• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین الاقوامی صیہونیت اور فری میسن تنظیم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سولہویں دستاویز
ذہنی تطہیر
درسگاہوں کو خصی کرنا ۔تعلیم کی آزادی کا خاتمہ
تمام اجتماعی قوتوں کا (سوائے اپنے آپ کے) استعمال کرنے کے لئے ہم سب سے پہلے اجتماعیت کے پہلے مرحلے یعنی تعلیمی درسگاہوں کو خصی کریں گے۔ ان درسگاہوں میں اب ایک نئی جہت میں دوبارہ تعلیم دی جائے گی۔ ان کے عہدہ داروں اور معلموں کو ایک تفصیلی خفیہ لائحہ کار کے ذریعہ ان کے منصب کے لئے تیار کیا جائے گا، جس سے وہ، بلا استشناء سر مو بھی اختلاف نہیں کر سکیں گے۔ ان کا خصوصی احتیاط کے ساتھ تقرر کیا جائے گا اور ایسی جگہ رکھا جائے گا جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کی نظر میں رہیں گے۔
ہم تعلیمی نصاب سے ملک کے قانون کا مضمون خارج کر دیں گی۔ اس کے علاوہ اور تمام مضامین بھی جن کا تعلق امور مملکت سے ہو سکتا ہے نصاب سے خارج کر دئیے جائیں گے۔ یہ مضامین صرف ان چند درجن افراد کو پڑھائیں جائیں گے
جنہیں داخلہ لینے والوں میں سے ان کی غیر معمولی صلاحیت کی بنیاد پر منتخب یا جائے گا۔ یونیورسٹیوں کو ایسے کم حوصلہ لوگ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو آئین کے بارے میں ایسے منصوبے گھڑیں جیسے کوئی طربیہ یا المیہ ڈرامہ لکھ رہے ہیں یا سیاسی حکمت عملی کے بارے میں اپنا دماغ کھپانا شروع کر دیں جس کے بارے میں ان کے باپ بھی سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
امور مملکت کے بارے میں اکثر لوگوں کی گمراہ کن قلیل واقفیت شیخ چلیوں اور بُرے شہریوں کو جنم دیتی ہے غیر یہودیوں کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے کہ انہوں نے ہر ایرے غیرے کو اس قسم کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے کر کیا تیر مارا۔ انہیں تعلیم دینے میں ہمیں وہ تمام اصول مد نظر رکھنے چاہئیں جنہوں نے اتنے شاندار طریقے سے ان کے سار ے نظام کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ لیکن جب ہم اقتدار حاصل کر لیں گے تو نصاب سے ہر قسم کے انتشار پھیلانے والے مضامین نکال دیں گے اور نوجوانوں کو اقتدار کی اطاعت اور حکمراں سے محبت کرنے کی تعلیم دیں گے اور ان کو اچھی طرح ذہن نشین کروا دیں گے کہ حکمراں ہی ان کا واحد سہارا اور امن و امان قائم کرنے کا ضامن ہے۔
قدیم ادبیات عالیہ اور عہد عتیق کی تاریخ جیسے مضامین کی بجائے، جن سے اچھے کے مقابلے میں بُرے سبق زیادہ ملتے ہیں، نصاب میں مستقبل کا لائحہ عمل شامل کیا جائے گا۔ پچھلی صدیوں کے وہ تمام واقعات جو ہمارے لئے نامرغوب ہیں انسانی یاداشت سے محو کر دئیے جائیں گے ا ور صرف وہ واقعات باقی رکھے جائیں کے جن سے غیر یہودی حکومت کی لغزشوں کی عکاسی ہوتی ہو۔
عملی زندگی کا مطالعہ، مروجہ نظام کی پابندی اور فرائض، عوام کے باہمی تعلقات، برائی اور خود رضی کی مثالوں سے اجتناب، جن سے بُرائی کے جراثیم پھیلتے ہیں، تعلیمی نصاب میں سرفہرست ہوں گے۔ ہر شعبہ زندگی کے لئے ایک علیحدہ منصوبہ ترتیب دیا جائے گا اور ہر ایک کو یکساں تعلیم نہیں دی جائے گی۔ اس مسئلہ کا ہر پہلو غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہر شعبہ زندگی کی تربیت ان قیود کی پابند ہو گی جو اس کی مقصدیت اور عملی زندگی کے مطابق ہو گی۔
کبھی کبھی اتفاقیہ طور پر کوئی ذہین آدمی ایک شعبہ زندگی سے دوسرے شعبہ زندگی میں جانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ لیکن اس اتفاقیہ ذہین آدمی کی خاطر غبی الذہن افراد کو اس شعبہ تعلیم میں داخلہ دینے کا اذن عام دینا شدید حماقت ہو گی۔ظاہر ہے کہ وہ اس شعبے میں بالکل نامناسب ہوں گے اور اس طرح انہیں ان لوگوں کی جگہ ہتھیانے کا موقعہ مل جائے گا جو بربنائے پیدائش یا ملازمت اس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں گے اور اس کے اہل ہوں گے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ غیر یہودیوں نے، جنہوں نے اس حماقت کو روا رکھا، اپنے آپ کو کس حال تک پہنچا دیا۔
حکمراں کو عوام کے دل و دماغ پر اپنا سکہ بٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دور حکومت میں پوری قوم کو اسکولوں اور بازاروں میں، اس کے مقاصد، عمل، شرافت اور کریم النفسی پر مبنی اقدامات کے بارے میں آگاہ رکھا جائے۔
ہم تعلیم کے شعبے میں ہر قسم کی آزادی ختم کر دیں گے۔ ہر عمر کے طالب علموں کو یہ حق دیا جائے گا کہ تعلیمی اداروں میں اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح اکٹھے ہو سکیں جس طرح کسی کلب میں جمع ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات میں تعطیلات کے دوران مدرسین ، انسانی تعلقات کے مسائل، مثال کے قوانین، غیر شعوری تعلقات سے پیدا ہونے والی قیود اور آخر میں ان نظریات کے فلسفے کے بارے میں جن کا ابھی دنیا کو علم نہیں ہے، اس طرح پڑھائیں گے گویا وہ ان مضامین پر آزادانہ گفتگو کر رہے ہوں۔
ان نظریات کی نشوونما کر کے ہم ا نہیں اپنے مذہب کی جانب عبوی مرحلے میں، مذہبی عقیدے کی حد تک لے جائیں گے۔ زمانہ حال اور مستقبل میں اپنے لائحہ کار کے مکمل بیان کرنے کے بعد میں آپ کو ان نظریات کے اصول پڑھ کر بتاؤں گا۔
مختصراً صدیوں کے تجربے سے یہ معلوم ہونے کے بعد کے لوگ نظریات پر زندہ رہتے ہیں اور انہی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور یہ کہ لوگ یہ نظریات اس تعلیم سے اخذ کرتے ہیں جو ہر دور میں یکساں کامیابی سے دی جاتی رہی ہے (گو کہ طریقہ تعلیم مختلف رہاہے) ہم اس آزادی فکر کا آخری قطرہ تک اپنے استعمال کے لئے ضبط کر کے پی جائیں گے جس کا رخ مدتوں سے ہم ان مضامین اور نظریات کی طرف موڑے ہوئے تھے جو ہمارے کام آنے والے تھے۔
فکر کو لگام دینے کا طریقہ، معروضی سبق پڑھانے کے نام نہاد طریقے کے ذریعہ پہلے ہی سے کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر یہودیوں کو تفکر سے عاری اجڈ اطاعت شعاروں میں تبدیل کر دیا جائے جو صرف اس بات کی منتظر ہوں کہ چیزیں ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کی جائیں تو وہ ان پر کوئی رائے قائم کریں۔ فرانس میں ہمارے بہترین گماشتے، بورژوا، معروضی سبق پڑھانے کے نئے لائحہ کار کا پہلے ہی مظاہرہ کر چکے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سترھویں دستاویز
اختیارات کا ناجائز استعمال
انصاف سے بددلی۔ نصرانی مذہب کا استیصال۔ یہودی سردار ساری دنیا کا پاپائے اعظم۔ خفیہ پولیس میں مخبروں کی بھرتی
وکالت کا پیش، سرد مہر، بے رحم، ضدی اور بے اصولے انسان پیدا کرتا ہے جو ہر موقع پر غیر جذباتی اور خالصتاً قانونی نقطئہ نظر کے علم بردار ہوتے ہیں۔ ان کی پرانی عادت ہے کہ وہ ہر چیز کو صرف اس کی خاصیت کی دفاعی قدر کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ اس کی نتائج کو مفاد عامہ کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ عام طور پر وہ کسی بھی مقدمے کی پیروی کرنے سے انکار نہیں کرتے اور ملزم کو ہر قیمت پر بری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون کے معمولی معمولی نکات میں مین میخ نکال کر اس کی مٹی پلید کرتے ہیں۔ اس لئے ہم اس پیشے کو اس کی مقررہ حدود میں رکھیں گے اور یہ انتظامیہ کے ماتحت کام کرے گا۔
