• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

دین اسلام میں بچوں کی تربیت اور نگہداشت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور نبی کریمﷺ نے بچوں کو جنت کے پھول قرار دیا۔ بچے پر اثر انداز ہونے والے تین عوامل ہیں: گھر، مدرسہ اور معاشرہ۔ بچے کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات اس کے گھر کے ماحول کے ہوتے ہیں ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے اس لیے ماں کی بچے کی تربیت میں خاصا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
زیر نظرکتاب میں مصنفہ ڈاکٹر ام کلثوم نے تربیت اولاد میں والدین کے کردار کواجاگر کیا ہے۔ انہوں نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ بچوں کی تربیت کے ذیل میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو بہت خوبصورت انداز میں جمع کر دیا ہے۔بچوں کی اسلامی تربیت پر قابل مطالعہ کتاب۔
 
Last edited by a moderator:

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کتاب کا نام
بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

مصنف
ڈاکٹر ام کلثوم

ناشر
دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد


تبصرہ

دین اسلام میں بچوں کی تربیت اور نگہداشت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور نبی کریمﷺ نے بچوں کو جنت کے پھول قرار دیا۔ بچے پر اثر انداز ہونے والے تین عوامل ہیں: گھر، مدرسہ اور معاشرہ۔ بچے کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات اس کے گھر کے ماحول کے ہوتے ہیں ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے اس لیے ماں کی بچے کی تربیت میں خاصا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ زیر نظرکتاب میں مصنفہ ڈاکٹر ام کلثوم نے تربیت اولاد میں والدین کے کردار کواجاگر کیا ہے۔ انہوں نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ بچوں کی تربیت کے ذیل میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو بہت خوبصورت انداز میں جمع کر دیا ہے۔ (ع۔م)
اس کتاب بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
 
Last edited by a moderator:

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فہرست
ابتدائیہ
تعارف
تربیت اولاد کی ابتداء
تربیت کے ذرائع
تربیت کے چند بنیادی اصول
بچے کے حقوق
بچوں کی زندگی کے اہم ادوار
بچوں کی غذائی ضروریات
بچوں کی صحت کے اہم مسائل
صحت وصفائی
بچوں کی تعلیم
نضم وضبط
تربیت کی اہم ضروریات
حسن اخلاق کی تعلیم
دعا
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
موجودہ حالات کے عین مطابق کتاب ہے مگر چھوٹے بھائی بچے تو یہ کتاب نہیں پڑھیں گے اسے والدین ہی کو پڑھنا پڑے گا۔
اگر والدین بھی پڑھے لکھے نہ ہوں تو پڑوسیوں کو بلایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ ابتسامہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں ؟

تحریر : مونا کلیم
ہم سب اس الجھن کا شکار ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہیے یا نہیں. اس موضوع پر اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے. مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا. چند فی صد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے ان شاءاللہ ان کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی
بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں
آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں 
بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے. بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں. اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.
بچوں کو فارغ مت رکھیں
فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں. ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.
بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں
یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. اللہ نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے. بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے. اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں. کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.
بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں. حضرت عمر رضی اللہ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے. ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.
بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں. اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.
بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں. یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے
بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہےیا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں. بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں.
بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے .
بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں. آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے . مسلہ یہ ہے کہ آج کے دور پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے. یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.
بچوں کو بستر پر جب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں
والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں.ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے . نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.
13 یا 14 سال کی عمر میں بچوں کو ڈاکٹر آصف جاہ کی کتاب Teenage Tinglings پڑھنے کو دیں. اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے .یاد رکھیں آپ اپنے بچوں کو گائیڈ نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ تر غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے.
تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں اللہ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں انشاءاللہ اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.
آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو انشاءاللہ آخرت میں اللہ کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے. اللہ امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے. آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ماما آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟

تحریر : اسری غوری

یہ پچھلے سال کے رمضان کا آخری عشرہ تھا، شاید بائیسویں یا چوبیسویں شب.
چھوٹو تراویع کے بعد ہی سے رٹ لگانا شروع ہوگیا تھا، ماما آج ہمیں دوست نے گھر بلایا ہے، رات ہم اس کے گھر جائیں گے اور سحری کر کے آئیں گے.
چونکہ یہ معلوم تھا کہ ماما کبھی کسی کے گھر رات کو رکنے کی اجازت نہیں دیتیں سو ماما کی خاموشی کے باوجود بار بار یاد دہانی کروارہا تھا. جب اس کی ہر یاد دہانی کے جواب میں ماما خاموش رہیں تو بڑے صاحب ( بڑے بھائی ) بھی درمیان میں کود پڑے کہ ظاہر ہے انھں بھی ساتھ جانا تھا
سو ذرا زور دے کر کہا :
ماما آپ جواب کیوں نہیں دے رہیں؟
ماما نے اک نظر اس پر ڈالی جیسے خود سوال کر ڈالا ہو کہ کبھی اس طرح کہیں رات رکنے کی اجازت ملی ہے؟
بڑے صاحب نے اک لمحے کو نگاہیں ادھر ادھر کیں مگر پھر بولے :
آپ ہمیں کب تک بچہ بنا کر رکھیں گی ماما؟
ہمارے سارے دوست کئی کئی راتیں دوستوں کے گھروں پر رکتے ہیں کیا ان کی ماما نہیں ہوتیں؟
بچوں کے چہروں پر چھائی جھنجھلاہٹ اور دبے دبے غصے نے اک لمحے کو ماما کو پریشان سا کیا مگر پھر نرم لہجے میں کہا:
کیا کرنا ہے رات بھر اس دوست کے گھر؟ کیا شب بیداری ہوگی؟ عبادت ہوگی؟ رمضان کے آخری عشرے میں کیا اللہ کی تلاش ہوگی؟
چھوٹو کا جواب آیا :
نہیں ماما، ہم گیم کھیلیں گے مگر اور بھی تو بچے آ رہے ہیں نا گیم کھیلنے، سب نے وہاں سحری تک رہنا ہے.
ماما نے پیار سے جواب دیا:
دیکھو بیٹا ہر گھر کے الگ الگ طور طریقے ہوتے ہیں، لوگ تو بہت کچھ کرتے ہیں، ہم کسی کی برابری تو نہیں کر سکتے نا.
بڑے نے ماما کی بات کاٹ کر کہا ذرا تیز آواز میں کہا :
ماما آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟
ماما نے بڑی حوصلے اور ہمت جمع کر کے جواب دیا :
اپنی اولاد اور اپنی ترتبیت پر پورا اعتبار ہے بیٹا، مگر زمانے پر اعتبار نہیں. جس کے پاس تم لوگوں نے جانا ہے، اس کی تربیت میں نے نہیں کی.
مگر ماما کی اتنی بات سے بھلا کس نے مطمئن ہونا تھا.
چھوٹو پلٹ کر بولا :
آپ کب تک ہمیں ایسے دو سال کا بچہ بنا کر رکھیں گی.
ماما نے ہمیشہ بچوں کو اپنے نزدیک رکھا تھا. ان میں کبھی کوئی کمیونیکیشن گیپ نہیں آیا تھا اور بچے بھی ہمیشہ اس کی باتوں سے مطمئن ہوجایا کرتے تھے
مگر آج سوال پر سوال کا اٹھنا یہ بتا رہا تھا کہ اب صرف انکار ہی کافی نہیں تھا بلکہ اس انکار کی وجہ بھی بچوں کو بتانی ضروری ہوگئی تھی یعنی بچے بڑے ہو رہے تھے. اب ان کے سامنے وہ تمام باتیں بھی کھل کر ڈسکس کرنی ضروری ہوگئی تھیں جن کی وجہ سے ماما اتنی محتاط رہتی تھیں.
ماما نے کہا اچھا آپ دونوں یہاں آئیں ذرا.
