• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بین الاقوامی صیہونیت اور فری میسن تنظیم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ملک کی طاقت کے نظام کی اس ڈگمگاتی ہوئی حالت میں ہماری طاقت دوسروں کے مقابلے میں بالکل ناقابلِ تسخیر ہو گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری طاقت اس وقت تک پس پردہ رہتی ہے جب تک کہ یہ اتنی استعداد حاصل نہ کر لے کہ کسی قسم کی عیاری اور سازش ا س کا بال بیکا نہ کر سکے۔
ان وقتی شیطانی حرکتوں کے نتیجے میں جو ہم موجودہ حالات میں کرنے پر مجبور ہیں ایک مستحکم حکومت کی بھلائی پیدا ہو گی جو قومی زندگی کو ایک ایسا مستقل سیاسی نظام مہیا کرے گی جو گزشتہ دور کی آزاد خیالی کی وجہ سے دم توڑ چکا ہو گا۔ کوئی عمل خواہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو اگر اس کا نتیجہ اچھا برآمد ہوتا ہے تو وہ عمل بھی درست قرار دیا جانا چاہئیے۔ اس لئے ہمیں اپنے منصوبوں کی تکمیل میں صرف اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے کہ ضرورت کا تقاضہ کیا ہے؟ وہ عمل بذاتِ خوداچھا ہے یا اخلاقی اعتبار سے بُرا یا بھلا اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئییـ۔ ہمارے پیش نظر ایک جنگی اہمیت کامنصوبہ ہے جس میں ذرا سی غلطی سے صدیوں کی محنت پر پانی پھر جانے کااندیشہ ہے۔
منصوبے کے عملی پہلوؤں کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں عوام کی کمینہ خصلت ان کی سہل انگاری، تلون مزاجی اور ان کی اپنی زندگی کے حالات اور اپنے نیک و بد کو سمجھنے کی صلاحیت کے فقدان سے پورافائدہ اٹھانا ہے۔ ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی ہے کہ عوام کی طاقت کور چشم بے شعور اور منطق سے عاری ہوتی ہے اور ہر وقت کسی اشارے کی منتظر۔ اسے جس سمت میں بھی چاہیں موڑا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی نابینا کسی دوسرے نابینا کی قیادت میں چلتا ہے تو اس کے ساتھ خود بھی خندق میں گر جاتا ہی۔ اسی طرح عوام کی کور چشم اور ناعاقبت اندیش ہجوم میں سے جو افراد اوپر ابھر کر آتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں چونکہ ان میں سیاسی شعود اور ادراک نہیں ہوتا وہ اپنے پیچھے چلنے والی پوری قوم کو لے ڈوبتے ہیں۔
صرف وہی فرد جسے بچپن ہی سے آزاد حکمراں بننے کی تربیت دی گئی ہو ان الفاظ کے معنی سمجھ سکتا ہے جن سے سیاسی ایجد کی تدوین ہوتی ہے۔
اگر کسی قوم کی قیادت شروع ہی سے عوام مین سے ابھرنے والے ان کم ظرف اور چھچھورے افراد کے حوالے کر دی جائے تو ان کی آپس کی مخاصمانہ کشمکش، طاقت اور اقتدار کے لئے رسہ کشی اور اس کے نتیجہ میں برآمد ہونے والی بدنظمی اس قوم کو جلد ہی تباہی کے کنارے پر پہنچا دیتی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کاانبوہ کثر اطمینان اور سکون کے ساتھ سوچ سمجھ کر اور بغیر چھوٹی چھوٹی رقابتیں درمیان میں لائے ہوئے درست فیصلے کر سکے؟ کیا وہ کسی بیرونی دشمن سے اپنا دفاع کر سکتا ہی؟ کیا اس کااندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس منصوبے کا کیا حشر ہو گا جسے مختلف دماغ اپنے اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ایسا منصوبہ یقینا ناقابلِ فہم اور ناقابل عمل ہو گا۔