جس طرح ججوں کے لئے فریق مقدمہ سے رابطہ قائم کرنا ممنوع ہے بالکل اسی طرح وکیلوں کو بھی فریق مقدمہ سے رابطہ قائم کرنے کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔ انہیں مقدمات صرف عدالت کے توسط سے ملیں گے اور انہیں صرف روئدادوں اور دستاویزوں پر مبنی یادداشتوں کا مطالعہ کرنے کی اجازت ہو گی۔ وہ اپنے موکل کی عذرداری اس وقت کریں گی جب پیش کردہ شواہد کی روشنی میں عدالت ان پر جرح مکمل کر چکی ہو گی۔ انہیں عذرداری کی نوعیت اور اہمیت کا لحاظ کئے بغیر ایک رقم بطور اعزازیہ کے ملے گی۔ اس طرح ان کی حیثیت، انصاف کے مفاد میں، قانونی شعبے کے صرف ایک نامہ نگار کی سی رہ جائے گی اور جس طرح وکیل سرکار استغاثہ کے مفاد کا نامہ نگار ہوتا ہی، مدعی علیہ کا وکیل اس کے مقابلے میں صفائی کانامہ نگار ہو گا۔ اس عمل سے عدالت کی کاروائی مختصر ہو جائے گی او راس طرح ایک ایماندار اور غیر جانبدار عذرداری کی روایت قائم ہو گی جو ذایت مفاد کی بجائے اثبات جرم کے یقین پر مبنی ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی وکیلوں کے درمیان یہ مجرمانہ کاروبار بھی ختم ہو جائے گا کہ جو زیادہ فیس دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے ہی جتوایا جائے۔
دنیا بھر میں مذہب کے تبلیغی مراکز کو تباہ کرنے کے لئے جو اس زمانے میں بھی ہماری راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ہم عرصہ دراز سے کوشش کررہے تھے کہ عوام کے دل سے علماء کا احترام ختم کر دیا جائے۔ اب روز بروز عوام میں ان کا اثر ختم
ہوتا جا رہا ہے ہر جگہ ضمیر کی آزادی کو قبول عام حاصل ہو رہا ہے اور اب یہ چند سالوں کی بات ہے کہ نصرانی مذہب صفحہ ہستی سے بالکل نیست و نابود ہو جائے گا۔ جہاں تک دوسرے مذاہب کاتعلق ہے انہیں ختم کرنے میں ہمیں اتنی دشواری نہیں ہو گی لیکن ان کے بارے میں کچھ کہنا ابھی ذرا قبل از وقت ہے۔ ہم پادریوں کا دائرہ عمل اتنا تنگ کر دیں گے کہ عوام میں ان کا اثر ترقی معکوس کرنے لگے گا۔
جب پاپائی عدالت کو ختم کرنے کا آخری مرحلہ آئے گا تو ا یک نادیدہ ہاتھ کی انگلی اس عدالت کی طرف اشارہ کرے گی اور جب مختلف قومیں اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی تو ہم کلیسا کے حامی بن کر اس کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اور گو ظاہر بظاہر اس کا مقصد یہ ہو گا کہ ہم خون خرابہ بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں لیکن اس طرح ہم ان کا اعتماد حاصل کر کے ان کی جڑوں میں بیٹھ جائیں گے اور یقین مانئے ہم اس وقت تک ان سے چمٹے رہیں گے جب تک ان کی جڑیں کھوکھلی نہ کر دیں۔
یہودیوں کا بادشاہ ساری دنیا کا پاپائے اعظم اور بین الاقوامی مذہب کا سردار ہو گا۔ نوجوانوں کو رسمی مذاہب کی اپنے طرز پر تعلیم دینے اور اس کے بعد اپنے مذہب کی واضح تعلیم دینے کی درمیانی مدت میں، ہم موجودہ مذاہب پر اعلانیہ انگلی نہیں اٹھائیں گے لیکن ہم اس قسم کے اعتراضات ضرور ابھارتے رہیں گے جن کا مقصد انہیں فرقوں میں تقسیم کرنا ہو گا۔
بالعموم ہمارا پریس ملکی امور، مذاہب اور غیر یہود کی نااہلی کو تنقید کانشانہ بنائے رکھے گا اور کسی اخلاقی اصول کو مد نظر رکھے بغیر ہر وہ طریقہ، جو صرف ہماری فطین قوم ہی استعمال کر سکتی ہے، استعمال کرے گا جس سے ان کا وقار مجروح کیا جا سکے۔
ہماری بادشاہت وشنو دیوتا کی عملی تجسیم ہو گی جس میں اس کی شخصیت جھلکے گی ہمارے سو ہاتھوں میں سے ہر ایک میں معاشری زندگی کی مشینوں کی کمانیاں ہوں گی۔ ہم بغیر سرکاری پولیس کی مدد کے ہر چیز سے واقف ہوں گے غیر یہودی حکومتوں کی پولیس کو ہم نے جومحدود اختیارات دلوائے تھے اس کی وجہ سے ان کی پولیس یہ معلومات فراہم ہی نہیں کر سکتی تھی۔
ہمارے لائحہ کار کے مطابق عوام کی ایک تہائی آبادی بقیہ دو تہائی کو حکومت کی رضاکارانہ خدمت کے اصول پر اپنے احساس ذمہ داری کی وجہ سے زیرنگرانی رکھے گی۔ ایسی صورت میں جاسوسی کرنا اور مخبر بننا کوئی بے عزتی کی بات نہیں رہے گی بلکہ اس کے برخلاف قابلِ فخر بات سمجھی جائے گی۔ بے بنیاد الزام تراشی کی بہرحال بے حد سخت سزا دی جائے گی تاکہ اس حق کو ناجائز استعمال کرنے کا کوئی احتمال نہ رہے۔
ہمارے مخبر معاشرے کے ہر طبقے میں ہوں گے۔ ان میں انتظامیہ کے ا علیٰ طبقے کے افراد بھی ہوں گے جو اپنا بیشستر وقت تفریحات میں صرف کرتے ہیں اور ان میں اخباروں کے مدیر، طابع، ناشر، کتب فروش، دفتروں میں کام کرنے والے کلرک، مال بیچنے والے، مزدور، کوچوان اور نجی ملازمین وغیرہ بھی ہوں گے۔ ان لوگوں کے نہ تو اپنے کوئی حقوق ہوں گے اور نہ انہیں اپنے طور پر کوئی کاروائی کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ یعنی یہ ایک ایسی پولیس ہو گی جس کے پاس اختیار نہیں ہوں گے۔ یہ لوگ صرف مشاہدہ کر کے اس کی اطلاع بہم پہنچائیں گے۔ ان کی فراہم کردہ اطلاع کی تصدیق اور اس کے نتیجے میں ہونے والی گرفتاریوں کا فیصلہ ایک دوسرا ذمہ دار گروہ کرے گا جس کا کام پولیس کے کام کی نگہداشت ہو گا جب کہ گرفتاریوں کا اصل کام فوجی پولیس اور بلدیہ کی پولیس کرے گی۔
اگر کوئی فرد، ملکی معاملات کے بارے میں کچھ دیکھنے یا سننے کے بعد، اس کی اطلاع نہیں دے گا تو جرم ثابت ہو جانے کے بعد اسے بھی اخفائے جرم کا مجرم گردانا جائے گا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بالکل اسی طرح جیسے آج کل ہماری برادری کے لوگ خود اپنے احساس ذمہ داری کی بنا پر، اپنے ان افراد خاندان کے خلاف جو کابال (KABAL) کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے پائے جائیں۔ کابال (KABAL) سے منحرف ہونے کا جرم عائد کرنے کے لئے مجبور ہیں اسی طرح ہماری بادشاہت میں جوساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہو گی ہماری رعایا کا یہ فرض ہو گا کہ اس سلسلے میں حکومت کی خدمات انجام دیں۔
اس قسم کی تنظیم اختیارات کے ناجائز استعمال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی خواہ مخواہ وہ طاقت کا غلط استعمال ہو یا رشت ستانی ہو۔ غرض اس طرح وہ ساری بدعنوانیاں ختم کر دی جائیں گی جو ہم نے اپنے مشوروں سے اور مافوق بشریت انسان کے حقوق کے نظریہ کے نام پر غیر یہودی رسم و رواج میں داخل کر دی تھیں۔انتظامیہ میں بدعنوانی کی صلاحیتیں ابھارنے کے لئے ہم اور کس طرح ان علتوں کو فروغ دے سکتے تھے۔
منجملہ اور بہت سے ذرائع کے، سب سے زیادہ اہم ہمارے وہ گماشتے ہیں جنہیں امن و امان قائم کرنے پر مامور کیا جاتا ہے۔ ان عہدوں پر ہونے کی وجہ سے انہیں انتشار پھیلانے کی اپنی شیطانی صفات یعنی خود فریبی پر اصرار، طاقت کا غیر ذمہ دارنہ استعمال اور سب سے پہلے اور اہم ترین بات ضمیر فروشی کو ابھارنے اور اسے بروئے کار لانے کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اٹھارہویں دستاویز
سیاسی حریفوں کی گرفتاری
خفیہ خفاظتی اقدامات۔اقتدار کو کمزور کرنا۔
اگر ہمارے لئے یہ ضروری ہو جائے کہ خفیہ خفاظتی اقدامات کو مضبوط کریں (جن کا برملا اظہار اقتدار کے وقار کے لئے زہر ہے) تو ہم تواتر کے ساتھ بدنظمی پھیلانے کا بندوبست کریں گے یا ا چھے مقرروں کے ذریعہ عدم اطمینان اور بے چینی کا اظہار کروائیں گے۔ ان مقرروں کے گرد ان کے ہمنواؤں کا ایک گروہ اکٹھا ہو جائے گا اور یہ بات ہمیں اس کا جواز فراہم کرے گی کہ ہم غیر یہودی پولیس کے ذریعہ ان کے گھریلو معاملات کی چھان بین کرا سکیں اور انہیں ان کی جاسوسی پر مامور کر سکیں۔
سازشوں میں اکثر لوگ اس لئے شریک ہوتے ہیں کہ اس میں انہیں مزہ آتا ہے اور باتیں کرنے کا ایک موضوع ہاتھ آتا ہے۔ اس لئے اس وقت تک جب تک کہ وہ کوئی کھلم کھلا کاروائی نہ کریں ہم ان پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے اور ان پر صرف ایسے آدمی مامور کرنے پر اکتفا کریں گے جو ان پر نظر رکھ سکیں۔
یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر صاحب اقتدار کے خلاف سازشیںبار بار طشت ازبام ہوتی رہیں تو اس سے صاحبِ اقتدار کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اس میں اس کی اپنی کمزوری کے شعور کا احتمال مضمر ہوتا ہے اور جو بات سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس سے ناانصافی کا اظہار ہوتاہے (جس کی وجہ سے لوگوں کو اس کے خلاف سازش کرنے پر مجبور ہونا پڑا) آپ کو علم ہے کہ ہم نے اپنے گماشتوں کے ذریعہ جو ہ مارے ریوڑ کی نابینا بھیڑیں ہیں، غیر یہودی بادشاہوں پر بار بار حملے کروا کرے ان کے وقار کے پندار کو توڑ دیا تھا۔ یہ بھیڑیں آزاد خیالی کے چند نعروں کے فریب میں آسانی سے پھنس جاتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ اسے سیاسی رنگ دیدیا جائے۔ ہم نے حکمرانوں کی خفیہ حفاظت کے اقدامات کو طشت از بام کر کے حکمرانوں کو اپنی کمزور ی تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور بالآخر اس طرح ہم ان کے اقتدار کو بالکل تباہ کر دیں گے۔
ہمارے حکمرانوں کی حفاظت صرف ایسے محافظ کریں گے جو بالکل غیر اہم نظر آئیں گے۔ ہم یہ تصور کرنا بھی قبول نہیں کر
سکتے کہ ہمارے حکمراں کے خلاف کوئی ایسی بغاوت ہو سکتی ہے جس کے کچلنے پر اسے قدرت نہ ہو یا اس بغاوت کی وجہ سے وہ چھپنے پر مجبور ہو جائے۔
اگر ہم اس قسم کے خطرے کااقرار کر لیں جیسا کہ غیر یہودی کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں تویہ درحقیقت ہماری اپنی موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہوگا۔ ممکن ہے کہ موجودہ حکمراں پر یہ بات صادق نہ آئے لین اس کی آئندہ نسل کے لئے یہ بالکل درست ثابت ہو گی۔
قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے گا اور ہمارا حکمراں ظاہر بظاہر اپنی طاقت صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرے گا۔ اپنی ذات یا اپنے خاندان کے افراد کے لئے یہ طاقت ہر گز استعمال نہیں کی جائے گی۔ جب یہ آداب ملحوظ خاطر رکھے جائیں گے تو ہر شخص حکمراں کا احترام کرے گا اور خود عوام اس کی حفاظت کریں گے۔ عام زندگی میں چونکہ امن و امان کی ذمہ داری صرف حکمراں کی ہو گی اور ملک کے ہر فرد کی خوشحالی کا انحصار اس کی ذات پر ہو گا، اس لئے عوام اسے دیوتا کا درجہ دیں گے۔حکمراں کی حفاظت کا برملا اظہار اس کی طاقت کے نظام میں کمزوری کی غمازی کرتاہے۔
ہمارے حکمراں کوایسے مرد اور عورتیں گھیرے میں لئے رہیں گے جو بظاہر اس کی دید کے مشتاق ہوں گی یہ لوگ اس کے بالکل قریب رہیں گے اور یہ تاثر دیں گے گویا اپنے جذبہ تجسس کی تسکین کے لئے وہ اتفاقیہ وہاں آ گئے ہیں۔ یہ لوگ احتراماً دوسرے لوگوں کو حکمراں کے قریب نہیں آنے دیں گے۔ اس سے حسن انتظام کی ایک مثال قائم ہو گی اور دوسرے بھی اس کی تقلید کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اگر کوئی عرضی گزار اس بھیڑ میں گھس کر اپنی درخواست پیش کرنا چاہے گا تو حکمراں کے قریب والے لوگ اسے فورًا عرضی گزار کی آنکھوں کے سامنے حکمراں کی خدمت میں پیش کر دیں گے تاکہ ہرشخص کو معلوم ہو جائے کہ ہر عرضی جو حکمراں کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے وہ اسے فوراً مل جاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ حکمراں ان کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔ اقتدار کے چہرے پر ہالا قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جائیں کہ ’’اگربادشاہ کو معلوم ہو جاتا‘‘ یا یہ کہ ’’یہ بات بادشاہ کے کانوں تک پہنچا دی جائیں‘‘۔
اگر حفاظتی عملے کو تھوڑی سی چھوٹ دیدی جائے اور ہر شخص اپنے آپ کو اس کا ماہر سمجھنے لگا تو سرکاری طور پر حفاظت کا خفیہ نظام اقتدار کے وقار کی پراسراریت ختم کر دیتا ہے۔ بغاوت بازوں کو اپنی اس طاقت کا علم ہوتا ہے اور وہ تاک میں رہتے ہیں کہ جوں ہی موقعہ ملے وہ حملہ کرنے کی کوشش کریں۔ غیر یہودیوں کو ہم ایک بالکل ہی مختلف بات سمجھاتے رہے ہیں لیکن اسی وجہ سے ہم یہ جاننے کے قابل ہوئے کہ حفاظت کے اعلانیہ اقدامات سے ان کا کیا حشر ہوا۔
جرائم پیشہ افراد قوی شبہ ہوتے ہی گرفتار کر لئے جائیں گے۔ اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ صرف اس احتیاط کی وجہ سے کہ کسی بے گناہ کو نہ پکڑ لیا جائے، ایسے لوگوں پر جن پر سیاسی نااہلی کے جرم کا شبہ ہو، فرار ہونے کا موقعہ فراہم کر دیا جائے۔ ان معاملات میں ہم معنوی سفاکی سے کام لیں گے۔ اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی معمولی جرم کی وجہ تحریک پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آجائے تو ایسی صورت میں بھی ان لوگوں کو معاف کرنے کا ہرگز امکان نہیں ہو گا جو ان معاملات میں دخل اندازی کے مرتکب پائے جائیں جنہیں صرف حکومت ہی سمجھ سکتی ہے۔
اور یہ کام ہر حکومت کاہے بھی نہیں کہ صحیح لائحہ عمل کو سمجھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انیسویں دستاویز
حکمراں اور عوام
عوام کی عرضیوں کا استعمال۔ الوالعزمی (HEROSM) کی تذلیل۔ باغیوں کی شہادت
اگر ایک طرف ہم ہر کس و ناکس کو امور مملکت میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیں گے تو دوسری طرف ہم ہر اس روئداد اور عرضداشت کی ہمت افزائی بھی کریں گے جس میں عوام کی فلاح کے لئے حکومت کو کوئی تجویز پیش کی گئی ہو۔ اس طرح ہمیں عوام کی خامیاں، کمزوریاں اور ان کی دوراز کار تجاویز کا علم ہو سکے گا۔ ان تجاویز پر یا تو عمل کیا جائے گا یا ان کی اتنی خوش اسلوبی سے تردید کر دی جائے گی کہ غلط تجویز پیش کرنے والوں پر ان کی کوتاہ بینی ثابت ہو جائے۔
ایک باقاعدہ منظم حکومت کے لئے، پولیس کے نقطئہ نظر سے ہی نہیں بلکہ عوام کی نظر میں بھی بغاوت باز، گود کے اس کتے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جو ہاتھی پر بھونکنے لگے۔یہ کتا جب ہاتھی پر بھونکتا ہے تو اسے اپنی طاقت یااہمیت کاشعور نہیں ہوتا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہاتھی کے مقابلے میں اسے اپنی طاقت کااندازہ کروا دیا جائے۔ جوں ہی اسے یہ اندازہ کروا دیا جائے گا وہ ہاتھی کو دیکھتے ہی اپنی دم ہلانے لگے گا۔
سیاسی جرائم میں ملوث الوالعزموں (HEROES) کا کس بل نکالنے کے لئے ہم ان پر چوری، قتل اور اس قسم کے دوسرے مکروہ اور گندے الزامات کے تحت مقدمات چلائیں گے۔ ان مقدموں کے چلنے کے بعد رائے عامہ انتشار کا شکار ہو کر ان مجرموں کو اسی طرح دیکھے گی جیسے دوسرے جرائم پیشہ افراد کو دیکھا جاتا ہے اور ان کی اتنی ہی بے عزتی ہو گی جتنی عام مجرموں کی ہوتی ہے۔
ہم اپنا کام جتنا بہتر سے بہتر طریقے سے کر سکتے تھے، کر چکے ہں اور ہمیں قوی امید ہے کہ ہم غیر یہودیوں کو بغاوت کاحربہ استعمال کرنے سے باز رکھنے میں کامیاب رہیں گے۔ صرف اسی وجہ سے ہم نے پریس، بالواسطہ تقریروں اورتاریخ کے موضوع پر عیاری سے لکھی ہوئی کتابوں کے ذریعہ، شہادت کو جوبغاوت باز مبینہ طور پر مفاد عامہ کے نظرئیے کے تحت قبول کرتے تھے اتنا مشتہر کیا۔ اس سے آزاد خیالوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا اور ہزاروں غیر یہودی جوق درجوق ہمارے ریوڑ میں شامل ہو گئے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بیسویں دستاویز
مالیاتی لائحہ کار
تدریجی (PROGRRESSIVE) محاصل کا نظام۔ جامد سرمایہ۔ سونے کا تباہ کن معیار
