محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
سولہویں دستاویز
ذہنی تطہیر
درسگاہوں کو خصی کرنا ۔تعلیم کی آزادی کا خاتمہ
تمام اجتماعی قوتوں کا (سوائے اپنے آپ کے) استعمال کرنے کے لئے ہم سب سے پہلے اجتماعیت کے پہلے مرحلے یعنی تعلیمی درسگاہوں کو خصی کریں گے۔ ان درسگاہوں میں اب ایک نئی جہت میں دوبارہ تعلیم دی جائے گی۔ ان کے عہدہ داروں اور معلموں کو ایک تفصیلی خفیہ لائحہ کار کے ذریعہ ان کے منصب کے لئے تیار کیا جائے گا، جس سے وہ، بلا استشناء سر مو بھی اختلاف نہیں کر سکیں گے۔ ان کا خصوصی احتیاط کے ساتھ تقرر کیا جائے گا اور ایسی جگہ رکھا جائے گا جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کی نظر میں رہیں گے۔
ہم تعلیمی نصاب سے ملک کے قانون کا مضمون خارج کر دیں گی۔ اس کے علاوہ اور تمام مضامین بھی جن کا تعلق امور مملکت سے ہو سکتا ہے نصاب سے خارج کر دئیے جائیں گے۔ یہ مضامین صرف ان چند درجن افراد کو پڑھائیں جائیں گے
جنہیں داخلہ لینے والوں میں سے ان کی غیر معمولی صلاحیت کی بنیاد پر منتخب یا جائے گا۔ یونیورسٹیوں کو ایسے کم حوصلہ لوگ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو آئین کے بارے میں ایسے منصوبے گھڑیں جیسے کوئی طربیہ یا المیہ ڈرامہ لکھ رہے ہیں یا سیاسی حکمت عملی کے بارے میں اپنا دماغ کھپانا شروع کر دیں جس کے بارے میں ان کے باپ بھی سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
امور مملکت کے بارے میں اکثر لوگوں کی گمراہ کن قلیل واقفیت شیخ چلیوں اور بُرے شہریوں کو جنم دیتی ہے غیر یہودیوں کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے کہ انہوں نے ہر ایرے غیرے کو اس قسم کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے کر کیا تیر مارا۔ انہیں تعلیم دینے میں ہمیں وہ تمام اصول مد نظر رکھنے چاہئیں جنہوں نے اتنے شاندار طریقے سے ان کے سار ے نظام کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ لیکن جب ہم اقتدار حاصل کر لیں گے تو نصاب سے ہر قسم کے انتشار پھیلانے والے مضامین نکال دیں گے اور نوجوانوں کو اقتدار کی اطاعت اور حکمراں سے محبت کرنے کی تعلیم دیں گے اور ان کو اچھی طرح ذہن نشین کروا دیں گے کہ حکمراں ہی ان کا واحد سہارا اور امن و امان قائم کرنے کا ضامن ہے۔
قدیم ادبیات عالیہ اور عہد عتیق کی تاریخ جیسے مضامین کی بجائے، جن سے اچھے کے مقابلے میں بُرے سبق زیادہ ملتے ہیں، نصاب میں مستقبل کا لائحہ عمل شامل کیا جائے گا۔ پچھلی صدیوں کے وہ تمام واقعات جو ہمارے لئے نامرغوب ہیں انسانی یاداشت سے محو کر دئیے جائیں گے ا ور صرف وہ واقعات باقی رکھے جائیں کے جن سے غیر یہودی حکومت کی لغزشوں کی عکاسی ہوتی ہو۔
عملی زندگی کا مطالعہ، مروجہ نظام کی پابندی اور فرائض، عوام کے باہمی تعلقات، برائی اور خود رضی کی مثالوں سے اجتناب، جن سے بُرائی کے جراثیم پھیلتے ہیں، تعلیمی نصاب میں سرفہرست ہوں گے۔ ہر شعبہ زندگی کے لئے ایک علیحدہ منصوبہ ترتیب دیا جائے گا اور ہر ایک کو یکساں تعلیم نہیں دی جائے گی۔ اس مسئلہ کا ہر پہلو غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہر شعبہ زندگی کی تربیت ان قیود کی پابند ہو گی جو اس کی مقصدیت اور عملی زندگی کے مطابق ہو گی۔
