رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طلاق بذات خود ایک ناپسندیدہ عمل ہے لیکن بحالت مجبوری ، بوقت ضرورت اسے جائزرکھا ہے۔
اس ناپسنددیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق آخری حربہ ہے اس سے قبل جہاں تک اصلاح کا امکان ہو تو اس کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسی بنیادی اصول پر میرے تین سوال ہیں۔
لیکن پہلے قصہ مختصر
ایک عورت اپنے شوہر کی وفا شعار بیوی ہے، بڑی نیک، پرہیزگار، متقی، خدمت گذار بیوی ہے، شوہر کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو احسن انداز میں پورا کرتی ہے، شوہر کو اس سے کوئی شکایت نہیں وہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ میری بیوی بڑی وفا شعار اور خدمت گذار ہے۔ میری ضرورتوں کا خیال کرتی ہے، کبھی کوئی جھگڑا یا ناچاقی نہیں ہوئی۔
لیکن دل اور عشق بڑا کمبخت ہے، اس کے شوہر کی نظر کسی دوسری عورت پر پڑتی ہے وہ اس سے شادی کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اس کی بیوی کو کوئی اعتراض بھی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی نیک سیرت وفاشعار بیوی کو طلاق دے دیتا ہے، یا وہ عورت شرط رکھتی ہے اس شرط پر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔
اب میرا سوال ہے۔
1. کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی؟
2. کیا یہ شخص گنہگار کہلائے گا اس سے مواخذہ ہوگا۔؟
3. ایسی صورت دی گئی طلاق ، طلاق سنی یعنی سنت اور شرعی طریقہ کے مطابق تصور ہوگی یا طلاق بدعی یعنی بدعت تصور ہوگی۔؟