• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
السلام علیکم ارسلان بھائی!
تھریڈ کی خوبصورتی،اہمیت اور حق باتوں کی طرف توجہ ختمِ کرنے کے لئے علی بہرام نے فضول اعتراضات شروع کردیئے ہیں اس لیے آپ سے گزارش کروں گا کہ ان فضول اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے تھریڈ کو جاری رکھیں.
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
پھر بھی صحابہ نے رسول اللہﷺ کو بشر نہ کہا جب کہ رسول اللہ نے ان سے پوچھا بھی کہ کون تم میں میری مثل ہے اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ آپ صحابہ پر اعتراض فرمارہے ہوں کہ جب اللہ نے رسول اللہﷺ کو بشر کہنے کا حکم دیا اور صحابہ نے اللہ کا حکم نہیں مانا یا پھر یہ کہ آپ کی فہم صحابہ سے بھی اعلیٰ ہے کہ جو بات وہ نہ سمجھ سکے وہ آپ نے سمجھ لی

ایسی لئے عرض کیا تھا کہ کلمہ تو حق ہے مگر اس لی جانے والی مراد مردود ہے
اگر میں نے صحابہ سے بھی ثابت کر دیا تو شیعت چھوڑ کر اسلام قبول کر لو گے؟

دیکھو! تمہاری عقل پر کس قدر پردہ پڑا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہماری (یعنی امتیوں) کی مانند بشر ہونے کا کہیں ، اب کیا خیال ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا معاذاللہ اللہ کا حکم نہیں مانا؟ ضرور مانا، اور یہ بات بتائی کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کے بعد کوئی صحابی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات من و عن مانتے تھے وہ بشر نہ کہیں یا نہ مانیں، یہ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں

تمہارے پاس دلائل تو ہیں نہیں ، عقلی طور پر بھی تمہاری بات غلط ہے۔ دراصل اصل بات جو یہ ہے وہ یہ کہ تم ہر معاملے میں صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی تنقیص ڈھونڈتے ہو، تم شیعہ منافق ہو، تقیہ کر کے صحابہ کی بات کر لیتے ہو گے۔واللہ اعلم

میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اسلام قبول کر لو، فائدے میں رہو گے۔ان شاءاللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ارسلان بھائی!
تھریڈ کی خوبصورتی،اہمیت اور حق باتوں کی طرف توجہ ختمِ کرنے کے لئے علی بہرام نے فضول اعتراضات شروع کردیئے ہیں اس لیے آپ سے گزارش کروں گا کہ ان فضول اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے تھریڈ کو جاری رکھیں.
وعلیکم السلام
بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اگر میں نے صحابہ سے بھی ثابت کر دیا تو شیعت چھوڑ کر اسلام قبول کر لو گے؟

دیکھو! تمہاری عقل پر کس قدر پردہ پڑا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہماری (یعنی امتیوں) کی مانند بشر ہونے کا کہیں ، اب کیا خیال ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا معاذاللہ اللہ کا حکم نہیں مانا؟ ضرور مانا، اور یہ بات بتائی کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کے بعد کوئی صحابی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات من و عن مانتے تھے وہ بشر نہ کہیں یا نہ مانیں، یہ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں

تمہارے پاس دلائل تو ہیں نہیں ، عقلی طور پر بھی تمہاری بات غلط ہے۔ دراصل اصل بات جو یہ ہے وہ یہ کہ تم ہر معاملے میں صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی تنقیص ڈھونڈتے ہو، تم شیعہ منافق ہو، تقیہ کر کے صحابہ کی بات کر لیتے ہو گے۔واللہ اعلم

میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اسلام قبول کر لو، فائدے میں رہو گے۔ان شاءاللہ
شاید آپ کی نظر میں صحیح بخاری کی دلیل دلیل نہیں لیجئے اب آپ کی طرف سے پیش کی گئی قرآن کی ادھوری آیت کو پورا تلاوت کرتے ہیں اور پھر اس آیت قرآنی پر غور کرتے کہ کیوں صحابہ نے رسول اللہﷺ کے سوال پر بھی اس آیت کو تلاوت نہیں کیا
صحابہ اس آیت قرآنی کی تلاوت اس طرح فرماتے تھے

