مردے تو دفن ہونے سے پہلے ہی بولنے بھی لگتے ہیں یہ امام بخاری نے بیان کیا
قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إذا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ ، فاحتملَها الرجالُ على أعناقِهم ، فإن كانت صالحةً قالت : قَدِّمونِي قَدِّمونِي . وإن كانت غيرَ صالحةٍ ، قالت : يا ويلَها ! أين يَذْهَبُونَ بها؟ يَسْمَعُ صوتَها كلُّ شيءٍ إلا الإنسانَ ، ولو سَمِعَها الإنسانُ لَصُعِقَ .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1380
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1316
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1314
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 266
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1908
مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 15/39
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1907
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 444
الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 1413
ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سواہر مخلوق خدا سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب مردے کو قبرستان لے جانے کے لئے چارپائی پر رکھا جاتا ہے اس مردے کو اتنا ادراک ہوتا ہے لوگ مجھے چارپائی پر ڈال کے اور اٹھا کہ قبرستان میں دفن کر نے کے لئے لے جارہے ہیں اور یہ ادارک میت نیک ہو یا گناہ گار دونوں کو ہوتا ہے جب مردے کو ایک ایسی بات کا پتہ اس کے مرنے کے بعد بھی چل جاتا ہے تو پھر اس مردے کے کسی کی بات سن لینے کیا چیز حائل ہوسکتی ہے جب کہ صحیح بخاری میں ہی بیان ہوا کہ مردہ دفن کرکے جانے والوں کی جوتیوں کی آواز بھی سن رہا ہوتا اس حدیث میں بھی مردے کی اس سماعت میں اس کے نیک یا بد ہونے کو دخل نہیں ہوتا بلکہ تمام ہی مردے چاہے وہ نیک ہو یا بد یہ سن لیتے ہیں
اور پھر مردوں کی سماعت کے تو ابن تیمیہ اور ابن قیم بھی قائل ہیں بلکہ میں نے تو کہیں یہ بھی پڑھا ہے کہ ابن تیمیہ تو اس بات کے بھی قائل کہ جب مردے کی قبر پر کوئی پرندہ آتا ہے تو مردہ اس بات کا بھی ادراک رکھتا ہے کہ یہ پرندہ نر ہے یا مادہ
والسلام
حدیث بالکل صحیح ہے، لیکن اس کے معنی سے جو عقیدہ گھڑا گیا ہے وہ غلط ہے، آپ سے میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں آپ ان کے ایمانداری سے جواب دے دیں، جب آپ جواب نہیں دیتے تو پھر گفتگو کا مزہ نہیں آتا، بہتر یہی ہوتا ہے کہ خود بھی سوال کریں اور مخالف کے سوال کا جواب بھی دیں، امید ہے آپ اس بات سے متفق ہوں گے۔
حدیث میں مردے کے بولنے کا ذکر ہے، اور اس طرح اور بھی بہت ساری باتیں ہیں جو میت سے وابستہ ہیں، جیسے میت دفنانے والے کے قدموں کی آواز کا سننا وغیرہ،
ہمارا منہج یہ ہے کہ یہ تمام معاملہ برزخی زندگی کا ہے جو دنیاوی زندگی سے مختلف ہے۔
آپ کا منہج یہ ہے کہ یہ دنیاوی زندگی پر محمول ہے، اس سے آپ نے یہ عقیدہ واضح کیا کہ جو اللہ نے نیک اور متقی بندے وفات پاتے ہیں ان کی قبر پر جا کر ان سے مدد مانگنا، یا ان کو پکارنا یا ان کو دور و نزدیک سے پکارنا آپ درست سمجھتے ہیں۔
سوالات درج ذیل ہیں:
1) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوۃ کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر مدد کیوں نہیں مانگی؟
2) جب جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ پیش آیا کہ لشکر کو روانہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، تو اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر مشورہ کیوں نہ کیا؟
3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کی دعا کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کیوں نہیں گئے؟
4) جنگوں میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو مصیبت پیش آتی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں مدد نہیں مانگی؟
5) کربلا میں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جا رہا تھا ، وہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کیوں نہیں مانگی؟ کیوں نہیں پکارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو؟
5) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی بھر مردوں سے مدد کیوں نہیں مانگی؟ اور کیوں قبر پرستی کے خلاف انہوں نے فتوے دیے اور صوفیوں کی تکفیر بھی کی؟
غرض سوالات تو بہت ہیں، لیکن آپ ان پانچ پوائنٹس کا علیحدہ علیحدہ اقتباس لے کر اپنا موقف واضح کریں۔ اگر آپ بھی اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر گفتگو کو پسند کرتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ میرے ان سوالات کے جوابات بھی دیں۔
نوٹ: یہ صرف چند سوالات ہیں، آگے بہت سارے سوالات میرے پاس اور بھی ہیں۔ اور آگے دیگر صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور سنن اربعہ کی دیگر صحیح یا حسن درجے کی احادیث پر بھی بات کریں گے۔ ان شاءاللہ
ابھی آپ ان پانچ پوائنٹس کا ایسا مدلل اور مطمئن جواب دیں جو سمجھ میں بھی آئے اور مطمئن کر دینے والا بھی ہو۔