رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم
اس طرح کی ایک مرفوع حدیث ہے جس میں ہے:
مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ ، إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ
"کوئی شخص مجھ سلام نہیں کہتا حتی کہ اللہ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے تا کہ میں اس کا جواب دے سکوں۔"
یہ حدیث تو صحیح ہے اور اس میں صرف نبی کی روح کا لوٹنا ثابت ہوتا ہے، جبکہ بعض لوگوں نے ایک اور حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہر شخص کی روح لوٹائی جاتی ہے، ان کی دلیل درج ذیل حدیث ہے:
(ما من عبد يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام)
"کوئی بندہ ایسے شخص کی قبر سے نہیں گزرتا جس کو وہ دنیا میں جانتا ہو اور اسے سلام کہے، حتی کہ وہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔"
حالانکہ یہ حدیث ضعیف بلکہ سخت ضعیف ہے۔
أخرجه أبو بكر الشافعي في "مجلسان" (6/ 1) ، وابن جميع في "معجمه" (351) ، وأبو العباس الأصم في "الثاني من حديثه" (ق 143/ 2 ورقم 43 - منسوختي) ، ومن طريقه الخطيب في "التاريخ" (6/ 137) ، وتمام في "الفوائد" (2/ 19/ 1) ، وعنه ابن عساكر (3/ 209/ 2 و 8/ 517/ 1) ، والديلمي (4/ 11) ، والذهبي في "سير أعلام النبلاء" (12/ 590) عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة مرفوعاً.
اس کی سند سخت ضعیف ہے کیونکہ عبد الرحمن بن زید بن اسلم متروک الحدیث ہے اور وہ اپنے باپ سے خصوصا موضوع روایات روایت کرتے ہیں۔
یہ روایت ایک اور طریق سے مروی ہے مگر وہ بھی اسی کی طرح سخت ضعیف ہے۔ ابن ابی الدنیاء کتاب القبور میں روایت کرتے ہیں کہ:
حدثنا محمد بن قدامة الجوهري: حدثنا معن بن عيسى القزاز: أخبرنا هشام بن سعد: حدثنا زيد بن أسلم، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: "إذا مر الرجل بقبر أخيه يعرفه فسلم عليه؛ رد عليه السلام وعرفه، وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه؛ رد عليه السلام".
یہ سند موقوف ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے اور ضعیف بھی۔ منقطع اس لیے کہ زید بن اسلم نے ابو ہریرۃ سے نہیں سنا جیسا کہ امام ابن معین نے فرمایا۔ اور ضعیف اس لیے کہ محمد بن قدامۃ الجوہری کے بارے میں امام ابن معین نے فرمایا: "لیس بشئ"۔ اور ابو داود نے فرمایا: "اس سے کبھی کوئی چیز نہ لکھی جائے"۔ اسی لیے امام ذہبی نے بھی اسے اپنی الضعفاء میں ذکر کیا۔
اس روایت کا مزید ایک شاہد ہے ابن عباس کی حدیث سے، جسے بعض متاخرین نے صحیح قرار دیا ہے۔ اسے ابن عبد البر نے الاستذکار میں روایت کیا ہے:
أخبرنا أبو عبد الله عبيد بن محمد - قراءة مني عليه سنة تسعين وثلاث مئة في ربيع الأول - قال: أملت علينا فاطمة بنت الريان المخزومي المستملي - في دارها بمصر في شوال سنة اثنتين وأربعين وثلاث مئة - قالت: أخبرنا الربيع بن سليمان المؤذن - صاحب الشافعي -: أخبرنا بشر بن بكر، عن الأوزاعي، عن عطاء، عن عبيد بن عمير، عن ابن عباس قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: فذكره
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1052&hid=55&pid=532713
ابن عبد البر کا شیخ، عبید بن محمد، اور اس کی شیخا، فاطمہ بنت الریان دونوں مجھول الحال ہیں۔
لیکن صالح المنجد اور بعض معاصرین نے ان دونوں کو صرف اس لیے ثقہ قرار دیا ہے کیونکہ بعض علماء نے اس سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ مثلا: صالح المنجد فرماتے ہیں:
"وهذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات معروفون ، إلا شيخ ابن عبد البر ، وفاطمة بنت الريان ، لم أقف لهما على ترجمة ، غير أن توثيقهما مستفاد من تصحيح ابن عبد البر نفسه لهذا الحديث ، إذ لا يمكن أن يصحح حديثا وهو لا يعرف من حدثه بها بالتوثيق ، وما زال علماء الحديث يوثقون الرواة إذا رأوا من يصحح الأسانيد التي ورد ذكرهم فيها . كما نقل ابن تيمية عن عبد الله بن المبارك ثبوت هذا الحديث ، فقال : " قال ابن المبارك : ثبت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم " انتهى. "مجموع الفتاوى" (24/331)
وكذلك صحح الحديث من المتأخرين : الحافظ عبد الحق الإشبيلي ، والقرطبي في "المفهم" (1/500) ، وابن تيمية في "مجموع الفتاوى" (24/173) ، والعراقي في تخريج "إحياء علوم الدين" (4/491)، والزبيدي في "شرح الإحياء" (10/365)، والسيوطي في "الحاوي" (2/302) ، والعظيم أبادي في "عون المعبود" (3/261) ، والشوكاني في "نيل الأوطار" (3/304) وغيرهم .
