sahj
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2011
- پیغامات
- 458
- ری ایکشن اسکور
- 657
- پوائنٹ
- 110
بہت خوب ۔۔۔کل میں یہی لکھنے والی تھی کہ سہج بھائی صحیح احادیث سے غیر متفق ہو گئے۔
اور آمین کو کتنا بلند آواز میں بولنا ہے ، یہ سوال بھی عجیب ہے آپ کا بھائی۔اس کے بعد آپ کہیں کہ آمین کے نون کیسے بولنا ہے ، کتنے وقفے اور کتنے سیکنڈ میں آمین کہنا ہے! تو ایسے سوالوں کا کوئی فائدہ نہیں بھائی۔
فانما اھلک الذین من قبلھم ، کثرت مسائلھم ، واختلافھم علی انبیاءھم
الحمدللہ کسی بھی حدیث سے غیر متفق نہیں چاھے حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو اور صحیح حدیث کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے سبحان اللہ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں ہر ہر صحیح حدیث پر عامل نہیں بلکہ صرف ان احادیث پر عمل کرتا ہوں جو سنت کے درجہ میں ہیں عام فہم جواب تو یہی ہے جبکہ آپ غیر مقلدین کا دعوٰی یہی ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہوتا اس کے برعکس ہے شاید کسی حدیث پر من و عن عمل کرتے ہوں مگر اس عمل کے مخالف کئی کئی احادیث کو چھوڑتے بھی ہیں یعنی دعوٰی ہر صحیح حدیث پر عمل کا اور جب عمل کریں تو دوسری صحیح احادیث کو چھوڑ دینا ۔
اب میں آپ کو اور محمد نعیم یونس صاحب کو بتاتا ہوں کہ میں کس بات سے غیر متفق ہوں
ہائی لائٹ کردہ الفاظ بھی اگر حدیث ہیں تو آپ بتادیں ؟ یاآمین کہنے کے بارے میں کچھ احادیث مبارکہ
سنن ابن ماجہ
14- بَاب الْجَهْرِ بِآمِينَ
۱۴-باب: آمین زور سے کہنے کا بیان
851- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّ الْمَلائِكَةَ تُؤَمِّنُ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ>۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۱۱ (۷۸۰)، ۱۱۳ (۷۸۲)، التفسیر ۲ (۴۴۷۵)، الدعوات ۶۳ (۶۴۰۲)، ن/الافتتاح ۳۳ (۹۲۷، ۹۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۶)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۱۸ (۴۱۰)، د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۶)، ت/الصلاۃ ۷۱ (۲۵۰)، ط/الصلاۃ ۱۱ (قبیل۴۵)، حم (۲/۲۳۸، ۴۶۹)، دي/الصلاۃ ۳۸ (۱۲۸۲)
(صحیح)
۸۵۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لئے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے امام نسائی نے امام کے بلندآواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہوسکے گا توان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہوگا۔
852- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَرَّانِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، جَمِيعًا عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ>۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۳۳ (۹۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۸۷)، وحدیث سلمۃ بن عبد الرحمن تفرد بہ ابن ماجہ ۱۵۳۰۲، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۰۲) (صحیح)
۸۵۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب امام (آمین) کہے تو تم بھی آمین کہو ۱؎ ، اس لئے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پہلے امام بلند آواز سے آمین کہے، پھر مقتدی بھی آواز سے آمین کہیں، اور اس کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ آمین آہستہ سے کہنا چاہئے، اور دلیل دیتے ہیں وائل کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ''غير المغضوب عليهم ولا الضالين'' پر پہنچے تو آہستہ سے آمین کہی، (مسند امام احمد، مسند ابو یعلی، طبرانی، دار قطنی، مستدرک الحاکم) ہم کہتے ہیں کہ خود اس حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے، ورنہ وائل نے کیوں کر سنا اور سفیان نے اس حدیث کو وائل سے روایت کیا، اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین کہی بلند آواز سے، اور صاحب ہدایہ نے آمین کو دھیرے سے کہنے پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا ہے، او ر وہ روایت ضعیف ہے، نیز صحابی کا قول مرفوع حدیثوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، او ریہ بھی ممکن ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد اخفاء سے یہ ہو کہ زور سے کہنے میں مبالغہ نہ کرے، واللہ اعلم۔
853- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: تَرَكَ لنَّاسُ التَّأْمِينَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَالَ: <غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ>، قَالَ: <آمِينَ> حَتَّى يَسْمَعَهَا أَهْلُ الصَّفِّ الأَوَّلِ، فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۱)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۴) (ضعیف)
(اس کی سند میں ابو عبداللہ مجہول ہیں، اور بشر بن رافع ضعیف ہیں، اس لئے ابن ماجہ کی یہ روایت جس میں ''فيرتج بها المسجد'' (جس سے مسجد گونج جائے) کالفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۴۶۵)
۸۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ ﷺ جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ}کہتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ پہلی صف کے لوگ سن لیتے، اور آمین سے مسجد گونج اٹھتی ۔
854- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَالَ: <وَلا الضَّالِّينَ > قَالَ: < آمِينَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۲) (صحیح)
