• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے ایک قول کی وضاحت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
،علی ع کے مذھب میں آنے کے لئے حلالی ہونا شرط ہے
پچھلی پوسٹ میں تم نے بتایا کہ تمھارے آباء سنی تھے ۔
اب اس پوسٹ میں تم نے بتایا کہ سنی تو حلالی ہی نہیں ہوتے ۔
تو تمھارے آباء تو حلالی کے دائرے سے باہر ہوگئے ۔۔۔اور صرف تمھارے ہی نہیں تمام شیعہ کے سنی آباء حلالی نہ رہے وہ بھی بقول تمھارے!
اشقے بھئی اشقے ۔شاباش بیٹا بڑا نام روشن کیا تم نے اپنے باپ دادا کا !
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ابن عباس تقیہ نہیں کرتے تھے ،تمھارے علماء نے ہر جاھل کو اپنی طرف سے امیرالمومنین لکھ دیا ہے،حالانکہ امیرالمومنین ایک ہی تھا علی بن ابی طالب علیہ السلام
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بڑی جلدی اپنی دلیل بنائی ہوئی کتاب کو جھوٹا کہہ دیا ۔
اگر امیر المومنین ۔اپنی طرف سے لکھ دیا ہے ،،تو باقی کہاں سچ لکھا ہوگا ۔وہ بھی تو اپنی ہی طرف سے لکھا ہے
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
یہ صرف ٹائم پاس رافضی ہے ، اس کی بات جواب نہ ہی دیں تو اچھا ہے ، اس جیسے جہالت کو پتا نہیں برداشت کیسے کیا جا رہا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ابو مخنف اعلی درجہ کا رافضی ، شیعہ تھا ۔
ہمارے علماء نے واشگاف لفظوں میں اس کذاب کا اصلی تعارف کروایا ہے ۔غور سے سن کر ماتم کیجئے :
قال بن الجوزي : (( ...في حديث ابن عباس أبو صالح و الكلبى وأبو مخنف وكلهم كذابون ))
- وقال الذهبي في الميزان ( 5/508...) : (( قال ابن معين ليس بثقة وقال مرة ليس بشيء وقال ابن عدي شيعي محترق ... ))
- وقال في تاريخ الاسلام (9/581) : (( لوط بن يحيى، أبو مخنف الكوفي الرافضي الإخباري صاحب هاتيك التصانيف يروي عن الصقعب بن زهير ومجالد بن سعيد وجابر بن يزيد الجعفي وطوائف من المجهولين. وعنه علي بن محمد المدائني وعبد الرحمن بن مغراء وغير واحد. قال ابن معين: ليس بثقة. وقال أبو حاتم: متروك الحديث. وقال الدراقطني: أخباري ضعيف. قلت: توفي سنة سبع وخمسين ومائة ))

- ونقل الدكتور راغب في قصة الفتنة (1/13) عن الحافظ انه قال : (( لوط بن يحيى أبو مخنف إخباري تالف لا يوثق به ))
فهو كذاب متروك لا يوثق به ,
جزاک الله -

ابو مخنف کذاب مورخ اپنے زمانے میں "آگ لگانے والا" مشہور تھا - اس کی مشہور زمانہ کتاب "مقتل الحسین" میں حضرت حسن رضی الله عنہ پر تبرا بھیجا گیا ہے- کیوں کہ انہوں نے حضرت امیرمعاویہ رضی الله عنہ سے مصالحت کی بیعت کی تھی -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ صرف ٹائم پاس رافضی ہے ، اس کی بات جواب نہ ہی دیں تو اچھا ہے ، اس جیسے جہالت کو پتا نہیں برداشت کیسے کیا جا رہا ہے
جزاک الله - آپ کی بات سے بلکل متفق ہوں -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
امید ہے کہ اس ’’ بیہودہ ‘‘ آدمی سے جان چھوٹ گئی ہے ۔۔ اس نے جو ’’ اخلاقیات ‘‘ کے نمونے چھوڑے ہیں اسی طرح باقی ہیں ، تاکہ لوگوں کو اس ’’ مومن اور متقی ‘‘ کے مذہب کی ’’ آراء کا با دلائل ‘‘ تعارف ہوتا رہے ۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
اگر یہ چلا گیا ہے تو بہرام کو کہا جائے کہ وہ فرمائے کیا یہی شیعہ پن ہے ؟؟؟اگر یہی ہے تو ھم اس موضوع پر بات کریں گے بشرطیکہ پہلے
اپنی کتاب کے مطابق اپنے کو حقیقی شیعہ ثابت کر دو بس
طریقہ شیعہ حقیقی اور دونمبر پرکھنے کا ان کی کتاب میں موجود ہے سید زادوں کو پرکھنے کا بھی طریقہ موجود ہے آج تک کوئی شیعہ اس پر تیار نہیں ہوا
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بات دراصل یہ ہے کہ یہ ”غالی فرقہ“ اس آیت کا مصداق ہے:-
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ
تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے۔
قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 82
یہ”غالی فرقہ“ حقیقتا اول الذکر ”گروہ “ کی پیدا وار ہےاس لیے ایسے ”لوگوں“ کے منہ سے ”صحابہ کرام ؓ“ کے لیے ”کلمہء خیر“ کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔
میں ”حیران“ ہوں کہ یہ ”غالی فرقہ“ کس منہ سے ”نبیﷺ “اور ان کے ”جانثار “ صحابہ ؓکا اللہ تعالٰی کی ”عدالتِ کبرٰی“ میں سامنا کرینگے۔
”صحابہؓ “ کے متعلق ہمارے ”جذبات “جو اس”غالی فرقے“ نے ”مجروح“کیے ہیں اسکا بھی ان شاء اللہ تعالٰی ”حساب “ضرور لیا جائے گا۔
 