دونوں پاس آگئے مگر بیٹھا کوئی نہیں
ماما نے کھڑے کھڑے بڑے سے ہی سوال کیا.
آج امریکہ میں ایک بل پاس ہوا ہے، کیا آپ جانتے ہیں اس بل کے بارے میں؟
کچھ دیر تو بڑا سٹپٹایا کہ یہ کیسا سوال ہے جو اچانک آیا، مگر پھر جواب آیا :
“جی ماما ”
ماما کو اندازہ تو تھا کہ سارا دن ہی فیس بک پر یہ خبر چھائی ہوئی تھی، کیسے چھپی رہتی؟
اگلا سوال چودہ سالہ چھوٹو سے تھا
اور آپ کو بھی پتا ہے کہ اس بل کے پاس ہونے کا؟ وہاں سے بھی جواب ہاں میں آیا.
کچھ لمحے خاموشی رہی. پھر ہمت جمع کر کے ماما نے اگلا سوال چھوٹو سے کیا
اس کا مطلب جانتے ہیں بیٹا؟
یہ ایک اور غیرمتوقع سوال تھا، مگر جواب بھی اتنا ہی غیرمتوقع آیا
جب چودہ سالہ چھوٹو نے چہرہ نیچے کیے صرف گردن اثبات میں ہلائی
اب آگے بات کرنا ماما کے حوصلے کا اک امتحان تھا کہ اپنی ہی اولاد سہی مگر یہ کوئی عام ٹاپک نہیں تھا کہ جس پر ماما بولنا شروع کردیتی اور دنیا بھر کی مثالیں سامنے رکھ کر سب سمجھا کر اٹھ کھڑی ہوتیں.
اس ٹاپک کو سمجھانے کے لیے ماما نے آج ہی دورہ قرآن مین پڑھائی گئی ” سورہ لوط ” کا سہارا لیا
چھوٹو تفہیم القرآن لے کر آئیں، ماما نے نگاہیں نیچے رکھے رکھے کہا.
سامنے دونوں ہی وہ بیٹے تھے، عمر کے ہر نئے موڑ پر اس نے جن کی رہنمائی کی تھی اور انہیں سب خود بتایا اور سمجھایا تھا. مگر اب وہ عمروں کے اس حصہ میں تھے جہاں انہیں صرف ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بلکہ بات کھول کر سمجھانے کا وقت آچکا تھا۔
دونوں کو اس نے اپنے ارد گرد صوفے پر بٹھایا. خود سورہ لوط کی تلاوت کی اور پھر اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی
” یہ تھا وہ عمل جس کی وجہ سے اللہ نے اس قوم پر وہ عذاب نازل کیا جو دنیا میں کسی اور قوم پر نہیں نازل ہوا. دنیا کی ہر قوم ایک عذاب کی مستحق ہوئی مگر قوم لوط ایک ساتھ تین عذابوں کی
پوری کی پوری قوم اندھی کردی گئی
پھر آسمان سے پتھروں کی برسات جو کہ ہر ایک کے نام کے ساتھ مارے گئے کہ کون سا پتھر کس کو لگنا ہے
تیسرا عذاب کہ پوری بستی الٹ دی گئی
ویسے ہی جیسے جب آپ کسی چیز پر شدید غصہ ہوتے ہیں نا تو اسے صرف توڑ کر نہیں پھینک دیتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اس کو چورا چورا بنا دیں، اس کو کچل دیں کہ صرف توڑ دینے سے آپ کا غصہ کم نہیں ہوتا.
اللہ بھی اس قوم پر ایسے ہی غضب ناک ہوا تھا
اور آج اس دنیا میں ایسا قانون پاس کیا جارہا ہے جس میں سیم سیکس کی شادی قانون بنادی گئی ہے، گویا اللہ کو چلینج کیا جارہا ہے.
