• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویوں کا مشرکانہ عقیدہ

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ نشاندہی فرمادیں پھر میں آپ کے ان اشکالات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں ان شاء اللہ
اسکا جواب یہ ہے
اسکو میں دنیا کی مثال سے سمجھاتا ہوں
آپ کو امریکہ کا ویزہ چاہئے تو آپ اوباما کو کہتے ہیں کہ مجھے ویزہ دے دو تو اسکے چانس کم ہیں
اسکی بجائے آپ اسکی بیٹی کو وسیلہ بناتے ہیں تو اسکے تین طریقے ہو سکتے ہیں
1-آپ اسکی بیٹی سے کسی طریقے سے سفارش کرواتے ہیں
2-آپ اسکی بیٹی کو جانتے تو نہیں کہ سفارش کروا سکیں البتہ کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کے صدقے مجھے ویزا دے دو
3-آپ اسکی بیٹی کا صدقہ بھی نہیں کہتے کیونکہ عیسائی کو آپ صدقے پر کیسے قائل کریں گے بلکہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ تمھاری پیاری بیٹی ہے پس مجھے ویزہ دے دو
اللہ کے ہاں وسیلہ بنانے پر ہم پہلے طریقے کا انکار نہیں کرتے البتہ کچھ شرائط کے ساتھ
دوسرا طریقہ اللہ کے لئے ممکن نہیں کیوں کہ دنیا میں کوئی بیٹی کا صدقہ اس لئے دیتا ہے کہ اسکی آخرت بن جائے مگر اللہ کو کسی نبی کے لئے صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے
تیسری صورت عقل کے خلاف ہے جیسے دنیا میں اوباما آپ سے کہے گا کہ اگرچہ میری بیٹی مجھ کو عزیز ہے مگر آپ کو کس لئے ویزہ دوں آپ کا میری بیٹی سے کیا تعلق ہے
اب آپ اسکے علاوہ کوئی تیسرا طریقہ وسیلہ کا بتائیں تاکہ اس پر بات کر سکیں یا پھر انکی اوپر کی گئی وضاحت کا رد کر دیں
بہرام صاحب چلو یہ تو آپ نے مانا کہ بغیر کسی تعلق کے وسیلہ بنانا پاگل پن ہے اسی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ فاعتبروا یا اولی الابصار کہ آپ کا جو تعلق ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس تعلق کا واسطہ دے کر مانگو اللہ سے
ہم وھابی یہی تو کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو وسیلہ یا اسکے نقش قدم پر چلنے کو وسیلہ بنانا تو بہترین کام ہے اس میں محل نزاع ہی نہیں
پس اوپر اوباما والی مثال میں میں نے کہا تھا کہ بغیر کسی تعلق کے خالی اوباما کی بیٹی کی ذات کو وسیلہ بناؤ گے تو لوگ پاگل کہیں گے اسی طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خالی ذات کا وسیلہ نہ بناؤ بلکہ تمھارا انکی ذات سے وہ تعلق جو اللہ کو پسند ہو اس تعلق کو وسیلہ بنا کر دعا مانگو
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
فرمادیں پھر میں آپ کے ان اشکالات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں ان شاء اللہ

ہمارے ہاں ایمان میں دل کی تصدیق کے ساتھ ہمارا قول اور عمل بھی شامل ہوتا ہے جیسا کہ امام مسلم وہ حدیث لائے ہیں کہ اتدرون ما الایمان باللہ وحدہ اور اسکے جواب میں ہمارے اعمال یعنی نماز روزہ وغیرہ کو بھی ایمان میں شامل کیا ہے اور پھر امام بخاری تو اس حدیث کو کتاب الایمان میں جس عنوان کے تحت لائے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ خمس بھی ایمان کا حصہ ہے

