• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا آن لائن بزنس

شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
اس بحث کا کوئی حاصل نہیں ہوگا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ حقائق آپ اور سب کے سامنےآجائیں اگر پہلے آپ بالکل غیر جانبداری سے نیچے دئے ہوئے آپشنز کا مطالعہ کرلیں پھر فیصلہ آپ خود کرلیں کہ کون سا آپشن درست ہے۔
سورہ البقرہ کی آیات نمبر229 اور 230
الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان۔ وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَنْ یَّخَافَااَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ ,فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَاوَمَنْ یَّتَعَدَّحُدُوْدَ اللہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ(229)۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ، فَاِنْطَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَن یَّتَرَاجَعَھَااِن ظَنَّا اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللہِ، وَ تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ یُبَیِّنُھَا لْقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(230) ۔
آپشن نمبر 1
الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان، وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءً, فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ،
طلاق دو بار ہے پھر روک لینا ہے بھلے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو ان کوکچھ بھی، پھر اگراس مردنے اس عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے ،
آپشن نمبر 2
فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ
پھر اگر ڈر ہو تم کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس میں جو بطور فدیہ میں دے عورت ،پھر اگراس مردنے اس عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے

اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ قرآن ، سورت الفرقان : 30
باطل اس
(قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔ قرآن ، سورت فصلت : 42
بلاشبہ یہ
(قرآن) ایک فیصلہ کن کلام ہے۔ قرآن ، سورت الطارق : 13
یقیناً یہ
قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔قرآن ، سورت الاسرا ء : 09
ایک استدعا اللہ تعالیٰ کے حضور
اے اللہ ! ہمارے سامنے تیرے رسولﷺ موجود نہیں ہیں کہ ان سے پوچھ لیں۔ تیرے رسول کے وہ صحابہ موجود نہیں جن کے اتباع پر تیری رضامندی موقوف ہے کہ ان سے دریافت کرلیں ۔ ان سابقون لاولون کے تابعین بالاحسان بھی موجود نہیں کہ ان سے حقیقت کا پتہ لگا لیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ محدثین ،مجتہدین اور مفسرین بھی موجود نہیں کہ ان سے با ادب عرض کریں کہ حضورﷺ نے قرآن مجید کے سیاق عبارت اور اصول ادب عربی کے خلاف کس قرآنی بنیاد پر فَاِنْ طَلَّقَھَا کو تیسری طلاق قرار دے دیا۔ ایسی حالت میں اے رب العالمین جب صرف لکھی ہوئی کتابوں پر ہی ایمان لانا ہے تو ہم تو تیرے بندے ہیں تیری ہی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ رسولﷺ سے لے کر سارے تابعین ، تبع تابعین، سارے مفسرین، محدثین اور مجتہدین کا ایمان تیری ہی کتاب پر تھا تو پھر جب کتابوں پر ہی ایمان لانا ہے تو تیری کتاب کو چھوڑ کر دوسروں کی کتابوں پر کس طرح بغیر بے چون و چرا ایمان لے آئیں۔
خصوصًا جب ان میں بعض باتیں تیرے قرآن مجید کے خلاف صراحتًا نظر آرہی ہوں اور جو باتیں خلاف نظر آرہی ہیں ان کو آنکھیں بند کرکے کس طرح قرآن مجید کے مطابق فرض کرلیں۔ اور جب کہ تونے خودکہا ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ میں نے خود لیا ہے۔
باطل اس (قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے ( سورت فصلت : 42
بلاشبہ یہ (قرآن) ایک فیصلہ کن کلام ہے ( سورت الطارق : 13 ) اور یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔( سورت الاسرا ء : 09
)۔اور یہ قرآن نصیحت حاصل کرنے کے لئے تونے آسان بھی بنایا ہے(القمر:17) ۔اور جن کتابوں کو قرآن کے مقابل لایا جارہا ہے ان کے بارے میں تو تونے ایسی گارنٹیاں نہیں دی ہیں۔بلکہ ایسی گارنٹیاں تو وہ بھی نہیں دے سکتے جو ان کو قرآن پر فوقیت دیتے ہیں۔ یا اللہ انہیں تو ہدایت کی توفیق دے ۔ آمین ثم آمین۔
اور قیامت کے دن جب پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ ( سورت الفرقان : 30 ) تو تو گواہ رہ کہ مجھے تو ان قرآن کو چھوڑنے والوں میں شامل نہ کرنا۔ اللہ کے رسولﷺ تو خود فرماتے تھے کہ کیا میں اللہ کے سوا تلاش کروں کوئی اور فیصلہ کرنے والا حالانکہ فیصلہ کرنے والا تو وہی ہے جس نے نازل کی ہے تمہاری طرف یہ کتاب پوری تفصیل کے ساتھ اور وہ لوگ جنہیں دی ہے ہم نے کتاب ، جانتے ہیں کہ یہ نازل ہوئی ہے تیرے رب کی طرف سے برحق، سو ہرگز نہ ہونا تم شک کرنے والوں میں سے "اَفَغَیْرَاللہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا وَّ ھُوَاَلَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًا، وَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ" (سورہ الانعام:114)۔ سو میں بھی تیرے سوا کسی اور کو فیصلہ کرنے والا نہیں مانتا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
آپ کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جہاں آپ کی ’ قوس ‘ سے ضرورت پوری کی جائے گی ، وہاں خیر القروں کی ’ قوس ‘ کو ہٹایا ہی کیوں جائے گا ؟ یا چودہ صدیاں بغیر قوس کے قرآن سمجھ آتا رہا ، لیکن اب اسے آپ کی قوس کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟ گویا آپ قرآن میں اپنی قوسیں داخل کرکے الگ معنی نکالنے کی سعی کر رہے ہیں ۔
اس بات پر ہٹ کر پھر غور کرلیں ، یا تو صرف قرآن مجید پڑھیں ، اور اگر اس میں قوسیں داخل کرنی ہیں ، تو چودہ صدیوں کی قوسیں ہٹانے اور اپنی جوڑنے کے دلائل گھڑ کے رکھیں ، اور لوگوں کو مطمئن کریں ۔

الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَ‌اجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠﴾

دونوں آیات آپ کے سامنے ہیں ، ’ فإن طلقها ‘ کو ’ علیهما فيما افتدت به ‘ کے ساتھ جوڑیں تو ترجمہ ہی درست نہیں رہتا ، آپ نے جو ترجمہ کیا ہے ، اسے قوسین سمیت ملاحظہ کرلیں :

ان آیات میں ایک تو طلاقوں کی تعداد بتائی گئی ہے ، دوسرا طلاق کے بعد رجوع ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے ، تیسرا طلاق بعوض ہوگی یا بلا عوض ۔
  1. الطلاق مرتان اور فإن طلقہا میں طلاق کی تعداد بتائی گئی ہے
  2. لا یحل لکم أن تاخذوا سے فیماافتدت بہ تک طلاق عوض ہوگی یا بلا عوض ، یہ بات واضح کی گئی ہے
  3. فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان اور فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ میں کس طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے ، کس کے بعد نہیں ہوسکتا ، اس بات کا ذکر ہے ۔
پہلی شق کے دوسرے جملے کو آپ دوسری شق کے ایک جملے سے جوڑ کر تینوں باتوں کو آپس میں خلط ملط کر رہے ہیں ۔
سنت نبوی ، فہم صحابہ اور مفسرین نے ان آیات کو اسی انداز سے فہم و تفہیم کیا ہے ، اور اسی انداز سے عبارت سلیم رہتی ہے ، کہ :
  • طلاقیں تین ہیں ۔
  • دو کے بعد رجوع کرنے یا نہ کرنے کا آپشن ہے ۔ تیسری کے بعد رجوع کا آپشن نہیں ۔
  • طلاق آدمی خود بھی دے سکتا ہے ، اور خاتون مطالبہ کرکے خلع بھی لے سکتی ہے ۔
جس طرح آپ نے تعلق جوڑا ہے ، اس طرح ان تینوں باتوں کی تفصیلات ان آیات سے ثابت کرکے دکھادیں ۔

شاید آپ ’ فدیہ دیکر ‘ لکھنا چاہ رہے تھے ۔
اس آیت کو اس انداز سے خلع کے ساتھ مقید کردینے کا مطلب ہے ، کہ خلع سے ہٹ کر مرد خود جتنی مرضی طلاقیں ، دیتا رہے ، اور رجوع کرتا رہے ؟ جاہلیت میں بھی تو یہی کچھ تھا ، جس کا طعنہ آپ علماء کو دے رہے ہیں ۔
اور پھر اسی ’ إن طلقھا ‘ کے بعد ایک اور طلقہا بھی ہے ، آپ کے نزدیک اگر عورت خلع لے لے ، تو کیا وہ کسی اور مرد سے شادی کرکے دوبارہ خلع والے سے پھر شادی کرسکتی ہے ؟
اگر ہاں ، تو پھر یہ تو وہی حلالہ ہے ، جس کی مذمت آپ بیان کر رہے ہیں ، بات تو پھر وہیں آگئی ، اپنی طرف سے قرآنی مفہوم گھڑنے کا کیا فائدہ ہوا ؟

آپ اوپر بیان کرآئے ہیں یہ جو آپ نے تعلق جوڑے ہیں ، یہ آپ کا ’ خیال ‘ ہے ، اگر آپ اپنے خیال کی بنا پر قوس لگانے کا حق رکھتے ہیں ، تو ہم سنت نبوی ، فہم صحابہ و تابعین اور اجماع امت کی بنا پر اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
باقی آپ کا تعلق جوڑنا غلط ہے ، اس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے ۔
رہا ہمارا تعلق جوڑنا ، اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ الطلاق مرتان میں دو طلاقین ہونا تو بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے ، اس کا وہی انکار کرے گا ، جسے عربی کے لفظ مرۃ اور مرتان کا ترجمہ بھی نہیں آتا ۔
ان دو طلاقوں کے بعد إمساک بمعروف اور تسریح بإحسان یعنی رجوع اور عدم رجوع دونوں آپشن بیان کیے گئے ہیں ، جبکہ ’ فإن طلقہا ‘ کے بعد صرف ایک ہی آپشن ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پہلی دو طلاقوں سے ہٹ کر ایک اور طلاق ہے جسے ہم تیسری طلاق کہتے ہے ۔ پہلی دو میں چونکہ رجوع کا حق ہوتا ہے ، اس لیے ہم انہیں ’ رجعی ‘ کہتے ہیں ، تیسری میں قرآن مجید نے رجوع کا حق ختم کردیا ہے ، اس لیے ہم اسے ’ غیر رجعی ‘ کہتے ہیں ۔

اس سے عجیب وغریب دلیل کیا ہوسکتی ہے ، الطلاق میں کوئی ضمیر نہیں ۔ مرتان تثنیہ کا صیغہ ہے ، درست ،جس کا مطلب ہے طلاقیں دو ہیں ۔ یعنی جنہیں دو کہا گیا وہ طلاقیں ہیں ۔
علیہما میں تثنیہ یعنی دو کی ضمیر ہے ، لیکن اس سے مراد میاں اور بیوی ہیں ، دونوں کا اس انداز سے آپس میں ربط ہے ہی کوئی نہیں ، ایک طرف طلاق کی بات ہے ، دوسری طرف طلاقین لینے دینے والے دو افراد کی ۔
اور مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ کہانی گھڑنے میں خطا کر چکے ہیں ، کیونکہ آپ کے نزدیک تعلق الطلاق مرتان سے نہیں بلکہ فإن طلقہا سے ہے ۔ افتدت بہ اور طلقہا میں دونوں جگہ ضمیر مؤنث ہی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ، کیونکہ اس سے مراد عورت یعنی زوجہ ہی ہے ۔
اس طرح بھی بات سمجھ سے بالکل باہر ہے کہ ضمیر مؤنث کے استعمال کی وجہ سے دونوں کا تعلق کس طرح آپس میں جڑ گیا ہے ، دوسری بات ضمیر کسی ضمیر کی طرف نہیں لوٹتی ، یہاں تو دونوں جگہ ضمیریں ہی ہیں ، اسم یا معنی نام کی کوئی شے نہیں ، پھر بھی آپ تعلق پتہ نہیں کس بنا پر جوڑ رہے ہیں ۔

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی !

طلق میں ضمیر مذکر ہے ، ھا ضمیر مؤنث ہے ، یہ دونوں لوٹ کس طرف رہی ہیں ؟ علیھما خود ضمیر ہے ، فی حرف ہے ، جس طرف ضمیر نہیں لوٹ سکتی ، ما اسم موصولہ ہے ، جس کی طرف بہ میں ھ ضمیر لوٹ رہی ہے ، افتدت فعل ہے ، جس میں بذات خود ھا ضمیر ہے ، جو کسی اور طرف لوٹ رہی ہے ، جس کی طرف آپ ضمیر کو لوٹا رہے ہیں ، اس چیز کی نشاندہی کریں ۔
آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ نحو و لغت کی چند اصطلاحات سےواقف ہیں ، لیکن ان کی حقیقت سے بالکل بے خبر ،
تعلق جوڑنے والی آپ کی ساری کہانی آپ کی لاعلمی اور جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، اس سے پہلے بھی آپ نے لفظ ’ ثلاثۃ مرات ‘ لکھا تھا ، جو نحو کے اعتبار سے قبیح غلطی ہے ۔ اس سب کے باوجود آپ کی جرأت کا یہ حال ہے کہ قرآن مجید کی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔ اس تدبر و تفکر کے نام پر ، جس کی حقیقت سے بھی ناواقف ہیں ، جس کی وضاحت آئندہ کرتا ہوں ۔ إن شاءاللہ ۔