کبھی کبھی اتفاقیہ طور پر کوئی ذہین آدمی ایک شعبہ زندگی سے دوسرے شعبہ زندگی میں جانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ لیکن اس اتفاقیہ ذہین آدمی کی خاطر غبی الذہن افراد کو اس شعبہ تعلیم میں داخلہ دینے کا اذن عام دینا شدید حماقت ہو گی۔ظاہر ہے کہ وہ اس شعبے میں بالکل نامناسب ہوں گے اور اس طرح انہیں ان لوگوں کی جگہ ہتھیانے کا موقعہ مل جائے گا جو بربنائے پیدائش یا ملازمت اس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں گے اور اس کے اہل ہوں گے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ غیر یہودیوں نے، جنہوں نے اس حماقت کو روا رکھا، اپنے آپ کو کس حال تک پہنچا دیا۔
حکمراں کو عوام کے دل و دماغ پر اپنا سکہ بٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دور حکومت میں پوری قوم کو اسکولوں اور بازاروں میں، اس کے مقاصد، عمل، شرافت اور کریم النفسی پر مبنی اقدامات کے بارے میں آگاہ رکھا جائے۔
ہم تعلیم کے شعبے میں ہر قسم کی آزادی ختم کر دیں گے۔ ہر عمر کے طالب علموں کو یہ حق دیا جائے گا کہ تعلیمی اداروں میں اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح اکٹھے ہو سکیں جس طرح کسی کلب میں جمع ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات میں تعطیلات کے دوران مدرسین ، انسانی تعلقات کے مسائل، مثال کے قوانین، غیر شعوری تعلقات سے پیدا ہونے والی قیود اور آخر میں ان نظریات کے فلسفے کے بارے میں جن کا ابھی دنیا کو علم نہیں ہے، اس طرح پڑھائیں گے گویا وہ ان مضامین پر آزادانہ گفتگو کر رہے ہوں۔
ان نظریات کی نشوونما کر کے ہم ا نہیں اپنے مذہب کی جانب عبوی مرحلے میں، مذہبی عقیدے کی حد تک لے جائیں گے۔ زمانہ حال اور مستقبل میں اپنے لائحہ کار کے مکمل بیان کرنے کے بعد میں آپ کو ان نظریات کے اصول پڑھ کر بتاؤں گا۔
مختصراً صدیوں کے تجربے سے یہ معلوم ہونے کے بعد کے لوگ نظریات پر زندہ رہتے ہیں اور انہی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور یہ کہ لوگ یہ نظریات اس تعلیم سے اخذ کرتے ہیں جو ہر دور میں یکساں کامیابی سے دی جاتی رہی ہے (گو کہ طریقہ تعلیم مختلف رہاہے) ہم اس آزادی فکر کا آخری قطرہ تک اپنے استعمال کے لئے ضبط کر کے پی جائیں گے جس کا رخ مدتوں سے ہم ان مضامین اور نظریات کی طرف موڑے ہوئے تھے جو ہمارے کام آنے والے تھے۔
فکر کو لگام دینے کا طریقہ، معروضی سبق پڑھانے کے نام نہاد طریقے کے ذریعہ پہلے ہی سے کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر یہودیوں کو تفکر سے عاری اجڈ اطاعت شعاروں میں تبدیل کر دیا جائے جو صرف اس بات کی منتظر ہوں کہ چیزیں ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کی جائیں تو وہ ان پر کوئی رائے قائم کریں۔ فرانس میں ہمارے بہترین گماشتے، بورژوا، معروضی سبق پڑھانے کے نئے لائحہ کار کا پہلے ہی مظاہرہ کر چکے ہیں۔