Last edited:

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن محمد بن المنكدر ، قال : بلغ ابن عمر أن يزيد بن معاوية بويع له ، قال : إن كان خيرا رضينا ، وإن كان شرا صبرنا.
محمدبن المنکدر کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی گئی ہے تو انہوں نے کہا : اگر یہ باعث خیر ہے تو ہم راضی ہیں اور اگر یہ باعث شر ہے تو ہم صبر کریں گے [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 100 واسنادہ صحیح عنعنہ سفیان مقبولۃ وقدصرح بالسماع عند ابن ابی الدنیا فی الصبر والثواب عليه ص: 114 واسنادہ صحیح]

بعض لوگ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے اس کلام کی یزید کی مذمت پر محمول کرتے ہیں حالانکہ اس میں سرے سے یزید کی مذمت کا کوئی پہلو ہے ہی نہیں ۔
اورغور کرنے کے بات یہ ہے کہ اسی روایت میں اگرعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے شر کے امکان کی بات کہی ہے تو عین اسی روایت میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے خیر کے امکان کی بھی بات کہی ہے ۔پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے اس جملہ کے صرف ایک حصہ کو دیکھا جائے اور دوسرے حصہ کو نظرانداز کردیا جائے؟

دوسری بات یہ کہ اس کلام سے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصود یزیدبن معاویہ کی بیعت پر رضامندی کو بتلانا ہے اور چونکہ بعض لوگ اس بیعت کے ذریعہ اس اندیشے میں تھے کہ کہیں باپ کے بعد بیٹے کے خلیفہ بن جانے سے آگے چل کر یہ اصول نہ بن جائے کہ ہرخلیفہ کے بعد اس کا بیٹا ہی اگلا خلیفہ بنے اس طرح ایک شر شروع ہوجائے تو عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے اس اندیشے کو بیعت نہ کرنے کا جواز نہیں مانا بلکہ یہ کہا کہ اگر ایسا ہوگا تو ہماری ذمہ داری صبر کرنے کی ہے۔
یعنی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصد ان لوگوں کا رد ہے جو محض اندیشوں کی بناپر یزید کی بیعت کرنے میں تردد کے شکار تھے کیونکہ اندیشہ کے ساتھ ساتھ خیر کا بھی امکان تھا اوراندیشے والی بات کوئی قطعی بات نہیں تھی نیز جب امت کی اکثریت نے ایک شخص کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو ایسی صورت میں اگر اندیشے والی بات واقع بھی ہوجائے تو بھی ایسے حالات میں اسلام نے صبر کرنے کی تعلیم دی ہے نہ کہ اکثریت کی مخالفت کی ۔
پس جب امت کی اکثریت نے اس بیعت کو قبول کرلیا ہے تو ایک مسلمان کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اس بیعت میں داخل ہوجائے خواہ یہ بیعت باعث خیر ہو یا باعث شر۔کیونکہ جمہورامت کے اتفاق کے بعد دونوں صورتوں میں ایک مسلمان پریہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جمہور اس امت کے فیصلہ میں شامل ہوجائے اورسبیل المؤمنین سے الگ نہ ہو۔
بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصد یزید کی بیعت کو قابل قبول قرار دینا تھا اور اس کے نتائج کو نظر انداز کرنے کی تعلیم دینا تھا کیونکہ جمہور امت کے اتفاق کے بعد نتیجہ خیر یا شر کی شکل میں کچھ بھی ہو بہر صورت جمہورامت کے ساتھ شامل ہونا ضروری ہے۔

اس کو مثال سے سمجھنے کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: حفظناه من الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة فخير تقدمونها، وإن يك سوى ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم»
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔[صحيح البخاري 2/ 86 رقم 1315]

