• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھائی بیٹے کے لئے لڑکی ”دیکھنے “ جانا

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے پم پر لازم ہے کہ ہم رشتہ دیکھنے میں حسن وجمال ،مال ودولت اور عہدہ ومنصب کی بجاءے دینداری کو ترجیح دیں۔اور اسی بات کی نبی کریمﷺ نے ترغیب دی ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے پم پر لازم ہے کہ ہم رشتہ دیکھنے میں حسن وجمال ،مال ودولت اور عہدہ ومنصب کی بجاءے دینداری کو ترجیح دیں۔اور اسی بات کی نبی کریمﷺ نے ترغیب دی ہے۔
حافظ صاحب یہ بات تو اپنی جگہ سو فیصد درست ہے گو کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اپنے نبی کریمﷺ کی اس ہدایت پر شاز و نادر ہی عمل کرتے ہیں۔
لیکن اس زمرے کا اصل موضوع یہ نہیں ہے۔بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ ”رشتہ دیکھنے کا طریقہ کار“ کیسا ہونا چاہئے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
شادی بیاہ کے حوالہ سے ایک دوسرے دھاگہ میں کچھ لکھنے کا موقع ملا۔ چونکہ اُن مراسلوں کا تعلق اس زمرے سے زیادہ ہے، لہٰذا نہیں یہاں کاپی پیسٹ کردیتا ہوں۔
طلاق کی سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ ہے ۔ ۔ ۔ شادی (ابتسامہ) شادی کے بعد ہی علیحدگی کی نوبت آتی ہے نا۔ دیگر وجوہات کے لئے ذیل کی قسط ملاحظہ کیجئے
  1. اگر آپ کسی پودے کو ایک کیاری سے کسی دوسری کیاری منتقل کردیں تو یہ پودا معمول کے مطابق نشو نما پاکر بآسانی مکمل درخت بن جائے گا۔ لیکن اگر آپ کسی درخت کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر کسی دوسری جگہ زمین میں پیوست کردیں تو اس درخت کے سوکھنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ دعخت اس دوسری جگہ بھی اسی طرح مضبوط درخت بن جائے۔ گو کہ اشارہ کافی ہے لیکن جو لوگ اشارہ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ اتنا جان لیں کہ بلوغت کے بعد لڑکی جتنی جلدی اپنے سسرال منتقل ہوجائے گی، اس کے وہاں "ایڈجسٹ ہونے" کے امکانات اتنے ہی روشن ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ آج کل بڑے شہروں میں لڑکیوں کی شادی بہت تاخیر سے ہونے لگی ہے۔
  2. آج کل کی لڑکیاں عموماً دنیوی تعلیم تو حاصل کرلیتی ہیں۔ ڈاکٹر انجینئر بن جاتی ہیں۔ بی اے، ایم پاس کرلیتی ہیں۔ لیکن عائلی زندگی سے متعلق کوئی علم حاصل نہیں کرتیں۔ شادی سے قبل بچیوں کو لازماً مستقبل کی فیملی لائف سے متعلق بھی رسمی یا غیر رسمی تعلیم دلوانی چاہئے۔ ایسی کتابیں پڑھنے کو دی جانی چاہئے۔ شارٹ کورسز کروانے چاہئے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم بمبئی میں لڑکیوں کی شادی سے متعلق شارٹ کورسز کروارہی ہے۔ پاکستان مین بھی سماجی و دینی تنظیموں کو ایسے کورسز لڑکیوں کو بالخصوص اور لڑکوں کو بالعموم کروانے چاہئے۔ لڑکیوں کو بالخصوص اس لئے تاکہ یہ شادی کے بعد ایک نئے گھرانے میں بہت سارے نئے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے اور ان کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کا "ہنر" آ سکے۔ لڑکا تو شادی کے بعد بھی انہی "پرانے" لوگوں کے ساتھ اسی گھر مین رہتا ہے۔ بس یہان ایک نیا فرد آجاتا ہے۔
  3. عائلی زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کے فرمودات سے بڑھ کر کوئی ہدایت نامہ نہیں ہوسکتا۔ مسلمان بچے بچیوں کو شادی سے ایک دو سال قبل قرآن و حدیث کے یہ حصے باب بار پڑھوانے چاہئے۔ اس کے علاوہ ماہرین طب و نفسیات نے نئے شادی شدہ جوڑوں کے لئے جو جدید تحقیقات پر مبنی تحریریں لکھی ہیں، ان سے بھی واقفیت آج کے عہد میں ضروری ہے۔
  4. لڑکی کو یہ بات خاص طور سے بتلانی چاہئے کہ بہن بیٹی کی حیثیت سے اس کا مقام کچھ اور تھا اور بیوی، بہو بن کر وہ "کچھ اور" ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر اسے یہ شعر یاد رکھنا چاہئے کہ ۔۔۔ متادے اپنی ہستی کو، اگر کچھ مرتبہ چاہے + کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔۔۔ ازدواجی زندگی کہ اگر پندرہ سترہ سال اس شعر کی ہدایت کے مطابق زندگی گذار لے تو اس کے گل و گلزار بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تب تک اس کی اولاد نوجوان ہوچکی ہوگی۔ اور وہ سب کی سب اپنی ماں کی اس طرح خدمت گزار بن جائے گی کہ جنت اس کے قدموں تلے ہوگی
  5. خواتین کی زندگی کے تین اہم اسٹیج ہوتے ہیں۔ ایک بحیثت بیٹی بہن کے۔ اس اسٹیج میں اس کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔ ماں، باپ، بہن، بھائی سب اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ عورت کی زندگی دوسرا اور مشکل ترین مرحلہ شادی کے بعد کم و بیش پندرہ برسوں تک محیط ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں بحیثیت بیوی، بہو اور ماں، اسے تینون محاذوں پر دن رات کام کام اور صرف کام کرنا پڑتا ہے ۔ سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تاکہ ایک طرف شوہر اور سسرال مین اپنی جگہ بنا سکے تو دوسری طرف اس کی اولاد کی تعلیم و تربیت اور نشو نما بہترین طریقہ سے ہوسکے۔ جب پہلی اولاد پندرہ برس کی ہوجاتی ہے اور اس کے پیچھے درجہ بدرجہ اولاد اتنی بڑی ہونے لگتی ہے تو پھر عورت کے آرام و سکون کے دن آجاتے ہیں۔ اپنی ہی پیدا کردہ اور پرورش کردہ اولاد اسے اپنے حصار مین لے لیتی ہے۔ معاشرے میں اس کا مقام اونچا ہوجاتا ہے جو تادم مرگ قائم رہتا ہے۔ اگر پچاس ساٹھ یا ستر سالہ زندگی کے وسط میں پندرہ سترہ سالہ سخت ترین دور کو دل سے قبول کرلے تو عورت کی ساری زندگی سہانی ہی سہانی ہے۔ اور آخرت میں جنت تو ہے ہی۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف بھائی ایک اور قسط بھی دیجیئے ، جس میں مرد حضرات کی شادی سے متعلق ذمہ داریوں کا تذکرہ ہو۔کیونکہ شادی دو لوگوں کی ہوتی ہے،صرف لڑکی کی نہیں۔
ہا ہا ۔ ۔ ۔ ہاہاہا ۔ ۔ ۔ زبردست کہا ۔ بہت خوب۔ آپ کی بات "اپنی جگہ" سو فیصد درست سہی۔ لیکن ۔ ۔