شیخ صالح فرماتے ہیں کہ اسے ابن عبد البر نے بھی صحیح کہا ہے حالانکہ الاستذکار میں انہوں نے اس حدیث کی کوئی تصحیح نہیں کی ہے۔ اس کے علاوہ عبد اللہ بن المبارک کی تصحیح نہ تو ثابت ہے اور نہ ہی وہ ابن عبد البر کی خاص اس سند کی تصحیح کر رہے ہیں کیونکہ اس سند کا تو ان کے زمانے میں کوئی وجود ہی نہ تھا، لہذا ان کی تصحیح کو اس سند پر جاری کرنا غلط ہے۔ اس کے علاوہ متاخرین میں سے عبد الحق الاشبیلی، القرطبی، ابن تیمیۃ، العراقی، الزبیدی، اور السیوطی وغیرہ کی تصحیح کا کچھ فائدہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ علماء ناقدین میں سے تھے اور نہ ہی ان کا حدیث کے فن میں وہ مقام ہے جو ذہبی اور ابن حجر وغیرہ کا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس سند کے راویوں کی بھی کوئی صراحتا توثیق نہیں کی ہے بلکہ صرف سند کی تصحیح کی ہے۔
اس کے علاوہ اگر سند کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ حدیث ایک علت قادحہ کی وجہ سے ضعیف ہی رہے گی۔ اور وہ علت ہے اس کا شاذ اور غریب جدا ہونا۔ آج تک تدوین حدیث کے وقت کے محدثین نے کبھی اس حدیث کو الاوزاعی کے طریق سے روایت نہیں کیا۔ بلکہ سب متفقا طور پر اس کو "ربیع بن سلیمان - بشر بن بکر - عبد الرحمن بن زید بن اسلم" کے طریق سے روایت کرتے آئے ہیں۔ جبکہ ابن عبد البر کی صرف اسی غریب اور شاذ روایت میں ان دو مجھول لوگوں نے اسے "ربیع بن سلیمان - بشر بن بکر - الاوزاعی" کے طریق سے روایت کیا ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ ان دو مجھول لوگوں نے اسے الاوزاعی سے روایت کرنے میں حفاظ کی مخالفت کی ہے، جبکہ انہیں اسے ابن اسلم کے طریق سے روایت کرنا چاہیے تھا۔
وہ راوی جو اس روایت کو ربیع بن سلیمان عن بشر بن بکر عن عبد الرحمن بن اسلم سے روایت کرتے ہیں:
1- عیسی بن یونس
2- حسن بن حبیب الحصائری (ثقہ ثبت)
3- ابو علی احمد بن محمد بن فضالہ (ثقہ حافظ)
4- ابو العباس الاصم (ثقہ حافظ)
5- محمد بن مخلد الرعینی
6- یسع بن احمد بن الیسع الدمیاطی
7- محمد بن سہل ابو تراب
جب کہ صرف یہ دو مجھول الحال راوی اسے ربیع بن سلیمان عن بشر بن بکر عن الاوزاعی سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سند ضعیف نہیں تو کم از کم شاز ترین قسم کی حدیث میں سے ضرور ہے۔
اس کا ایک اور اخری شاہد ہے ابو ہریرۃ کے طریق سے:
"أشهد أنكم أحياء عند الله، فزوروهم وسلموا عليهم، فوالذي نفسي بيده! لا يسلم عليهم أحد إلا ردوا عليه إلى يوم القيامة"
لیکن شیخ البانی اسے مضطرب و مرسل قرار دیا ہے، دیکھیں:
سلسلۃ الضعیفۃ 5221
اس طرح کی ایک مرفوع حدیث ہے جس میں ہے:
مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ ، إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ
"کوئی شخص مجھ سلام نہیں کہتا حتی کہ اللہ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے تا کہ میں اس کا جواب دے سکوں۔"
یہ حدیث تو صحیح ہے اور اس میں صرف نبی کی روح کا لوٹنا ثابت ہوتا ہے، جبکہ بعض لوگوں نے ایک اور حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہر شخص کی روح لوٹائی جاتی ہے، ان کی دلیل درج ذیل حدیث ہے:
(ما من عبد يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام)
"کوئی بندہ ایسے شخص کی قبر سے نہیں گزرتا جس کو وہ دنیا میں جانتا ہو اور اسے سلام کہے، حتی کہ وہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔"
حالانکہ یہ حدیث ضعیف بلکہ سخت ضعیف ہے۔