آج ہم مالیاتی لائحہ کار کے با رے میں بات کریں گے جسے میں نے سب سے مشکل ہونے کی وجہ سے سب سے آخر کے لئے اٹھا رکھا تھا۔ یہ ہمارے لائحہ کار کا نقطئہ کمال اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ قبل اس کے کہ میں اس مسئلہ پر گفتگو شروع کروں میں آپ کو یاددلانا چاہتا ہوں کہ اس سلسلے میں، پہلے بھی بات کر چکا ہوں۔ پہلے میں نے صرف اشارتاً اتنا عرض کیا تھا کہ ہمارے سارے اقدامات کے ماحصل کا فیصلہ ہندسوں کی زبان میں ہو گا۔
جب ہماری بادشاہت قائم ہو گی تو ہمارا مطلق العنان حکمراں اپنی حکومت کے استقلال کے اصول کے پیش نظر عوام پر غیر ضروری محاصل کا بوجھ ڈالنے کی حماقت سے پرہیز کرے گا۔ اس کے باوجود کہ عوام کی نظر میں اس کی حیثیت ایک باپ اور
سرپرست کی ہو گی لیکن چونکہ انتظامیہ چلانے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اس معاملے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے اس کی جزئیات خصوصی احتیاط کے ساتھ طے کی جائیں گی۔
ہماری حکومت جس میں ملک کی ہر چیز بادشاہ کی ملکیت تصور کی جائے گی (جسے بعد میں آسانی کے ساتھ حقیقت میں بدل دیا جائے گا) بادشاہ کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ تمام سرمایہ ضبط کر کے اسے ملک میں گردش دینے کے لئے استعمال کرے۔ اس کامطلب یہ ہو گا کہ جائیدادوں پر تدریجی محاصل لگائے جائیں گے یعنی جوں جوں جائیداد کی قیمت بڑھتی جائے گی اتنا ہی محصول بڑھتا جائے گا۔ اس طرح کسی پر زیادہ بوجھ ڈالے بغیر اور بغیر کسی کو نقصان پہنچائے ہوئے جائیداد کی قیمت پر بڑھتی ہوئی شرح فیصد کے حساب سے محصول لگایا جائے گا۔ مالداروں کو یہ معلوم ہو گا کہ چونکہ ان کی جائیداد کی حفاظت اور ایمانداری سے کمائے ہوئے منافع کے حق کی ضمانت حکومت مہیا کر رہی ہے۔ لہٰذا اپنی زائد آمدنی کا کچھ حصہ حکومت کے سپرد کرنا ان کا فرض ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایماندار آدمی اپنی جائیداد اپنے زیر اختیار رکھنے کے لئے وہ لوٹ مار بھی ختم کر دیں گے جو وہ قانون کی آڑ میں آج تک کرتے رہے ہیں۔ یہ معاشری اصلاح اوپر سے شروع ہونی چاہئیے۔ اس کے لئے یہ وقت بالکل موزوں ہو گا اورمن و امان کو یقینی بنانے کے لئے ناگزیر۔
غریب آدمیوں پر محصول لگانا انقلاب کا بیج بونے کے مترادف اور ملک کے مفاد کے خلاف ہے چونکہ اس طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں کے پیچھے لگ کر بڑی چیزیں نظر انداز ہو سکتی ہیں۔
اس سے قطع نظر دوسری بات یہ ہے کہ آج کل تو ہم نے غیر یہودی حکومتوں کی مالی طاقت کو بے اثر کرنے کے لئے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز کر رکھا ہے لیکن جب ہماری اپنی حکومت ہو گی تو سرمایہ داروں پر محصول لگا کر نجی ہاتھوں میں دولت کی افزائش اور ارتکاز کم کر دیا جائے گا۔
آج کل فرد پر یا جائیداد پر محصول لگایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی شرح فیصد کے حساب سے لگایا ہوا محصول زیادہ آمدنی کا ذریعہ بن سکتاہے۔ محصول کا موجودہ نظام ہمارے مقاصد کے لئے اس وقت صرف اس لئے سود مند ہے کہ اس سے غیر یہودیوں میں بے چینی اور بے اطمینانی پھیل رہی ہے۔
ہمارے بادشاہ کی قوت کاانحصار معاشی توازن اور امن کی ضمانت پر ہو گا اس کے لئے ناگزیر ہے کہ سرمایہ دار اپنی آمدنی کا کچھ حصہ ہمارے حوالے کریں تاکہ نظام حکومت کو بہتر طور پر چلایا جا سکے۔ ملک کی مالی ضروریات ایسے لوگوں کو پوری کرنی چاہئیں جنہیں اس کا بار محسوس نہ ہو اور ان کے پاس دینے کے لئے بھی کافی ہو۔
اس قسم کے اقدامات سے وہ نفرت جو غریب آدمی امیروں سے کرتے ہیں ختم جائے گی۔ غریبوں کو چونکہ معلوم ہو گا کہ ملک میں امن اور خوشحالی امیروں کی مالی اعانت کی ہی مرہون منت ہے۔ اس لئے وہ انہیں امن و خوشحالی کا ضامن سمجھنے لگیں گے۔
تعلیم یافتہ طبقے کوبدگمانی سے بچانے کے لئے ان سے جو محصول لیا جائے گا انہیں اس کے خرچ کی پوری تفصیل بتائی جائے گی کہ اسے کس مصرف میں لایا گیا۔ اس میں استشناء صرف ایسے اخراجات ہوں گے جو بادشاہ اور انتظامی اداروں پر کئے جائیں گے۔
چونکہ بادشاہ کی حیثیت ملک کے باپ جیسی ہو گی، اس کی اپنی کوئی ذاتی جائیداد یا ملکیت نہیں ہو گی اگر ایسا ہوا تو یہ
بجائے خود ایک تضاد ہو گا چونکہ نجی ملکیت کا وجود اجتماعی ملکیت کے حق کو ختم کر دے گا۔
حکمراں کے تمام رشتہ دار، سوائے اس کی اپنی اولاد کے، جن کی پرورش حکومت کی ذمہ داری ہو گی یا تو سرکاری ملازمت کریں گے یا ملکیت کا حق حاصل کرنے کے لئے انہیں کوئی دوسرا کام کرنا پڑے گا۔ شاہی خون سے رشے کے حق کی وجہ سے سرکاری خزانے کونہیں لٹایا جا سکتا۔
خریداری، رقم کی وصولیابی اور وراثت پر تدریجی محصول ہو گا یعنی رقم جتنی بڑھتی جائے گی اسی حساب سے محصول زیادہ بڑھتا جائے گا۔ جائیداد یا رقم کی منتقلی بغیر اس محصول کی ادائیگی کے ثبوت کی جس کا بڑی پابندی سے نام بنام اندراج کیا جائے گا، نہیں ہو سکے گی۔ اگر پہلا مالک محصول فوراً ادا نہیں کرے گا تو اسے تاریخ انتقال سے لیکر اس وقت تک جب تک کہ واجب الادا رقم خزانے میں داخل نہیں ہو جاتی، سود ادا کرنا پڑے گا۔ انتقال جائیداد کے کاغذات ہر ہفتے مقامی دفتر خزانہ میں داخل کئے جائیں گے اور اس میں نام، خاندانی نام اور پرانے اور نئے مالکوں کے مستقل پتے کا اندراج ضروری ہو کا۔ نام کے ساتھ یہ انتقال ملکیت ایک خاص رقم سے شروع ہو گا جو خریدنے اور فروخت کرنے کی عام قیمت سے زیادہ ہو گا اور اس پر محصول کی رقم کی ادائیگی اسٹامپ کی شکل میں کی جائے گی جو اس ملکیت کی اکائی کی ایک خاص شرح فیصد کے مطابق ہو گی۔ آپ ذرااندازہ لگائیے کہ اس قسم کے محاصل اگر غیر یہودی حکومتیں لگاتیں تو ان کی آمدنی میں کتنا گنا اضافہ ہو سکتا تھا۔
قومی خزانے کو ایک مخصوص رقم محفوظ رکھنی ہو گی اور اس رقم سے زیادہ جو بھی آمدنی ہو گی اسے واپس گردش میں ڈال دیا جائے گا۔ ان رقومات سے رفاہِ عامہ کے تعمیری کام کئے جائیں گے۔ ان تعمیرات کی وجہ سے جو سرکاری خزانے سے کی جائیں گی مزدور طبقے کی حکومت سے وابستگی میں اضافہ ہو گا۔ ان ہی رقومات میں سے ایک حصہ اختراعی اور پیداواری صلاحیتوں کی ہمت افزائی کے لئے انعامات دینے پر خرچ کیا جائے گا۔
کسی بھی صورت میں سرکاری خزانے میں مخصوص اور غیر جانبدار اندازے کے مطابق محفوظ رقم سے زیادہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دولت صرف اس لئے ہوتی ہے کہ اسے گردش میں رکھا جائے۔ سرمایہ کا جمود ملک کے انتظام چلانے کی صلاحت کے لئے سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔ سرمایہ ملک کی انتظامی مشین کو رواں رکھنے میں مدد کرتاہے۔ اگر اسے خشک ہونے دیا جائے تو یہ مشین بند ہو جاتی ہے۔
سود دینے والے کاغذات (INTEREST BEARING PAPER) کو اگر رقم کے لین دین میںاستعمال کیا جانے لگے تو اس سے بالکل اسی قسم کا جمود آجاتا ہے جس کے نتائج ہم سب کے سامنے واضح ہیں۔ ہم حسابات کے کھاتوں کے لئے ایک علیحدہ عدالت قائم کریں گے جہاں حکمراں سوائے اس کرنٹ اکاؤنٹ کے جس کا حساب مکمل نہیں کیاجا سکا ہو گا یا پچھلے مہینے کے کھاتوں کے جن کی جانچ پڑتال نہیں ہو سکی ہو گی، کسی بھی وقت ملک کی آمدنی اور خرچ کے حساب کامعائنہ کر سکے گا۔
صرف ا یک فردواحد جسے ملک کی دولت لوٹنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی وہ خود اس کامالک ہو گا۔ یعنی خود حکمراں۔ اسی وجہ سے اس کی ذاتی نگرانی کی وجہ سے چوری یا شاہ خرچی کا امکان معدوم ہو جائے گا۔
روایتی آداب نباہنے کے لئے حکمراں کی ضیافتوں میں شرکت، جس میں اس کا بے حد قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے، بالکل ختم کر دی جائے گی تاکہ وہی ہ وقت نگرانی کرنے اور غور وفکر میں صرف کر سکے۔ اس طرح اس کی توانائی ان ابن الوقت منظور نظر لوگوں پر صرف نہیں ہو گی۔ جو تاج و تخت کے گرد اس کی شان و شوکت کی وجہ سے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے پیش نظر ملک