اگر ان دونوں فریقوں میں سے صرف ایک فریق بھی "سدھر" جائے تو بھی شادی کامیاب ہوجاتی ہے۔ اور اگر دونوں سدھر جائیں تو کیا کہنے۔ یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ اگر کم از کم "سدھار" سے شادی کو کامیاب بنانا ہو تو "کم از کم ایک فریق" کا سدھر جانا بھی "کافی" ہوتا ہے۔ اور اگر کسی ایک فریق کو "سدھارنا" ہو تو "لڑکی کو سدھارنا" نسبتاً آسان ہوتا ہے۔اسی لئے جملہ ماہرین ازدواجیات، بشمول ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواجیات کے ضمن میں "ہدایت نامہ برائے بیوی" کو کثرت سے بیان کیا ہے اور "ہدایت نامہ برائے شوہر" کم سے کم ہے۔ اس لئے کہ اگر ایک مرد میں جملہ "انسانی خوبیاں" موجود ہوں (جن کی تفاصیل سے قرآن و حدیث بھری ہوئی ہے) تو ایسا مرد بالعموم "بہترین شوہر" بھی ہوتا ہے۔ اسے پھر الگ سے "بطور شوہر" ہدایت دینے کی کم سے کم ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک خاتون میں جملہ "انسانی خوبیاں" موجود ہوںبھی تو وہ ایک بہترین بیٹی، ایک بہترین بہن، ایک بہترین ماں، ایک بہترین خاتون خاندان تو "بن" سکتی ہے۔ لیکن بہترین "بیوی" نہیں بن سکتی۔ اس کے لئے انہیں "خصوصی تعلیم و تربیت" کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے دنیا کی بہترین مسلمان خواتین "صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہما" تھیں۔ ان میں انسانی اور دینی خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ لیکن اس کے باوجود "بحیثیت بیوی" ان میں سے کئی "کامیاب" نہیں ہوئیں اور وہ اپنے پہلے شوہر سے علیحدہ ہوگئیں۔ اور بعد میں اپنے اس پہلے "تلخ تجربہ" سے کچھ سیکھ کر اگلی مرتبہ بہتر بیوی ثابت ہوئیں۔
یاد رہے کہ ازدواجی زندگی میں "عورت" کے پاس "آپشنز" کی بہت "کمی" ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے اپنے اسی "کم سے کم آپشن آپشنز" میں رہتے ہوئے اپنی دنیوی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ جبکہ مردوں کے پاس "آپشنز" کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ جیسے ۔ ۔ ۔
عموماً لڑکیوں کی شادی "ہوتی" ہے، وہ شادی "کرتی" نہیں ہیں۔ لہٰذا لڑکیاں رشتوں کا "انتظار کرتی" ہیں کہ کوئی رشتہ آئے ۔۔۔ اور جب رشتے آنے لگتے ہیں تو انتظار ہوتا ہے کہ کوئی "اچھا رشتہ" آئے۔ اور رشتہ آنے کا "دورانیہ" بہت مختصر ہوتا ہے۔ یعنی لڑکیوں کے رشتے، اس کی عمر کے "مخصوص" حصے میں ہی آتے ہیں۔ اس کے بعد رشتے آنے بندبھی ہوجاتے ہیں۔
لڑکے اس معاملہ میں بائی ڈیفالٹ "خوش نصیب" ہوتے ہیں۔ وہ جب چاہے شادی کرسکتے ہیں۔ وہ جتنا چاہے رشتہ از خود "ڈھونڈ" سکتے ہیں۔ وہ عمر کے ہر حصہ میں بآسانی شادی کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر ان کا ایک پاؤں (بلحاظ عمر) قبر میں ہو تب بھی وہ شادی "کر سکتے" ہیں۔ خواہ اس کے فوراً بعد ان کا دوسرا پاؤں بھی کیوں نہ قبر میں چلا جائے۔ (ابتسامہ)
لڑکیوں کی ایک مرتبہ شادی ہوجائے تو "شادی کی مارکیٹ" میں اس کی "مارکیٹ ویلیو" عملاً ختم ہوجاتی ہے۔ مزید شادی کا راستہ "بند" ہوجاتا ہے۔ بیوہ ہوجانے یا مطلقہ ہوجانے کی صورت میں بھی (آج ہمارے معاشرے میں بوجوہ) ایسی لڑکی کے لئے مزید شادی، تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔
جبکہ لڑکوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک شادی کے ہوتے ہوئے وہ دوسری، تیسری اور چوتھی شادی تک کرسکتا ہے۔ اور "مزے" کی بات یہ کہ اسے اس کے لئے اپنی پہلی، دوسری یا تیسری بیوی کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر خدا نخواستہ اس کی بیوی انتقال کرجائے یا اس سے خلع لے لے یا یہ خود طلاق دے دے، کسی بھی صورت مین اس کی "مارکیٹ ویلیو" کم نہیں ہوتی۔
شادی کے بعد ازدواجی زندگی میں شوہر "اگلی ڈرائیونگ وھیل" کی بائی ڈیفالٹ حیثیت رکھتا ہے۔ بیوی "پچھلی وھیل کی حیثیت" سے اگلے وھیل کے پیچھے پیچھے چلنے پر "مجبور" ہوتی ہے۔ لہٰذا پسندیدہ یا عمدہ راستہ کا "انتخاب" اس کے پاس نہیں بلکہ ""فرنٹ وھیل" کے پاس ہوتا ہے۔ اسے تو لازماً "فالو" کرنا ہوتا ہے اگر فرنٹ وھیل کی اسپیڈ اور ڈائریکشن کا ساتھ نہیں دیا تو "زندگی کی اس گاڑی" سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ اور فرنٹ وھیل والے کے پاس تو کئی "اسپیئر وھیل" بھی ہوتے ہیں۔
دنیوی اعتبار سے بھی اگر اچھی اور خوشحال زندگی گزارنی ہے تو بیوی کو شوہر کے "نقش قدم" پر چلنا پڑتا ہے اور دینی اعتبار سے جنت میں عمدہ جگہ حاصل کرنی ہے تو اللہ رسول کے بعد شوہر کی "خوشنودی" بھی لازم ہے۔ جبکہ مرد کے لئے اللہ رسول کے بعد اس کی ماں کا درجہ ہے، بیوی کا نہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لئے آسان اور سہل ترین راستہ یہ ہے خواتین کی ترجیحی بنیادوں پر خصوصی تربیت کی جائے۔ کیونکہ اگر یہ تربیت پاگئیں تو نہ صرف یہ کہ خود اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر کر لیں گی بلکہ آنے والی نسل کی تربیت بھی عمدہ طریقہ سے کر پائیں گی۔ ازدواجی معامالات میں "لڑکوں کی تربیت"کی حیثیت "ثانوی" بلکہ اس سے بھی بعد کی ہے۔ لڑکوں کے لئے تربیت کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اسے رزق کے حصول کا طریقہ و قرینہ سکھلایا جائے۔ دوسری ضرورت اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کے لئے "تیار" کرناہے، تاکہ اس کی "اُخروی" زندگی ناکام نہ ہو۔ پھر اسے گھر کے "بیرونی معاملات کے امور" میں بھی ماہر ہونا چاہئے۔ اور یہ سب کی سب "مہارت" بالواسطہ طور پر اس کی "بیوی" کے بھی کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً لڑکوں اور مردوں کو "ازدواجی معاملات کی تربیت" نہیں دی جاتی یا کم دی جاتی ہے یا بعد میں دی جاتی ہے، پہلے "کچھ اور" سکھلا یا جاتا ہے۔ عورت کے لئے دینی فرائض کے بعد اول آخر یہی "ازدواجی تربیت" کام آتی ہے۔ لہٰذا خواتین کو یہ "اعتراض" نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری طرح لڑکوں کی بھی "ازدواجی معاملات" میں برابر کی تربیت کی جائے (ابتسامہ)
پس تحریر: ان شاء اللہ میں "مطلوبہ قسط" بھی ضرور لکھوں گا، لیکن یہ بہت مختصر ہوگا۔ (انتظار فرمائیے)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
شوہر کہیں جسے ۔ ۔ ۔​
شوہر نما مَردوں کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مرد سارے ایک جیسے (خراب) ہوتے ہیں۔ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ مرد روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، لہٰذا روتے ہوئے مرد بہت کم ”نظر“ آتے ہیں۔ ماہرین نفسیات (جو بالعموم مرد ہی ہوتے ہیں) کا کہنا ہے کہ چونکہ مرد عموماً اپنے درد کا اظہار نہیں کرتے، روتے اور (اظہار غم کے لئے) چیختے چلاتے نہیں ہیں، لہٰذا اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً عورتوں (بیویوں) کے مقابل میں مرد زیادہ تعداد میں پاگل ہوتے ہیں اور زیادہ تعداد میں خود کشیاں کرتے ہیں۔ ”مردوں کے مسائل“ پر کبھی کوئی سنجدہ مذاکرہ نہیں ہوتا۔ اخبارات و جرائد میں مردوں کے لئے صفحات مختص نہیں ہوتے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر ان کے لئے خصوصی پروگرام آن ایئر نہیں ہوتے۔ یوں سماج میں مردوں کے مسائل کی نہ تو نشاندہی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے ”حل“ کی طرف انفرادی یا اجتماعی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کیونکہ ”سمجھا“ یہ جاتا ہے کہ مرد تو عورتوں (بیویوں) کے لئے مسائل پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کا ”کام“ صرف اور صرف بیویوں کی دلداری اور ان کی جا و بے جا ضرورتیں پوری کرنا ہے۔