اور میرے بچو! یہ وبا صرف اسی معاشرے تک نہیں رکی ہوئی بلکہ اس نے ہمارے اچھے اچھے گھروں کے معصوم بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.
تمھاری تربیت میں نے کی اور اللہ کے بنائےاصولوں کے مطابق کرنے کی کوشش کی نجانے میں کس حد اس میں کامیاب رہی ہوں. مگر جن کے پاس تم لوگوں نے جانا، ان کو تو میں جانتی تک نہیں مگر یہ جانتی ہوں کہ گھروں میں ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان کے بچوں نے رات بھر نیٹ پر کیا دیکھا؟ چھوٹے چھوٹے معصوم ذہن کو کیبل پر لگے چینل کیسے پراگندہ کرتے ہیں؟ اور کیسے ان کی معصومیت چھن جاتی ہے اور ماں باپ اس سب سے بے بخبر ہوتے ہیں.
میرے جگر کے ٹکڑو! میں نے تو تمہارے دو منٹ کمرے بند ہوجانے پر بھی فکر کی. تمہیں میڈیا نے نہیں پالا، تمہیں میں نے نبیوں کے قصے اور جنت کے مناظر دکھا کر اور جہنم کی ہولناکی بتا کر پالا ہے. میں تمہیں کیسے اس بے رحم زمانے کے حوالے کردوں؟ کیسے اپنی برسوں کی کمائی کو لمحوں میں برباد ہوتا دیکھوں؟
عمر کے اس مرحلے میں جن حالات میں تم نے قدم رکھا ہے، وہ ہر قدم پر ایک آزمائش سے کم نہیں. ابھی تو سکول سے نکل کر کالج کا مرحلہ جانتے ہو کیسا کٹھن ہوگا؟ خود کو مضبوط رکھنا ہوگا، قرآن سے جڑنا ہوگا، اس کو چھوڑ دیا تو سمجھو شیطان ایسے تمہیں جھپٹ لے گا جیسے چیل کسی گوشت کے ٹکڑے پر جھپٹتی ہے
میرے بچو! میں کیسے اپنی کمائی کو کھلے آسمان تلے کسی کے جھپٹنے کے لیے چھوڑ دوں؟ میں تو آخری سانسوں تک تمہاری ایسے ہی حفاظت کروں گی جیسے مرغی ہلکی سی آہٹ پر اپنے چوزوں کو پروں میں چھپا کر کرتی ہے
ماما کی آواز اب آنسوئوں میں ڈوب کر بھرا چکی تھی
سحری کا وقت ہوچکا تھا
ماما کی گود میں سر رکھے دونوں کے چہروں پرکچھ دیر پہلے چھایا اضطراب اب اک گہرے سکون میں بدل چکا تھا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ ماں کے فیصلے پر مطمئن ہوچکے تھے.
اس نے دونوں کے ماتھے چومے، اللہ کے چنے ہوئے بندوں میں شامل ہونے کی دعا کی اور اللہ کے حضور شکر بجا لانے اٹھ کھڑی ہوئی کہ آج پھر اس نے اسی کے پاک کلام کی مدد سے اپنے بچوں کو زندگی کی اک اور حقیقت سے آشنا کردیا تھا.
اپنے بچوں پر مرضی مسلط مت کیجیے بلکہ ان سے موضوعات اور ایشوز ڈسکس کیجیے. یقین کیجیے آپ کا بچہ وہ نہیں جو آپ گمان کیے بیٹھے ہیں. وہ اتنا باخبر ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے.
اسے آپ اللہ کے کلام کی روشنی میں ہر اک بات سے آگاہ کیجیے، اس سے پہلے کہ اسے کسی ایسی جگہ اور ایسے ماحول سے آگہی حاصل ہو جس کا خمیازہ وہ بھی اور آپ بھی زندگی بھر بھگتیں


http://daleel.pk/2016/07/22/2100
 
Top