ذہنی تطہیر
درسگاہوں کو خصی کرنا ۔تعلیم کی آزادی کا خاتمہ
تمام اجتماعی قوتوں کا (سوائے اپنے آپ کے) استعمال کرنے کے لئے ہم سب سے پہلے اجتماعیت کے پہلے مرحلے یعنی تعلیمی درسگاہوں کو خصی کریں گے۔ ان درسگاہوں میں اب ایک نئی جہت میں دوبارہ تعلیم دی جائے گی۔ ان کے عہدہ داروں اور معلموں کو ایک تفصیلی خفیہ لائحہ کار کے ذریعہ ان کے منصب کے لئے تیار کیا جائے گا، جس سے وہ، بلا استشناء سر مو بھی اختلاف نہیں کر سکیں گے۔ ان کا خصوصی احتیاط کے ساتھ تقرر کیا جائے گا اور ایسی جگہ رکھا جائے گا جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کی نظر میں رہیں گے۔
ہم تعلیمی نصاب سے ملک کے قانون کا مضمون خارج کر دیں گی۔ اس کے علاوہ اور تمام مضامین بھی جن کا تعلق امور مملکت سے ہو سکتا ہے نصاب سے خارج کر دئیے جائیں گے۔ یہ مضامین صرف ان چند درجن افراد کو پڑھائیں جائیں گے
جنہیں داخلہ لینے والوں میں سے ان کی غیر معمولی صلاحیت کی بنیاد پر منتخب یا جائے گا۔ یونیورسٹیوں کو ایسے کم حوصلہ لوگ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو آئین کے بارے میں ایسے منصوبے گھڑیں جیسے کوئی طربیہ یا المیہ ڈرامہ لکھ رہے ہیں یا سیاسی حکمت عملی کے بارے میں اپنا دماغ کھپانا شروع کر دیں جس کے بارے میں ان کے باپ بھی سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
امور مملکت کے بارے میں اکثر لوگوں کی گمراہ کن قلیل واقفیت شیخ چلیوں اور بُرے شہریوں کو جنم دیتی ہے غیر یہودیوں کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے کہ انہوں نے ہر ایرے غیرے کو اس قسم کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے کر کیا تیر مارا۔ انہیں تعلیم دینے میں ہمیں وہ تمام اصول مد نظر رکھنے چاہئیں جنہوں نے اتنے شاندار طریقے سے ان کے سار ے نظام کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ لیکن جب ہم اقتدار حاصل کر لیں گے تو نصاب سے ہر قسم کے انتشار پھیلانے والے مضامین نکال دیں گے اور نوجوانوں کو اقتدار کی اطاعت اور حکمراں سے محبت کرنے کی تعلیم دیں گے اور ان کو اچھی طرح ذہن نشین کروا دیں گے کہ حکمراں ہی ان کا واحد سہارا اور امن و امان قائم کرنے کا ضامن ہے۔
قدیم ادبیات عالیہ اور عہد عتیق کی تاریخ جیسے مضامین کی بجائے، جن سے اچھے کے مقابلے میں بُرے سبق زیادہ ملتے ہیں، نصاب میں مستقبل کا لائحہ عمل شامل کیا جائے گا۔ پچھلی صدیوں کے وہ تمام واقعات جو ہمارے لئے نامرغوب ہیں انسانی یاداشت سے محو کر دئیے جائیں گے ا ور صرف وہ واقعات باقی رکھے جائیں کے جن سے غیر یہودی حکومت کی لغزشوں کی عکاسی ہوتی ہو۔
عملی زندگی کا مطالعہ، مروجہ نظام کی پابندی اور فرائض، عوام کے باہمی تعلقات، برائی اور خود رضی کی مثالوں سے اجتناب، جن سے بُرائی کے جراثیم پھیلتے ہیں، تعلیمی نصاب میں سرفہرست ہوں گے۔ ہر شعبہ زندگی کے لئے ایک علیحدہ منصوبہ ترتیب دیا جائے گا اور ہر ایک کو یکساں تعلیم نہیں دی جائے گی۔ اس مسئلہ کا ہر پہلو غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہر شعبہ زندگی کی تربیت ان قیود کی پابند ہو گی جو اس کی مقصدیت اور عملی زندگی کے مطابق ہو گی۔