اصل میں ہوتا یہ ہے کہ شادی کے فوراً بعد آنے والی نئی نویلی دلہن (دلہا کبھی ”نیا نویلا“ نہیں کہلاتا) سب کی نظروں میں ”مرکز نگاہ“ بن جاتی ہے۔ دلہا تو اس گھر میں ویسے ہی ”پرانا“ ہوچکا ہوتا ہے، لہٰذا اس کی طرف کسی کی نگاہ جاتی ہی نہیں۔ اور جب کبھی دُلہا میاں کو ”دیکھا“ بھی جاتا ہے تو اس نظر سے کہ تم نے نئی نویلی دلہن کے لئے اب ”یہ اور وہ“ کرنا ہے۔ یا ابھی تک تم نے یہ اور وہ نہیں کیا، کیسے شوہر ہو وغیرہ وغیرہ۔ مرد پر پہلے ہی والدین اور بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں کا ”بوجھ“ ہوتا ہے۔ نئی نویلی دلہن کے آنے سے اس کے ”بوجھ“ میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس کی شخصیت دو واضح حصوں میں ”تقسیم“ ہوجاتی ہے۔ اگر وہ پہلے کی طرح والدین اور بہن بھائیوں کا ”خیال“ رکھے تو بیوی اور بیوی کے میکہ والے اسے ”طعنہ“ دیتے ہیں کہ منے میاں تو ابھی تک ماں باپ کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ انہیں بیوی کا ذرا بھی خیال نہیں ۔ اور اگر وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ”خیال“ میں کچھ کمی کرکے یہ ”حصہ“ بیوی کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو فوراً اسے ”زن مرید“ ہونے کا طعنہ مل جاتا ہے کہ موصوف اب تو بیوی کے ہوکر رہ گئے ہیں۔ گویا شادی کے بعد مرد کی حالت ۔۔۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے ع

