بالکل صحیح کہا اگر یزید رحمہ اللہ کے کردار پر روشنی نہیں پڑتی تو ان کی مذمت بھی نہیں کی گئیآپ نے کہا
"
نواسہ رسول حضرت حسین رضی الله عنہ (جو تابعی ہیں) اکابرین صحابہ کا مشوره مانتے ہوے کوفہ کے لئے روانہ نہ ہوتے- "
اگر واقعی میں حضرت حسین رضہ آپ کے خیال میں تابعی ہیں تو ابن مطیع رضہ صحابی کیسے ہوسکتے ہیں ِ؟
بھائی سوال یہ ہےکہ امام ابن کثیر ہوں یا پھر حافظ زہبی رح یہ لوگ ڈائریکٹ مدائنی رحہ سے نقل کر رہے ہیں اور مدائنی رحہ اور ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے ۔ یہی بات جناب حافظ محمد عمر صدیق نے کہی کہ نہ تو امام زہبی نے نہ ہی امام ابن کثیر نے بیان کیا کہ مدائنی کی یہ روایت وہ کہاں سے لے رہے ہیں۔۔۔
جہاں تک سیدنا ابن عمر رضہ کی بات ہے تو اکثر علماء کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بیعت کر کہ اس کو توڑنے سے منع کیا اور اس پر ناراضگی کا اظہار کیا لیکن اس بات سے یزید بن معاویہ کی مدح ثابت نہیں ہوتی ۔۔ کیوں کہ سیدنا ابن عمر رضہ کی ایک اور روایت بھی آتی ہے۔ مفہوم روایت یہ ہے کہ انہون نے یزید کی بیعت پر کہا کہ اگر بھلائی ہے تو ٹھیک اگر برائی ہے تو صبر کریں گے۔۔ خلاصہ کلام سیدنا ابن عمر رضہ کی اس روایت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ کی بیعت ہوچکی تھی جس کو توڑنا منع تھا لیکن اس روایت سے اس کے کردار پر روشنی نہیں پڑتی ۔
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن بجويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : ’’ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘ ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق (البداية والنهاية: 8/ 233 )
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]
جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمد بن حنفیہ (حضرت علی رضی الله عنہ کے فرزند) نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزیدشراب پیتاہے ، نماز یں چھوڑتا ہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیساتم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کہ ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہےا گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی اس طرح کی گواہی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ''جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو'' ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ شاید آپ یہ ناپسندکرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اورامیر بن جائے توہم آپ ہی کو اپنا امیربناتے ہیں ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: تم جس چیز پرقتال کررہے ہو میں تو اس کوسرے سے جائز ہی نہیں سمجھتا: مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، لوگوں نے کہا: آپ تو اپنے والد کے ساتھ لڑائی لڑچکے ہیں؟ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ پھر میرے والد جیسا شخص اورانہوں نے جن کے ساتھ جنگ کی ہے ایسے لوگ لیکر تو آؤ ! وہ کہنے لگے آپ اپنے صاحبزادوں قاسم اور اورابوالقاسم ہی کو ہمارے ساتھ لڑائی کی اجازت دے دیں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: میں اگران کو اس طرح کا حکم دوں تو خود نہ تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں ۔ لوگوں نے کہا : اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کرلوگوں کو لڑالی پر تیار کریں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: سبحان اللہ ! جس بات کو میں خود ناپسندکرتاہوں اوراس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملوں میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں بدخواہ ہوں ۔ وہ کہنے لگے پھر ہم آپ کو مجبورکریں گے ، محمدبن حنفیہ نے کہا میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اورمخلوق کی رضا کے لئے خالق کوناراض نہ کرو۔اس روایت کو بیان کرنے والے المدائنی بالاتفاق صاحب تصنیف اور ثقہ تھے۔۔العلامة الحافظ الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني الأخباري . نزل بغداد ، وصنف التصانيف.
یزید کو رحمت اللہ علیہ کہنے سے ،پیغمبرص کی وہ حدیث یاد آجاتی ھے ،کہ معاشر انبیاء و اولاد انبیاء کے قاتل یا متولد حیض،یا ولدالزنا ہونتے ہیں۔تو آپ بھی اپنی اصلیت کی تحقیق فرمائیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــ۔آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ عبداللہ ابن عمر بکنے والا آدمی تھا جس نے حضرت علی ع کی بیعت نہیں کی ،اور حجاج بن یوسف کے ہاتھ بھی نہیں پاوں پر بیعت کی،اتنی ذلت برداشت کرنے والا آدمی تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔امام حسین ع نے شب عاشور فرمایا:اس ولدالزنا(یزید )اور ولدالزنا کے بیٹے(معاویہ)نے مجھے اس امر پر مجبور کردیا ہے کہ میں یا تلوار نکالوں یا ذلت کے ساتھ زندگی گزاروں۔۔۔نوٹ:یہ دونوں کتابیں آپکے اپنے اماموں کی ہیں،لھذا جواب تسلی کے ساتھ لکھ دیجیئے گا(
مقتل ابومخنف ، ص 239 مقتل خوارزمى ، ج 2 ، ص 7)