• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حدیث بالکل صحیح ہے، لیکن اس کے معنی سے جو عقیدہ گھڑا گیا ہے وہ غلط ہے، آپ سے میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں آپ ان کے ایمانداری سے جواب دے دیں، جب آپ جواب نہیں دیتے تو پھر گفتگو کا مزہ نہیں آتا، بہتر یہی ہوتا ہے کہ خود بھی سوال کریں اور مخالف کے سوال کا جواب بھی دیں، امید ہے آپ اس بات سے متفق ہوں گے۔

حدیث میں مردے کے بولنے کا ذکر ہے، اور اس طرح اور بھی بہت ساری باتیں ہیں جو میت سے وابستہ ہیں، جیسے میت دفنانے والے کے قدموں کی آواز کا سننا وغیرہ، ہمارا منہج یہ ہے کہ یہ تمام معاملہ برزخی زندگی کا ہے جو دنیاوی زندگی سے مختلف ہے۔

آپ کا منہج یہ ہے کہ یہ دنیاوی زندگی پر محمول ہے، اس سے آپ نے یہ عقیدہ واضح کیا کہ جو اللہ نے نیک اور متقی بندے وفات پاتے ہیں ان کی قبر پر جا کر ان سے مدد مانگنا، یا ان کو پکارنا یا ان کو دور و نزدیک سے پکارنا آپ درست سمجھتے ہیں۔

سوالات درج ذیل ہیں:
1) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوۃ کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر مدد کیوں نہیں مانگی؟
2) جب جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ پیش آیا کہ لشکر کو روانہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، تو اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر مشورہ کیوں نہ کیا؟
3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کی دعا کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کیوں نہیں گئے؟
4) جنگوں میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو مصیبت پیش آتی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں مدد نہیں مانگی؟
5) کربلا میں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جا رہا تھا ، وہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کیوں نہیں مانگی؟ کیوں نہیں پکارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو؟
5) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی بھر مردوں سے مدد کیوں نہیں مانگی؟ اور کیوں قبر پرستی کے خلاف انہوں نے فتوے دیے اور صوفیوں کی تکفیر بھی کی؟

غرض سوالات تو بہت ہیں، لیکن آپ ان پانچ پوائنٹس کا علیحدہ علیحدہ اقتباس لے کر اپنا موقف واضح کریں۔ اگر آپ بھی اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر گفتگو کو پسند کرتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ میرے ان سوالات کے جوابات بھی دیں۔


نوٹ: یہ صرف چند سوالات ہیں، آگے بہت سارے سوالات میرے پاس اور بھی ہیں۔ اور آگے دیگر صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور سنن اربعہ کی دیگر صحیح یا حسن درجے کی احادیث پر بھی بات کریں گے۔ ان شاءاللہ

ابھی آپ ان پانچ پوائنٹس کا ایسا مدلل اور مطمئن جواب دیں جو سمجھ میں بھی آئے اور مطمئن کر دینے والا بھی ہو۔
آپ کے ان سارے سوالوں کا جواب ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن کثیر کی زبانی
أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه

الراوي: مالك بن أنس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری

''حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔''
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آپ کے ان سارے سوالوں کا جواب ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن کثیر کی زبانی
أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه

الراوي: مالك بن أنس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری

''حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔''
نہیں نہیں نہیں۔۔۔ دیکھیں میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ آپ ہر بات کا الگ الگ جواب دیں، یہ بات تو پھر کسی نتیجے پر تو نہ پہنچ سکی نا۔
اچھا چلیں اسی حدیث کو لے لیتے ہیں۔
1) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کربلا روانہ ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کیوں نہیں آئے؟ جب کہ آپ کے بقول فوت شدہ لوگ دنیا میں زندہ ہونے کی طرح زندہ ہوتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پھر خاتم الانبیاء تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کیوں نہیں گئے قبر نبوی پر؟

2) طاہرالقادری کے ترجمے میں ان الفاظ پر غور کریں
اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے
یہاں صحابی نے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی درخواست کی ہے، گویا صحابی کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دینے والا نہیں، نبی نا زندہ ہوتے ہوئے کچھ دے سکتے ہیں نہ فوت ہونے کے بعد۔ صحابی نے ڈائریکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کیوں نہیں مانگی؟

3) یہ خواب سننے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ڈائریکٹ اللہ کو پکارا، آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کیوں نہیں گئے؟ وہاں جا کر کیوں نہیں پکارا؟

سوالات تو بہت ہیں، لیکن مجھے افسوس ہوا ہے کہ آپ نے پرانی روش اختیار کی ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
2) طاہرالقادری کے ترجمے میں ان الفاظ پر غور کریں

یہاں صحابی نے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی درخواست کی ہے، گویا صحابی کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دینے والا نہیں، نبی نا زندہ ہوتے ہوئے کچھ دے سکتے ہیں نہ فوت ہونے کے بعد۔ صحابی نے ڈائریکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کیوں نہیں مانگی؟
فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ
ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ!