اُدھر نئی نویلی دُلہن کا بھی کوئی ”قصور“ نہیں ہوتا کہ اُسے دنیا جہان کی تعلیم تو ملی ہوتی ہے لیکن وہ عموماً ازدواجیات کے مضمون میں صفر ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہےکہ جب میں اپنے ماں باپ بہن بھائی کو چھوڑ کر ”ساری کی ساری“ اس مَرد کی ہوگئی ہوں۔ جب میں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں اپنی سو فیصد توجہ اسے دینے لگی ہوں تو آخر یہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔ ایک تو صبح کا کام پہ گیا شام کو گھر آتا ہے۔ میں سارا دن اس کی راہ تکتی ہوں اور یہ دن بھر مجھے نہ تو یاد کرتا ہے، نہ فون کرتا ہے اور نہ درمیان میں دیکھنے کو آتا ہے۔ اور جب شام کو گھر آتا ہے تو حسب سابق ماں باپ اور بہن بھائیوں کے خیال میں وقت ”ضائع“ کرتا ہے اور رات گئے کمرے میں آتا ہے تو میری دن بھر کی روئیداد سنے بغیر، میرا احوال جانے بغیر کھا پی کر سو جاتا ہے۔ بھلا شوہر ایسے ہوتے ہیں۔ فلموں، ناولوں اور ڈراموں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں تو ہیرو شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی ہیروئین کے ارد گرد ہی پھیرے لگاتا رہتا ہے۔ فرمائش تو یہ تھی کہ