أخرجه أبو بكر الشافعي في "مجلسان" (6/ 1) ، وابن جميع في "معجمه" (351) ، وأبو العباس الأصم في "الثاني من حديثه" (ق 143/ 2 ورقم 43 - منسوختي) ، ومن طريقه الخطيب في "التاريخ" (6/ 137) ، وتمام في "الفوائد" (2/ 19/ 1) ، وعنه ابن عساكر (3/ 209/ 2 و 8/ 517/ 1) ، والديلمي (4/ 11) ، والذهبي في "سير أعلام النبلاء" (12/ 590) عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة مرفوعاً.
اس کی سند سخت ضعیف ہے کیونکہ عبد الرحمن بن زید بن اسلم متروک الحدیث ہے اور وہ اپنے باپ سے خصوصا موضوع روایات روایت کرتے ہیں۔
یہ روایت ایک اور طریق سے مروی ہے مگر وہ بھی اسی کی طرح سخت ضعیف ہے۔ ابن ابی الدنیاء کتاب القبور میں روایت کرتے ہیں کہ:
حدثنا محمد بن قدامة الجوهري: حدثنا معن بن عيسى القزاز: أخبرنا هشام بن سعد: حدثنا زيد بن أسلم، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: "إذا مر الرجل بقبر أخيه يعرفه فسلم عليه؛ رد عليه السلام وعرفه، وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه؛ رد عليه السلام".
یہ سند موقوف ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے اور ضعیف بھی۔ منقطع اس لیے کہ زید بن اسلم نے ابو ہریرۃ سے نہیں سنا جیسا کہ امام ابن معین نے فرمایا۔ اور ضعیف اس لیے کہ محمد بن قدامۃ الجوہری کے بارے میں امام ابن معین نے فرمایا: "لیس بشئ"۔ اور ابو داود نے فرمایا: "اس سے کبھی کوئی چیز نہ لکھی جائے"۔ اسی لیے امام ذہبی نے بھی اسے اپنی الضعفاء میں ذکر کیا۔
اس روایت کا مزید ایک شاہد ہے ابن عباس کی حدیث سے، جسے بعض متاخرین نے صحیح قرار دیا ہے۔ اسے ابن عبد البر نے الاستذکار میں روایت کیا ہے:
أخبرنا أبو عبد الله عبيد بن محمد - قراءة مني عليه سنة تسعين وثلاث مئة في ربيع الأول - قال: أملت علينا فاطمة بنت الريان المخزومي المستملي - في دارها بمصر في شوال سنة اثنتين وأربعين وثلاث مئة - قالت: أخبرنا الربيع بن سليمان المؤذن - صاحب الشافعي -: أخبرنا بشر بن بكر، عن الأوزاعي، عن عطاء، عن عبيد بن عمير، عن ابن عباس قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: فذكره
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1052&hid=55&pid=532713
ابن عبد البر کا شیخ، عبید بن محمد، اور اس کی شیخا، فاطمہ بنت الریان دونوں مجھول الحال ہیں۔
لیکن صالح المنجد اور بعض معاصرین نے ان دونوں کو صرف اس لیے ثقہ قرار دیا ہے کیونکہ بعض علماء نے اس سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ مثلا: صالح المنجد فرماتے ہیں:
"وهذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات معروفون ، إلا شيخ ابن عبد البر ، وفاطمة بنت الريان ، لم أقف لهما على ترجمة ، غير أن توثيقهما مستفاد من تصحيح ابن عبد البر نفسه لهذا الحديث ، إذ لا يمكن أن يصحح حديثا وهو لا يعرف من حدثه بها بالتوثيق ، وما زال علماء الحديث يوثقون الرواة إذا رأوا من يصحح الأسانيد التي ورد ذكرهم فيها . كما نقل ابن تيمية عن عبد الله بن المبارك ثبوت هذا الحديث ، فقال : " قال ابن المبارك : ثبت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم " انتهى. "مجموع الفتاوى" (24/331)
وكذلك صحح الحديث من المتأخرين : الحافظ عبد الحق الإشبيلي ، والقرطبي في "المفهم" (1/500) ، وابن تيمية في "مجموع الفتاوى" (24/173) ، والعراقي في تخريج "إحياء علوم الدين" (4/491)، والزبيدي في "شرح الإحياء" (10/365)، والسيوطي في "الحاوي" (2/302) ، والعظيم أبادي في "عون المعبود" (3/261) ، والشوكاني في "نيل الأوطار" (3/304) وغيرهم .