رسول اللہﷺ کی قبر انور پر جاکر رسول اللہ ﷺکو یا رسول اللہﷺ پکارنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا اس روایت سے ثابت ہورہا !!!! غور فرمائیں

نبی نا زندہ ہوتے ہوئے کچھ دے سکتے ہیں نہ فوت ہونے کے بعد
استغفر اللہ
کتنا برا کلمہ ہے اللہ آپ کو معاف فرمائے
صحابہ کا عقیدہ کہ رسول اللہﷺ اپنی حیات میں کسی کا سوال رد نہیں فرماتے "
یعنی جب بھی کسی نے رسول اللہﷺ سے کچھ مانگا آپ ﷺ نے ایسے عطاء کیا حتی کہ خود آپ ﷺ کو اس چیز کی ضرورت اس سوال کرنے والے سے ذیادہ ہوتی اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اس کا سوال رد نہیں فرماتے تھے
لیکن صرف قرآن و حدیث کے مطابق عقائد کا دعویٰ کرنے والوں کے عقائد کیا ہیں اس پر ان کی ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی اللہ انھیں ہدایت عطاء فرمائے
ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے (حاضرین سے) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ (تم نے ٹھیک بتایا) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طور پر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے ' یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجئیے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے (مانگ کر) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔
صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ،حدیث نمبر : 1277 ، اردو ترجمہ : داؤد راز

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا ﷺ تیرا
نہیں، سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا​

یہ تو اس دنیا میں اور حیات میں رسول اللہﷺ کی سخاوت کی ایک ادنیٰ مثال ہے آئیں دیکھتے ہیں کل قیامت میں جب تمام لوگ میدان حشر میں جمع ہونگے اور اللہ تبارک تعالیٰ اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا اس دن بھی رسول اللہﷺ سے ہی مانگا جائے گا اور رسول اللہﷺ ان کے سوال پر انھیں اپنی شفاعت عطاء فرمائیں گے
وقال : إنَّ الشمسَ تدنو يومَ القيامةِ ، حتى يبلُغَ العَرَقُ نصفَ الأُذُنِ ، فبينا هم كذلكَ استغاثواْ بآدمَ ، ثم بموسى ، ثم بمحمدٍ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے
صحیح بخاری : حدیث نمبر 1475، ترجمہ داؤد راز
(استغاثواْ کا ترجمہ مدد مانگنا بھی کیا جاسکتا ہے )
اللہ سے دعا ہے ہم سب کو گمراہی دور رکھے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ
ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ!
رسول اللہﷺ کی قبر انور پر جاکر رسول اللہ ﷺکو یا رسول اللہﷺ پکارنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا اس روایت سے ثابت ہورہا !!!! غور فرمائیں
ضعیف روایت۔۔۔ ناقابل حجت۔ہماری تحقیق کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے، اس تھریڈ میں آپ کی گفتگو جاری ہے، لہذا اس موضوع پر مذکورہ تھریڈ میں ہی گفتگو کریں، خضر حیات بھائی نے آپ کو وہاں جواب دیا ہے اور دیگر علماء کو بھی میں نے ٹیگ کر دیا ہے۔
استغفر اللہ
کتنا برا کلمہ ہے اللہ آپ کو معاف فرمائے
صحابہ کا عقیدہ کہ رسول اللہﷺ اپنی حیات میں کسی کا سوال رد نہیں فرماتے "
یعنی جب بھی کسی نے رسول اللہﷺ سے کچھ مانگا آپ ﷺ نے ایسے عطاء کیا حتی کہ خود آپ ﷺ کو اس چیز کی ضرورت اس سوال کرنے والے سے ذیادہ ہوتی اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اس کا سوال رد نہیں فرماتے تھے
لیکن صرف قرآن و حدیث کے مطابق عقائد کا دعویٰ کرنے والوں کے عقائد کیا ہیں اس پر ان کی ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی اللہ انھیں ہدایت عطاء فرمائے
ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے (حاضرین سے) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ (تم نے ٹھیک بتایا) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طور پر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے ' یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجئیے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے (مانگ کر) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔
صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ،حدیث نمبر : 1277 ، اردو ترجمہ : داؤد راز
میرا یہ کہنا کہ(نبی نا زندہ ہوتے ہوئے کچھ دے سکتے ہیں نہ فوت ہونے کے بعد) مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو کچھ نہ دے سکنا مراد تھا۔ کسی نبی یا رسول نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مافوق الاسباب طریقے سے دنیا یا آخرت میں کچھ دے سکتے ہیں، مثال کے طور پر رزق کا معاملہ ہے، تو رزق بھی اللہ کے سوا کوئی دینے والا نہیں، کوئی نبی یا رسول مافوق الاسباب طریقے سے رزق دینے پر قادر نہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ﴿٥٠﴾۔۔۔سورة الانعام
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟
نیز
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّـهُ خَيْرًا ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٣١﴾۔۔۔سورة هود
میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں، ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ﻇالموں میں ہو جائے گا

