنے کے لئے طلاق طہر میں دینی چاہئے اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔اس کی مصلحت یہ ہے کہ جب طلاق طہر میں دی جائے گی تو عورت کے حاملہ ہونے کا امکان بہت کم ہوگا ۔ ہاں البتہ کچھ نہ کچھ امکان ضرور ہوسکتا ہے کیونکہ بعض عورتوں کو کبھی کبھارایک آدھ حیض کسی وجہ سے نہیں بھی آتا جس عام طور ہمارے ہاں عورتیں حیض کا چڑھ کر آنا بولتی ہیں۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لئے عدت تین قرو یا تین طہر رکھی گئی ہے تاکہ حاملہ ہونے کا امکان بالکل ہی نہ رہے۔ اگر دوران عدت یعنی تین قرو کے اندر اندر حمل ظاہرہوجائے تو عدت پھر تین قرو نہیں رہے گی بلکہ وضع حمل تک بڑھ(Extend) جائے گی۔ایک بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ اگر طلاق طہر میں نہ بھی دی جائے تو طلاق ہوجائے گی ۔کیونکہ پھر بھی باقی دو قرو میں اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ عورت حمل سے ہے کہ نہیں ۔ لیکن زیادہ محتاط طریقہ وہی تھا جو اوپر اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ یہاں پر پہلی بار طلاق کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔
”وَالّٰٓئِی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّ تُھُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْھُرٍ،وَالّٰٓئِی لَمْ یَحِضْنَ، وَاُولَاتُ الاَحمَالِ اَجَلُھُنَّ اَن یَّضَعنَ حَملَھُنَّ، وَمَن یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجعَل لَّہٗ مِن اَمرِہٖ یُسرًا“ (الطلاق:4)۔ترجمہ: اور تمہاری وہ عورتیں جو مایوس ہو چکی ہوں حیض آنے سے،اگر(ان کی عدت کے تعین میں) تمہیں کوئی شبہ لاحق ہو جائے توان کی عدت تین ماہ ہے،اور انکی بھی جن کو حیض آتاہی نہ ہو اور حاملہ عورتیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ بچہ جن لیں۔ جو شخص ڈرے اللہ سے پیدا کر دیتا ہے وہ اس کے لئے اس کے معاملے میں آسانی۔
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے تین قسم کی عدت کی مدت بیان کی ہے (1) جو عورتیں بوڑھی ہو چکی ہوں اور ان کو حیض آنا بند ہوگیا ہو انکی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے کیونکہ ان کی عدت کا شمار قرو سے نہیں ہوسکتا۔(2) اسی طرح ایسی عورتیں جو بوڑھی تو نہیں ہوئیں لیکن ان کو کسی بھی وجہ یعنی بیماری وغیرہ کی وجہ سے حیض نہیں آتا ان کی بھی عدت تین مہینے بتائی گئی ہے۔(3) حاملہ عورتوں کے لئے وضع حمل تک عدت ہے۔بیان عدت کی مدت کا ہو رہا ہے دوسرے طہر کا ذکر یہاں پر کہاں سے آگیا؟
3
۔”وَالمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصنَ بِاَنفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوٓءٍ، وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَن یَّکتُمنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی اَرحَامِھِنَّ اِن کُنَّ یُؤمِنَّ بِاللّٰہِ وَالیّومِ الآخِرِ“ (البقرہ:228)۔ ترجمہ:اور طلاق یافتہ عورتیں روکیں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک، اور نہیں جائز ہے ان کے لئے یہ کہ چھپائیں وہ کہ اس کوپیدا کیا ہے اللہ نے ان کے رحم میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر۔
یہاں ان عورتوں کی عدت کا بیان ہے جن کو حیض آتا ہو ان کی عدت تین قرو بتائی گئی ہے۔یہا ں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر عورت حاملہ ہوں تو اس کو وہ نہ چھپائیں کیونکہ اس صورت میں ان کی عدت بڑھ جائے گی وضع حمل تک جیسا کہ الطلاق :4 میں اوپر بیان کیا جا چکا۔اس کا تیسرے طہر سے کیا تعلق؟
4
۔”وَبُعُولَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِی ذلِکَ اِن اَرَادُوااِصلَاحًا“
(البقرہ:228)۔ ترجمہ: اور ان کے خاوند زیادہ حق دار ہیں ان کو لوٹانے کے (اپنی زوجیت میں) اس(عدت کے دوران) میں اگر وہ چاہیں صلح کرنا۔اس کا بھی طلاق کی گنتی اور تیسرے طلاق سے کیا تعلق یہ تو رجوع کی بات ہے۔
5۔الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان۔ وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَنْ یَّخَافَااَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ (البقرہ:229)۔ طلاق دو بار ہے پھر روک لینا ہے بھلے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو ان کوکچھ بھی مگر یہ کہ دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی حدوں کو۔طلاق دو بار ہے پہلی بار انتباہ (Warning) اور دوسری بار فیصلہ(decision)۔ اب اصولی طور پر تو فیصلے کے بعد عورت کو رخصت ہی کر دینا چاہیے تھا ۔ دنیا کا کوئی بھی ادارہ ہو اور دنیا کی کوئی بھی عدالت ہو یہی کرے گی کہ فیصلے کے بعد رخصت ہی کرنا پڑے گا۔ لیکن اللہ کی ذات اپنے بندوں پر بڑی ہی رحیم ہے کیونکہ اس فیصلے سے سارا خاندان متآثر ہونے والا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہونگے جن کا کوئی قصور نہیں وہ بھی اس سے متاثر ہونگے۔ اس لئے اس نے ایک چانس دیا کہ اگر عورت فیصلہ سننے کے بعد بھی رہنا چاہے تو اسے رکھ لو اور اگر نہ رہنا چاہے تو اسے رخصت کردو اور جو کچھ تم نے اس کو دیا ہے وہ واپس نہ لو یہ اس پر احسان کردو۔ اس کو یونہی سمجھو جیسے کوئی خدا ترس انسان اپنے ملازم کو فارغ کرنے کے بعد بھی کہے کہ میاں اگر بندہ بن کر کام کرنا چاہتے ہو تو تم کام پر دوبارہآسکتے ہو ورنہ فارغ تو تم کئے جاچکے ہو۔ اب وہ ملازم مان جاتا ہے تو وہ دوبارہ کام پر آجاتا ہے تو فیصلہ(Termination letter) واپس لے لیا جائے گا اگر نہیں آئے گا تو تیسری بار لیٹر نکالنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے وہ پہلے ہی فارغ کیا جا چکا ہے ۔ اب یہاں پر تیسری طلاق کہاں سے آگئی جب دوسری بار فیصلہ سنا دیا گیا کہ تم فارغ ہو۔
فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَاوَمَنْ یَّتَعَدَّحُدُوْدَ اللہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ(البقرہ:229)۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ، فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَن یَّتَرَاجَعَھَااِن ظَنَّا اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللہِ، وَ تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ یُبَیِّنُھَا لْقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(البقرہ:230) ۔ترجمہ:
پھر اگر ڈر ہو تم کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس میں جو بطور فدیہ میں دے عورت ، یہ ہیں اللہ کی حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر طلاق دے دی اس مردنے اس عورت کو ،تو نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے اس کے بعد جب تک کہ نہ نکاح کرے وہ کسی اور خاوند سے اس کے سوا ۔پھر اگر طلاق دے دے خاوند اس کو تو نہیں ہی کچھ گناہ اس بات میں کہ رجو کرلیں ایک دوسرے کی طرف بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ قائم رکھیں گےدونوں اللہ کی حدوں کو ۔ اور یہ ہے اللہ کی حدیں جن کو وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ فدیہ دینے سے طلاق خود بخود واقع نہیں ہو جائے گی جب تک مرد طلاق نہیں دے۔ پس فَاِنْ طَلَّقَھَا سے مراد وہی طلاق ہے جو اس نے فدیہ دینے والی عورت کو دی۔ ایک بات اور ہے اور وہ یہ ہے کہ آیت نمبر 230 میں جو فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَن یَّتَرَاجَعَھَا میں جس رجعت کا ذکر ہے وہ دوسرے خاوند سے ہی ہے۔ پہلے خاوند سے رجعت نہیں اب نکاح ہی ہوسکتا ہے اس سے رجعت کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 229 کے تحت ( جو آپ کے مطابق فدیہ والے معاملے سے الگ اور منفرد حیثیت رکھتا ہے ) مردا ورعورت کے درمیان طلاق واقع ہو جانے کی صورت میں ،کیا مردا ور عورت دوبارہ نئے سرےسے نکاح کر سکتے ہیں ؟