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنازہ کو خیر یا شر نہیں کہا ہے بلکہ اصل تعلیم جنازہ میں جلدی کرنے کی دی ہے اور جنازہ کی نوعیت کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جنازہ کیسا بھی ہو اچھا ہو یا برا ، وفات کے بعد دونوں صورتوں میں جلدی کرنے میں ہی بھلائی ہے۔
بالکل یہی معاملہ بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے کلام کا بھی ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے اس کلام میں یزید کی بیعت کو باعث خیر یا باعث شر نہیں کہا ہے بلکہ اس کے نتیجہ کو نظرانداز کرتے ہوئے اصل بیعت کی قبولیت پر زور دیا ہے کہ جمہور امت کے اتفاق کے بعد بیعت قبول کرلینے میں ہی بھلائی ہے کیونکہ اگر یہ باعث خیر ہے تو کوئی بات نہیں اور اگر یہ باعث شر ہے تو بھی بھلائی جمہور امت کے ساتھ رہنے میں ہی ہے ۔
یہ ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کا اصل مقصود و مدعا، اسے کسی منفی معنی پر محمول کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کو تو یزید کے خلاف پیش کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ کلام منقول ہے اسی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ ہی میں وہ بھی بخاری ومسلم کی شرط پرصحیح سند کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق پوری صراحت منقول ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کروں گا ملاحظہ ہو:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔
نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: جب علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتاہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔اس کے بعد ابن عمررضی اللہ عنہ ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]

قارئین بتلائیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اللہ کی قسم کھا کرکہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کروں گا اس کے باوجود بھی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ کا مخالف نہ سمجھا جائے اور یہی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ یزیدبن معاویہ کی بیعت کوقبول کرتے ہوئے کہیں کہ یہ باعث خیر ہے تو ہم راضی ہیں اور باعث شر ہے تو ہم صبر کریں گے ۔تو اس بات کو یزید کی مخالف قرار دیا جائے !
سبط ابن الجوزی متروک و مبتدع نے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس طرزعمل پر امام زہری رحمہ اللہ کا اظہار تعجب نقل کرتے ہوئے کہا:
قال الزہری :والعجب من امتناع عبد الله بن عمر من بيعة أمير المؤمنين فقد بايع يزيد بن معاوية
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا رکنا تعجب کی بات ہے جبکہ انہوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی[تذكرة الخواص لسبط ابن الجوزي: ص: 299]۔

اور روافض نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو اسی وجہ سے ناصبیت کا لقب دے دیا [القول الصراح في البخاري وصحيحه الجامع: ص 170] اور ہمارے سنی بھائیوں نے دوسری انتہاء پر پہونچتے ہوئے انہیں یزید بن معاویہ ہی کا مخالف بنادیا۔

ہمارے نزدیک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نہ تو علی رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے اور نہ ہی یزید کے مخالف تھے بلکہ وہ سیاسی اختلافات سے خود کو دور رکھ کر جمہورامت کے فیصلہ کا انتظار کرتے اور جمہور امت کی طرف سے جو فیصلہ ہوجاتا اسے قبول کرکے اسی پر جم جاتے تھے۔

یادرہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے یزید کی باقاعدہ بیعت کی تھی اور آپ اس بیعت کو کتاب وسنت کے موافق بتلاتے تھے اور دوسروں کی بھی اس بیعت پر باقی رہنے کا حکم دیتے اور مخالفت کی شدید مذمت کرتے [صحيح البخاري 9/ 57 رقم 7111]۔

میرا ایک اشکال ہے یزید کے بارے میں یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی وگرنہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں تو اس سے زیادہ فساد ہوئے ان کی بیت نہیں کی اور اس سے پہلے خلفاء ثلاث پر بھی اس قسم کے الفاظ نہیں کہے
یہاں تک کہ انہوں نے عبدالملک بن مروان کی بھی بیعت کی تھی وہ بھی باپ کے بعد بیٹا بنا تھا اس پر یہ الفاظ نہیں کہے صرف یزید پر ہی یہ الفاظ کیوں کہے گئے حالانکہ میرے نزدیک عبدالملک بن مروان اور یزید میں کوئی فرق نہیں دونوں ایک ہی تھے مگر ابن عمر رضی الله عنہ نے صرف یزید کے لئے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کیا یہ اس کی مذمت نہیں ہے .
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ تمام راضی تھے اور سب نے بیعت کر لی تھی سوائے ٢ یہ ٣ لوگوں کے تو اس کی کوئی صریح روایت موجود ہے کہ سب سے پوچھا گیا جیسے ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت کا واقعہ بخاری میں ہے جس طرح عمر رضی اللہ عنہ کو جب نامزد کیا تو سب سے مشورہ لیا گیا اس کی روایات ملتی ہیں اور آخر میں بھی سب لوگوں کو جمع کر کے ان سے عمر رضی الله عنہ کا نام لیا گیا عثمان رضی اللہ عنہ کا شوریٰ کا واقعہ موجود ہے
علی رضی الله کے حوالے سے آتا ہے کہ مہاجرین و انصار نے ان کی بیعت مسجد نبوی میں کی تھی

مگر یزید کے حوالے سے ایک روایت بھی کوئی نقل نہیں کرتا کہ اس کے بارے میں منبر پر مجمع سے پوچھا گیا ہو اور تمام لوگوں نے اس کی تائید کی ہو کہ یہ فیصلہ درست ہے کیا ایسا کچھ موجود ہے ان دو اشکالات کے جواب درکار ہیں .
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top