(اس حدیث کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد میں آنے والی صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۸۴۵، فواد عبد الباقی اور خلیل مامون شیحا کے نسخوں میں اور مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں ''عثمان بن ابی شیبہ''ہے، مشہور حسن نے ''ابوبکر بن ابی شیبہ'' ثبت کیا ہے، اور ایسے تحفۃ الأشراف میں ہے، اس لئے ہم نے ''ابو بکر'' کو ثبت کیا ہے، جو ابن ماجہ کے مشاہیر مشائخ میں ہیں، اس لئے کہ اما م مزی نے تحفہ میں یہی لکھا ہے، اور تہذیب الکمال میں حمیدبن عبدالرحمن کے ترجمہ میں تلامیذ میں ابوبکر بن ابی شیبہ کے نام کے آگے (م د ق) کا رمز ثبت فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح مسلم، ابوداود، اور ابن ماجہ میں ابو بکر کے شیخ حمید بن عبد الرحمن ہی ہیں، ملاحظہ ہو، تہذیب الکمال : (۷/ ۳۷۷)، اور عثمان بن ابی شیبہ کے سامنے (خ م) یعنی بخاری ومسلم کا رمز دیا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں میں حمید سے روایت کرنے والے عثمان ہیں، ایسے ہی عثمان کے ترجمہ میں حمید بن عبد الرحمن کے آگے (خ م) کا رمز دیا ہے)
۸۵۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو سنا کہ جب آپﷺ ''وَلا الضَّالِّينَ'' کہتے تو ''آمین'' کہتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آمین کے معنی ہیں قبول کر، اور بعضوں نے کہاکہ آمین اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے، اور جو کوئی اس کو برا سمجھے اس کو اپنی حدیث مخالف روش پر فکر مند ہونا چاہئے کہ وہ حدیث رسول کے اعراض سے کیوں کر اللہ کے یہاں سرخرو ہوسکے گا۔
855- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَعَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَلَمَّا قَالَ: < وَلا الضَّالِّينَ > قَالَ: < آمِينَ >، فَسَمِعْنَاهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۲)، ت/الصلاۃ ۷۰ (۲۴۸)، ن/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، حم (۴/۳۱۵، ۳۱۷، دي/الصلاۃ ۳۹ (۱۲۸۳) (صحیح)
۸۵۵- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، جب آپ نے ''وَلا الضَّالِّينَ'' کہا، تو اس کے بعد آمین کہا، یہاں تک کہ ہم نے اسے سنا ۔
856- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، حدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْئٍ ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلامِ وَالتَّأْمِينِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۲۵) (صحیح)
۸۵۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ کلمے ان کو بھی بہت پسند آئے، مگر مسلمانوں کی ضد میں اس پر عمل نہ کرسکے، اور حسد میں جلتے رہ گئے، قل موتوا بغيظكم۔
857- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الْخَلالُ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُومُسْهِرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ صَالِحِ بْنِ صُبَيْحٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْئٍ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى آمِينَ، فَأَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ آمِينَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۹۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۴) (ضعیف جدا)
(سند میں طلحہ بن عمرو متروک ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث بغیر آخری ٹکڑے ''فَأَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ آمِينَ'' کے ثابت ہے)
۸۵۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا ''آمین'' کہنے پر کیا، لہٰذا تم آمین کثرت سے کہا کرو'' ۔
محمد نعیم یونس صاحب بتادیں ؟
سنت کہنے والا کون ہے ؟ امتی ہی ہے ناں یا معاذاللہ کوئی نبی ہے یا اللہ ؟حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے
بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے،
اسی لئے میں نے چند سوالات پوچھ ڈالے تھے
1
نماز فجر اور نماز مغرب اور نماز عشاء کے وقت یہودی بازار میں نہیں ہوتے ظہر،عصر میں وہ بازار میں ہوتے ہیں مگر ان دونوں نمازوں میں آپ سب غیر مقلد آمین بلند آواز سے نہیں کہتے کہ یہودی ناراض نہ ہوجائیں۔ کیوں ٹھیک ہے کہ نہیں ؟
2
سوچنا آپ کے کون سے نمبر والی دلیل ہے ؟ اور اسکا درجہ کیا ہے ؟ قرآن کے برابر یا حدیث کے؟
3
سب سے آسان سوال آپ نے جس حدیث سے سوچنا دلیل بنایا ہے اس میں سے جہر پر نشان لگا دیجئے
4
آمین کہتے ہوئے آواز کو کتنا بلند کرنا ہے ؟ برائے مہربانی اس بارے میں کوئی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں۔
اور پوسٹ نمبر 4 کے سوالات بھی ان میں ہی شامل کرلیجئے ۔
شکریہ
کیونکہ کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث میں یہ صراحت موجود نہیں کہ آمین زور سے کہنی ہے اور زور کتنا لگانا ہے ۔ یہ تو وضاحتیں ہوتی ہیں جن سے کسی بھی نام نہاد اہل حدیث کو مجھ سے پہلے اعتراض ہونا چاھئیے ، اور جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان میں سے حدیث میں سے جہر کا لفظ کسی نے نہیں دکھایا ،یاد رہے حدیث کا لفظ امتی کا نہیں ۔نمبر1
فرشتے آمین بلند آواز سے کہتے ہیں یا آہستہ؟
نمبر2
جو مقتدی اس وقت جماعت میں شریک ہو جب امام نصف سے زائد فاتحہ پڑھ چکا ہو اس کے لئے دودفعہ آمین کہنا سنت مؤکدہ ہے ؟۔ ایک دفہ اپنی فاتحہ کے درمیان زور سے آمین اور دوسری بار اپنی فاتحہ کے اختتام پر زوا سے آمین؟۔
ان دونوں سوالوں کے جواب صحیح صریح اور غیر معارض احادیث مبارکہ سے دے دیجئے ۔ پھر کچھ مزید سوالات ہیں وہ آپ سے بعد میں پوچھیں گے ۔
شکریہ
شکریہ