شیخ صالح فرماتے ہیں کہ اسے ابن عبد البر نے بھی صحیح کہا ہے حالانکہ الاستذکار میں انہوں نے اس حدیث کی کوئی تصحیح نہیں کی ہے۔ اس کے علاوہ عبد اللہ بن المبارک کی تصحیح نہ تو ثابت ہے اور نہ ہی وہ ابن عبد البر کی خاص اس سند کی تصحیح کر رہے ہیں کیونکہ اس سند کا تو ان کے زمانے میں کوئی وجود ہی نہ تھا، لہذا ان کی تصحیح کو اس سند پر جاری کرنا غلط ہے۔ اس کے علاوہ متاخرین میں سے عبد الحق الاشبیلی، القرطبی، ابن تیمیۃ، العراقی، الزبیدی، اور السیوطی وغیرہ کی تصحیح کا کچھ فائدہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ علماء ناقدین میں سے تھے اور نہ ہی ان کا حدیث کے فن میں وہ مقام ہے جو ذہبی اور ابن حجر وغیرہ کا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس سند کے راویوں کی بھی کوئی صراحتا توثیق نہیں کی ہے بلکہ صرف سند کی تصحیح کی ہے۔
اس کے علاوہ اگر سند کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ حدیث ایک علت قادحہ کی وجہ سے ضعیف ہی رہے گی۔ اور وہ علت ہے اس کا شاذ اور غریب جدا ہونا۔ آج تک تدوین حدیث کے وقت کے محدثین نے کبھی اس حدیث کو الاوزاعی کے طریق سے روایت نہیں کیا۔ بلکہ سب متفقا طور پر اس کو "ربیع بن سلیمان - بشر بن بکر - عبد الرحمن بن زید بن اسلم" کے طریق سے روایت کرتے آئے ہیں۔ جبکہ ابن عبد البر کی صرف اسی غریب اور شاذ روایت میں ان دو مجھول لوگوں نے اسے "ربیع بن سلیمان - بشر بن بکر - الاوزاعی" کے طریق سے روایت کیا ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ ان دو مجھول لوگوں نے اسے الاوزاعی سے روایت کرنے میں حفاظ کی مخالفت کی ہے، جبکہ انہیں اسے ابن اسلم کے طریق سے روایت کرنا چاہیے تھا۔
وہ راوی جو اس روایت کو ربیع بن سلیمان عن بشر بن بکر عن عبد الرحمن بن اسلم سے روایت کرتے ہیں:
1- عیسی بن یونس
2- حسن بن حبیب الحصائری (ثقہ ثبت)
3- ابو علی احمد بن محمد بن فضالہ (ثقہ حافظ)
4- ابو العباس الاصم (ثقہ حافظ)
5- محمد بن مخلد الرعینی
6- یسع بن احمد بن الیسع الدمیاطی
7- محمد بن سہل ابو تراب
جب کہ صرف یہ دو مجھول الحال راوی اسے ربیع بن سلیمان عن بشر بن بکر عن الاوزاعی سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سند ضعیف نہیں تو کم از کم شاز ترین قسم کی حدیث میں سے ضرور ہے۔
اس کا ایک اور اخری شاہد ہے ابو ہریرۃ کے طریق سے:
"أشهد أنكم أحياء عند الله، فزوروهم وسلموا عليهم، فوالذي نفسي بيده! لا يسلم عليهم أحد إلا ردوا عليه إلى يوم القيامة"
لیکن شیخ البانی اسے مضطرب و مرسل قرار دیا ہے، دیکھیں:
سلسلۃ الضعیفۃ 5221