کے مفاد کی بجائے صرف اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیںـ۔
ہم نے غیر یہودیوں کے لئے معاشی بحران پیدا کئے اور ان کو روبعمل لانے کے لئے سرمایہ کو گردش میں نکالنے کے علاوہ اور کوئی طریقہ استعمال نہیں کیا۔ اس طرح سرمایہ کی خطیر رقومات جامد ہو گئیں۔ ہم نے بڑی بڑی رقومات گردش میں سے نکال کر اپنے پاس اکٹھی کیں اور پھر ان ہی ملکوں کو یہ رقومات ہم سے قرض لینے کی درخواست کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان قرضوں نے ملک کی مالیات پر سود کااتنا بوجھ ڈالا کہ وہ اس سرمایہ کے زرخرید غلام بن گئے۔
چھوٹے مالکوں کے مقابلے میں سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں صنعت کی ارتکاز نے عوام کے ساتھ ساتھ حکومتوں کا عرق بھی نچوڑ لیا۔
موجودہ دور میں نوٹوں کا اجراء فی کس ضرورت سے تطابق نہیں رکھتا اور اس لئے اجرت پیشہ افراد کی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں۔ اصل میں نوٹوں کا اجراء آبادی کے تناسب کے حساب سے ہونا چاہئیے اور اس میں بچوں کا بھی لحاظ رکھنا چاہئیے جو ابھی پیدا ہوئے ہیں چونکہ خرچ ان پر بھی ہوتا ہے ۔ نوٹوں کے اجراء کی تعداد پر نظرثانی کرنا ساری دنیا کا حقیقی مسئلہ ہے۔
آپ کو علم ہے کہ جن ملکوں نے سونے کے تناسب کامعیار اختیار کیا وہ تباہی سے دوچار ہوئے اس طریقے سے زر کی فراہمی کی مانگ پوری نہیں کی جاسکتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جہاں تک ممکن ہوا ہم نے سونے کے سکوں کو گردش سے نکال لیا۔
ہم جومعیار رائج کریں گے وہ محنت کشوں کی افرادی قوت کی قدر سے منسلک ہو گا۔ خواہ اسے کاغذ کے نوٹ چھاپ کر پورا کیا جائے یا لکڑی کے ٹکڑے استعمال کر کے۔ ہم زرد کا اجراء ہر فرد کی عام ضرورت کے مطابق کریں گے۔ اس میں ہر بچے کی پیدائش کے ساتھ اضافہ ہوگا اور ہر فرد کی موت پر کمی۔ فرانسیسی انتظامی حلقوں کے طرز پر محکمہ اپنے حسابات کا خود ذمہ دار ہو گا۔
اسے یقینی بنانے کے لئے کہ حکومت کی ضروریات کے لئے رقم کی ادائیگی میں کوئی تاخیر نہ ہو اس رقم کا تعین اور اس کی ادائیگی کا طریقہ کار حکمراں کے فرمان کے ذریعہ ہو گا۔ اس طرح کوئی وزارت ایک محکمہ کی قیمت پر کسی دوسرے محکمہ کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکے گی۔
آمدنی اور خرچ کے میزانئے ساتھ ساتھ تیار کئے جائیں گے تاکہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کی صورت میں بے معنی نہ ہو جائیں۔ مالی اداروں میں غیر یہودیوں کے طریقہ کار میں ہماری اصلاحات کو بغیر کسی کو چونکائے اور بالکل غیر محسوس انداز میں پیش کیا جائے گا۔ غیر یہودیوںکی بدعنوانیوں کے نتیجے میں مالی معاملات میں جو بے ترتیبی واقع ہوئی ہے اسے بیان کر کے ہم اصلاحات کی ضرورت کی نشاندہی کریں گے۔
سب سے پہلے جس بدعنوانی کی نشاندہی کی جائے گی وہ یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے ایک میزانیہ تیار کرتے ہیں جو مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء بر ہر سال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
اس میزانئیے کی مدت کو گھسیٹ کر چھ مہینے پر لے آیا جاتا ہے پھر حالات درست کرنے کے لئے ایک اور میزانئیے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور پھر اس میزانئیے میں مخصوص کی گئی رقم تین مہینے میں خرچ ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ضرورت بڑتی ہے کہ ایک اور اضافی میزانیہ تیار کیا جائے اور اس کانتیجہ ایک دیوالیہ میزانئیے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اگلے سال کا میزانیہ پچھلے سال کے کل اضافی خرچ کو مد نظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے تو اخراجات کی مد میں تین گنا ہو جاتا ہے۔ بھلا ہو اس طریقہ کار کا جو غیر
یہودی حکومتیں اپنی لاپرواہی کی وجہ سے اختیار کرتی رہی ہیں کہ ان کے خزانے خالی ہو چکے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں چھوٹ لینی پڑتی ہے اور ساری آمدنی قرضوں کی ادائیگی اور اصل سود کی ادائیگی کی نذر ہو جاتی ہے ا ور اس طرح ملک کنگال ہو جاتا ہے۔
آپ اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ اس قسم کے معاشی اقدامات جو ہم غیر یہودیوں کے لئے تجویز کرتے رہے ہیں ہم خود ان پر عمل نہیں کر سکتے۔ کسی بھی قسم کا قرضہ ملک کی معاشی معذوری کا ثبوت ہے اور ملک کے انتظام میں سوجھ بوجھ کے فقدان کی غمازی کرتا ہے۔ قرضے حکمرانوں کے سروں پر تلوار کی طرح لٹکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ خود اپنے عوام سے عارضی محصول لیں یہ لوۃگ بھیک کا کشکول لیکر ہمارے بینکوں کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں۔ غیر ملکی قرضے ایسی جونکیں ہیں جنہیں ملک کے جسم سے اس وقت تک نہیں چھڑایا جا سکتا جب تک کہ وہ خون چوس کر خود ہی علیحدہ نہ ہو جائیں یا ملک انہیں خود چھڑا کر نہ پھینک دیں۔ لیکن غیر یہودی حکومتیں انہیں اپنے جسم سے چھڑانا نہیں چاہتیں بلکہ اس میں مزید جونکوں کا اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں اور اس کا لابدی نتیجہ رضاکارانہ طور پر خون چسوانے کے بعد مکمل تباہی و بربادی ہوتا ہے۔
قرضے کی اصل حقیقت کیاہے؟ خصوصیت سے غیر ملکی قرضہ کیا ہوتا ہے؟ قرضہ حکومت کی ہنڈیوں (BILLS OF EXCHANGE) کا اجراء ہے جس پر ایک مقررہ فیصد رقم، قرض لئے ہوئے سرمائے کی رقم کے مطابق ادا کرنی پڑتی ہے۔ اگر قرض پانچ فیصد شرح سود پر لیا گیا ہے تو ملک خواہ مخواہ اتنی ہی رقم بیس سال میں سود کی شکل میں ادا کرتا ہے۔ چالیس سال میں سود کی رقم اصل سے دوگنی ہو جاتی ہے اور ساٹھ سال میں تین گنی اور اس تمام عرصے میں قرض کی اصل رقم وہیں کی وہیں رہتی ہے۔
اس حساب سے صاف ظاہر ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنی ضروریات کے لئے یہ رقم بغیر کوئی سود دئیے حاصل کی جائے۔ ملک کسی بھی قسم کا فی کس محصول لگا کر اپنے ملک کے غریب محصول دہندہ کاپیسہ پیسہ کھینچ کر ان غیر ملکی دولتمندوں کا حساب چکانے میں خرچ کر دیتا ہے جس سے اس نے قرض لیا ہے۔
جب تک یہ قرضے ملکی تھی تو غیر یہودی حکومتیں اپنے غریبوں کا پیسہ کھینچ کر امیروں کی جیبیں بھرتی رہیں لیکن جب ہم نے ان ملکوں میں اپنے کام کے مطلوبہ آدمی خرید لئے تاکہ وہ ملک کو بیرونی قرضے دلوانے کا بندوبست کر سکیں تو ساری دنیا کی دولت سمٹ کر ہماری تجوریوں میں بھرنی شروع ہو گئی اور یوں تمام غیر یہودی ہمارے باجگزار بن گئے۔
اگر غیر یہودی بادشاہوں کی امور مملکت میں سطحی واقفیت یا ان کے وزیروں کی ضمیر فروشی یا دوسرے ارباب حل و عقد کی مالی معاملات میں سوجھ بوجھ کے فقدان نے ان ملکوں کو ہمارا اتنا مقروض بنا دیاہے کہ ان کے لئے اس قرض کو ادا کرنا ممکن ہی نہیں رہا تو یہ سب کچھ یوں ہی نہیںہو گیا۔ اس کے لئے ہمیں بڑی محنت اور بڑی رقم خرچ کرنی پڑی ہے۔
ہم سرمایہ کو جمود کی اجازت نہیں دیں گے اور اس لئے کوئی سود برادر ہنڈیاں (INTER BEARING PAPERS SERIES) سوائے ایک فیصد سلسلہ ہندسیہ کے جاری نہیں کی جائیں گی تاکہ ان جونکوں کو جو ملک کا خون چوستی رہی ہیں، سود سے محروم کر دیا جائے۔
سود برادر ہنڈیوں کے ا جراء کی اجازت صرف صنعتی اداروں کو دی جائے گی جن پر اپنے منافع میں سے سود کی رقم دینے میں کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر حکومت کوئی قرضہ لے گی تو وہ صنعتی اداروں کی طرح سود نہیں دے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت خرچ کرنے کے لئے قرض لیتی ہے کسی منافع بخش کاروبار میں لگانے کے لئے نہیں۔