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 229 کے تحت ( جو آپ کے مطابق فدیہ والے معاملے سے الگ اور منفرد حیثیت رکھتا ہے ) مردا ورعورت کے درمیان طلاق واقع ہو جانے کی صورت میں ،کیا مردا ور عورت دوبارہ نئے سرےسے نکاح کر سکتے ہیں ؟
فدیہ والے معاملے کے علاوہ اگر عام طلاق ہو تو وہ نہ صرف دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں بلکہ جو رکاؤٹ بنے ان کو بھی رکاؤٹ بننے سے روکا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ”وَاذَا طَلَّقتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعضُلُوھُنَّ اَن یِّنکِحنَ اَزوَاجَھُنَّ اذَا تَرَا ضَو بَینَھُم َالمَعرُوفِ“ (البقرہ:232)۔ ترجمہ:اور جب طلاق دے دو تم عورتوں کو پھر پوری کرلیں وہ اپنی عدت تو مت روکو انہیں اس سے کہ نکاح کرلیں وہ اپنے شوہروں سے، جب کہ راضی ہوں وہ دونوں نکاح کرنے پر، بھلے اور ایک اچھے طریقے سے۔یہاں پر اَزوَاجَھُنَّ سے مراد، سابقہ اور ہونے شوہر دونوں ہو سکتے ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
اہل قرآن والوں کے دادا استاد غلام احمد پرویزی نے بھی 230 آیت کا ترجمہ تیسری طلاق کیا ہے اور جاوید احمد غامدی نے بھی اس پر یہی رائے دی ہے، اب رانا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


(229-230)
Take note that when dissolution of marriage takes place for the first time, it is possible either to finalize the dissolution or resume marital relationship. According to law if marital relationship is resumed and dissolution takes place once again, then also it is permissible either to finalize the dissolution or resume marital ties
However, if marital ties are resumed and dissolution takes place for the third time, then remarriage is not permissible
The only exception to this is as follows: if the woman marries another man and dissolution takes place, then it is permissible for her to remarry her former husband. These are the limitations imposed by Allah’s laws, do not transgress them and whoever does so, would be held guilty in the eyes of the law. (Dissolution of a marriage is a serious matter and should not take place without due consideration
In the case of dissolution of marriage, you are not permitted to take away anything from what you have given to the wife. But if this factor becomes an impediment to dissolution of marriage, the wife may agree to forego what is hers. These are the limitations imposed by Allah and explained clearly to those who understand and have innate knowledge

قانون طلاق
قرآن مجید کی ایک سے زیادہ سورتوں میں اسلام کے قانون طلاق کا ذکر آیا ہے، مثلاً سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا ہے:

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّآ آتَیْْتُمُوْہُنَّ شَیْْءًا إِلاَّ أَنْ یَّخَافَا أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَأُوْلٰءِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَٓا أَنْ یَّتَرَاجَآَا إِنْ ظَنَّآ أَنْ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ وَلاَ تَتَّخِذُوْٓا آیَاتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَمَآ أَنْزَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ أَن یَّنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکُمْ أَزْکٰی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ. (البقرہ۲: ۲۲۹۔۲۳۲)