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
الکھف : 110

اگر اس آیت کی تلاوت وہابی طریقے سے کی جائے یعنی صرف قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ تک تو پھر انسان وہابی کی طرح گمراہ ہوسکتا ہے اور اگر صحابی کے طریقے پر اس آیت کو پورا پڑھاجائے تو پھر انسان اس آیت قرآنی سے گمراہ نہیں ہوسکتا کیونکہ صحابی یہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ وحی نازل فرماتا ہے اس لئے رسول اللہﷺ کے سوال أيُّكم مثلي "تم میں کون میری مثل ہے "کے جواب میں صحابی ، وہابی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ آپ بھی ہماری مثل بشر ہو بلکہ وہ خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ صحابی جانتے رسول اللہﷺ کی طرح اللہ ہم پر وحی نازل نہیں فرماتا
والسلام
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شاید آپ کی نظر میں صحیح بخاری کی دلیل دلیل نہیں لیجئے اب آپ کی طرف سے پیش کی گئی قرآن کی ادھوری آیت کو پورا تلاوت کرتے ہیں اور پھر اس آیت قرآنی پر غور کرتے کہ کیوں صحابہ نے رسول اللہﷺ کے سوال پر بھی اس آیت کو تلاوت نہیں کیا
صحابہ اس آیت قرآنی کی تلاوت اس طرح فرماتے تھے

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
الکھف : 110

اگر اس آیت کی تلاوت وہابی طریقے سے کی جائے یعنی صرف قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ تک تو پھر انسان وہابی کی طرح گمراہ ہوسکتا ہے اور اگر صحابی کے طریقے پر اس آیت کو پورا پڑھاجائے تو پھر انسان اس آیت قرآنی سے گمراہ نہیں ہوسکتا کیونکہ صحابی یہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ وحی نازل فرماتا ہے اس لئے رسول اللہﷺ کے سوال أيُّكم مثلي "تم میں کون میری مثل ہے "کے جواب میں صحابی ، وہابی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ آپ بھی ہماری مثل بشر ہو بلکہ وہ خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ صحابی جانتے رسول اللہﷺ کی طرح اللہ ہم پر وحی نازل نہیں فرماتا
والسلام
استغفراللہ
اللہ تعالیٰ عقیدے کی خرابیوں سے محفوظ فرمائے آمین
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾۔۔۔سورة الفرقان

السلام علیکم
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مردے تو دفن ہونے سے پہلے ہی بولنے بھی لگتے ہیں یہ امام بخاری نے بیان کیا
قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إذا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ ، فاحتملَها الرجالُ على أعناقِهم ، فإن كانت صالحةً قالت : قَدِّمونِي قَدِّمونِي . وإن كانت غيرَ صالحةٍ ، قالت : يا ويلَها ! أين يَذْهَبُونَ بها؟ يَسْمَعُ صوتَها كلُّ شيءٍ إلا الإنسانَ ، ولو سَمِعَها الإنسانُ لَصُعِقَ .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1380
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1316
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1314
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 266
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1908
مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 15/39
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1907
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 444
الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 1413

ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سواہر مخلوق خدا سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے۔



اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب مردے کو قبرستان لے جانے کے لئے چارپائی پر رکھا جاتا ہے اس مردے کو اتنا ادراک ہوتا ہے لوگ مجھے چارپائی پر ڈال کے اور اٹھا کہ قبرستان میں دفن کر نے کے لئے لے جارہے ہیں اور یہ ادارک میت نیک ہو یا گناہ گار دونوں کو ہوتا ہے جب مردے کو ایک ایسی بات کا پتہ اس کے مرنے کے بعد بھی چل جاتا ہے تو پھر اس مردے کے کسی کی بات سن لینے کیا چیز حائل ہوسکتی ہے جب کہ صحیح بخاری میں ہی بیان ہوا کہ مردہ دفن کرکے جانے والوں کی جوتیوں کی آواز بھی سن رہا ہوتا اس حدیث میں بھی مردے کی اس سماعت میں اس کے نیک یا بد ہونے کو دخل نہیں ہوتا بلکہ تمام ہی مردے چاہے وہ نیک ہو یا بد یہ سن لیتے ہیں
اور پھر مردوں کی سماعت کے تو ابن تیمیہ اور ابن قیم بھی قائل ہیں بلکہ میں نے تو کہیں یہ بھی پڑھا ہے کہ ابن تیمیہ تو اس بات کے بھی قائل کہ جب مردے کی قبر پر کوئی پرندہ آتا ہے تو مردہ اس بات کا بھی ادراک رکھتا ہے کہ یہ پرندہ نر ہے یا مادہ
والسلام
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مردے تو دفن ہونے سے پہلے ہی بولنے بھی لگتے ہیں یہ امام بخاری نے بیان کیا
قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إذا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ ، فاحتملَها الرجالُ على أعناقِهم ، فإن كانت صالحةً قالت : قَدِّمونِي قَدِّمونِي . وإن كانت غيرَ صالحةٍ ، قالت : يا ويلَها ! أين يَذْهَبُونَ بها؟ يَسْمَعُ صوتَها كلُّ شيءٍ إلا الإنسانَ ، ولو سَمِعَها الإنسانُ لَصُعِقَ .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1380
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1316
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1314
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 266
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1908
مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 15/39
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1907
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 444
الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 1413

ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سواہر مخلوق خدا سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے۔



اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب مردے کو قبرستان لے جانے کے لئے چارپائی پر رکھا جاتا ہے اس مردے کو اتنا ادراک ہوتا ہے لوگ مجھے چارپائی پر ڈال کے اور اٹھا کہ قبرستان میں دفن کر نے کے لئے لے جارہے ہیں اور یہ ادارک میت نیک ہو یا گناہ گار دونوں کو ہوتا ہے جب مردے کو ایک ایسی بات کا پتہ اس کے مرنے کے بعد بھی چل جاتا ہے تو پھر اس مردے کے کسی کی بات سن لینے کیا چیز حائل ہوسکتی ہے جب کہ صحیح بخاری میں ہی بیان ہوا کہ مردہ دفن کرکے جانے والوں کی جوتیوں کی آواز بھی سن رہا ہوتا اس حدیث میں بھی مردے کی اس سماعت میں اس کے نیک یا بد ہونے کو دخل نہیں ہوتا بلکہ تمام ہی مردے چاہے وہ نیک ہو یا بد یہ سن لیتے ہیں
اور پھر مردوں کی سماعت کے تو ابن تیمیہ اور ابن قیم بھی قائل ہیں بلکہ میں نے تو کہیں یہ بھی پڑھا ہے کہ ابن تیمیہ تو اس بات کے بھی قائل کہ جب مردے کی قبر پر کوئی پرندہ آتا ہے تو مردہ اس بات کا بھی ادراک رکھتا ہے کہ یہ پرندہ نر ہے یا مادہ
والسلام
حدیث بالکل صحیح ہے، لیکن اس کے معنی سے جو عقیدہ گھڑا گیا ہے وہ غلط ہے، آپ سے میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں آپ ان کے ایمانداری سے جواب دے دیں، جب آپ جواب نہیں دیتے تو پھر گفتگو کا مزہ نہیں آتا، بہتر یہی ہوتا ہے کہ خود بھی سوال کریں اور مخالف کے سوال کا جواب بھی دیں، امید ہے آپ اس بات سے متفق ہوں گے۔

حدیث میں مردے کے بولنے کا ذکر ہے، اور اس طرح اور بھی بہت ساری باتیں ہیں جو میت سے وابستہ ہیں، جیسے میت دفنانے والے کے قدموں کی آواز کا سننا وغیرہ، ہمارا منہج یہ ہے کہ یہ تمام معاملہ برزخی زندگی کا ہے جو دنیاوی زندگی سے مختلف ہے۔

آپ کا منہج یہ ہے کہ یہ دنیاوی زندگی پر محمول ہے، اس سے آپ نے یہ عقیدہ واضح کیا کہ جو اللہ نے نیک اور متقی بندے وفات پاتے ہیں ان کی قبر پر جا کر ان سے مدد مانگنا، یا ان کو پکارنا یا ان کو دور و نزدیک سے پکارنا آپ درست سمجھتے ہیں۔

سوالات درج ذیل ہیں:
1) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوۃ کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر مدد کیوں نہیں مانگی؟
2) جب جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ پیش آیا کہ لشکر کو روانہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، تو اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر مشورہ کیوں نہ کیا؟
3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کی دعا کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کیوں نہیں گئے؟
4) جنگوں میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو مصیبت پیش آتی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں مدد نہیں مانگی؟
5) کربلا میں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جا رہا تھا ، وہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کیوں نہیں مانگی؟ کیوں نہیں پکارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو؟
5) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی بھر مردوں سے مدد کیوں نہیں مانگی؟ اور کیوں قبر پرستی کے خلاف انہوں نے فتوے دیے اور صوفیوں کی تکفیر بھی کی؟

غرض سوالات تو بہت ہیں، لیکن آپ ان پانچ پوائنٹس کا علیحدہ علیحدہ اقتباس لے کر اپنا موقف واضح کریں۔ اگر آپ بھی اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر گفتگو کو پسند کرتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ میرے ان سوالات کے جوابات بھی دیں۔


نوٹ: یہ صرف چند سوالات ہیں، آگے بہت سارے سوالات میرے پاس اور بھی ہیں۔ اور آگے دیگر صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور سنن اربعہ کی دیگر صحیح یا حسن درجے کی احادیث پر بھی بات کریں گے۔ ان شاءاللہ

ابھی آپ ان پانچ پوائنٹس کا ایسا مدلل اور مطمئن جواب دیں جو سمجھ میں بھی آئے اور مطمئن کر دینے والا بھی ہو۔
 
Top