- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
بیعت ِ ارشاد ؛ شرع کی نظرمیں
آصف ہارون
اہل تصوف کے نزدیک بیعت اِرشاد غیر معمولی حیثیت کی حامل ہے۔ یہ دین طریقت کا نہ صرف لازمی امر ہے بلکہ جزوِلاینفک ہے۔ اس کی غیرمعمولی ضرورت و اہمیت کااندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے بغیرکسی بھی سالک و طالب کے لئے منازل سلوک تک وصول اور مراتب احسان کا حصول بعید از امکان ہے۔اہل تصوف کے نزدیک اس کی غیر معمولی منفعت و افادیت کااندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سالک و طالب کے لئے معرفت الٰہی، لقائے حق، دنیوی و اُخروی فوز و فلاح، دخول جنت اور خروج جہنم صرف اسی کی مرہونِ منت ہے۔لغوی مفہومذیل کی سطور میں نہ صرف بیعت ارشاد کا مختصر طور پر لغوی و اصطلاحی مفہوم بیان کیا جائے گا بلکہ اہل تصوف کے نزدیک اس کی ضرورت و اہمیت، منفعت و اِفادیت اور اس کے لئے وضع کیا گیا طریقہ کار کا بیان بھی ہوگا۔ مزید برآں اس بیعت کی حقیقت، شرعی حیثیت، قائلین بیعت کے دلائل کااختصار کے ساتھ سرسری جائزہ اور اس بیعت کے عواقب و مضمرات کی بھی وضاحت کی جائے گی، سردست اس کا مختصر طو رپر لغوی و اصطلاحی مفہوم سمجھتے ہیں۔
لفظ بیعت ’بیع‘سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے اِطاعت کرنا، عہد کرنا اور سوداکرنا، خواہ یہ سودا جان و مال کا ہو یا کسی اور ذمہ داری کا۔چنانچہ علامہ ابن منظور افریقی ؒ لکھتے ہیں:
لفظ ’ارشاد‘کا معنی ہے رہ نمائی، ہدایت، تعلیم، مشورہ اور وعظ و نصیحت وغیرہ۔ [القاموس الوحید، ص۶۲۷] لہٰذا بیعت ارشاد کا لغوی معنی راہبری اور راہنمائی کی بیعت ہوگا۔’’عبارة عن المعاقدة والمعاھدة کان کل واحد منھا باع ما عندہ عن صاحبہ واعطا خالصت نفسہ وطاعتہ ودخلیة أمرہ‘‘ [لسان العرب:۸؍۲۶]
’’بیعت و مبایعت عبارت ہے دو طریقہ عہدوپیمان سے، گویاہرایک نے دوسرے پراپنا سب کچھ فروخت کردیا ہے، اس کو اپنا دل اور نفس دے دیا ہے اور اپنی اطاعت اور مخصوص امور اس کے سپرد کردیئے ہیں۔‘‘
اِصطلاحی مفہوم
یاد رہے کہ بیعت ارشاد کو بیعت اصلاح، بیعت تزکیہ، بیعت تقویٰ، بیعت توبہ اور بیعت تحکیم بھی کہتے ہیں۔بیعت تحکیم کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
صاحب شریف التواریخ رقمطراز ہے:’’اس کو بیعت تاکد عزیمت بھی کہتے ہیں یعنی ظاہر و باطن سے اوامر الٰہی پر کاربند رہنے اور منہیات سے بچنے کا عزم صمیم کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے دل کی تعلیق کا پختہ ارادہ کرنااور اپنے شیخ (مرشد) کو اپنے اوپر حاکم کرنا کہ وہ جس طرح چاہے تعلیم طریقت وتہذیب اخلاق میں محنت کروائے۔یہی قسم اصل تصوف ہے اور اَرباب ارادت کے واسطے خاص ہے۔‘‘ [القول الجمیل، مترجم ص۲۸، بحوالہ شریف التواریخ از سید شریف احمد شرافت نوشاہی، ص۱۲۰]
صاحب تجدید تصوف و سلوک رقمطرازہے:’’صوفیہ کی اصطلاح میں بیعت اس کو کہتے ہیں کہ مرید اپنا عقیدت کا ہاتھ مرشد کے ارشاد کے ہاتھ کے ساتھ منعقد کرے اور یہ انعقاد مرشد کے واسطہ سے مرشد کے مرشد کے ساتھ ہوتاہے اور علی ہذا القیاس یکے بعد دیگرے یہ انعقاد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور بواسطہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے اس بیعت کاانعقاد حضرت پیغمبرﷺکے ساتھ ہو جاتاہے اور یہ بیعت آنحضرتﷺ کے فعل سے ثابت ہے۔‘‘ [شریف التواریخ، ص۱۱۹]
لہٰذا مرید کی طرف سے اوامر پر کاربند رہنے، نواہی سے بچنے اور بلا چوں چراں اپنے شیخ ومرشد کے ہرحکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے ،اس کی اتباع میں جان ومال صرف کرنے کی یقین دہانی اور مرشد کی طرف سے قلب و باطن کی اصلاح ، گمراہی کے خطرات سے نجات، بلکہ دنیوی مصائب وآلام اور اُخروی عذابات و عقوبات سے نجات کی مکمل یقین دہانی کانام ہی بیعت ارشاد ہے۔’’مریدبھی اصطلاحاً وہ ہے جو اپنی دینی خصوصاً باطنی و قلبی اصلاح کومراد و منزل بناکر اس کے ضروری وسائل اختیار کرتا ہے اور اس کی طرف چل پڑتا ہے اور بیعت کے معنی ہیں اس منزل مقصود کے لئے کسی زیادہ واقف کار کو رہبر ورفیق بنا لینا اور اس کے پیچھے یاساتھ چلنا تاکہ نہ صرف گمراہی کے خطرات سے حفاظت ہو بلکہ راستہ سہولت و راحت سے قطع ہو۔بالفاظ دیگر اپنے سے زیادہ واقف وماہر مصلح کے ہاتھ میں اپنے کو اس طرح سونپ دینا، جس طرح بائع، مشتری کے ہاتھ اپنی چیز سونپ دیتاہے … غرض ارادت و بیعت کامطلب کمالِ دین یادین کے مرتبہ احسان کی طلب میں نکل پڑنااور اپنے سے زیادہ کسی واقف کار رہبر کے پیچھے ہولینا ہے یا یوں کہو کہ اس مرتبہ دین کا تعلق چونکہ خصوصیت کے ساتھ قلب و باطن کی اصلاح اور اس کے امراض کے ازالہ سے ہے اس لئے کسی شفیق و حاذق طبیب کے زیرعلاج اپنے آپکو دے دینا ضروری ہے۔ حضرت (تھانوی) علیہ الرحمۃ نے اس کو پیرومرشد یاشیخ وطالب کے مابین ایک ایسے معاہدہ سے تعبیر کیاہے جس پرشیخ کی طرف سے اصلاح کا وعدہ ہوتا ہے اور طالب کی طرف سے اتباع کا۔‘‘ [تجدید تصوف و سلوک از عبدالباری ندوی ، ص۹۷،۹۸،۱۰۱]