کبھی کبھی اتفاقیہ طور پر کوئی ذہین آدمی ایک شعبہ زندگی سے دوسرے شعبہ زندگی میں جانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ لیکن اس اتفاقیہ ذہین آدمی کی خاطر غبی الذہن افراد کو اس شعبہ تعلیم میں داخلہ دینے کا اذن عام دینا شدید حماقت ہو گی۔ظاہر ہے کہ وہ اس شعبے میں بالکل نامناسب ہوں گے اور اس طرح انہیں ان لوگوں کی جگہ ہتھیانے کا موقعہ مل جائے گا جو بربنائے پیدائش یا ملازمت اس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں گے اور اس کے اہل ہوں گے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ غیر یہودیوں نے، جنہوں نے اس حماقت کو روا رکھا، اپنے آپ کو کس حال تک پہنچا دیا۔
حکمراں کو عوام کے دل و دماغ پر اپنا سکہ بٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دور حکومت میں پوری قوم کو اسکولوں اور بازاروں میں، اس کے مقاصد، عمل، شرافت اور کریم النفسی پر مبنی اقدامات کے بارے میں آگاہ رکھا جائے۔
ہم تعلیم کے شعبے میں ہر قسم کی آزادی ختم کر دیں گے۔ ہر عمر کے طالب علموں کو یہ حق دیا جائے گا کہ تعلیمی اداروں میں اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح اکٹھے ہو سکیں جس طرح کسی کلب میں جمع ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات میں تعطیلات کے دوران مدرسین ، انسانی تعلقات کے مسائل، مثال کے قوانین، غیر شعوری تعلقات سے پیدا ہونے والی قیود اور آخر میں ان نظریات کے فلسفے کے بارے میں جن کا ابھی دنیا کو علم نہیں ہے، اس طرح پڑھائیں گے گویا وہ ان مضامین پر آزادانہ گفتگو کر رہے ہوں۔
ان نظریات کی نشوونما کر کے ہم ا نہیں اپنے مذہب کی جانب عبوی مرحلے میں، مذہبی عقیدے کی حد تک لے جائیں گے۔ زمانہ حال اور مستقبل میں اپنے لائحہ کار کے مکمل بیان کرنے کے بعد میں آپ کو ان نظریات کے اصول پڑھ کر بتاؤں گا۔
مختصراً صدیوں کے تجربے سے یہ معلوم ہونے کے بعد کے لوگ نظریات پر زندہ رہتے ہیں اور انہی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور یہ کہ لوگ یہ نظریات اس تعلیم سے اخذ کرتے ہیں جو ہر دور میں یکساں کامیابی سے دی جاتی رہی ہے (گو کہ طریقہ تعلیم مختلف رہاہے) ہم اس آزادی فکر کا آخری قطرہ تک اپنے استعمال کے لئے ضبط کر کے پی جائیں گے جس کا رخ مدتوں سے ہم ان مضامین اور نظریات کی طرف موڑے ہوئے تھے جو ہمارے کام آنے والے تھے۔
فکر کو لگام دینے کا طریقہ، معروضی سبق پڑھانے کے نام نہاد طریقے کے ذریعہ پہلے ہی سے کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر یہودیوں کو تفکر سے عاری اجڈ اطاعت شعاروں میں تبدیل کر دیا جائے جو صرف اس بات کی منتظر ہوں کہ چیزیں ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کی جائیں تو وہ ان پر کوئی رائے قائم کریں۔ فرانس میں ہمارے بہترین گماشتے، بورژوا، معروضی سبق پڑھانے کے نئے لائحہ کار کا پہلے ہی مظاہرہ کر چکے ہیں۔