لیکن محبت کے لئے یہ اصول نہیں کیونکہ محبت خالص دل کا معاملہ ہے یعنی اگر میرے دل میں کسی کی محبت ہے تو میں چاہے اس کا اظہار زبان سے کروں یا کروں اس سے اس محبت میں کوئی فرق نہیں پڑتا یا اگر محبت کے لئے بھی زبان سے اقرار کرنا لازم ہے تو اس کی دلیل چاہئے یاد رہے کہ یہاں صرف محبت پر بات کی جائے
ایک تو یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ کون سے اصول کی بات کر رہے ہیں جو محبت پر لاگو نہیں ہوتا اور میں نے غلطی سے اوپر ذکر کر دیا ہے
وہ اصول لازمی بتائیں
دوسرا میں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ محبت کے لئے زبان کا اقرار لازمی ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ ایمان میں دل کی تصدیق بھی شامل ہے اور زبان کا اقرار بھی اور عمل بالجوارح بھی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لَا یُدْخِلُ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ وَلَا یُجِیرُہُ مِنْ النَّارِ وَلَا أَنَا إِلَّا بِرَحْمَۃٍ مِنْ اللَّہِ۔
تم میں سے کوئی بھی شخص اپنی نیکیوں سے جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ آگ سے بچ سکتا ہے اور میں بھی سواء اللہ کی رحمت کے ۔ ( میں خود محتاج ہوں)[صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۸۱۷


اللہ کی رحمت
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے

نہر جنت کوثر کا مالک کون ؟
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
علی بہرام صاحب:جناب نے لکھا ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے محبت و تعلق کے باعث نجات"
کیا جناب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف نبی اکرم کی محبت کی وجہ سے موجودہ مسلمانوں کا حشر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو جائے گا عمل کی ضرورت نہیں؟
موجودہ مسلم کہلانے والا شرک و بدعت میں ڈوبا رہے اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ رکھے بس اُسکا کام بن گیا؟
بہرام صاحب : سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کی محبت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی،لیکن اسکے باوجود آپ نے سیدہ کو کیا فرمایا تھا پڑھئے اور اپنے گریبان میں جھانکئے!

وَيَا فَاطِمَةُ ، بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ".(بخاری)

اے فاطمہ میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا


يَا فَاطِمَةُ ، أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ، "(مسلم)

یہ احادیث تو صاف صاف جناب کے نظریہ (صرف محبت و تعلق باعث نجات) ہوگی کا رد کر رہی ہیں ۔یا یہ کہیں کہ جناب کو سیدہ فاطمہ سے زیادہ نبی اکرم سے محبت ہے؟
اس حدیث کو غور سے پڑھیں:

(کل أمتی یدخلون الجنۃإلا من أبی، قالوا: یا رسول اللہ! ومن یأبی؟ قال من أطاعنی دخل الجنۃ، ومن عصانی فقد أبی) (بخاری)

"ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہےجو بھی میری امت میں سے ہے وہ جنت میں جائےگا،سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔پوچھا گيا یا رسول اللہ (جنت میں جانے سے) کون انکار کرےگا؟آپ نے فرمایاجس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگااور جس نے میری نافرمانیکی اس نےجنت میں جانے سے انکار کیا۔
یہ حدیث مبارکہ بھی صاف اعلان کر رہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا
ماننا پڑے گا کہ محبت کے ساتھ اطاعت رسول بھی ضروری ہے۔صرف محبت کا دعوی کافی نہیں ہوگا


لیکن
اس کے لئے ایک حدیث پیش کی تھی جس میں سائل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال
کیا تھا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے اس پر اس سائل نے کہا کہ کچھ بھی نہیں سواء اس کے میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں
یہاں اس سائل جو یقینا صحابی ہیں کے اقرار کے میرے پاس کوئی عمل نہیں کے باوجود اس صحابی کو اتنی بڑی خوش خبری
کہ" تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تمہیں محبت ہے "عطاء کرنا اور اس خوش خبری سے دیگر صحابہ کا بھی خوش ہوجانا
کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک تو یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ کون سے اصول کی بات کر رہے ہیں جو محبت پر لاگو نہیں ہوتا اور میں نے غلطی سے اوپر ذکر کر دیا ہے
وہ اصول لازمی بتائیں
دوسرا میں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ محبت کے لئے زبان کا اقرار لازمی ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ ایمان میں دل کی تصدیق بھی شامل ہے اور زبان کا اقرار بھی اور عمل بالجوارح بھی
لیکن میں نے آپ سے عرض کی تھی کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے زبان سے اقرار کرنا ضروری نہیں جب کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ایمان ہی ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اسی بنا پر نبی کریم نے یہ وحی الہی کے ذریے پیشن گوئی کرتے ہوے فرمایا -