’’طلاق دو مرتبہ ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق، خواہ چھوڑ دینا خوش اسلوبی کے ساتھ۔ اور تمھارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ (وقت رخصت) اس میں سے کوئی چیز بھی واپس لو جو تم نے ان کو دے رکھی ہے۔ مگر اس وقت جب میاں بیوی کو احتمال ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، اور تم کو بھی (اے مسلمانو،) یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں خداوندی ضابطوں کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہو گا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت گلو خلاصی حاصل کرلے۔ یہ خدائی ضابطے ہیں، ان ضابطوں سے ہرگز تجاوز نہ کرو۔ اور جو شخص حدود اللہ سے تجاوز کر جائے تو ایسے ہی لوگ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ پھر اگر کسی نے (تیسری مرتبہ) عورت کو طلاق دے دی تو اب وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔ پھر اگر یہ (دوسرا) خاوند اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ دوبارہ مل جائیں بشرطیکہ دونوں حدود اللہ کو قائم رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اور یہ خداوندی ضابطے ہیں۔ اللہ ان ضابطوں کو ان لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے جو اہل دانش ہیں۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو قاعدہ کے موافق روک لو یا قاعدہ کے موافق ان کو رخصت کر دو۔ ان کو ستانے کی غرض سے ہرگز نہ روکو۔ اور جو شخص ایسا کرے گا سو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور اللہ کے احکام کے ساتھ کھلواڑ نہ کرو۔ اور جو نعمتیں اللہ کی تم پر ہیں ، ان کو یاد کرو اور (خصوصاً) اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے جس کے ذریعہ سے وہ تم کو نصیحت کرتا ہے۔ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈرو اور یقین رکھو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی معیاد (عدت) پوری کر لیں تو تم ان کو اس بات سے نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں جبکہ وہ قاعدہ کے موافق باہم رضامند ہوں۔ اس بات کی نصیحت تم میں سے ہر اس شخص کو کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اس نصیحت کو قبول کرنا تمھارے لیے زیادہ صفائی اور زیادہ پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اللہ (اس قانون کی حکمت کو) جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘

ان آیات کی روشنی میں اسلام کے قانون طلاق کی درج ذیل اہم خصوصیات کا علم حاصل ہوتا ہے:
اسلام کے قانون طلاق کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں طلاق دینے اور اس کے واقع (Operational) ہونے میں تین ماہ کا فصل ۱؂ رکھا گیا ہے، اس کے علاوہ شوہر کے حق رجعت کو دو طلاقوں تک محدود کیا گیا ہے جیسا کہ ’الطلاق مرتان... الخ‘ کے جملے سے واضح ہے۔
راقم ’الطلاق مرتان‘ سے دو ایسی رجعی طلاقیں مراد ہیں جن کے دینے کا اختیار ایک مرد کو اپنی پوری ازدواجی زندگی میں حاصل ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک مرتبہ حالت طہر میں طلاق دے اور عدت کے اندر رجوع کر لے پھر آگے چل کر کسی سبب سے دوسری مرتبہ طلاق دے اور پھر عدت کے اندر رجوع کر لے۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی موقع پر تیسری طلاق دے دی تو اب اس کا حق رجوع ساقط ہو گیا اور عورت اس سے جدا ہو جائے گی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
دوبار طلاق کے بعد اگر رکھ لی یعنی رجوع کرلیا تو معاملہ ختم اور اگر رخصت کردیا تو طلاق موثر ہوگئی۔ جب طلاق موثر ہوگئی تو پھر اس کو تیسری بار طلاق دینے کی کوئی ضرورت رہ گئی کہ فان طلقھا کہا جائے؟
اب آپ کم از کم جملوں کی الٹی سیدھی ترکیب سے تعلق جوڑنے سے تو باز آئے ، خیر اب اس انداز سے آپ کی عقل رانیاں بھی نہیں چل سکیں گے ۔
دوبار طلاق کے بعد رجوع سے معاملہ ختم نہیں ، بلکہ جس طرح پہلی کے بعد دوسری طلاق کی نوبت آئی ، تیسری کی بھی آسکتی ہے ۔
اور جس انداز سے آپ دوسری طلاق مؤثر کہہ رہیں ، اس طرح تو پہلی بھی ہوسکتی ہے ۔ یعنی کوئی پہلی طلاق دینے کے بعد ہی رجوع نہ کرے ۔
بات اس کے لیے ہے جو ایک سے زیادہ مرتبہ طلاق دیتا ہے ، اس کے لیے حد بندی کیا ہے ؟ سورہ بقرہ کی ان آیات میں واضح طور پر اس کے لیے دو طلاقوں تک دونوں آپشن ہیں ، جبکہ تیسری کے بعد اس کے لیے سوائے چھوڑنے کے کوئی اور آپشن نہیں ۔
یہ جو تیسری کے بعد سوائے چھوڑنے کے کوئی آپشن نہ ہونا ہے ، یہ ’ فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد ‘ میں ہی بیان ہوا ہے ۔ اس سے پہلے کہیں بیان نہیں ہوا ۔
واضح انداز میں سوال کرتا ہوں ، شاید آپ کو بات سمجھ آجائے ، اگر کوئی دوسری طلاق کے بعد رجوع کرلیتا ہے ، پھر تیسری طلاق دے سکتا ہے کہ نہیں ؟ اور اگر دے دی تو کیا رجوع کرسکتا ہے کہ نہیں ؟ ساتھ اس کی دلیل بھی لکھئیے گا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان۔
طلاق دو بار ہے پہلی بار انتباہ (Warning) اور دوسری بار فیصلہ(decision)۔
سرخ الفاظ قرآن کی کس آیت کا ترجمہ یا مفہوم ہیں ؟
اب اصولی طور پر تو فیصلے کے بعد عورت کو رخصت ہی کر دینا چاہیے تھا ۔ دنیا کا کوئی بھی ادارہ ہو اور دنیا کی کوئی بھی عدالت ہو یہی کرے گی کہ فیصلے کے بعد رخصت ہی کرنا پڑے گا۔ لیکن اللہ کی ذات اپنے بندوں پر بڑی ہی رحیم ہے کیونکہ اس فیصلے سے سارا خاندان متآثر ہونے والا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہونگے جن کا کوئی قصور نہیں وہ بھی اس سے متاثر ہونگے۔ اس لئے اس نے ایک چانس دیا کہ اگر عورت فیصلہ سننے کے بعد بھی رہنا چاہے تو اسے رکھ لو اور اگر نہ رہنا چاہے تو اسے رخصت کردو اور جو کچھ تم نے اس کو دیا ہے وہ واپس نہ لو یہ اس پر احسان کردو۔ اس کو یونہی سمجھو جیسے کوئی خدا ترس انسان اپنے ملازم کو فارغ کرنے کے بعد بھی کہے کہ میاں اگر بندہ بن کر کام کرنا چاہتے ہو تو تم کام پر دوبارہآسکتے ہو ورنہ فارغ تو تم کئے جاچکے ہو۔ اب وہ ملازم مان جاتا ہے تو وہ دوبارہ کام پر آجاتا ہے تو فیصلہ(Termination letter) واپس لے لیا جائے گا اگر نہیں آئے گا تو تیسری بار لیٹر نکالنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے وہ پہلے ہی فارغ کیا جا چکا ہے ۔
قرآنی آیات مثالوں سے نہیں اڑ سکتیں ۔ جب دوسری بار کے بعد اسے دوبارہ آنے کا اختیار دیا گیا ہے ، اور وہ اس اختیار کو استعمال بھی کرتا ہے ، تو گویا اب دوبارہ وہ کام شروع کر چکا ہے، کیا اس کے بعد مالک اسے تیسری بار کام سے نہیں نکال سکتا ہے ؟
آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ تو پہلے ہی نکالا ہوا ہے ، بھئی نکالا ہوا ہے تو دوبارہ واپس کس طرح آگیا ؟ بات کو گول نہ کریں ، یا تو کہیں کہ وہ کام پر نہیں ہے ، یا کہیں کہ کام پر ہے ۔ اگر نہیں تو وہ واپس کیوں آیا ؟ اور اگر کام پر ہے تو مالک اسے دوبارہ نکال کیوں نہیں سکتا ؟
اور آپ نے ملازم کی مثال دی ہے ، اس کو ذرا عورت اور مرد کے رشتہ ازدواجیت میں رکھ کر ہی دیکھیں ، تو آپ کو اندازہ ہوگا ، کس قدر سطحی سوچ سے آپ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں ۔
اگر عورت دوسری طلاق کے بعد فارغ ہوچکی ہے ، تو کس قانون کے تحت وہ دوبارہ اسی مرد کے پاس آکر رہے گی ، جس سے اس کا اب کوئی تعلق ہی نہیں رہا ؟
اور اگر إمساک بمعروف کے تحت اس سے تعلق بحال ہوگیا ہے تو پھر دوبارہ جب تک خاوند خود یا عورت تعلق توڑے گی نہیں تو خود بخود کیسے ختم ہوجائے گا ؟
اگر آپ کہیں کہ فیصلہ تو دوسری طلاق کے بعد ہی ہوگیا تھا ، تو ہم کہیں گے کہ وہ دوبارہ واپس کیوں آئی ؟
اور اگر آپ کہیں کے نہیں فیصلہ بعد اس کے پاس آنے کی آپشن تھی ، تو ہم کہیں گے کہ آکر دوبارہ بلا فیصلہ وہ واپس کیسے جاسکتی ہے ؟
امت محمدیہ کے نزدیک دوسرے فیصلہ کے بعد دوبارہ واپس آکر تیسری مرتبہ اسے فارغ کرنے کو ہی تیسری طلاق کہتے ہیں ، اور یہی وہ طلاق ہے ، جس کے بعد اب مزید رجوع کا آپشن نہیں ہے ۔ حتی تنکح زوجا غیرہ ۔
اب یہاں پر تیسری طلاق کہاں سے آگئی جب دوسری بار فیصلہ سنا دیا گیا کہ تم فارغ ہو۔
اگر دوسری بار فارغ کا فیصلہ سنادیا گیا ہے تو وہ واپس کس قانون کے تحت آئی ؟ اگر واپس آسکتی ہے تو دوبارہ اختلاف کی صورت میں تیسری طلاق کی ضرورت صرف شرعی ہی نہیں ، ایک عقلی و منطقی فیصلہ ہے ۔
کیونکہ شریعت نے ، آخری آپشن ملاپ نہیں ، بلکہ جدائی رکھا ہے ۔ اگر تیسری طلاق کا آپشن ہی نہ ہو ، تو اس کا مطلب دو طلاقوں کے بعد اگر إمساک بمعروف کا آپشن اختیار کرلیا تو پھر جو مرضی ہوجائے، دونوں کو ہرحال میں ساتھ رہنا ہی پڑے گا ، کیونکہ تیسری طلاق کا آپشن تو ہے ہی نہیں ۔ یہ نتیجہ بداہتا غلط ہے ، جس کے لیے کسی افلاطونیت کی ضرورت نہیں ، ہر ذی عقل اس کو بخوبی سمجھ سکتا ہے ۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
اہل قرآن والوں کے دادا استاد غلام احمد پرویزی نے بھی 230 آیت کا ترجمہ تیسری طلاق کیا ہے اور جاوید احمد غامدی نے بھی اس پر یہی رائے دی ہے، اب رانا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


(229-230)
Take note that when dissolution of marriage takes place for the first time, it is possible either to finalize the dissolution or resume marital relationship. According to law if marital relationship is resumed and dissolution takes place once again, then also it is permissible either to finalize the dissolution or resume marital ties
However, if marital ties are resumed and dissolution takes place for the third time, then remarriage is not permissible
The only exception to this is as follows: if the woman marries another man and dissolution takes place, then it is permissible for her to remarry her former husband. These are the limitations imposed by Allah’s laws, do not transgress them and whoever does so, would be held guilty in the eyes of the law. (Dissolution of a marriage is a serious matter and should not take place without due consideration
In the case of dissolution of marriage, you are not permitted to take away anything from what you have given to the wife. But if this factor becomes an impediment to dissolution of marriage, the wife may agree to forego what is hers. These are the limitations imposed by Allah and explained clearly to those who understand and have innate knowledge

قانون طلاق
قرآن مجید کی ایک سے زیادہ سورتوں میں اسلام کے قانون طلاق کا ذکر آیا ہے، مثلاً سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا ہے:

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّآ آتَیْْتُمُوْہُنَّ شَیْْءًا إِلاَّ أَنْ یَّخَافَا أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَأُوْلٰءِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَٓا أَنْ یَّتَرَاجَآَا إِنْ ظَنَّآ أَنْ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ وَلاَ تَتَّخِذُوْٓا آیَاتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَمَآ أَنْزَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ أَن یَّنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکُمْ أَزْکٰی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ. (البقرہ۲: ۲۲۹۔۲۳۲)