صحیح بخاری میں ہے:
قَالَ أَتَيْتُ جَابِرًا - رضى الله عنه - فَقَالَ إِنَّا يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شَدِيدَةٌ ، فَجَاءُوا النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالُوا هَذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضَتْ فِى الْخَنْدَقِ ، فَقَالَ « أَنَا نَازِلٌ » . ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ
صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق
ایمن بیان کرتے ہیں کہ میں جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس آیا انہوں نے بیان کیا ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے اتنے میں ایک قطعہ سخت نکلا (جو کدال سے کھدنہ سکا) لوگ نبیﷺ کے پاس آئے آپؐ سے عرض کیا یہ ایک قطعہ سخت ہے جو خندق میں نکل آیا (اب کیا کرنا) آپؐ نے فرمایا (ٹھہرو) میں خود اترتا ہوں (اس کو کھود دیتا ہوں) پھر آپﷺ کھڑے ہوئے بھوک کی وجہ سے آپ ﷺ کے پیٹ پر پتھر بندھا تھا۔
کوئی بھی نبی اور رسول رزق مافوق الاسباب طریقے سے نہیں دے سکتا، جبکہ اللہ تعالیٰ رب العالمین رزق کا مالک ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٦﴾۔۔۔سورۃ ھود
ترجمہ: زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے
نیز
وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿١١﴾۔۔۔سورۃ الجمعہ
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے
نبی موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اللہ سے رزق مانگا:
فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ﴿٢٤﴾۔۔۔سورۃ القصص
ترجمہ: پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں
نبی عیسی علیہ السلام نے اپنے رب اللہ سے رزق مانگا:
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّـهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿١١٤﴾۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما! کہ وه ہمارے لئے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد کے ہیں سب کے لئے ایک خوشی کی بات ہوجائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور تو ہم کو رزق عطا فرمادے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے
تو اس سے ظاہر ہوا ہے اللہ کے سوا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقے سے روزی دینے پر قادر نہیں۔ آپ نے جو حدیث بیان کی ہے اس میں ما تحت الاسباب دینے کی بات ہے۔ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، جبکہ غزوہ خندق والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ باقی رہا صحابی کا یہ کہنا (آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے) تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کی خیرخواہی چاہتے ہیں، اگر کوئی دنیاوی ضرورت کے تحت کوئی چیز مانگتا ہے تو ایک عام رحم دل انسان بھی دوسروں کو وہ چیز دے دیتا ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو اللہ نے فرمایا (لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾۔۔۔سورة التوبه) تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ چیز ہو اور وہ اپنے امتیوں کو نہ دیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا ﷺ تیرا
نہیں، سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا​
کاش کہ آپ لوگ اتنی محبت اللہ سے کریں، جس سے انبیاء بھی مانگتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین بھی مانگتے تھے،اہل بیت رضی اللہ عنھم بھی مانگتے تھے۔ تابعین تبع تابعین، ائمہ دین، سلف صالحین، ائمہ اربعہ سب اللہ سے مانگتے تھے۔
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا ﴿٣٠﴾۔۔۔سورۃ الاسراء
ترجمہ: یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشاده کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ۔ یقیناً وه اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے واﻻ ہے
آپ اللہ کو پکاریں تو کبھی بھی "نہیں" نہیں سنیں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿٦٠﴾۔۔۔سورۃ الغافر
ترجمہ: اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه ابھی ابھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے

اور فرمایا:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴿١٨٦﴾۔۔۔سورة البقرة
ترجمہ: جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لڑکے! میں تمہیں ایک بات سیکھاتا ہوں: اللہ کو تم یاد رکھنا ؛ وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا ؛ اُسے اپنی مدد کیلئے ہر جگہ پاؤ گے، جب بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگو، اور جب بھی مدد طلب کرنی ہو ایک اللہ ہی سے مدد مانگو) ترمذی
یہ تو اس دنیا میں اور حیات میں رسول اللہﷺ کی سخاوت کی ایک ادنیٰ مثال ہے آئیں دیکھتے ہیں کل قیامت میں جب تمام لوگ میدان حشر میں جمع ہونگے اور اللہ تبارک تعالیٰ اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا اس دن بھی رسول اللہﷺ سے ہی مانگا جائے گا اور رسول اللہﷺ ان کے سوال پر انھیں اپنی شفاعت عطاء فرمائیں گے
وقال : إنَّ الشمسَ تدنو يومَ القيامةِ ، حتى يبلُغَ العَرَقُ نصفَ الأُذُنِ ، فبينا هم كذلكَ استغاثواْ بآدمَ ، ثم بموسى ، ثم بمحمدٍ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے
صحیح بخاری : حدیث نمبر 1475، ترجمہ داؤد راز
(استغاثواْ کا ترجمہ مدد مانگنا بھی کیا جاسکتا ہے )
اللہ سے دعا ہے ہم سب کو گمراہی دور رکھے آمین
ایک حدیث جو شفاعت کے متعلق ہے، ملاحظہ فرمائیں
حدثنا مسلم بن إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا قتادة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال لي خليفة حدثنا يزيد بن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يجتمع المؤمنون يوم القيامة فيقولون لو استشفعنا إلى ربنا فيأتون آدم فيقولون أنت أبو الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ خلقك الله بيده وأسجد لك ملائكته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلمك أسماء كل شىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا‏.‏ فيقول لست هناكم ـ ويذكر ذنبه فيستحي ـ ائتوا نوحا فإنه أول رسول بعثه الله إلى أهل الأرض‏.‏ فيأتونه فيقول لست هناكم‏.‏ ويذكر سؤاله ربه ما ليس له به علم فيستحي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيقول ائتوا خليل الرحمن‏.‏ فيأتونه فيقول لست هناكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ائتوا موسى عبدا كلمه الله وأعطاه التوراة‏.‏ فيأتونه فيقول لست هناكم‏.‏ ويذكر قتل النفس بغير نفس فيستحي من ربه فيقول ائتوا عيسى عبد الله ورسوله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكلمة الله وروحه‏.‏ فيقول لست هناكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم عبدا غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر‏.‏ فيأتوني فأنطلق حتى أستأذن على ربي فيؤذن ‏ {‏ لي‏}‏ فإذا رأيت ربي وقعت ساجدا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيدعني ما شاء الله ثم يقال ارفع رأسك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وسل تعطه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقل يسمع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واشفع تشفع‏.‏ فأرفع رأسي فأحمده بتحميد يعلمنيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أشفع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيحد لي حدا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأدخلهم الجنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أعود إليه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا رأيت ربي ـ مثله ـ ثم أشفع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيحد لي حدا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأدخلهم الجنة ‏ {‏ ثم أعود الثالثة‏}‏ ثم أعود الرابعة فأقول ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن ووجب عليه الخلود ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله ‏"‏ إلا من حبسه القرآن ‏"‏‏.‏ يعني قول الله تعالى ‏ {‏ خالدين فيها‏}‏‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سندی) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مومنین قیامت کے دن پر یشان ہو کر جمع ہوں گے اور (آپس میں) کہیں گے۔ بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعا لی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لیے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پرور دگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرات نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤ ںگا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہو گی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے ابوعبداللہ حضرت امام بخاری نے کہا کہ قرآن کی رو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے خالدین فیھا کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
صحیح بخاری
کتاب التفسیر
یہاں تو کسی ایسی مافوق الاسباب طریقے سے فریاد کا ذکر نہیں ہے، ہاں البتہ شفاعت کا ذکر ہے، کہ قیامت کے دن لوگ آدم علیہ السلام ، پھر نوح علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام، پھر موسیٰ علیہ السلام پھر عیسی علیہ السلام اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر تمام انبیاء یہ کہیں گے۔(لست هناكم) جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں سفارش کریں گے تو پہلے اللہ سے اجازت طلب کریں گے۔ (فيأتوني فأنطلق حتى أستأذن على ربي فيؤذن ‏ {‏ لي‏}‏) اور یہی بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے (مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ)۔۔۔ سورۃ البقرۃ) اور جب اجازت لے لیں گےاس وقت کیا کیفیت یہ ہو گی (فإذا رأيت ربي وقعت ساجدا) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے سفارش کرنے سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے اور فرمایا (فيدعني ما شاء الله) یہاں سے علم الغیب کی بھی نفی ہوتی ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب پتہ ہے ان کو جان لینا چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے گا قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہی حمد بیان کریں گے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دنیا میں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ وہ حمد کیا ہو گی ، کیونکہ اگر معلوم ہوتی تو یہ نا کہتے (فيدعني ما شاء الله) اور اللہ کا حکم بھی قرآن میں یہ ہے ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ۔۔۔سورۃ المائدہ) تب اللہ کا حکم ہو گا (ثم يقال ارفع رأسك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وسل تعطه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقل يسمع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واشفع تشفع) تو اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب اللہ کے محتاج ہوں گے جس طرح دنیا میں سب اللہ کے محتاج ہیں۔ کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں دنیا یا آخرت میں مافوق الاسباب طریقے سے دینے کی قدرت رکھتا ہوں۔ ایسا دعویٰ میں نے کبھی نہ پڑھا ، نہ سنا، کیونکہ یہ انبیاء کا منہج نہیں (مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران) بلکہ انبیاء و رسولوں کی دعوت تو یہ ہے کہ (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔۔۔سورۃ النحل)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ضعیف روایت۔۔۔ ناقابل حجت۔ہماری تحقیق کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے، اس تھریڈ میں آپ کی گفتگو جاری ہے، لہذا اس موضوع پر مذکورہ تھریڈ میں ہی گفتگو کریں، خضر حیات بھائی نے آپ کو وہاں جواب دیا ہے اور دیگر علماء کو بھی میں نے ٹیگ کر دیا ہے۔
بجا ارشاد فرمایا آپ نے
میرا یہ کہنا کہ(نبی نا زندہ ہوتے ہوئے کچھ دے سکتے ہیں نہ فوت ہونے کے بعد) مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو کچھ نہ دے سکنا مراد تھا۔ کسی نبی یا رسول نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مافوق الاسباب طریقے سے دنیا یا آخرت میں کچھ دے سکتے ہیں،
میں آپ کی اس پوسٹ کو دوبارہ لگا دیتا ہوں آپ نشاندہی فرمادیں کہ کہا ں آپ نے ماتحت الاسباب یا مافوق الاسباب دینے کی بات کی ہے
اوہ ! یہ کیا

آپ کی یہ پوسٹ تو مجھے مل ہی نہیں رہی ایسا کیوں پلیز اس بات جواب ضرور عنایت کیجئے گا
لیکن اگر آپ میری بات پر یقین فرمائیں تو آپ کی پوسٹ میں ماتحت الاسباب یا مافوق الاسباب کا کہیں بھی ذکر نہ تھا پوسٹ کے اس طرح غائب ہونے کو میں حسن ظن رکھتے ہوئے آپ کی توبہ سے تعبیر کر رہا ہوں اللہ ہم سب کو معاف فرمائے آمین
اس پوسٹ میں آپ نے اعتراف کیا کہ رسول اللہٖﷺ کے ماتحت الاسباب دینے پر جو دلیل پیش کی اس کو مانتے ہوئے آپ نے اس کی تائید کی ہے اور صرف رسول اللہﷺ کے ما فوق الاسباب دینے کو آپ نہیں مانتے آپ کی اس بات پر مجھے یہ لگا کہ آپ کو صحیح بخاری میں بیان کی گئی احادیث کی معرفت حاصل نہیں اسی لئے آپ نے یہ فرمایا ہے
اب آپ کے خدمت میں رسول اللہﷺ کے مافوق الاسباب دینے پر صحیح بخاری سے چند احادیث پیش کرتا ہوں امید ہے ان دلائل کی روشنی میں آپ اپنے عقیدے کی اصلاح فرمائیں گے
رسول اللہﷺ کا ما فوق الاسباب سے صحابہ کو وضو کے لئے پانی دینا

رأيتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم وحانَتْ صلاةُ العصرِ ، فالتَمَسَ الوضوءَ فلم يَجِدُوه ، فأُتِيَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بوضوءٍ ، فوضَعَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يدَه في ذلك الإناءِ ، فأمَرَ الناسَ أن يَتَوَضَّؤُوا منه ، فرَأَيْتُ الماءَ يَنْبُعُ مِن تحتِ أصابعِه ، فتَوَضَّأَ الناسُ ، حتى توضؤوا مَن عندَ آخرِهم .
ترجمہ داؤد راز
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا، اور لوگ وضو کا پانی تلاش کر رہے تھے لیکن پانی کا کہیں پتہ نہیں تھا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ایک برتن کے اندر) وضو کا پانی لایا گیا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس برتن میں رکھا اور لوگوں سے فرمایا کہ اسی پانی سے وضو کریں۔ میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا تھا چنانچہ لوگوں نے وضو کیا یہاں تک کہ ہر شخص نے وضو کر لیا۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3573
امام بخاری نے جس ترجمہ باب کے تحت اس حدیث کو بیان کیا وہ ہے علامات النبوة في الإسلام یعنی امام بخاری کی فیقہ کے مطابق رسول اللہﷺ کا مافوق الاسباب سے پانی دینا " اسلام میں نبوت کی علامات " اب کون مسلمان ایسا ہے جو نبوت کی علامات کا انکار کرے ؟
ما فوق الاسباب سے کھجور کے سوکھے تنے کا رونا اور رسول اللہﷺ کا ما فوق الاسباب سے ایسے تسلی دینا ۔

كان المسجدُ مسقوفًا على جذوعٍ من نخلٍ ، فكان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إذا خطب يقومُ إلى جِذْعٍ منها ، فلمَّا صُنِعَ لهُ المنبرُ وكان عليهِ ، فسمعنا لذلكَ الجِذْعِ صوتًا كصوتِ العِشَارِ ، حتى جاء النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فوضع يدَهُ عليها فسكنتْ .
ترجمہ داؤد راز
مسجدنبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر تشریف لائے، پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اونٹنی کی آواز ہوتی ہے۔ آخر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قریب آ کر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہوا۔


یہ حدیث بھی امام بخاری نے باب علامات النبوة في الإسلام کے تحت بیان کی
ایسی طرح صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ نے تھوڑے سے کھانے کو مافوق الاسباب کے تحت 70 ،80 صحابہ کو سیر ہوکر کھلایا
رسول اللہﷺ کی مافوق الاسباب بصارت

أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم خرَج يومًا فصلَّى على أهلِ أُحُدٍ صلاتَه على الميتِ، ثم انصرَف إلى المِنبَرِ فقال : ( إني فَرَطُكم، وأنا شهيدٌ عليكم، وإني واللهِ لأنظُرُ إلى حَوضي الآنَ، وإني قد أُعطِيتُ خزائنَ مفاتيحِ الأرضِ، وإني واللهِ ما أخافُ بعدي أن تُشرِكوا، ولكن أخافُ أن تنافَسوا فيها ) .
ترجمہ داؤد راز

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں (حوض کوثر پر) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔

سبحان اللہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے تو بہت سارے مسئلہ حل ہو گئے بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ مدینے سے باہر نکل کر شہداء احد کے پر تشریف لے گئے یعنی اللہ کے نیک بندوں کے کے پاس ان کے وصال کے بعد جانا رسول اللہﷺ کی سنت ہے رسول اللہﷺ نے اس دنیا میں تشریف فرما ہوکر جنت کی حوض کوثر کو ملاحظہ کیا سبحان اللہ قربان جاؤں میں رسول اللہﷺ کی بصارت پر اور صرف حوض کوثر ہی نہیں بلکہ روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دیکر اللہ نے ان خزانوں کا مالک بنادیا سبحان اللہ اور پھر رسول اللہﷺ نے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ " مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے " یعنی امت شرک میں مبتلاء ہوجائے گی رسول اللہﷺ کو اس بات کو یہ خوف نہیں تھا بلکہ خوف تھا تو یہ کہ " تم دیناداری میں پڑ جاؤ گے اور ہم یہی دیکھتے ہیں کہ لوگ ڈالر اور ریال کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں ۔
یہ وہ دلائل ہیں جن کی بناء پر رسول اللہﷺ کے مافوق الاسباب عطاء فرمانے کا عقیدہ قائم ہے
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک حدیث جو شفاعت کے متعلق ہے، ملاحظہ فرمائیں
یہاں تو کسی ایسی مافوق الاسباب طریقے سے فریاد کا ذکر نہیں ہے، ہاں البتہ شفاعت کا ذکر ہے، کہ قیامت کے دن لوگ آدم علیہ السلام ، پھر نوح علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام، پھر موسیٰ علیہ السلام پھر عیسی علیہ السلام اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر تمام انبیاء یہ کہیں گے۔(لست هناكم) جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں سفارش کریں گے تو پہلے اللہ سے اجازت طلب کریں گے۔ (فيأتوني فأنطلق حتى أستأذن على ربي فيؤذن ‏ {‏ لي‏}‏) اور یہی بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے (مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ)۔۔۔ سورۃ البقرۃ) اور جب اجازت لے لیں گےاس وقت کیا کیفیت یہ ہو گی (فإذا رأيت ربي وقعت ساجدا) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے سفارش کرنے سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے اور فرمایا (فيدعني ما شاء الله) یہاں سے علم الغیب کی بھی نفی ہوتی ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب پتہ ہے ان کو جان لینا چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے گا قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہی حمد بیان کریں گے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دنیا میں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ وہ حمد کیا ہو گی ، کیونکہ اگر معلوم ہوتی تو یہ نا کہتے (فيدعني ما شاء الله) اور اللہ کا حکم بھی قرآن میں یہ ہے ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ۔۔۔سورۃ المائدہ) تب اللہ کا حکم ہو گا (ثم يقال ارفع رأسك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وسل تعطه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقل يسمع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واشفع تشفع) تو اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب اللہ کے محتاج ہوں گے جس طرح دنیا میں سب اللہ کے محتاج ہیں۔ کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں دنیا یا آخرت میں مافوق الاسباب طریقے سے دینے کی قدرت رکھتا ہوں۔ ایسا دعویٰ میں نے کبھی نہ پڑھا ، نہ سنا، کیونکہ یہ انبیاء کا منہج نہیں (مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران) بلکہ انبیاء و رسولوں کی دعوت تو یہ ہے کہ (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔۔۔سورۃ النحل)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
شاید آپ تغافل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں میں نے جو صحیح بخاری کی حدیث پیش کی اس میں ہے کہ قیامت کے دن لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے استغاثواْ یعنی مدد طلب کریں گے پھر بتدریج حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس آئیں گے اور آپ کے عقیدے کے مطابق انبیاء علیہم السلام سے مانگنا شرک ہے اور امام بخاری کے مطابق یہ نام نہاد شرک قیامت کے دن بھی لوگ کررہے ہونگے جبکہ اس دن اللہ تبارک تعالیٰ اپنی شان کے لائق جلو افروز ہوگا

قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
اور جو آپ نے حدیث پیش کی اس میں بیان ہوا کہ
لوگ قیامت کے دن آدم علیہ السلام ، پھر نوح علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام، پھر موسیٰ علیہ السلام پھر عیسی علیہ السلام پاس جائے گے اور ان سے کہیں گے آپ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کیجئے اس پر یہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام ان الفاظ میں معذرت فرمائیں گے " میں اس کے لائق نہیں ہوں " نہیں ہوں اور انبیاء علیہم السلام کا یہ فرمانا کہ " میں اس کے لائق نہیں ہوں " اس وجہ سے ہے کہ شفاعت کا یہ درجہ یعنی شفاعت کبریٰ کا درجہ کسی کو بھی حاصل نہیں سوائے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے ایسی کو علماء اسلام مقام محمود سے تعبیر فرماتے ہیں جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ سے قرآن مجید میں فرمایا ہے اس درجہ شفاعت کے سوال پر تمام انبیاء علیہم السلام ایسی بناء پر معذرت فرمائیں گے کہ میں اس قابل نہیں جبکہ یہ بھی ثابت ہے کہ اس کم درجہ کی شفاعت دیگر انبیاء علیہم السلام فرمائیں گے نہ صرف یہ کہ انبیاء بلکہ اللہ کے نیک بندے بھی شفاعت فرمائیں گے
لیکن جب لوگ اس شفاعت کبریٰ کا سوال رسول اللہﷺ سے کریں گے تو جواب میں رسول اللہﷺ کیا جواب ارشاد فرمائیں دیکھتے ہیں
ولكن عليكم بمحمد صلى الله عليه وسلم ، فيأتونني ، فأقول : أنا لها
ترجمہ داؤد راز
رسول اللہﷺنے فرمایا کہ : (عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں ) ہاں تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ میں شفاعت کے لیے ہوں
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7510

یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی نبی ایسا نہیں جو اس شفاعت کبریٰ یا مقام محمود پر فائز ہو سوائے حضرت محمد مصطفیٰ ٖﷺ کے ایسی لئے جب لوگ اس شفاعت کبریٰ کا سوال رسول اللہ ﷺ کریں گے تو جواب میں آپ ﷺ ارشاد فرمائیں کہ أنا لها یعنی ہاں میں ہی اس شفاعت کبریٰ کے لئے ہوں
ایسی لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ
کہا خدا نے شفاعت کی پہل محشر میں
میرا حبیبﷺ کر ےکوئی دوسرا نہ کرے​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
میں آپ کی اس پوسٹ کو دوبارہ لگا دیتا ہوں آپ نشاندہی فرمادیں کہ کہا ں آپ نے ماتحت الاسباب یا مافوق الاسباب دینے کی بات کی ہے
اوہ ! یہ کیا
آپ کی یہ پوسٹ تو مجھے مل ہی نہیں رہی ایسا کیوں پلیز اس بات جواب ضرور عنایت کیجئے گا
لیکن اگر آپ میری بات پر یقین فرمائیں تو آپ کی پوسٹ میں ماتحت الاسباب یا مافوق الاسباب کا کہیں بھی ذکر نہ تھا پوسٹ کے اس طرح غائب ہونے کو میں حسن ظن رکھتے ہوئے آپ کی توبہ سے تعبیر کر رہا ہوں اللہ ہم سب کو معاف فرمائے آمین
مجھے خود کو بھی نہیں معلوم کہ میری وہ پوسٹ کہاں ہے، لیکن میرا دوسری پوسٹ میں اپنی پہلی بات کی وضاحت کر دینے کے بعد آپ کا اعتراض کرنا درست نہیں۔ اگرچہ میری پوسٹ میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کے لفظ نہیں تھے لیکن مطلب یہی تھا، چونکہ یہ نیت کا مسئلہ ہے لہذا یہاں آپ کو مزید صفائی دینا کوئی اہم بات نہیں۔