Dua نے کہا ہے: ↑
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف بھائی ایک اور قسط بھی دیجیئے ، جس میں مرد حضرات کی شادی سے متعلق ذمہ داریوں کا تذکرہ ہو۔کیونکہ شادی دو لوگوں کی ہوتی ہے،صرف لڑکی کی نہیں۔
اور لکھنے بھی یہی آیا تھا، لیکن آخر کو مَرد ہوں نا! مردوں کی ”ذمہ داریاں“ لکھتے لکھتے مردوں کے ”غم“ لکھ بیٹھا۔ دروغ بر گردن راوی، زمانہ قدیم میں بیویوں کو ”بے غم“ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ مردوں کی زندگی میں آتے ہی مردوں کے غم بانٹ کر اسے غموں سے نجات دلا دیا کرتی تھیں۔ جب سے بیویوں نے یہ ”فریضہ“ ادا کرنا چھوڑ دیا ہے، شوہرون نے بھی اسے ”بے غم“ کہنا چھوڑ کر ”بیگم“ کہنا شروع کردیا ہے۔
شوہروں کی ”ذمہ داریوں“ کے بارے میں اگرچہ میں پہلے بھی، اس فورم میں بھی لکھتا رہا ہوں، تاہم مکرر عرض کئے دیتا ہوں۔ شوہر کی یہ تمام ذمہ داریاں قرآن و حدیث کی خالص تعلیمات پر مبنی ہیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
شوہروں کے لئے (بالواسطہ اور بلا واسطہ) قرآنی ہدایات