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰی تَأْخُذَ أُمَّتِي بِأَخْذِ الْقُرُونِ قَبْلَهَا شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ کَفَارِسَ وَالرُّومِ فَقَالَ وَمَنِ النَّاسُ إِلَّا أُولٰٓئِکَ۔ (صحیح بخاری۔حدیث ۶۸۳۹ جلد:۲)
احمد بن یونس، ابن ابی ذئب، مقبری، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک کہ میری امت تمام باتوں میں اگلی امتوں کے بالکل اسی طرح برابر نہ ہو جائے گی جس طرح ایک بالشت بالشت کے برابر اور ایک گز گز کے برابر ہوتا ہے، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا روم اور فارس کی طرح؟ آپؐ نے فرمایا: ان کے علاوہ اور کون ہیں۔
لتتبعن سننَ من قبلكم شبرًابشبرٍ ، وذراعًا بذراعٍ ، حتى لو سلكوا جحرَ ضبٍّ لسلكتموه . قلْنا : يا رسولَ اللهِ ، اليهودُ والنصارى ؟ قال : فمن
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
صحیح بخاری
كتاب الأدب
کتاب اخلاق کے بیان میں

حدیث نمبر: 6167
عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَتَى السَّاعَةُ قَائِمَةٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "وَيْلَكَ،‏‏‏‏ وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"فَقُلْنَا:‏‏‏‏ وَنَحْنُ كَذَلِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ فَفَرِحْنَا يَوْمَئِذٍ فَرَحًا شَدِيدًا،‏‏‏‏ فَمَرَّ غُلَامٌ لِلْمُغِيرَةِ وَكَانَ مِنْ أَقْرَانِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ أُخِّرَ هَذَا فَلَنْ يُدْرِكَهُ الْهَرَمُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ"
انسؓ نے کہ ایک بدوی نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ نبی کریم ﷺنے فرمایا، افسوس «ويلك» تم نے اس قیامت کے لیے کیا تیاری کر لی ہے؟ انہوں نے عرض کیا میں نے اس کے لیے تو کوئی تیاری نہیں کی ہے البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پھر تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہو، جس سے تم محبت رکھتے ہو۔ ہم نے عرض کیا اور ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو گا؟ فرمایا کہ ہاں۔ ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے، پھر مغیرہ کے ایک غلام وہاں سے گزرے وہ میرے ہم عمر تھے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اگر یہ بچہ زندہ رہا تو اس کے بڑھاپا آنے سے پہلے قیامت قائم ہو جائے گی۔

حدیث نمبر: 6168
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبّ"
عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔“

حدیث نمبر: 6171
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى السَّاعَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "مَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟"قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرِ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلَكِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"
انس بن مالک ؓنے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب قائم ہو گی؟ نبی کریم ﷺنے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کے لیے بہت ساری نمازیں، روزے اور صدقے نہیں تیار کر رکھے ہیں، لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو۔

ان تینوں روایات سے یہ بات پوری طرح مترشح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ شخص کا صرف اللہ تعالٰی اور اس کے رسولﷺ سے محبت کا مطلب محض قولی محبت نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ عمل بھی شامل تھا جیسا کہ تیسری روایت سے ثابت ہوتاہےکیونکہ محبت کے ثبوت کے لیے عمل نا گزیر ہے ایسی محبت جو بلا عمل ہوخود ان روایات سے بھی ثابت نہیں ہوتی اس لیے فقط قولی محبت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