’’طلاق دو مرتبہ ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق، خواہ چھوڑ دینا خوش اسلوبی کے ساتھ۔ اور تمھارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ (وقت رخصت) اس میں سے کوئی چیز بھی واپس لو جو تم نے ان کو دے رکھی ہے۔ مگر اس وقت جب میاں بیوی کو احتمال ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، اور تم کو بھی (اے مسلمانو،) یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں خداوندی ضابطوں کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہو گا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت گلو خلاصی حاصل کرلے۔ یہ خدائی ضابطے ہیں، ان ضابطوں سے ہرگز تجاوز نہ کرو۔ اور جو شخص حدود اللہ سے تجاوز کر جائے تو ایسے ہی لوگ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ پھر اگر کسی نے (تیسری مرتبہ) عورت کو طلاق دے دی تو اب وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔ پھر اگر یہ (دوسرا) خاوند اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ دوبارہ مل جائیں بشرطیکہ دونوں حدود اللہ کو قائم رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اور یہ خداوندی ضابطے ہیں۔ اللہ ان ضابطوں کو ان لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے جو اہل دانش ہیں۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو قاعدہ کے موافق روک لو یا قاعدہ کے موافق ان کو رخصت کر دو۔ ان کو ستانے کی غرض سے ہرگز نہ روکو۔ اور جو شخص ایسا کرے گا سو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور اللہ کے احکام کے ساتھ کھلواڑ نہ کرو۔ اور جو نعمتیں اللہ کی تم پر ہیں ، ان کو یاد کرو اور (خصوصاً) اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے جس کے ذریعہ سے وہ تم کو نصیحت کرتا ہے۔ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈرو اور یقین رکھو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی معیاد (عدت) پوری کر لیں تو تم ان کو اس بات سے نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں جبکہ وہ قاعدہ کے موافق باہم رضامند ہوں۔ اس بات کی نصیحت تم میں سے ہر اس شخص کو کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اس نصیحت کو قبول کرنا تمھارے لیے زیادہ صفائی اور زیادہ پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اللہ (اس قانون کی حکمت کو) جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘

ان آیات کی روشنی میں اسلام کے قانون طلاق کی درج ذیل اہم خصوصیات کا علم حاصل ہوتا ہے:
اسلام کے قانون طلاق کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں طلاق دینے اور اس کے واقع (Operational) ہونے میں تین ماہ کا فصل ۱؂ رکھا گیا ہے، اس کے علاوہ شوہر کے حق رجعت کو دو طلاقوں تک محدود کیا گیا ہے جیسا کہ ’الطلاق مرتان... الخ‘ کے جملے سے واضح ہے۔
راقم ’الطلاق مرتان‘ سے دو ایسی رجعی طلاقیں مراد ہیں جن کے دینے کا اختیار ایک مرد کو اپنی پوری ازدواجی زندگی میں حاصل ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک مرتبہ حالت طہر میں طلاق دے اور عدت کے اندر رجوع کر لے پھر آگے چل کر کسی سبب سے دوسری مرتبہ طلاق دے اور پھر عدت کے اندر رجوع کر لے۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی موقع پر تیسری طلاق دے دی تو اب اس کا حق رجوع ساقط ہو گیا اور عورت اس سے جدا ہو جائے گی۔
نہ پرویز ہمارے لئے دلیل ہے اور نہ غامدی۔لفظی موشگافیوں کی بجائے کوئی دلیل ہے تو لاؤ۔ ان باتوں کا کیا فائدہ جن کا ایک بار نہیں کئی بار جواب دیا جا چکا۔
 
Top