قرآن مجید کا نام لے کر سنت نبوی ، فہم سلف صالحین کو رد کرنے والے اور اپنی سوچ کو نافذ کرنے والوں کو ان کے دعوی کے مطابق ’ اہل قرآن ‘ کہا جاتا ہے ، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے لوگ اہل قرآن بھی نہیں ہیں ۔

سب ہی قرآن کو سپریم اتھارٹی مانتے ہیں ، الحمد للہ ۔ سنت رسول یا احادیث کو ماننا بھی قرآن کو ہی ماننا ہے ۔
جو حدیث آپ نے ذکر کی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ، تفصیل یہاں دیکھ لیں ۔ اس طرح کی باتوں کا پینتیس دفعہ اسی فورم پر جواب دیا جاچکا ہے ۔
اگر اسی غلط اصول کی بنیاد پر خود اسی حدیث کو قرآن مجید پر پیش کریں ، تو بھی یہ مردود ٹھہرتی ہے ، کیونکہ قرآن تو کہتا ہے و ما آتاکم الرسول فخذوہ ، حضور جو دیں لے لیں ، اس میں کہیں نہیں کہ صرف قرآن دیں تو لے لو ، اور کچھ کہیں تو کہیں کہ نہیں پہلے اس بات کی قرآن سے دلیل لائیں ۔

اگر احادیث ابھی تک موجودہیں ، فہم سلف کا نام لینے والے ابھی تک اربوں لوگ موجود ہیں ، اور اس پر عمل پیرا ہیں ، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ چیزیں قرآن مجید سے ٹکراتی نہیں ، ورنہ یہ صدیوں یوں محفوظ نہ رہتیں ، بقول آپ کے پاش پاش ہوجاتیں ۔
البتہ جس طرح کے آپ کے خیالات ہیں ، اس طرح منحرف افکار کئی دفعہ آئے ، اور آج ان لوگوں کا نام لے کر کوئی راضی نہیں ہے ۔

قرآن مجید میں تدبر و تفکر کرنا تو ضروری ہے ، اس میں تو کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بھی حسن ظن رکھیے کہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اور بعد کے علماء کرام بھی عمل پیرا رہے ہوں گے ، لہذا ہمیں اپنے تدبر و تفکر کو لگام دے کر درست سمت رکھنا ہوگا ، اگر یہ تدبر نبوی اور خیر القروں کے تفکر سے ٹکرایا تو پاش پاش ہی ہوگا ، اس کے علاوہ اس کا کوئی انجام نہیں ۔
یہ غلط فہمی دل سے نکال دینی چاہیے کہ تدبر کا حق تبھی پورا ہوگا ، جب ہم قرآن مجید کا نام لے کر لوگوں کو سنت اور احادیث سے برگشتہ کریں گے ۔
قرآن مجید کے معانی و مفاہیم کے ساتھ دہشت گردی کیے بغیر بھی اس پر تدبر و تفکر ہوسکتا ہے ، بالکل ویسے ہی ، جیسے اس قرآن مجید کو لے کر آنے والے نے کیا ، صحابہ کرام کو سکھایا ، اور اس کے طبقہ در طبقہ بعد والوں میں منتقل ہوتا رہا ۔ ہاں بعد والوں میں جہاں کسی نے غلطی کی ہے ، قرآن مجید کی واضح نص اور واضح حدیث رسول کی روشنی میں اس کی تردید کریں ، لیکن چودھویں صدی کے کسی شخص کا ’ خیالی پلاؤ ‘ یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کی بنیاد پر مسلمات دین کا چھوڑ دیا جائے ۔ کیونکہ یہ قرآن مجید میں تدبر و تفکر نہیں بلکہ الحاد ہے ، جس کے متعلق قرآن مجید نے خبر دار کیا ہے :
إن الذین یلحدون فی آیاتنا لا یخفون علینا ۔

بالکل درست ۔
لیکن ایک ہے قرآن کے الفاظ سےمنہ موڑنا ، دوسرا ہے ، اس کے مسلمہ معانی و مفاہیم سے منہ موڑنا ، اب اگر کوئی قرآن مجید میں وارد لفظ صلاۃ کو کہے کہ اس سے مراد ورزش کرنا بھی ہے ، تو ظاہر ہے ، اسے تدبر و تفکر فی القرآن کی بجائے ، الحاد فی القرآن ہی کہا جائے گا ، قرآن آسان ہے ، سمجھنے والوں کے لیے ، لیکن اس کا حلیہ بگاڑنے والوں کے لیے یہ لقمہ تر ثابت نہیں ہوسکتا ۔
لہذا غفلت سے نکلنا چاہیے ، اور قرآن کا اس کے تقاضوں کے مطابق سمجھنا چاہیے ، نہ کہ خالی چیک کی طرف اس کے الفاظ کا غلط استعمال کرنا چاہیے ۔ و منہم أمیون لا یعلمون الکتاب إلا أمانی و إن ہم إلا یظنون والے رویے سے بچنا چاہیے ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت سے نوازے ۔
بہت اچھی کاوش ہے، اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا ء فرمائے ، آمین !
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اس بحث کا کوئی حاصل نہیں ہوگا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ حقائق آپ اور سب کے سامنےآجائیں اگر پہلے آپ بالکل غیر جانبداری سے نیچے دئے ہوئے آپشنز کا مطالعہ کرلیں پھر فیصلہ آپ خود کرلیں کہ کون سا آپشن درست ہے۔
سورہ البقرہ کی آیات نمبر229 اور 230
الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان۔ وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَنْ یَّخَافَااَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ ,فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَاوَمَنْ یَّتَعَدَّحُدُوْدَ اللہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ(229)۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ، فَاِنْطَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَن یَّتَرَاجَعَھَااِن ظَنَّا اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللہِ، وَ تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ یُبَیِّنُھَا لْقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(230) ۔
آپشن نمبر 1
الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان، وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءً, فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ،
طلاق دو بار ہے پھر روک لینا ہے بھلے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو ان کوکچھ بھی، پھر اگراس مردنے اس عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے ،
آپشن نمبر 2
فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ
پھر اگر ڈر ہو تم کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس میں جو بطور فدیہ میں دے عورت ،پھر اگراس مردنے اس عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے

اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ قرآن ، سورت الفرقان : 30
باطل اس
(قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔ قرآن ، سورت فصلت : 42
بلاشبہ یہ
(قرآن) ایک فیصلہ کن کلام ہے۔ قرآن ، سورت الطارق : 13
یقیناً یہ
قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔قرآن ، سورت الاسرا ء : 09
آپ سے بھی گزارش ہے کہ جس طرح محترمی خضر حیات صاحب نے قرآن مجید سے اپنا استدلال پیش کیا ہے اسی طرح آپ بھی اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کر کے ان کے استدلال کی تصحیح یا تضعیف واضح فرمائیں، شکریہ !
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بھائی خضر صاحب آپ کے رسپانس کا شکریہ۔
230 آیت میںفَاِنْ طَلَّقَھَا کا تعلق عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ سے بنتا ہے نہ کہ اس سے ما قبل الطلاق مرّٰتٰن سے ۔یہی میرا خیال ہے، باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا تیسری طلاق نہیں ہے بلکہ اس عورت کی طلاق ہے جو فدیہ لیکر طلاق حاصل کرتی ہے۔کیونکہ یہ تعلق میں نے ثابت کیا ہے اس لئے قوس میں لکھا گیا ہے ورنہ قوسین میں نہ بھی لکھو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔لیکن جب آپ تیسری بار کا لفظ قوسین میں لکھیں گے تو اس تعلق کو الطلاق مرّٰتٰنسے جوڑ کر دکھانا پڑے گا تبھی یہ تیسری طلاق کہلائے گی ۔پھر آپ اسے قوسین میں لکھ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
میں نے اس سلسلے میں دو دلائل دئے تھے کہ
الطلاق مرّٰتٰن اور عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ دونوں کی ضمیریں اور صیغے ایک ہیں۔ اور الطلاق مرّٰتٰن میں ضمیریں اور صیغے مختلف ہیں۔ دوسری وجہ طَلَّقَھَا کامرجع اگر قریب مل رہا ہے تو دور جانے کی ضرورت نہیں ہے عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ قریب ہے اور الطلاق مرّٰتٰن دور۔
ولسلام۔
گویا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ البقرۃ ، آیت نمبر 229 میں فقط دو طلاقوں پر مبنی معاملہ زیرِ بحث ہے جبکہ البقرۃ ، آیت نمبر 230 ایک نئے معاملے پر روشنی ڈالی رہی ہے اور وہ ہے عورت کا فدیہ لے کر طلاق حاصل کرنا۔ یعنی البقرۃ آیت نمبر 229 اور 230 ایک نہیں بلکہ ،دو الگ الگ معاملات پر روشنی ڈال رہی ہیں۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
بہت اچھی کاوش ہے، اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا ء فرمائے ، آمین !
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ
فَإِن طَلَّقَهَا ترجمہ: پس کوئی گناہ نہیں ان دونوں پر اس بات میں کہ عورت فدیہ ادا کرے پھر اگر مرد طلاق دے دے اس عورت کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس میں طلاق متعلق ہوگئی فدیہ دینے والی سے نہ کہ ہم اسے تیسری طلاق کا نام دیں۔ فقرہ تو بن گیا
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
گویا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ البقرۃ ، آیت نمبر 229 میں فقط دو طلاقوں پر مبنی معاملہ زیرِ بحث ہے جبکہ البقرۃ ، آیت نمبر 230 ایک نئے معاملے پر روشنی ڈالی رہی ہے اور وہ ہے عورت کا فدیہ لے کر طلاق حاصل کرنا۔ یعنی البقرۃ آیت نمبر 229 اور 230 ایک نہیں بلکہ ،دو الگ الگ معاملات پر روشنی ڈال رہی ہیں۔
جناب۔ آپ بالکل صحیح سمجھے یہی مطلب ہے میرا۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
جناب۔ آپ بالکل صحیح سمجھے یہی مطلب ہے میرا۔
جناب تھوڑی سی اور مزید وضاحت کردوں :سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229 میں دو موضوع ہیں ایک طلاق کا اور دوسرا خلع بالمال کا۔ آیت نمبر 230 کا تعلق خلع بالمال سے ہےچونکہ خلع بالمال کے فورًا بعد آیت نمبر 230 شروع ہورہی ہے اور گرائمر کے لحاظ سے بھی ان میں تعلق بنتا ہے جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے ۔شکریہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس بحث کا کوئی حاصل نہیں ہوگا
میں تو اس بات کو پہلے سے ہی سمجھتا ہوں ، اس لیے آپ جیسے کسی بھی صاحب سے بات ہو ، تو دلائل کی تفصیل میں جانے کی بجائے ، دو ٹوک عرض کردیتا ہوں کہ آپ کا رخ ہی غلط ہے ، گاڑی جو مرضی پکڑیں ، صحیح طرف جا ہی نہیں سکتے ۔ لیکن پھر بھی کچھ بھولے بھالے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں جی دلائل کا جواب دلائل سے ہونا چاہیے ۔
میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ حقائق آپ اور سب کے سامنےآجائیں اگر پہلے آپ بالکل غیر جانبداری سے
ہمیں آپ کی اس بنیادی سوچ سے ہی اختلا ف ہے کہ قرآن مجید میں غور وفکر کرتے ہوئے ، ہمیں غیر جانبدار ہونا چاہیے ۔
کیونکہ اس میں اگر آپ چودہ صدیوں کے علمی و عملی ذخیرے سے غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں ، تو خود کو خواہشات و ہوا پرستی کے لق و دق صحرا میں چھوڑنے والی بات ہے ۔
آپشن نمبر 2
فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ
پھر اگر ڈر ہو تم کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس میں جو بطور فدیہ میں دے عورت ،پھر اگراس مردنے اس عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے
میں پہلے قدرے تفصیل سے آپ کے اس ’ خیال ‘ کی ’ بے ربطی ‘ واضح کر چکا ہوں ۔
جب آپ نے سنت نبوی کو بھی اس قابل نہیں ماننا کہ وہ آپ کا ’ خیال ‘ درست کرسکے ، تو میرے جیسے ایک عام طالبعلم کی بات آپ کیونکر اثر انداز ہوسکے گی ۔
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ
فَإِن طَلَّقَهَا ترجمہ: پس کوئی گناہ نہیں ان دونوں پر اس بات میں کہ عورت فدیہ ادا کرے پھر اگر مرد طلاق دے دے اس عورت کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس میں طلاق متعلق ہوگئی فدیہ دینے والی سے نہ کہ ہم اسے تیسری طلاق کا نام دیں۔ فقرہ تو بن گیا
فقرہ بنا ہی نہیں ، لیکن اس سطحی فقرے بازی کا احساس اسے ہی ہوسکتا ہے جو یا تو خود صاحب لسان ہو ، یا کم از کم عربی زبان کے کچھ نہ کچھ تقاضوں کا خیال رکھنے والا ہو ۔ دوسری بات صرف فقرہ بناکر خوش ہوتے رہیں ، اس بات پر غور وفکر نہ کریں کہ آپ پہلے سے بنے ایک فقرے کو توڑ کر اس میں مرضی کے فقرے بنانے کی سعی کر رہے ہیں ۔
گویا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ البقرۃ ، آیت نمبر 229 میں فقط دو طلاقوں پر مبنی معاملہ زیرِ بحث ہے جبکہ البقرۃ ، آیت نمبر 230 ایک نئے معاملے پر روشنی ڈالی رہی ہے اور وہ ہے عورت کا فدیہ لے کر طلاق حاصل کرنا۔ یعنی البقرۃ آیت نمبر 229 اور 230 ایک نہیں بلکہ ،دو الگ الگ معاملات پر روشنی ڈال رہی ہیں۔
جناب۔ آپ بالکل صحیح سمجھے یہی مطلب ہے میرا۔
’فلا جناح علیما فیما افتدت بہ ‘ آیت 229 کا حصہ ہے ، فإن طلقھا آیت 230 کا حصہ ہے ۔ اتنی سادہ سی بات تو ذہن میں رکھ لیجیے ۔
جناب تھوڑی سی اور مزید وضاحت کردوں :سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229 میں دو موضوع ہیں ایک طلاق کا اور دوسرا خلع بالمال کا۔ آیت نمبر 230 کا تعلق خلع بالمال سے ہےچونکہ خلع بالمال کے فورًا بعد آیت نمبر 230 شروع ہورہی ہے اور گرائمر کے لحاظ سے بھی ان میں تعلق بنتا ہے جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے ۔شکریہ۔
سنت اور فہم سلف سے رو گردانی کریں گے ، تو اسی طرح جگ ہنسائی بنیں گے ۔
آپ یہ بات نظر انداز کر رہے ہیں کہ آیت نمبر 230 میں ’ فإن طلقھا فلا تحل ‘ کے بعد ’ فإن طلقھا فلا جناح علیہما أن یتراجعا ‘ بھی آرہا ہے ۔
بڑے افسوس کی بات ہے ، قرآن مجید کی آیات کو پزل گیم بنالیا ہے ، اور کھیل بھی کند ذہن بچوں کی طرح رہے ہیں ، إنا للہ و إنا الیہ رجعون ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک استدعا اللہ تعالیٰ کے حضور
اے اللہ ! ہمارے سامنے تیرے رسولﷺ موجود نہیں ہیں کہ ان سے پوچھ لیں۔ تیرے رسول کے وہ صحابہ موجود نہیں جن کے اتباع پر تیری رضامندی موقوف ہے کہ ان سے دریافت کرلیں ۔ ان سابقون لاولون کے تابعین بالاحسان بھی موجود نہیں کہ ان سے حقیقت کا پتہ لگا لیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ محدثین ،مجتہدین اور مفسرین بھی موجود نہیں کہ ان سے با ادب عرض کریں کہ حضورﷺ نے قرآن مجید کے سیاق عبارت اور اصول ادب عربی کے خلاف کس قرآنی بنیاد پر فَاِنْ طَلَّقَھَا کو تیسری طلاق قرار دے دیا۔ ایسی حالت میں اے رب العالمین جب صرف لکھی ہوئی کتابوں پر ہی ایمان لانا ہے تو ہم تو تیرے بندے ہیں تیری ہی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ رسولﷺ سے لے کر سارے تابعین ، تبع تابعین، سارے مفسرین، محدثین اور مجتہدین کا ایمان تیری ہی کتاب پر تھا تو پھر جب کتابوں پر ہی ایمان لانا ہے تو تیری کتاب کو چھوڑ کر دوسروں کی کتابوں پر کس طرح بغیر بے چون و چرا ایمان لے آئیں۔
خصوصًا جب ان میں بعض باتیں تیرے قرآن مجید کے خلاف صراحتًا نظر آرہی ہوں اور جو باتیں خلاف نظر آرہی ہیں ان کو آنکھیں بند کرکے کس طرح قرآن مجید کے مطابق فرض کرلیں۔ اور جب کہ تونے خودکہا ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ میں نے خود لیا ہے۔
باطل اس (قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے ( سورت فصلت : 42
بلاشبہ یہ (قرآن) ایک فیصلہ کن کلام ہے ( سورت الطارق : 13 ) اور یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔( سورت الاسرا ء : 09
)۔اور یہ قرآن نصیحت حاصل کرنے کے لئے تونے آسان بھی بنایا ہے(القمر:17) ۔اور جن کتابوں کو قرآن کے مقابل لایا جارہا ہے ان کے بارے میں تو تونے ایسی گارنٹیاں نہیں دی ہیں۔بلکہ ایسی گارنٹیاں تو وہ بھی نہیں دے سکتے جو ان کو قرآن پر فوقیت دیتے ہیں۔ یا اللہ انہیں تو ہدایت کی توفیق دے ۔ آمین ثم آمین۔
اور قیامت کے دن جب پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ ( سورت الفرقان : 30 ) تو تو گواہ رہ کہ مجھے تو ان قرآن کو چھوڑنے والوں میں شامل نہ کرنا۔ اللہ کے رسولﷺ تو خود فرماتے تھے کہ کیا میں اللہ کے سوا تلاش کروں کوئی اور فیصلہ کرنے والا حالانکہ فیصلہ کرنے والا تو وہی ہے جس نے نازل کی ہے تمہاری طرف یہ کتاب پوری تفصیل کے ساتھ اور وہ لوگ جنہیں دی ہے ہم نے کتاب ، جانتے ہیں کہ یہ نازل ہوئی ہے تیرے رب کی طرف سے برحق، سو ہرگز نہ ہونا تم شک کرنے والوں میں سے "اَفَغَیْرَاللہِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا وَّ ھُوَاَلَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًا، وَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ" (سورہ الانعام:114)۔ سو میں بھی تیرے سوا کسی اور کو فیصلہ کرنے والا نہیں مانتا۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ، اور غلط صحیح کا شعور عطا فرمائے ، کہیں ہم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائیں ، کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ، کہیں ہم ان بد نصیب لوگوں میں نہ ہوں ، جن کے متعلق تیرا فرمان ہے : أن تحبط أعمالکم و أنتم لا تشعرون ۔اور جن کے متعلق تو نے فرمایا ہے : الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا و ہم یحسبون أنہم یحسنون صنعا ‘ ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