ان روایات میں جہاں بدوی شخص کی طرف سے”کوئی تیاری نہ کرنے“ کا ذکر آیا ہے اس کا بھی یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سرے سے عمل ہی کا وجود نہیں ہے یا فقط زبانی دعویٰ ہی محبت کا ثبوت ہے بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ فرائض کا تو پوری طرح اہتمام کیا جا رہا ہے البتہ نوافل پر مداومت نہیں ہے شائدبدوی شخص فرائض کو ادا کرنے کو کافی نہ سمجھ رہا ہو اورنوافل پر ہمیشگی اختیار نہ کرنے کو”کوئی تیاری نہ کرنے“کے معنی میں لے رہا ہو۔

صحابہ کرام ؓ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے کے حقیقی مفہوم سے نا واقف نہیں تھےکہ مجرد زبانی دعویٰ ہی ان کے نزدیک محبت کے لیے کافی ثبوت ہو بلکہ ہم دیکھتے ہیں تاریخِ اسلام میں انہوں نے ہمیشہ اپنےعمل سے حقیقی محبت کاثبوت دیا لہذا ہمارے لیے بھی محبت کا حقیقی معیار وہی ہو گا جس کا عملاً مظاہرہ صحابہ کرام ؓ نے کر کے دکھایا۔

ہماری اس بات کی تائید مندرجہ ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے:-

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾
اے نبیﷺ! لوگوں سے کہہ دو کہ”اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے“۔
قرآن، سورت آلِ عمران، آیت نمبر 31

لہذا یہ آیت اس بات کا حتمی فیصلہ کر دیتی ہے کہ محبتِ الہٰی اتباعِ رسولﷺ سے مشروط ہےاگر فقط زبانی دعویٰ سے ہی محبت کا اثبات ہو جاتا تو اتباعِ رسولﷺ کی شرط لگانے کا کوئی مطلب نہ ہوتا۔

ہم نے صرف صحیح بخاری کی ہی روایات پر اکتفا کیاہے اگرچہ اور کتبِ احادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق روایات آئیں ہیں مگر ان کا مفہوم بھی تقریباً وہی ہے جو ان روایات میں بیان ہوا ہے ہم نےصرف طوالت کے خوف سے انہیں نقل نہیں کیا۔

یہ ہے صحیح مفہوم ان روایات کالیکن کسی روایت کے صرف ایک ٹکڑے کو لےلینا اور اس سے متعلقہ دوسری روایات کو نظر اندازکر دینا اور پھر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ فقط زبانی دعویٰ ہی اللہ تعالٰی اور اس کے رسولﷺ سے محبت کے لیے کافی ہےاور عمل کی مطلق ضرورت نہیں ایک غلط نظریہ ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ ہے صحیح مفہوم ان روایات کالیکن کسی روایت کے صرف ایک ٹکڑے کو لےلینا اور اس سے متعلقہ دوسری روایات کو نظر اندازکر دینا اور پھر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ فقط زبانی دعویٰ ہی اللہ تعالٰی اور اس کے رسولﷺ سے محبت کے لیے کافی ہےاور عمل کی مطلق ضرورت نہیں ایک غلط نظریہ ہے۔
اور یہی بات میں نے بھی عرض کی ہے محبت کے لئے زبان سے اقرار ضروری نہیں محبت خالصتا دل کی کفیت ہے اوریہ بات آپ بھی فرمارہے
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اور یہی بات میں نے بھی عرض کی ہے محبت کے لئے زبان سے اقرار ضروری نہیں محبت خالصتا دل کی کفیت ہے اوریہ بات آپ بھی فرمارہے
اس ”مضمون“کا مقصد یہ” ثابت“ کرنا ہے کہ ”عمل “کے بغیر محبت کا” دعویٰ“ ایک” فریب“ کے سوا کچھ نہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
فعن أنس بن مالك (رضي الله عنه) قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أحب سنتي فقد أحبني، ومن أحبني، كان معي في الجنة-

حضرت انس بن مالك رضي الله عنه نے فرمایا :کہ فرمایا رسول الله صلى الله عليه وسلم نے "جس نے محبت کی میری سنّت سے -پس اسی نے محبت کی مجھ سے - اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا -
 
Top