اس پوسٹ میں آپ نے اعتراف کیا کہ رسول اللہٖﷺ کے ماتحت الاسباب دینے پر جو دلیل پیش کی اس کو مانتے ہوئے آپ نے اس کی تائید کی ہے اور صرف رسول اللہﷺ کے ما فوق الاسباب دینے کو آپ نہیں مانتے آپ کی اس بات پر مجھے یہ لگا کہ آپ کو صحیح بخاری میں بیان کی گئی احادیث کی معرفت حاصل نہیں اسی لئے آپ نے یہ فرمایا ہے
اب آپ کے خدمت میں رسول اللہﷺ کے مافوق الاسباب دینے پر صحیح بخاری سے چند احادیث پیش کرتا ہوں امید ہے ان دلائل کی روشنی میں آپ اپنے عقیدے کی اصلاح فرمائیں گے
رسول اللہﷺ کا ما فوق الاسباب سے صحابہ کو وضو کے لئے پانی دینا
رأيتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم وحانَتْ صلاةُ العصرِ ، فالتَمَسَ الوضوءَ فلم يَجِدُوه ، فأُتِيَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بوضوءٍ ، فوضَعَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يدَه في ذلك الإناءِ ، فأمَرَ الناسَ أن يَتَوَضَّؤُوا منه ، فرَأَيْتُ الماءَ يَنْبُعُ مِن تحتِ أصابعِه ، فتَوَضَّأَ الناسُ ، حتى توضؤوا مَن عندَ آخرِهم .
ترجمہ داؤد راز
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا، اور لوگ وضو کا پانی تلاش کر رہے تھے لیکن پانی کا کہیں پتہ نہیں تھا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ایک برتن کے اندر) وضو کا پانی لایا گیا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس برتن میں رکھا اور لوگوں سے فرمایا کہ اسی پانی سے وضو کریں۔ میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا تھا چنانچہ لوگوں نے وضو کیا یہاں تک کہ ہر شخص نے وضو کر لیا۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3573
امام بخاری نے جس ترجمہ باب کے تحت اس حدیث کو بیان کیا وہ ہے علامات النبوة في الإسلام یعنی امام بخاری کی فیقہ کے مطابق رسول اللہﷺ کا مافوق الاسباب سے پانی دینا " اسلام میں نبوت کی علامات " اب کون مسلمان ایسا ہے جو نبوت کی علامات کا انکار کرے ؟
ما فوق الاسباب سے کھجور کے سوکھے تنے کا رونا اور رسول اللہﷺ کا ما فوق الاسباب سے ایسے تسلی دینا ۔
كان المسجدُ مسقوفًا على جذوعٍ من نخلٍ ، فكان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إذا خطب يقومُ إلى جِذْعٍ منها ، فلمَّا صُنِعَ لهُ المنبرُ وكان عليهِ ، فسمعنا لذلكَ الجِذْعِ صوتًا كصوتِ العِشَارِ ، حتى جاء النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فوضع يدَهُ عليها فسكنتْ .
ترجمہ داؤد راز
مسجدنبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر تشریف لائے، پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اونٹنی کی آواز ہوتی ہے۔ آخر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قریب آ کر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہوا۔
یہ حدیث بھی امام بخاری نے باب علامات النبوة في الإسلام کے تحت بیان کی
ایسی طرح صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ نے تھوڑے سے کھانے کو مافوق الاسباب کے تحت 70 ،80 صحابہ کو سیر ہوکر کھلایا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دلیل بنا کر ان کے بارے میں مافوق الاسباب اختیارات کا عقیدہ رکھنا آپ کی کم علمی اور جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے، آج مجھے آپ کی بات پڑھ کر یقین ہو گیا ہے کہ آپ علم سے کتنے دور ہیں، قرآن و حدیث کا احسن فہم لینا بھی بہت مستحسن عمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّـهُ ۖوَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿١٨﴾۔۔۔سورۃ الزمر
ترجمہ: جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں

لیکن چونکہ یہ دولت بھی اہل ایمان کو نصیب ہے اسی لئے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں قرآن و حدیث کا علم بھی عطا فرمایا اور ہم اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم فہم بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا لیتے ہیں جو قرآن کے اولین مخاطب تھے اور جن کے دلوں میں تقویٰ تھا۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ جو دلائل آپ نے مافوق الاسباب طریقے سے دینے کے متعلق دئیے ہیں وہ کیسے ہیں، آپ کا کہنا (امام بخاری نے جس ترجمہ باب کے تحت اس حدیث کو بیان کیا وہ ہے علامات النبوة في الإسلام یعنی امام بخاری کی فیقہ کے مطابق رسول اللہﷺ کا مافوق الاسباب سے پانی دینا " اسلام میں نبوت کی علامات " اب کون مسلمان ایسا ہے جو نبوت کی علامات کا انکار کرے ؟) خود اس بات کا اقرار ہے کہ یہ معجزات کے متعلق دلائل ہیں، چونکہ انبیاء کو اللہ معجزات عطا فرماتا ہے جو ان کے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے رسول اور نبی ہونے کی دلیل ہوتے ہیں، لہذا اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ معجزات کا ظہور پذیر ہونا بھی اللہ کے حکم سے ہے اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی بھی نبی اور رسول معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ عیسی علیہ السلام کو اللہ نے معجزات عطا فرمائے تو فرمایا:
وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٤٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: اور وه بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی ﻻیا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرنده بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وه اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرنده بن جاتاہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مرددوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیره کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان ﻻنے والے ہو
نیز فرمایا:
إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿١١٠﴾۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والده پر ہوا ہے، جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی۔ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرنده کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وه پرند بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں
غور کریں عیسی علیہ السلام کے معجزات اللہ کے حکم سے تھے، لیکن جب لوگ بدعقیدگی کا شکار ہوئے، عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کرنے لگے اور عیسی علیہ السلام کو الوہیت کے درجے پر فائز کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٧﴾۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: یقیناً وه لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والده اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں و زمین اور دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
غور کریں یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ جس اللہ نے عیسی علیہ السلام کو معجزات عطا فرمائے ہیں وہ چاہے تو اپنے بندے اور رسول کو اور اس کی والدہ مریم کو ہلاک کر دینا چاہے تو کوئی ان کو بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ کس قدر کھول کھول کر اللہ نے بیان فرما دیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
رسول اللہﷺ کی مافوق الاسباب بصارت
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم خرَج يومًا فصلَّى على أهلِ أُحُدٍ صلاتَه على الميتِ، ثم انصرَف إلى المِنبَرِ فقال : ( إني فَرَطُكم، وأنا شهيدٌ عليكم، وإني واللهِ لأنظُرُ إلى حَوضي الآنَ، وإني قد أُعطِيتُ خزائنَ مفاتيحِ الأرضِ، وإني واللهِ ما أخافُ بعدي أن تُشرِكوا، ولكن أخافُ أن تنافَسوا فيها ) .
ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں (حوض کوثر پر) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔
سبحان اللہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے تو بہت سارے مسئلہ حل ہو گئے بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ مدینے سے باہر نکل کر شہداء احد کے پر تشریف لے گئے یعنی اللہ کے نیک بندوں کے کے پاس ان کے وصال کے بعد جانا رسول اللہﷺ کی سنت ہے
فوت ہونے کے بعد قبرستان جانا اس لئے کہ آخرت کی فکر ہو اور انسان کو اپنی موت یاد آئے، اور وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کرے تو یہ بات درست ہے۔ اس نیت سے قبرستان جانا اور بات ہے
زوروا القبور فانها تذكركم الاخرة (صحيح مسلم حديث نمبر ٩٧٦)
''قبروں کی زیارت کیا کرو یہ تمھیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں''
لیکن اگر کوئی قبرستان جا کر قبروں پر مجاور بن کر بیٹھے، وہاں رکوع و سجود کرے، وہاں غیر اللہ کے نذرونیاز تقسیم کرے یا دیگر غیر شرعی اور شرکیہ امور کا مرتکب ہو تو یہ انتہائی مذموم ہے، بلکہ اپنے ایمان و عقیدے اور آخرت کی تباہی کا سبب ہے۔ ایسی باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا(صحیح مسلم:972)
''قبروں کی طرف منہ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔''
أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ(صحیح مسلم:532)
''خبردار ! بلاشبہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء و صلحاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا کرتے تھے ۔ تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔''
رسول اللہﷺ نے اس دنیا میں تشریف فرما ہوکر جنت کی حوض کوثر کو ملاحظہ کیا
اللہ کے حکم سے
صرف حوض کوثر ہی نہیں بلکہ روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دیکر اللہ نے ان خزانوں کا مالک بنادیا
یہاں آپ حدیث کے ان الفاظوں کے ساتھ ساتھ قرآن کی یہ دو آیات بھی لازم یاد رکھیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ﴿٥٠﴾۔۔۔سورة الانعام
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟
نیز
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّـهُ خَيْرًا ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٣١﴾۔۔۔سورة هود
میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں، ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ﻇالموں میں ہو جائے گا
ان دو آیات اور احادیث میں تطبیق دیں لیں۔ میں چونکہ علوم الحدیث میں اتنا ماہر نہیں ہوں لہذا علماء کو ٹیگ کر دیتا ہوں۔ انس حافظ عمران الٰہی
اور پھر رسول اللہﷺ نے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ " مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لئے تھا
یہ وہ دلائل ہیں جن کی بناء پر رسول اللہﷺ کے مافوق الاسباب عطاء فرمانے کا عقیدہ قائم ہے
اب آپ اپنے عقائد کی اصلاح کر لیں، میں نے ایک اور بات بھی کی تھی جس کا جواب آپ سے نہیں بن پایا (کسی نبی یا رسول نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مافوق الاسباب طریقے سے دنیا یا آخرت میں کچھ دے سکتے ہیں)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
Top