گویا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ البقرۃ ، آیت نمبر 229 میں فقط دو طلاقوں پر مبنی معاملہ زیرِ بحث ہے جبکہ البقرۃ ، آیت نمبر 230 ایک نئے معاملے پر روشنی ڈالی رہی ہے اور وہ ہے عورت کا فدیہ لے کر طلاق حاصل کرنا۔ یعنی البقرۃ آیت نمبر 229 اور 230 ایک نہیں بلکہ ،دو الگ الگ معاملات پر روشنی ڈال رہی ہیں۔
رانا صاحب 100 مرتبہ بھی تسبیہ کی طرح بار بار لکھیں انہیں وہ دو ہی نظر آئیں گی۔ محدود
علم۔ "دو طلاق کے بعد رکھنا یا چھوڑنا" رکھنے کے لئے رجوع اور چھوڑنے کے لئے کیا؟
کیا چھوڑنے کے لئے مرد دوسری طلاق سے پہلے کہے گا کہ میں دوسری طلاق کے بعد تمہیں چھوڑ دوں گا جس پر یہ ہے حساب کتاب، اب میں تمہیں حوش و حواس میں دوسری طلاق دے رہا ہوں؟ تو رکھنا اور اسطرح کا چھوڑنا دونوں صورتوں میں رجوع کا حق عورت کے پاس ہو گا۔ وہ مرد پر تب حلال نہیں ہو گی جب تک آیت 230 والے حکم پر عمل نہیں ہو گا۔ جیسا دو طلاق کے بعد رکھنا یا چھوڑنا تو چھوڑنے کے لئے پھر اسے طلاق دینا نہ کہ زبان بند کر کے آنکھوں سے اشارہ سے اسے چھوڑنا۔ اس پر زبان سے جو کلمات ادا ہونگے وہ تیسری طلاق ہی ہو گی۔

اب اگر رانا صاحب کے پاس اس سے بڑھ کے آگے کچھ لکھنے کو ہے تو پیش کریں ورنہ بار بار 229 پر اپنا اور دوسرں کا وقت ضائع نہ کریں۔ شکریہ!

والسلام
 
Top