صنعتی اداروں کو حکومت بھی قرضے دے گی۔ آج کل حکومت قرض لیتی ہے لیکن اب کو حکومت منافع حاصل کرنے کے لئے قرض دے گی۔ اس اقدام سے سرمایہ کا جمود، خون چوسنے والے منافع اور وہ تن آسانی ختم ہو جائے گی جو اس وقت تک ہمارے لئے سود مند تھی۔ جب تک غیر یہود کی اپنی آزاد حکومت تھی۔ لیکن ہماری اپنی حکومت کے قیام کے بعد یہ عمل ناپسندیدہ تصور کیا جائے گا۔
غیر یہود کے اجڈ دماغوں کی ناقص اور ناپختہ فکر، اس حقیقت کے اظہار سے کتنی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ہم سے قرض لے کر ہمیں اس پر سود ادا کرتے ہیں۔ بغیر یہ کبھی سوچے ہوئے کہ ہمارا حساب بیباک کرنے کے لئے انہیں یہ تمام رقم معہ ایک اضافی رقم بطور سود کے خود اپنے ملکی خزانے سے دینی پڑے گی۔ اس کے مقابلے میں یہ کتنا آسان ہوتا کہ وہ یہ رقم خود اپنے عوام سے ہی حاصل کرتے۔
لیکن یہ ہمارے منتخب دماغوں کی غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت ہے کہ ہم نے قرضوں کے حصول کا مسئلہ ان کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ خود انہیں قرض لینے میں اپنا فائدہ نظر آنے لگا۔
جب وقت آئے گا تو ہم ان صدیوں کے تجربے کی روشنی میں جو ہم نے غیر یہودی ملکوں میں حاصل کیا ہے، اپنے حسابات اس طرح ترتیب دیں گے جو اپنی وضاحت اور قطعیت کی وجہ سے ممتاز ہوں گے اور کوئی بھی شخص ایک نظر میں ہماری اختراع کا فائدہ محسوس کئے بغیر نہیں رہے گا۔ اس عمل سے وہ تمام لعنتیں ختم ہو جائیں گی جنہیں ہم غیر یہود پر اپنی حاکمیت قائم رکھنے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب یہ تمام برائیاں ہماری اپنی حکومت میں جاری نہیں رہ سکیں گی۔ہم اپنے حسابات کے احتساب کے نظام کو اس طرح منظم کریں گے کہ حکمراں سے لیکر حکومت کے ا یک ادنیٰ اہلکار تک اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی رقم بھی غلط جگہ یا ایسی مد میں صرف کرے گا جس کی پیشگی منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو تو وہ ہماری پکڑ سے نہیں بچ سکے گا۔
بغیر ا یک متعینہ لائحہ کار کے، حکومت چلانا ناممکن ہے۔ غیر متعین راہ پر نامعلوم وسائل کے ساتھ سفر کر کے بڑے بڑے الوالعزم اور بڑے بڑے دیوتا تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔
غیر یہودی حکمرانوں کی توجہ ملکی مسائل کی طرف سے ہٹانے کے لئے ہم نے انہیں پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ انہیں سرکاری ضیافتوں میں شریک ہونا چاہئیے، مراسم دربار نباہنے چاہئیں اور تقریبات میں حصہ لینا چاہئیے۔ یہ سب کچھ ہماری حکمت عملی پر پردہ ڈالنے کے لئے تھا۔
امور مملکت چلانے والوں کے بدلے جن منظور نظر درباریوں نے ان جگہ لی، ان کے حسابات ہمارے گمشاتوں کے تیار کئے ہوئے ہوتے تھے۔ کوتاہ بین اور کوتاہ اندیش دماغ ان وعدوں پر بہلتے رہے کہ ان اقدامات سے آئندہ بچت اور معاشی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ بچت کہاں سے ہو گی؟ کیا نئے محاصل نکال کر؟ یہ وہ سوالات تھے جو پوچھے جانے چاہئیں تھے لیکن ان لوگوں نے جنہیں یہ حسابات اور منصوبے پیش کئے گئے یہ سوالات اٹھانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔
آپ کو معلوم ہے کہ ان کے عوام کی غیر معمولی محنت کے باوجود حکمرانوں کی اس لاپرواہی نے ا نہیں معاشی بدنظمی کے کس درجے تک پہنچا دیا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اکیسویں دستاویز
قرض کا لین دین
دیوالیہ ہونا۔ بازار زر (MONEY MARKET) کا خاتمہ
میں نے پچھلی نشست میں ملکی قرضوں کے بارے میں جو ذکر کیا تھا آ ج اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالنا چاہتا ہوں غیر ملکی قرضوں کے بارے میں میں کچھ او رنہیں کہوں گا چونکہ ان کے ذریعہ غیر یہودی ملکوں کا سرمایا ہمیں منتقل ہوا ہے لیکن ہماری اپنی حکومت کے لئے کوئی غیر ملکی نہیں ہو گا یعنی کوئی قرضہ ملک کے باہر سے نہیں لیا جائے گا ہم نے اپنا سرمایہ دو گنا،تین گناہ اور کئی گناہ کرنے کے لئے اعلیٰ افسران کی ضمیر فروشی اور حکمرانوں کی تن آسانی کو استعمال کیا اور غیر یہودی حکومتوں کو وہ قرضے دینے میں کامیابی حاصل کی جن کی انہیں ضرورت ہی نہ تھی۔ کیا یہی عمل ہم دوسرے اپنے اوپر کروانے کی اجازت دیں گے۔ لہٰذا میں صرف ملکی قرضوں کی تفصیلات کے بارے میں بات کروں گا۔
حکومتیں اعلان کرتی ہیں کہ فلاں قرضہ فلاں تاریخ تک کھلارہے گا اور اپنی ہنڈیوں (BILLS OF EXCHANGE) کو فروخت (SUBSCRIBTION) کے لئے جاری کر دیتی ہیں۔ یعنی اپنے سود برادر کاغذ (INTEREST BEARING PAPER) کے لئے کھول دیتی ہیں۔ یہ قرضے عام آدمی کی دسترس سے باہیر نہیں ہوتے اور ان کی اکائی کی قیمت سو سے لیکر ہزار تک متعین کی جاتی ہے۔ جو لوگ انہیں جلدی خرید لیتے ہیں انہیں ان کی قیمت میں کچھ چھوٹ دیدی جاتی ہے۔ اگلے دن مصنوعی طریقے سے استعمال کر کے ان کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ خریداروں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ چند ہی دنوں میں خزانے کا منہ بھر جاتا ہے اور اس سے زیادہ رقم آجاتی ہے جتنی کہ ضرورت تھی (تو پھر یہ قرض لیتے ہی کیوں ہیں)۔ کہا یہ جاتا ہے کہ خریداری قرض کے اجراء کی رقم سے کئی گنی زیادہ ہو گئی۔ یہی سارا کھیل ہے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ حکومت کی ہنڈیوں پر عوام کا کس قدر اعتماد ہے۔
لیکن جب یہ مزاحیہ کھیل ختم ہوتا ہے تو صرف ایک حقیقت واضح ہوتی ہے اور وہیہ کہ قرضہ۔ اور وہ بۃی بہت بڑا قرضہ۔ لے لیا گیا ہے۔ اس کا سود دینے کے لئے نئے قرضے لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جس سے وہ قرض تو ادا ہوتا نہیں، ایک دوسرے قرض کے بار کا اضافہ ہو جاتا ہے اور جب اس طرح قرض پر لی ہوئی رقم بھی خرچ ہو جاتی ہے تو اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے نئے محصول لگانے کی ضرورت پڑتی ہے قرض ادا کرنے کے لئے یہ محصول در اصل ایسے قرضے ہوتے ہیں جو قرضوں کو ادا کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں۔
بعد میں ان ہنڈیوں کو بھنانے کا وقت آتا ہی لیکن اصل کو چھیڑے بغیر سود کی رقم میں کمی کر دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی ادائیگی قرض دینے والے کی مرضی کے بغیر عمل میں لائی بھی نہیں جا سکتی۔ جب کسی قرضے کی واپسی کااعلان کیا جاتا ہے تو ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی پیش کی جاتی ہے کہ جو لوگ اپنے کاغذات تبدیل کرانا نہیں چاہتے وہ اپنی رقم لے سکتے ہیں۔ اگر ہر شخص یہ تجویز نامنظور کر دے اور اپنی رقم کی واپسی پر اصرار کرنے لگے تو حکومت لٹک کر رہ جائے اور اس کا دیوالیہ نکل جائے اور رقومات واپس نہ کر سکے۔ خوش قسمتی سے چونکہ غیر یہودی عوام کو مالی معاملات میں شدھ بدھ نہیں ہوتی، وہ اسٹاک ایکسچینج میں نقصان اور اپنی لگائی ہوئی رقم پر سود میں کمی تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن اپنے لگائے ہوئے سرمایہ پر کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس طرح ان کی حکومتیں کروڑوں کے قرض کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
موجودہ دور میں غیر یہودی حکومتیں غیر ملکی قرضوں کے ساتھ اس قسم کا کھیل نہیں کھیل سکتیں چونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم ان سے پوری رقم کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور اس طرح اگر ایک مرتبہ وہ دیوالیہ ہو جائیں تو ساری دنیا کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ان کے عوام او رحکمرانوں کے مفادات کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔
میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس نکتے پر اور اسک ے بعد جو میں کہنے والا ہوں اس پر خصوصی توجہ دیں۔ آج کل تمام ملکی قرضوں کو نام نہاد وقتی قرضوں (FLYING LOANS) کے نام پر حاصل کیا جاتا ہے یعنی ایسے قرضے جو مستقبل قریب میں واجب الادا ہوتے ہیں۔ یہ قرضے ان رقومات پر مشتمل ہوتے ہیں جو سیونگ بینک یا ریزرو فنڈ میں جمع ہوتی ہیں۔ اگر یہ زیادہ مدت کے لئے حکومت کی تحویل میں چھوڑ دی جائیں تو غیر ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی میں صرف کر دی جاتی ہیں اور لگان سے حاصل کی ہوئی رقمس ے پوری کر دی جاتی ہیں اور یہی مؤخر الذکر رقومات غیر یہودی حکومتوں کے سرکاری خزانے کی کمی کو پورا کرتی ہیں۔
جب ساری دنیا پر ہماری حکمرانی قائم ہو جائے گی تو تمام مالی اور اس قسم کی دوسری چال بازیاں جو ہمارے مفاد میں نہیں ہوں گی اس طرح ختم کر دی جائیں گی کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ اور اس کے ساتھ ہی سارے بازار زر (MONEY MARKETS) بھی بند کر دئیے جائیں گے چونکہ ہم ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہماری مقرر کردہ قدروں کی قیمتوں کے رد و بدل سے ہماری قوت کا وقار مجروح ہو۔ ہم بذریعہ قانون ان قدروں کی قیمتوں کا اعلان کریں گے جو ان کی پوری افادیت کے مطابق ہوں گی اور ان کی قیمتوں میں کمی و بیشی کا امکان نہیں ہو گا۔ (قیمتیں بڑھانا، قیمتیں کم کرنے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم نے غیر یہودیوں کے لئے قدر کی تعلق سے شروعات کی تھی)۔
ہم بازارِ زر (MONEY MARKETS) کے بدلے قرض دینے والے بڑے بڑے سرکاری ادارے قائم کریں گے جن کا مقصد حکومت کی صوابدید کے مطابق صنعتی قدروں کی قیمتیں مقرر کرنا ہو گا۔ ان اداروں میں یہ اہلیت ہو گی کہ بازار میں ایک دن میں پچاس کروڑ کے صنعتی کاغذات جاری کر سکیںیااتنی ہی رقم کے کاغذات خرید سکیں۔ اس طرح تمام صنعتی ادارے ہمارے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اس سے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم کتنی قوت کے مالک ہونگے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بائیسویں دستاویز
سونے کی طاقت
’’اب کیا ہو گا‘‘ کا راز نئے اقتدار کی پراسراریت اور عوام کے دل میں احترام کے ساتھ اس کا خوف
میں نیاب تک جو کچھ آپ کو بتایا ہے اس میں میں نے بہت محتاط ہو کر اس بات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ آئندہ دَور میں کیا ہونے والا ہے، ماضی میں کیاہو چکا ہے اور اس وقت کیا ہو رہا ہے اور یہ حال کس طرح مستقبل قریب میں آنے والے واقعات میں مدغم ہو جائے گا۔ میں نے غیر یہودیوں سے اپنے تعلقات کے رازوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے اور مالی حکمت عملی پر سے بھی۔ اس موضوع پر مجھے ابھی تھوڑا اور اضافہ کرناہے۔
ہمارے ہاتھوں میں اس وقت دنیا کی عظیم ترین قوت ہے اور وہ قوت ہے سونا۔ دو دن کی قلیل مدت میںہم اپنے ذخیروں سے جتنا چاہیں سونا حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد یقینا اب کسی مزید ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ خدا نے حکومت ہمارے لئے پہلے ہی سے مقدر کر دی تھی۔ یقینا اب اتنی دولت حاصل کر لینے کے بعد ہم یہ ثابت کرنے میں ناکامیاب نہیں ہو سکتے کہ پچھلی صدیوں میں ہمیں جو شیطانی حرکتیں کرنی پڑیں وہ ہمارے سب سے آخری مقصد کے حصول کے لئے کی گئی تھیں۔ اور وہ مقصد تھا حقیقی خوشحالی کا حصول اور مکمل نظم و ضبط کا قیام۔ اب ہمیں اس کے لئے خواہ تھوڑا سا تشدد بھی استعمال کرنا پڑے لیکن آخر کار یہ مقصد پورا ہو کر رہے گا۔ ہم ایسا بندوبست کریں گے کہ لوگوں پر یہ ثابت ہو جائے کہ ہم ہی وہ محسن ہیں جنہوں نے لوٹ کھسوٹ کی ماری زخموں سے چور دنیا میں حقیقی خیر اور نیکی کو بحال کیا۔ فرد کو آزادی دلائی اور اس کے بعد اب ہم اسے باہمی تعلقات میں وقار اور عزت نفس کے ساتھ امن و سکون کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔ شرط بہر حال یہ ہو گی کہ وہ ہمارے نافذ کردہ قوانین کی پیروی اور احترام کریں۔ اب ہم ان پر یہ واضح کر دیں گے کہ آزادی کے معنی انتشار اور پراگندگی کے نہیں ہیں اور بے لگام ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چونکہ انسان کا وقار اور طاقت اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہر آدمی کو یہ حق دیدیا جائے کہ وہ ضمیر کی آزادی، مساوات اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کے نام پر تخریب کاری کا پرچار کرتا پھرے۔ فرد کی آزادی کے کسی طرح بھی یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ خود ہیجان میں مبتلا ہو یا دوسروں میں اپنی مکروہ تقریروہ سے غیر منظم اجتماعات میں انتشار پھیلائے۔ حقیقی آزادی فرد کی وہ ناقابلِ فسخ حیثیت ہے جو اس سے باعزت طور پر زندگی کے عام قوانین کی سختی سے پابندی کراتی ہے۔ انسانی عظمت و وقار، حقوق کے شعوری احساس میں مضمر ہے۔ اس میں ہر شخص کو حقوق نہیں ملتے اور فرد کی آزادی تمام تر کسی کی ذاتی انا پر مبنی سن کی تصورات کا نام نہیں ۔
ہمارا اقتدار نہایت عظیم الشان ہو گا۔ چونکہ ساری طاقت حکمراں میں مرتکز ہو گی اس لئے وہ حکومت بھی کرے گا اور رہنمائی کے فرائض بھی انجام دے گا۔ وہ ان قائدین اور مقررین کو بدنظمی پھیلانے کی اجازت نہیں دے گا جو اپنے گلے بے معنی الفاظ چیختے چیختے خشک کر لیتے ہیں اور ان فضولیات کو عظیم اصولوں کا نام دیتے ہیں جو حقیقت میں موہوم تصورات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
ہمارا اقتدار نظم و ضبط کا نقطئہ کمال ہو گا اور اسی میں بنی نوع انسان کی خوشحالی مضمر ہے۔ ہمارے اقتدار کے چہرے کے گرد طاقت کا ہالہ ہو گا اور عوام اس کی پر ا سراریت کی وجہ سے اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے پرمجبور ہوںگے ان کے دلوں میں اقتدار کے اخترام کے ساتھ اس کا خوف بھی ہو گا۔
حقیقی طاقت کسی کے حقوق سے سمجھوتہ نہیں کرتی یہاں تک کہ خدا کے حقوق سے بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ کوئی اس طاقت کے دسترخوان سے خوشہ چینی کرنے کے لئے اس کے قریب آنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تئیسویں دستاویز
دلوں میں اطاعت شعاری کا جذبہ پیدا کرنا۔
اشیائے تعیش میں کمی۔ موجودہ حکمرانوں کے بجائے ایک حکمران اعلیٰ۔
لوگوں میں اطاعت شعاری کی عادت ڈالنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں کسر نفسی سکھائی جائے۔ اس کے پیش نظر اشیائے تعیش کی پیداوار میں کمی کی جائے گی۔ اس طرح ہم لوگوں کے اخلاق جو عیش و عشرت کا عادی ہونے کی وجہ سے بگڑ گئے ہیں درست کر سکیں گے۔ پیداوار کی چھوٹی اکائیاں دوبارہ قائم کی جائیں گی۔ یہ اکائیاں بڑے صنعتکاروں کے نجی سرمایہ کے نیچے بارودی سرنگوں کا کام دیں گی۔ چھوٹی صنعتوں کا قیام اس لئے بھی ضروری ہے کہ بڑے صنعتکار بعض اوقات غیر شعوری طور پرہی سہی، عوام کی توجہ کا رخ بڑے پیمانے پر حکومت کے خلاف کر دیتے ہیں۔ چھوٹی صنعتوں میں کام کرنے والے بے روزگاری کے بارے میں لاعلم ہوتے ہیں۔ یہ بات انہیں مروجہ نظام سے باندھے رکھتی ہے اور اس کی نتیجے میں وہ اقتدار کی ساتھ ثابت قدمی سے منسلک رہتے ہیں۔
بے روز گاری کا مسئلہ حکومت کے لئے خطرناک ترین چیز ہے۔ جوں ہی طاقت ہمارے ہاتھ میں آئے گی، ہمارے لئے بیروزگاری پیدا کرنے کا مقصد ختم ہو چکا ہو گا ۔ شراب نوشی قانوناً ممنوع قرار دیدی جائے گی اورانسان چونکہ شراب کے نشے میں حیوان ہو جاتا ہے اس لئے شراب نوشی کی سزا وہی مقرر کی جائے گی جو انسانیت کے خلاف جرائم کی ہوتی ہے۔
میں یہ بات مکرر کہنا چاہتا ہوں کہ عوام اس طاقت ور ہاتھ کی اندھی اطاعت کرتے ہیں جس کاانحصار خود عوام پر نہ ہو۔ اسی طاقت کے ہاتھ میں انہیں معاشری برائیوں سے مدافعت کی تلوار نظر آتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی طاقت معا شری خرابیوں کو مٹانے میں ان کی مدد کر سکتی ہے انھیں بادشاہ میں فرشتے کی صفات نہیں چاہیئں وہ تو بادشاہ کو طاقت اور قوت کا مظہر دیکھنا چاہتے ہیں
اب وہ حکمران اعلیٰ ان موجودہ حکمرانوں کی جگہ لے گا جو اپنے وجود کو ان معاشروں میں گھسیٹتے رہے ہیں جنھیں ہم نے بد کردار بنا دیا تھا وہ معاشرے جو خدا تک کے اقتدار سے انکار کرتے تھے وہ معاشرے جن میں ہر طرف لا قانونیت اور طوائف الملوکی کی آگ بھڑک رہی تھی یہ حکمران اعلیٰ آگ کے ان شعلوں کو ٹھنڈا کرے گا جو ہر چیز کو جلائے ڈال رہے تھے لہذا اس کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ ان معاشروں کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکے خواہ اس میں اسے اپنا خون بھی استعمال کرنا پڑے ان شعلوں کی راکھ سے ایک ایسا منظم گروہ دوبارہ نمودار ہو گا جو معاشرے کے ہر قسم کے متعدی امراض سے جنھوں نے ملک کے جسم پر جگہ جگہ بد نما داغ لگائے ہوئے تھے شعوری طور پر نبرد آزما ہو گا
خدا کے اس منتخب کردہ فرد کا انتخاب اوپر سے ہو گا تا کہ وہ ان لا یعنی قوتوںکو تہس نہس کر دے جو منطقی استدلال کی بجائے جبلت کی بنیاد پر قائم ہیں اور جو اعلیٰ انسانی اقتدار کی بجائے حیوانی خواہشات پر عمل کرتی ہیں یہ طاقتیں آزادی اور حقوق کا نقاب اوڑھ کر ڈاکہ زنی اور قتل وغارت کر کے کامیاب ہوتی رہی ہیں انھوں نے یہودیوں کے بادشاہ کی سلطنت کے کھنڈروں پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے ہر قسم کے معاشری امن و امان تباہ کر ڈالا ہے لیکن جوں ہی ہماری بادشاہت قائم ہوئی ان کایہ
کھیل ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد یہ ضروری ہو گا کہ یہودیوں کا بادشاہ انھیں اپنے راستے سے بالکل صاف کر دے تا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ اور اس پرانے نظام کا کوئی بچا کچھا روڑ ا تک باقی نہ رہے
اس کے بعد ہی ہمارے لئے یہ ممکن ہو گا کہ ہم دنیا کے عوام سے کہیں کہ’’ خدا کا شکر بجا لائو اور اس کے سامنے زانوئے ادب تہ کرو جس کے ماتھے پر قسام ازل کی لگائی ہوئی بنی نوع انسان کی تقدیر کی مہر ہے خدا خود جس کی رہنمائی کر رہا ہے تاکہ وہ ہمیں مذکورہ طاقتو ں اور برائیوں سے نجات دلوا سکے ‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چوبیسویں دستاویز
حکمراں کی خصوصیات
آل داؤد میں سے ایک فرد کا انتخاب اور اس کی تربیت
اب میں اس طریقہ کار کی طرف آتا ہوں جس کے ذریعہ دنیا کے آخری طبقے تک آل داؤد کی نسل کی تصدیق کی جائے گی۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اہم تصدیق وہ ہے جس کے ذریعہ ہمارے دانا بزرگوں نے آج تک دنیا کے امور چلانے اور بنی نوع انسان کی فکری تربیت اور رہنمائی کرنے کے لئے قدامت پرستی کی قوت قائم رکھی ہے۔
داؤد کی نسل میں سے چند افراد، بادشاہ اور اس کے جانشینوں کو تیار کریں گے۔ ان کا انتخاب محض وراثت کی بناء پر نہیں بلکہ ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہو گا۔ انہیں رموز مملکت کے اہم ترین رازوں اور حکومت کے لائحہ کار کا راز دار بنایا جائے گا۔ لیکن ہمیشہ اس بات کا خیال خصوصیت سے رکھا جائے گا کہ کسی ا ور کے کانوں میں ان رموز کی بھنک نہ پڑ سکے۔ اس طریقہ کار کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات سب کے علم میں رہے کہ حکومت کسی ایسے فرد کے سپرد نہیں کی جا سکتی جسے اس کے رموز و اسرار کا علم نہ ہو۔
صرف ان ہی افراد کو مندرجہ بالا منصوبوں کے عملی پہلوؤں کی تعلیم و تربیت دی جائے گی اور یہ تربیت صدیوں کے تجربات کے تقابلی جائزے، سیاسی اور معاشی محرکات اور معاشری علوم کے مشاہدات پر مبنی ہو گی۔ مختصراً جملہ قوانین کی اصل روح جنہیں بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات کے نظم و ضبط کے لئے قدرت نے بلا اشتباء ثابت کر دیا ہے۔ ایسے ورثا کو تخت نشین نہیں ہونے دیا جائے گا جنہوں نے دورانِ تربیت کسی غیر سنجیدگی، نرمی یا کسی ایسی خصوصیت کا مظاہرہ کیا ہو جو اقتدار کی تباہی کا باعث بن سکتی ہوں، حکومت کرنے کا نا اہل بناتی ہوں یا بذات خود رتبہ شاہی کے لئے خطرناک ہو سکتی ہوں۔
ہمارے دانا بزرگ عنان اقتدار صرف اس کے سپرد کریں گے جو غیر مشروط طور پر اور ظالم ہونے کی حد تک اصولوں پر ثابت قدم ثابت ہو گا۔
بیمار ہونے کی صورت میں، خواہ وہ بیماری قوت ارادی کی کمزور ہو یا کسی اور قسم کی جسمانی معذوری، تو بادشاہ ازروئے قانون عنان اقتدار دوسرے اہل ہاتھوں میں دینے پر مجبور ہو گا۔
بادشاہ، اپنا موجودہ لائحہ کار اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ مستقبل کا لائحہ کار کسی پر ہرگز ظاہر نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ اس کے قریب ترین مشیروں کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکے گا۔ صرف بادشاہ کو خود کو اور ان تین افراد کو جنہوں نے اس کا نام تجویز کیا ہو گا، مستقبل میں کئے جانے والے اقدامات کا علم ہو گا۔
بادشاہ کی ذات کو، جو اپنی غیر متزلزل قوت ارادی اور اعلیٰ انسانی اقدار کی وجہ سے خود اپنا آقا ہو گا، ہر شخص اس کے
پراسرار طرزِ عمل کی وجہ سے اپنی تقدیر سمجھے گا۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ بادشاہ اپنے کسی خاص عمل سے کیا حاصل کرناچاہتا ہے اور اس لئے کوئی بھی کسی نامعلوم مقصد کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔
یہ امر طے شدہ ہے کہ بادشاہ کی ذہنی صلاحیتیں اور استعداد حکومت کے ان منصوبوں کی شایان شان ہوں گی جنہیں اسے تکمیل تک پہنچانا ہے۔ اور اسی وجہ سے اسے اس وقت تک تخت نشین ہونے کاموقع نہیں دیاجائے گا جب تک کہ مذکورہ دانا بزرگ اس کی ذہنی صلاحیتوں اور استعداد کاامتحان نہ لے لیں۔
عوام کوبادشاہ سے متعارف کرانے اور ان کے دلوں میں بادشاہ کی محبت پیدا کرنے کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ وہ عوام سے ربط ضبط رکھے اور ان سے بات چیت کرتا رہے۔ اس طرح یہ دونوں قوتیں یعنی حکمراں کی قوت اور عوام کی قوت جن کے درمیان ہم نے خوف کی دیواریں کھڑی کر کے الگ الگ رکھا ہوا تھا، یکجا ہو جائیں گی۔
گزشتہ دور میں یہ خوف اس لئے پیدا کیا گیا تھا تاکہ یہ دونوں متحد نہ ہوسکیں اور معینہ وقت آنے تک ان دونوں طاقتوں کو علیحدہ علیحدہ اپنے زیر اثر رکھا جا سکے۔
یہودیوں کا بادشاہ اپنے جذبات کے رحم و کرم پر نہیں ہو گا خصوصیت کے ساتھ نفس پرستی سے تو بالکل ہی عاری ہو گا اس کی شخصیت کے کسی پہلو میں حیوانی جبلت اس کے دماغ پر قابو نہیں پا سکے گی۔
دوسری جبلتوں کے مقابلے میں نفسانی خواہشات ذہنی صلاحیتوں بدترین طریقے سے منتشر کر کے ذہن کو پراگندہ کرتی ہیں اور انسانی فکر کو بھٹکا کر اس کے عمل کو حیوانیت کی بدترین سمت میں لے جاتی ہیں۔
ساری دنیا کے عظیم ترین حکمراں کی شکل میں بنی نوع انسان کا واحد سہارا ہے، آل داؤد کو اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی دینی پڑے گی۔
ہماراعظیم ترین حکمراں ایسی مثال قائم کرے گا جس پر ملامت کی انگلی تک نہیں اٹھائی جاسکے گی۔
دستخط
صیہون کے تینتیسویں (۳۳) درجے کے نمائندے
 
Top