واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا ﷺ تیرا
نہیں، سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
کاش کہ آپ لوگ اتنی محبت اللہ سے کریں، جس سے انبیاء بھی مانگتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین بھی مانگتے تھے،اہل بیت رضی اللہ عنھم بھی مانگتے تھے۔ تابعین تبع تابعین، ائمہ دین، سلف صالحین، ائمہ اربعہ سب اللہ سے مانگتے تھے۔
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا ﴿٣٠﴾۔۔۔سورۃ الاسراء
ترجمہ: یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشاده کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ۔ یقیناً وه اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے واﻻ ہے
آپ اللہ کو پکاریں تو کبھی بھی "نہیں" نہیں سنیں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿٦٠﴾۔۔۔سورۃ الغافر
ترجمہ: اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه ابھی ابھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے
اور فرمایا:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴿١٨٦﴾۔۔۔سورة البقرة
ترجمہ: جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لڑکے! میں تمہیں ایک بات سیکھاتا ہوں: اللہ کو تم یاد رکھنا ؛ وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا ؛ اُسے اپنی مدد کیلئے ہر جگہ پاؤ گے، جب بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگو، اور جب بھی مدد طلب کرنی ہو ایک اللہ ہی سے مدد مانگو) ترمذی
یہ تو اس دنیا میں اور حیات میں رسول اللہﷺ کی سخاوت کی ایک ادنیٰ مثال ہے آئیں دیکھتے ہیں کل قیامت میں جب تمام لوگ میدان حشر میں جمع ہونگے اور اللہ تبارک تعالیٰ اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا اس دن بھی رسول اللہﷺ سے ہی مانگا جائے گا اور رسول اللہﷺ ان کے سوال پر انھیں اپنی شفاعت عطاء فرمائیں گے
وقال : إنَّ الشمسَ تدنو يومَ القيامةِ ، حتى يبلُغَ العَرَقُ نصفَ الأُذُنِ ، فبينا هم كذلكَ استغاثواْ بآدمَ ، ثم بموسى ، ثم بمحمدٍ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے
صحیح بخاری : حدیث نمبر 1475، ترجمہ داؤد راز
(استغاثواْ کا ترجمہ مدد مانگنا بھی کیا جاسکتا ہے )
اللہ سے دعا ہے ہم سب کو گمراہی دور رکھے آمین
ایک حدیث جو شفاعت کے متعلق ہے، ملاحظہ فرمائیں
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم. وقال لي خليفة حدثنا يزيد بن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " يجتمع المؤمنون يوم القيامة فيقولون لو استشفعنا إلى ربنا فيأتون آدم فيقولون أنت أبو الناس، خلقك الله بيده وأسجد لك ملائكته، وعلمك أسماء كل شىء، فاشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا. فيقول لست هناكم ـ ويذكر ذنبه فيستحي ـ ائتوا نوحا فإنه أول رسول بعثه الله إلى أهل الأرض. فيأتونه فيقول لست هناكم. ويذكر سؤاله ربه ما ليس له به علم فيستحي، فيقول ائتوا خليل الرحمن. فيأتونه فيقول لست هناكم، ائتوا موسى عبدا كلمه الله وأعطاه التوراة. فيأتونه فيقول لست هناكم. ويذكر قتل النفس بغير نفس فيستحي من ربه فيقول ائتوا عيسى عبد الله ورسوله، وكلمة الله وروحه. فيقول لست هناكم، ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم عبدا غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر. فيأتوني فأنطلق حتى أستأذن على ربي فيؤذن { لي} فإذا رأيت ربي وقعت ساجدا، فيدعني ما شاء الله ثم يقال ارفع رأسك، وسل تعطه، وقل يسمع، واشفع تشفع. فأرفع رأسي فأحمده بتحميد يعلمنيه، ثم أشفع، فيحد لي حدا، فأدخلهم الجنة، ثم أعود إليه، فإذا رأيت ربي ـ مثله ـ ثم أشفع، فيحد لي حدا، فأدخلهم الجنة { ثم أعود الثالثة} ثم أعود الرابعة فأقول ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن ووجب عليه الخلود ". قال أبو عبد الله " إلا من حبسه القرآن ". يعني قول الله تعالى { خالدين فيها}.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سندی) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مومنین قیامت کے دن پر یشان ہو کر جمع ہوں گے اور (آپس میں) کہیں گے۔ بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعا لی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لیے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پرور دگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرات نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤ ںگا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہو گی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے ابوعبداللہ حضرت امام بخاری نے کہا کہ قرآن کی رو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے خالدین فیھا کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
صحیح بخاری
کتاب التفسیر
یہاں تو کسی ایسی مافوق الاسباب طریقے سے فریاد کا ذکر نہیں ہے، ہاں البتہ شفاعت کا ذکر ہے، کہ قیامت کے دن لوگ آدم علیہ السلام ، پھر نوح علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام، پھر موسیٰ علیہ السلام پھر عیسی علیہ السلام اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر تمام انبیاء یہ کہیں گے۔(
لست هناكم) جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں سفارش کریں گے تو پہلے اللہ سے اجازت طلب کریں گے۔ (
فيأتوني فأنطلق حتى أستأذن على ربي فيؤذن { لي}) اور یہی بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے (
مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ)۔۔۔ سورۃ البقرۃ) اور جب اجازت لے لیں گےاس وقت کیا کیفیت یہ ہو گی (
فإذا رأيت ربي وقعت ساجدا) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے سفارش کرنے سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے اور فرمایا
(فيدعني ما شاء الله) یہاں سے علم الغیب کی بھی نفی ہوتی ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب پتہ ہے ان کو جان لینا چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے گا قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہی حمد بیان کریں گے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دنیا میں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ وہ حمد کیا ہو گی ، کیونکہ اگر معلوم ہوتی تو یہ نا کہتے (
فيدعني ما شاء الله) اور اللہ کا حکم بھی قرآن میں یہ ہے (
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ۔۔۔سورۃ المائدہ) تب اللہ کا حکم ہو گا (
ثم يقال ارفع رأسك، وسل تعطه، وقل يسمع، واشفع تشفع) تو اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب اللہ کے محتاج ہوں گے جس طرح دنیا میں سب اللہ کے محتاج ہیں۔ کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں دنیا یا آخرت میں مافوق الاسباب طریقے سے دینے کی قدرت رکھتا ہوں۔ ایسا دعویٰ میں نے کبھی نہ پڑھا ، نہ سنا، کیونکہ یہ انبیاء کا منہج نہیں (
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران) بلکہ انبیاء و رسولوں کی دعوت تو یہ ہے کہ
(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔۔۔سورۃ النحل)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین