• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلند آواز سے آمین کہنے سے حسد کرنا کس کا طریقہ ہیں !!!

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
بہت خوب ۔۔۔کل میں یہی لکھنے والی تھی کہ سہج بھائی صحیح احادیث سے غیر متفق ہو گئے۔
اور آمین کو کتنا بلند آواز میں بولنا ہے ، یہ سوال بھی عجیب ہے آپ کا بھائی۔اس کے بعد آپ کہیں کہ آمین کے نون کیسے بولنا ہے ، کتنے وقفے اور کتنے سیکنڈ میں آمین کہنا ہے! تو ایسے سوالوں کا کوئی فائدہ نہیں بھائی۔
فانما اھلک الذین من قبلھم ، کثرت مسائلھم ، واختلافھم علی انبیاءھم

الحمدللہ کسی بھی حدیث سے غیر متفق نہیں چاھے حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو اور صحیح حدیث کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے سبحان اللہ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں ہر ہر صحیح حدیث پر عامل نہیں بلکہ صرف ان احادیث پر عمل کرتا ہوں جو سنت کے درجہ میں ہیں عام فہم جواب تو یہی ہے جبکہ آپ غیر مقلدین کا دعوٰی یہی ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہوتا اس کے برعکس ہے شاید کسی حدیث پر من و عن عمل کرتے ہوں مگر اس عمل کے مخالف کئی کئی احادیث کو چھوڑتے بھی ہیں یعنی دعوٰی ہر صحیح حدیث پر عمل کا اور جب عمل کریں تو دوسری صحیح احادیث کو چھوڑ دینا ۔
اب میں آپ کو اور محمد نعیم یونس صاحب کو بتاتا ہوں کہ میں کس بات سے غیر متفق ہوں
آمین کہنے کے بارے میں کچھ احادیث مبارکہ

سنن ابن ماجہ

14- بَاب الْجَهْرِ بِآمِينَ
۱۴-باب: آمین زور سے کہنے کا بیان
851- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّ الْمَلائِكَةَ تُؤَمِّنُ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ>۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۱۱ (۷۸۰)، ۱۱۳ (۷۸۲)، التفسیر ۲ (۴۴۷۵)، الدعوات ۶۳ (۶۴۰۲)، ن/الافتتاح ۳۳ (۹۲۷، ۹۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۶)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۱۸ (۴۱۰)، د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۶)، ت/الصلاۃ ۷۱ (۲۵۰)، ط/الصلاۃ ۱۱ (قبیل۴۵)، حم (۲/۲۳۸، ۴۶۹)، دي/الصلاۃ ۳۸ (۱۲۸۲)
(صحیح)

۸۵۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لئے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے امام نسائی نے امام کے بلندآواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہوسکے گا توان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہوگا۔
852- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَرَّانِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، جَمِيعًا عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ>۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۳۳ (۹۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۸۷)، وحدیث سلمۃ بن عبد الرحمن تفرد بہ ابن ماجہ ۱۵۳۰۲، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۰۲) (صحیح)

۸۵۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب امام (آمین) کہے تو تم بھی آمین کہو ۱؎ ، اس لئے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پہلے امام بلند آواز سے آمین کہے، پھر مقتدی بھی آواز سے آمین کہیں، اور اس کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ آمین آہستہ سے کہنا چاہئے، اور دلیل دیتے ہیں وائل کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ''غير المغضوب عليهم ولا الضالين'' پر پہنچے تو آہستہ سے آمین کہی، (مسند امام احمد، مسند ابو یعلی، طبرانی، دار قطنی، مستدرک الحاکم) ہم کہتے ہیں کہ خود اس حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے، ورنہ وائل نے کیوں کر سنا اور سفیان نے اس حدیث کو وائل سے روایت کیا، اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین کہی بلند آواز سے، اور صاحب ہدایہ نے آمین کو دھیرے سے کہنے پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا ہے، او ر وہ روایت ضعیف ہے، نیز صحابی کا قول مرفوع حدیثوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، او ریہ بھی ممکن ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد اخفاء سے یہ ہو کہ زور سے کہنے میں مبالغہ نہ کرے، واللہ اعلم۔
853- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: تَرَكَ لنَّاسُ التَّأْمِينَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَالَ: <غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ>، قَالَ: <آمِينَ> حَتَّى يَسْمَعَهَا أَهْلُ الصَّفِّ الأَوَّلِ، فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۱)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۴) (ضعیف)

(اس کی سند میں ابو عبداللہ مجہول ہیں، اور بشر بن رافع ضعیف ہیں، اس لئے ابن ماجہ کی یہ روایت جس میں ''فيرتج بها المسجد'' (جس سے مسجد گونج جائے) کالفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۴۶۵)
۸۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ ﷺ جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ}کہتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ پہلی صف کے لوگ سن لیتے، اور آمین سے مسجد گونج اٹھتی ۔
854- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَالَ: <وَلا الضَّالِّينَ > قَالَ: < آمِينَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۲) (صحیح)

(اس حدیث کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد میں آنے والی صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۸۴۵، فواد عبد الباقی اور خلیل مامون شیحا کے نسخوں میں اور مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں ''عثمان بن ابی شیبہ''ہے، مشہور حسن نے ''ابوبکر بن ابی شیبہ'' ثبت کیا ہے، اور ایسے تحفۃ الأشراف میں ہے، اس لئے ہم نے ''ابو بکر'' کو ثبت کیا ہے، جو ابن ماجہ کے مشاہیر مشائخ میں ہیں، اس لئے کہ اما م مزی نے تحفہ میں یہی لکھا ہے، اور تہذیب الکمال میں حمیدبن عبدالرحمن کے ترجمہ میں تلامیذ میں ابوبکر بن ابی شیبہ کے نام کے آگے (م د ق) کا رمز ثبت فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح مسلم، ابوداود، اور ابن ماجہ میں ابو بکر کے شیخ حمید بن عبد الرحمن ہی ہیں، ملاحظہ ہو، تہذیب الکمال : (۷/ ۳۷۷)، اور عثمان بن ابی شیبہ کے سامنے (خ م) یعنی بخاری ومسلم کا رمز دیا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں میں حمید سے روایت کرنے والے عثمان ہیں، ایسے ہی عثمان کے ترجمہ میں حمید بن عبد الرحمن کے آگے (خ م) کا رمز دیا ہے)
۸۵۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو سنا کہ جب آپﷺ ''وَلا الضَّالِّينَ'' کہتے تو ''آمین'' کہتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آمین کے معنی ہیں قبول کر، اور بعضوں نے کہاکہ آمین اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے، اور جو کوئی اس کو برا سمجھے اس کو اپنی حدیث مخالف روش پر فکر مند ہونا چاہئے کہ وہ حدیث رسول کے اعراض سے کیوں کر اللہ کے یہاں سرخرو ہوسکے گا۔
855- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَعَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَلَمَّا قَالَ: < وَلا الضَّالِّينَ > قَالَ: < آمِينَ >، فَسَمِعْنَاهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۲)، ت/الصلاۃ ۷۰ (۲۴۸)، ن/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، حم (۴/۳۱۵، ۳۱۷، دي/الصلاۃ ۳۹ (۱۲۸۳) (صحیح)

۸۵۵- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، جب آپ نے ''وَلا الضَّالِّينَ'' کہا، تو اس کے بعد آمین کہا، یہاں تک کہ ہم نے اسے سنا ۔
856- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، حدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْئٍ ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلامِ وَالتَّأْمِينِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۲۵) (صحیح)

۸۵۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ کلمے ان کو بھی بہت پسند آئے، مگر مسلمانوں کی ضد میں اس پر عمل نہ کرسکے، اور حسد میں جلتے رہ گئے، قل موتوا بغيظكم۔
857- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الْخَلالُ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُومُسْهِرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ صَالِحِ بْنِ صُبَيْحٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْئٍ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى آمِينَ، فَأَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ آمِينَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۹۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۴) (ضعیف جدا)

(سند میں طلحہ بن عمرو متروک ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث بغیر آخری ٹکڑے ''فَأَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ آمِينَ'' کے ثابت ہے)
۸۵۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا ''آمین'' کہنے پر کیا، لہٰذا تم آمین کثرت سے کہا کرو'' ۔
ہائی لائٹ کردہ الفاظ بھی اگر حدیث ہیں تو آپ بتادیں ؟ یا
محمد نعیم یونس صاحب بتادیں ؟

حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے
بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے،
سنت کہنے والا کون ہے ؟ امتی ہی ہے ناں یا معاذاللہ کوئی نبی ہے یا اللہ ؟
اسی لئے میں نے چند سوالات پوچھ ڈالے تھے
1
نماز فجر اور نماز مغرب اور نماز عشاء کے وقت یہودی بازار میں نہیں ہوتے ظہر،عصر میں وہ بازار میں ہوتے ہیں مگر ان دونوں نمازوں میں آپ سب غیر مقلد آمین بلند آواز سے نہیں کہتے کہ یہودی ناراض نہ ہوجائیں۔ کیوں ٹھیک ہے کہ نہیں ؟
2
سوچنا آپ کے کون سے نمبر والی دلیل ہے ؟ اور اسکا درجہ کیا ہے ؟ قرآن کے برابر یا حدیث کے؟
3
سب سے آسان سوال آپ نے جس حدیث سے سوچنا دلیل بنایا ہے اس میں سے جہر پر نشان لگا دیجئے
4
آمین کہتے ہوئے آواز کو کتنا بلند کرنا ہے ؟ برائے مہربانی اس بارے میں کوئی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں۔
اور پوسٹ نمبر 4 کے سوالات بھی ان میں ہی شامل کرلیجئے ۔
شکریہ
نمبر1
فرشتے آمین بلند آواز سے کہتے ہیں یا آہستہ؟
نمبر2
جو مقتدی اس وقت جماعت میں شریک ہو جب امام نصف سے زائد فاتحہ پڑھ چکا ہو اس کے لئے دودفعہ آمین کہنا سنت مؤکدہ ہے ؟۔ ایک دفہ اپنی فاتحہ کے درمیان زور سے آمین اور دوسری بار اپنی فاتحہ کے اختتام پر زوا سے آمین؟۔
ان دونوں سوالوں کے جواب صحیح صریح اور غیر معارض احادیث مبارکہ سے دے دیجئے ۔ پھر کچھ مزید سوالات ہیں وہ آپ سے بعد میں پوچھیں گے ۔
شکریہ
کیونکہ کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث میں یہ صراحت موجود نہیں کہ آمین زور سے کہنی ہے اور زور کتنا لگانا ہے ۔ یہ تو وضاحتیں ہوتی ہیں جن سے کسی بھی نام نہاد اہل حدیث کو مجھ سے پہلے اعتراض ہونا چاھئیے ، اور جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان میں سے حدیث میں سے جہر کا لفظ کسی نے نہیں دکھایا ،یاد رہے حدیث کا لفظ امتی کا نہیں ۔




شکریہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
الحمدللہ کسی بھی حدیث سے غیر متفق نہیں چاھے حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو
آپ کے غیر متفق ہونے کا ثبوت اوپر دیا جاچکا۔
الحمدللہ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں ہر ہر صحیح حدیث پر عامل نہیں بلکہ صرف ان احادیث پر عمل کرتا ہوں جو سنت کے درجہ میں ہیں عام فہم جواب تو یہی ہے جبکہ آپ غیر مقلدین کا دعوٰی یہی ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہوتا اس کے برعکس ہے شاید کسی حدیث پر من و عن عمل کرتے ہوں مگر اس عمل کے مخالف کئی کئی احادیث کو چھوڑتے بھی ہیں یعنی دعوٰی ہر صحیح حدیث پر عمل کا اور جب عمل کریں تو دوسری صحیح احادیث کو چھوڑ دینا ۔
الحمد للہ، دین میں ،لوگوں کے اقوال کے مقابلے میں ، ہم صحیح حدیث پر ہی عمل کرتے ہیں۔اور ہر ہر صحیح حدیث کو مانتے ہیں۔اور سنت احادیث سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال یہ موضوع میرے مراسلے "آمین کہنے کے بارے میں کچھ احادیث مبارکہ"سے مطابقت نہیں رکھتا۔

حدیث میں سے جہر کا لفظ کسی نے نہیں دکھایا ،یاد رہے حدیث کا لفظ امتی کا نہیں ۔
اب دیکھ لیں۔
سنن ابوداود

172-بَاب التَّأْمِينِ وَرَاءَ الإِمَامِ
۱۷۲-باب: امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان
932- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا قَرَأَ: {وَلا الضَّالِّينَ} قَالَ: <آمِينَ > وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۷۲ (۲۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵۸)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۴ (۸۵۵)، حم (۴/۳۱۶)، دي/الصلاۃ ۳۹ (۱۲۸۳) (صحیح)

۹۳۲- وا ئل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ''ولا الضالين'' پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔
933- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ ابْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجَهَرَ بِآمِينَ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ خَدِّهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵۸) (حسن صحیح)
۹۳۳- وا ئل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صلاۃ پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی اور اپنے دائیں ا وربا ئیں جا نب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال کی سفیدی دیکھ لی ۔

سلاما​
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
آپ کے غیر متفق ہونے کا ثبوت اوپر دیا جاچکا۔
میں اب تک غیر متفق ہوں آپ کی وضاحتوں سے ، یہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوا ہوں لیکن آپ نے پھر وہی اعتراض ایسے کردیا ہے جیسے میں نے اپنے غیر متفق ہونے کا انکار کیا تھا ۔ نعیم یونس صاحب میں دوبارہ بھی لکھ چکا ہوں کہ ابھی تک غیر متفق ہوں اور یہ بھی بتاچکا کہ کس بات سے ۔دیکھئے
اب میں آپ کو اور محمد نعیم یونس صاحب کو بتاتا ہوں کہ میں کس بات سے غیر متفق ہوں
ہائی لائٹ کردہ الفاظ بھی اگر حدیث ہیں تو آپ بتادیں ؟ یا
محمد نعیم یونس صاحب بتادیں ؟
مزید بھی آپ نے میری لکھی مکمل عبارت کو کانٹ چھانٹ کر کے اپنی طرف سے اک مطلب بنایا اور اس کا جواب دیا جوکہ میرے سوال کے مطابق بلکل بھی نہیں اور اس کے بھی مطابق نہیں جو آپ نے پیش کیا کیونکہ اگر اسی عبارت کو لیں تو بھی زیادہ سے زیادہ امام کے آواز بلند کرنے کی بات سامنے آئی ہے اور مقتدی کی نہیں اور آواز بلند کتنی کرنی ہے ؟ کتنا زور لگانا ہے ؟ اس کی بھی صراحت موجود نہیں ۔ جبکہ میں نے دیکھا ہے کہ غیر مقلد حضرات آمین کہنے میں جتنا زور لگاتے ہیں اتنی زور سے تو کوئی انڈین کھلاڑی کے آؤٹ ہونے پر "آؤٹ" کہنے میں بھی نہیں لگاتا۔ کتنا زور لگانا ہے ؟ اس بارے میں بھی دلیل پیش کیجئے ۔

الحمد للہ، دین میں ،لوگوں کے اقوال کے مقابلے میں ، ہم صحیح حدیث پر ہی عمل کرتے ہیں۔اور ہر ہر صحیح حدیث کو مانتے ہیں۔اور سنت احادیث سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال یہ موضوع میرے مراسلے "آمین کہنے کے بارے میں کچھ احادیث مبارکہ"سے مطابقت نہیں رکھتا۔
آپ غیر مقلدین کا دعوٰی یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کے مقابلہ میں صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں اور ہر ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں اور سنت احادیث سے ہی معلوم ہوتی ہیں اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا
سنت کہنے والا کون ہے ؟ امتی ہی ہے ناں یا معاذاللہ کوئی نبی ہے یا اللہ ؟
اس بات کا جواب آپ نے نہیں دیا ۔
اور آپ نے اپنی طرف سے کی گئی "وضاحت" میں فرمایا تھا
آمین کہنے کے بارے میں کچھ احادیث مبارکہ

وضاحت ۱؎ : آمین کے معنی ہیں قبول کر، اور بعضوں نے کہاکہ آمین اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے، اور جو کوئی اس کو برا سمجھے اس کو اپنی حدیث مخالف روش پر فکر مند ہونا چاہئے کہ وہ حدیث رسول کے اعراض سے کیوں کر اللہ کے یہاں سرخرو ہوسکے گا۔
یہ جو آپ نے زور سے آمین کہنے کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیا اسبارے میں سوال تھا جناب کہ "سنت" کہنے والا کون ہے؟ ظاہر ہے یہاں تو آپ نے کہا ہے اور آپ معاذ اللہ نہ نبی ہو اور ناہی اللہ بلکہ صرف ایک امتی ہو اور آپ امتیوں کی پیروی کرتے نہیں ،تقلید کے بھی انکاری ہو ۔ مزید وضاحت کیجئے گا کہ حدیث تو حدیث ہی ہوتی ہے زور سے کہنے کی بھی اور کتنا زور لگانا ہے ۔۔۔۔ اور آہستہ کہنے کی بھی حدیث ہی ہوتی ہے ، اس عمل کو سنت کہنے والا کون ہے ؟ اور کس کو حق ہے ؟
اب دیکھ لیں۔
یہ جو دیکھ لیں فرمایا ہے آپ نے یہ لکھنے سے پہلے آپ نے میری عبارت کا ادھورا اقتباس پیش کیا تھا ۔
دیکھئے۔


حدیث میں سے جہر کا لفظ کسی نے نہیں دکھایا ،یاد رہے حدیث کا لفظ امتی کا نہیں ۔
جبکہ مکمل بات ایسے تھی
اسی لئے میں نے چند سوالات پوچھ ڈالے تھے
کیونکہ کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث میں یہ صراحت موجود نہیں کہ آمین زور سے کہنی ہے اور زور کتنا لگانا ہے ۔ یہ تو وضاحتیں ہوتی ہیں جن سے کسی بھی نام نہاد اہل حدیث کو مجھ سے پہلے اعتراض ہونا چاھئیے ، اور جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان میں سے حدیث میں سے جہر کا لفظ کسی نے نہیں دکھایا ،یاد رہے حدیث کا لفظ امتی کا نہیں ۔
ادھوری عبارت لانے سے سوال کا معنی ہی تبدیل کردیا گیا اور پھر وہ احادیث پیش کردیں جو سوال کے لئے کئےگئے اقتباس میں شامل تھیں ہی نہیں ۔
اور جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان میں سے حدیث میں سے جہر کا لفظ کسی نے نہیں دکھایا ،یاد رہے حدیث کا لفظ امتی کا نہیں

بہرحال آپ نے میری عبارت میں کانٹ اور چھانٹ کرنے کے بعد احادیث پیش کی ہیں اس بارے میں شکریہ ادا کرتا ہوں اور حدیث کے جواب میں حدیث اگلی پوسٹ میں پیش کروں گا بغیر آپ کی پوسٹ کردہ احادیث کو ضعیف قرار دئیے ،یعنی حدیث کے جواب میں حدیث۔اس بات کو ضرور مدنظر رکھئے گا ۔
شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
سنن ابوداود

172-بَاب التَّأْمِينِ وَرَاءَ الإِمَامِ
۱۷۲-باب: امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان
932- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا قَرَأَ: {وَلا الضَّالِّينَ} قَالَ: <آمِينَ > وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۷۲ (۲۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵۸)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۴ (۸۵۵)، حم (۴/۳۱۶)، دي/الصلاۃ ۳۹ (۱۲۸۳) (صحیح)

۹۳۲- وا ئل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ''ولا الضالين'' پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔
933- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ ابْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجَهَرَ بِآمِينَ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ خَدِّهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵۸) (حسن صحیح)
۹۳۳- وا ئل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صلاۃ پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی اور اپنے دائیں ا وربا ئیں جا نب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال کی سفیدی دیکھ لی ۔
1
الحدیث : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ". [مسند أبي داود الطيالسي (سنة الوفاة:204 ھہ) » وَحَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى ...رقم الحديث: 1108(صفحہ:138)]
ترجمہ : حضرت وائلؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے، جب آپ نے پڑھا "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" (تو) کہا آمین پست (آہستہ) کرتے اپنی آواز کو اور رکھتے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر (اور ختم نماز پر) سلام پھیرا اپنے دائیں طرف اور (پھر) بائیں طرف.
2
رقم الحديث: 17502

(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ السِّيُوطِيُّ ، ثنا عَفَّانُ ، ثَنا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ حُجْرِ أَبِي الْعَنْبَسِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ : " صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَالَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 ، قَالَ : آمِينَ خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ " .
المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الْوَاوِ » وَائِلُ بْنُ حَجَرٍ الْحَضْرَمِيُّ القيل

3
رقم الحديث: 113
(حديث موقوف) أَحْمَدُ ، قثنا السَّرِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ ، قثنا السَّرِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ , هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : كَانَ عَلِيٌّ ، وَعَبْدُ اللَّهِ : لا يَجْهَرَانِ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، وَلا بِالتَّعَوُّذِ وَلا بِآمِينَ .
الجزء العاشر من الفوائد المنتقاة » لا يجهران ببسم الله الرحمن الرحيم ، ولا بالتعوذ ولا ...

4

عن عبد الرحمن بن أبي ليلى أن عمر بن الخطاب قال : يخفي الإمام أربعا : " التعوذ " " وبسم الله الرحمن الرحيم " " وآمين " " وربنا لك الحمد "
المحلى بالآثار » كتاب الصلاة » أوقات الصلاة » مسألة الركوع في الصلاة والطمأنينة فيه

5


ابن مسعود قال : يخفي الإمام ثلاثا : التعوذ ، " وبسم الله الرحمن الرحيم " " وآمين "
المحلى بالآثار » كتاب الصلاة » أوقات الصلاة » مسألة الركوع في الصلاة والطمأنينة فيه

ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : امام پوشیدہ رکھے تین باتیں : تعوذ (یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) کو ، اور بسم الله الرحمٰن الرحیم کو ، اور آمین کو

6
رقم الحديث: 746
(حديث موقوف) كَمَا حَدَّثَنَا كَمَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : " كَانَ عُمَرُ ، وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لا يَجْهَرَانِ بِ " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ " وَلا بِالتَّعَوُّذِ ، وَلا بِالتَّأْمِينِ " .
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی الله عنه سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علي رضی الله عنہ وہ دونوں نہ بَسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بلند آواز میں پڑھا کرتے تھے، اور نہ تعوذ اور نہ ہی آمین.
شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ قِرَاءَةِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ...
7

(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ ، قَالَ : أَنْبَأَ يَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَكَنٍ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ ، يَقُولُ : " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ حِينَ فَرَغَ مِنَ الصَّلاةِ حَتَّى رَأَيْتُ خَدَّهُ مِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَمِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَقَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ فَقَالَ : " آمِينَ " يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلا يُعَلِّمُنَا
[h1]"مَا أَرَاهُ إِلا يُعَلِّمُنَا"[/h1]
ترجمہ : نہیں میں نے دیکھا انھیں (ایسا کرتے) سوا ہماری تعلیم کرنے کو.
يعنى یہ (بلند آواز میں آمین) ہماری تعلیم کے لئے کہی تھی.
السلام علیکم​
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
آخری بات

بلند آواز سے آمین کی احادیث آپ نے پیش کیں
آہستہ آواز سے آمین کہنے کی احادیث میں نے بھی پیش کیں

ان دونوں طرح کی احادیث کو سامنے رکھ کر فیصلہ کون فرماتا ہے کہ کس عمل کو سنت بنا نا ہے ؟
اللہ تعالٰی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یا امتی؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
1
الحدیث : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ". [مسند أبي داود الطيالسي (سنة الوفاة:204 ھہ) » وَحَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى ...رقم الحديث: 1108(صفحہ:138)]
ترجمہ : حضرت وائلؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے، جب آپ نے پڑھا "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" (تو) کہا آمین پست (آہستہ) کرتے اپنی آواز کو اور رکھتے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر (اور ختم نماز پر) سلام پھیرا اپنے دائیں طرف اور (پھر) بائیں طرف.
7

(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ ، قَالَ : أَنْبَأَ يَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَكَنٍ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ ، يَقُولُ : " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ حِينَ فَرَغَ مِنَ الصَّلاةِ حَتَّى رَأَيْتُ خَدَّهُ مِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَمِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَقَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ فَقَالَ : " آمِينَ " يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلا يُعَلِّمُنَا


السلام علیکم​
جزاك الله خیرا بهائی۔
میں ایك وقت میں كافی حیران ہوا تھا کہ اس حدیث میں تعارض ہے یا کیا وجہ ہے کہ دونوں الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
لیکن ثانی الذکر روایت نے یہ اشکال حل کر دیا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
سہج بھائی غلطی نوٹ فرمائیں
یحیی بن سلمۃ بن کہیل کے ترجمہ میں سلمہ بن کہیل کا لنک دیا گیا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
احناف کے ہاں دورہ حدیث کے بارے میں سنا ہے کہ احادیث پر اعتراضات اور بعید از کار تاویلات کا دورہ ہوتا ہے ۔ خیر دورے میں تو کبھی شرکت کا موقعہ نہیں ملا ۔ البتہ یہ لڑی اس کی بہترین مثال ہے ۔
اب جہر بآمین والی احادیث پر یہ اعتراض کرنا کہ آواز کتنی اونچی ہونی چاہیے ؟ کتنی لمبی ہونی چاہیے ؟ فرشتے آہستہ کہتے ہیں کہ اونچا ؟
ان سب کی وضاحت دکھائی جائے تو پھر ہی ’’ جہر بآمین ‘‘ والی احادیث پر عمل ہوسکے گا ورنہ یہ حدیث اس لائق نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے ۔ انا للہ وانا الیہ رجعون ۔
اوپر سے یہ کہا جاتاہے کہ اس حدیث پر عمل کرنے والے لوگ کرکٹ کے شائقین جیسی آوازیں نکالتے ہیں ۔ تو بھائی آپ کسی کے غلط عمل کی بنیاد پر حدیث رسول تو نہ چھوڑیں ۔ آپ صحیح طرح اس پر عمل کرکے دکھادیں ۔
جزاك الله خیرا بهائی۔
میں ایك وقت میں كافی حیران ہوا تھا کہ اس حدیث میں تعارض ہے یا کیا وجہ ہے کہ دونوں الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
لیکن ثانی الذکر روایت نے یہ اشکال حل کر دیا۔
مختلف احادیث میں بفرض صحت بہترین جمع یہ ہے کہ ’’آمین اونچی آواز میں ہونی چاہیے ، لیکن بہت زیادہ اونچی آواز میں نہیں ہونی چاہیے ‘‘
اس کا ذکر شروع کےمراسلات میں گزر چکاہے ۔

یعنی پہلے امام بلند آواز سے آمین کہے، پھر مقتدی بھی آواز سے آمین کہیں، اور اس کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ آمین آہستہ سے کہنا چاہئے، اور دلیل دیتے ہیں وائل کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ''غير المغضوب عليهم ولا الضالين'' پر پہنچے تو آہستہ سے آمین کہی، (مسند امام احمد، مسند ابو یعلی، طبرانی، دار قطنی، مستدرک الحاکم) ہم کہتے ہیں کہ خود اس حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے، ورنہ وائل نے کیوں کر سنا اور سفیان نے اس حدیث کو وائل سے روایت کیا، اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین کہی بلند آواز سے، اور صاحب ہدایہ نے آمین کو دھیرے سے کہنے پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا ہے، او ر وہ روایت ضعیف ہے، نیز صحابی کا قول مرفوع حدیثوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، او ریہ بھی ممکن ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد اخفاء سے یہ ہو کہ زور سے کہنے میں مبالغہ نہ کرے، واللہ اعلم۔
صحیح اور ضعیف احادیث کا آپس میں تعارض کروانا یہ کوئی علمی کام نہیں ہے ۔
اوپر ذکر کردہ ’’ ما أراہ إلا یعلمنا ‘‘ والی روایت پتہ نہیں کہاں سے لی گئی ہے ۔ ؟ حوالہ بیان کیا جائے ۔
فی الوقت اتنا کہہ سکتاہوں کہ جس جگہ مجھے یہ روایت ملی ہے اس کی سند میں ایک راوی ’’ زیاد ابو السکن ‘‘ ضعیف ہے ۔ دیکھیے ( لسان المیزان رقم 3260 ط أبی غدۃ )
دوسری بات : اگر یہ روایت ٹھیک بھی ہو تو اس میں ’’ ما أراہ إلا یعلمنا ‘‘ یہ مرفوع نہیں ہیں بلکہ موقوف ہیں ۔ مرفوع اور موقوف حدیث کا بھی آپس میں تعارض نہیں کروایا جاسکتا ۔
 
Top