٭تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو (روم۔21)

٭ شرم والے ستر کو ڈھانکنے،جسمکی حفاظت اور زینت کے لئے لباس کو نازل کیا گیا (اعراف۔26) ۔ ۔ ۔ بیویاں تمہارے لئے مثل لباس ہیں اور تم اُن کے لئے(البقرة:۷۸۱)

٭جوبیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے (البقرة:۶۲۲)

٭تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو انہیں چھوڑ دو (النسائ:۶۱۔۵۱)

٭ اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو (النسائ:۵۳)

٭اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں(النسائ:۸۲۱)

٭اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا(النسائ:۰۳۱

مہر: ٭ عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کرو(النسائ:۴)

٭تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو(النسائ:۹۱) ٭

جوازدواجی لطف تم ان سے اُٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو(النسائ:۴۲)٭ اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا (النسائ:۰۲

٭جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں (المجادلہ:۲) ٭ جواپنی بیوی سے ظِہار کرے اورپھر رجوع کرے تو پہلے انہیں ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ غلام نہ پائے تو دو مہینے کے پے درپے روزے رکھے اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ چھہ مسکینوں کو کھانا کھلائے (المجادلہ:۴۔۳

لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ (زائد بیویوں) کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو (النسائ:۳)

٭ جو کچھ تم اپنی بیوی کو دے چکے تھے، طلاق کے بعد اُسے واپس لےنا جائز نہیں (البقرة:۹۲۲)

٭عورتوں کو طلاق دے چکو توبعد از عدت اُن کے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالو (البقرة:۲۳۲)

٭ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں نصف مہر دینا ہوگا (البقرة:۷۳۲)

٭ جنہیں طلاق دی جائے انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے(البقرة:۱۴۲)

٭ اے مومنو!اگر تم مومن عورتوں سے نکاح کے بعد انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دوتوان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے (الاحزاب:۹۴)

٭عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدّت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو( الطلاق :۱)

٭ عدت کے دوران نہ تم اُنہیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں (سورة الطلاق:۱)

٭ عدت کی مدت کے خاتمہ پر یا انہیں بھلے طریقے سے اپنے نکاح میں روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحبِ عدل ہوں( الطلاق:۲

٭ مطلقہ عورتوں کوعدت میں اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو (الطلاق :۶) ٭اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ (طلاق :۶) ٭اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے (الطلاق:۶) ٭پھر اگر وہ تمہارے بچے کو دُودھ پلائیں تو ان کی اُجرت انہیں دو( الطلاق :۶) ۔

بیوہ کی عدت:٭شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھے۔ (البقرة:۴۳۲) ٭بیوہ عورتوں کو ایک سال تک شوہر کے گھر سے نہ نکالا جائے (البقرة:۰۴۲
 
Top