یہ صرف ایک مطلق العنان حکمراں کے لئے ہی ممکن ہے کہ وہ منصوبوں کو جامع اور واضح انداز میں ان کی جزئیات کے ساتھ اس طرح رو بعمل لائے کہ سیاسی نظام کے کل پرزوں میں اختیارات کی صحیح تقسیم ہو سکے۔ اس سے یہ لا بدی نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی ملک کے لئے بہترین نظامِ حکومت صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں طاقت کا ارتکاز ایک ذمہ دار فراد واحد کے ہاتھ میں ہو۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مطلق العنان حکمرانی بغیر تہذیب وجود میں نہیں آ سکتی۔ تہذیب عوام الناس نیہں بناتے۔ اس کی تشکیل ان کا رہنما کرتا ہے۔ خواہ وہ رہنما کوئی بھی ہو۔ عوام وحشی ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی اس خلصت کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے۔ جوں ہی انہیں آزادی ملتی ہے، اس کے بعد فوراً ہی طوائف الملوکی شروع ہو جاتی ہے جو بذات خود انتہائی درجے کی بربریت ہے۔ آپ نشے میں بدمست ان جانورروں کودیکھتے ہیں ان کا دماغ نشے کی وجہ سے مختل ہو جاتا ہے۔ ان کی آزادی نے انہیں بسیار نوشی کی اجازت دی ہے۔ ہمارا طریقہ یہ نہیں ہے اور ہمیں اس راہ پر نہیں چلنا چاہئیے۔ غیر یہودی افراد شراب کے نشے میں اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں ان کے نوجوان قدامت پرستی، فسق و فجور اور بدکرداری کی وجہ سے غبی اور کند ذہن ہو چکے ہیں ہم نے اپنے مخصوص گماشتوں کے ذریعہ انہیں اس راہ پر لگایا ہے یہ کام مدرسین کے ذریعہ، اپنے کاسہ لیسوں کے ذریعہ، امراء کے گھروں میں کام کرنے والی خادماؤں کے ذریعہ، مذہبی رہنما کے ذریعہ، اور اپنی لڑکیوں کو عیاشی کی ان اداؤں میں داخل کر کے جہاں غیر یہودیوں کی عام طور پر آمد و رفت ہے کروایا گیا ہے۔ مؤخر الذکر گروہ میں، وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہیں سبھا کی پریاں کہا جاتا ہے ۔ یہ خواتین بدکاری اور عیاشی میں دوسروں کی رضاکارانہ تقلید کرتی ہیں۔
اس عمل پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے ہمارے پاس دو چیزیں ہیں۔ طاقت اور عوام فریبی۔ سیاسی امور میں فتح صرف طاقت کی ہوتی ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ یہ طاقت اس صلاحیت میں مضمر ہو جو کسی سیاست کار کے لئے ضروری ہوتی ہیـ جو حکومت اپنا تخت و تاج کسی دوسری طاقت کے کارندوں کے قدموں میں نہیں رکھنا چاہتی اسے تشدد کو اصول کے طور پر اپنانا چاہئیے اور عیاری اور مکاری اور عوام فریبی اس حکومت کا قانون ہونی چاہئیں ۔ ہمارا نیک مقصد صرف اور صرف ان ہی طاغوتی ذرائع کو استعمال کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنا نصب العین حاصل کرنے کے لئے حسب ضرورت رشوت، دھوکہ دہی اور دغا بازی سے قطعی گریز نہیں کرنا چاہئیے۔
سیاست کے میدان میں دوسروں کو اپنا محکوم بنانے اور اپنی مطلق العنانی قائم کرنے کے لئے دوسروں کی املاک پر بلا تردد قبضہ کر لینا بالکل جائز ہے۔
ہماری ریاست کو جو پر امن فتح کی راہ پر گامزن ہے، یہ حق حاصل ہے کہ جنگ کی ہولناکیوں کی بجائے، سزائے موت کے وہ طریقے استعمال کرے جن سے غیر ضروری تشہیر کے بغیر زیادہ خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں۔ اس طریقہ پر عمل کرنے سے عوام پر ایسی دہشت طاری ہو گی کہ وہ بے چوں و چرا اطاعت کریں گے۔
انصاف کے مطابق فیصلے کرنا اور ان پر بے رحمانہ سختی سے عمل درآمد کرنا، ریاست کی طاقت کا جزو اعظم ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ فائدہ مند ہے بلکہ فرض کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں تشدد اور عوام فریبی کے لائحہ کار پر عمل کرنا ضروری ہے۔ بدلہ چکانے کا قانون بعینہ اتنا ہی درست ہے جتنے وہ ذرائع جو بدلہ چکانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ لہٰذا تشدد کے اصول کے مدنظر، ذرائع سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم ضرور کامیاب ہوں گے اور تمام حکومتوں کو اپنی سپر گورنمنٹ کے تابع کر لیں گے۔ انہیں صرف یہ اندازہ کروانے کی ضرورت ہے کہ حکم عدولی کی صورت میں ہم کتنے بے رحم اور سفاک ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہماری حکم عدولی کی جرأت نہیں کر سکیں گے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عرصہ ہوا، پرانے زمانے میں ہم نے سب سے پہلے عوام الناس کے سامنے آزادی، مساوات اور اخوت کے نعرے پیش کئے تھے۔ بعد کے زمانوں میں اطراف و جوانب کے احمق طوطے، ان کی رٹ لگاتے ہوئے اس جال میں پھنستے چلے گئے اور اس کے ساتھ ہی دنیا سے خوشحالی بھی رخصت ہو گئی۔ یہ خوشحالی تھی فرد کی اصل آزادی جو عوام کے دباؤ سے محفوظ تھی۔
غیر یہودی مفکرین ان مجرد الفاظ کے معنی کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے۔ انہوں نے ان الفاظ کے معانی کے تضاد اور باہمی تعلق پر غور نہیں کیا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ مساوات اور آزادی نظام فطرت کے خلاف ہیں۔ قدرت نے انسانوں کو یکساں ذہن نہیں دیا، یکساں خصوصیات نہیں دیں، یکساں صلاحیتیں نہیں دیں۔ یہ اصول اتنا ہی ناقابل تبدیل ہے جتنا خود یہ اصول کہ قانون قدرت سے انحراف ناممکن ہے۔انہوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ عوام کور چشم ہوتے ہیں اور اس لئے جو لوگ ان عوام میں سے منتخب ہو کر حکومت کرنے کے لئے آئیں گے وہ بھی رموز مملکت سے اتنے ہی نابلد ہوں گے جتنے کہ وہ عوام جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہو گا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ رموز مملکت کا ایک ماہر خواہ وہ کتنا ہی بیوقوف کیوں نہ ہو پھر بھی حکومت کر سکتا ہے اس کے برخلاف کوئی شخص خواہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اس میں امور مملکت سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ ان تمام امور پر غیر یہود کی توجہ گئی ہی نہیں۔
اس کے باوجود اس تمام عرصے میں خاندانی حکومتیں ان ہی اصولوں پر چلتی رہیں۔ باپ نے بیٹے کو رموزِ مملکت اور حکمرانی کے سربستہ رازوں کا علم اس طرح منتقل کیا کہ سوائے افرد خاندان کے ان رموز سے کوئی دوسرا واقف نہ ہو سکا اور نہ کسی نے اپنے محکوموں کو اس کے بارے میں کچھ بتایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رموز مملکت کے علم کااس طرح منتقل ہونے کا سلسلہ کمزور پڑتا گیا اور رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔ اس کے ختم ہونے سے ہمارے مقاصد کے حصول میں بڑی تقویت ملی۔
ہمارے بھولے اور ناسمجھ گماشتوں کی وجہ سے جو ہم نے غیر یہودی معاشرے میں پیدا کر دئیے تھے، آزادی ، مساوات اور اخوت کے الفاظ کے جھنڈے تلے آنے لگے اور رفتہ رفتہ یہ الفاظ غیر یہود کی خوشحالی کو گھن کی طرح چاٹ گئے۔ امن وا ستحکام رخصت ہوا اور غیر یہودی سلطنتوں کی بنیادیں ہل گئیں۔ جیسا کہ بعد کی صفحات سے معلوم ہو گا کہ اس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کافی مدد کی اور منجملہ دوسرے فائدوں کے ہمیں ایک شاہ کلید حاصل ہو گئی۔ یعنی مراغات یافتہ طبقے کا خاتمہ۔ دوسرے الفاظ میں غیر یہود کی اشرافیہ جو ہمارے مقابلے میں عوام اور حکومتوں کا واحد دفع تھی اس کا وجود مٹ گیا۔ اس قدرتی نسبی اشرافیہ کے کھنڈروں پر ہم نے اپنی تعلیم یافتہ اشرافیہ قائم کی جس کی سرخیل دولتمندوں کی اشرافیہ ہے۔
اس اشرافیہ میں شمولیت کی جو شرط ہم نے رکھی ہے وہ ہے دولت۔ جس کے حصول کے لئے وہ ہمارے محتاج ہیں۔ اس اشرافیہ میں شمولیت کی دوسری شرط اسرار و رموز کا علم ہے جس کی قوت محرکہ صرف ہمارے دانا بزرگ ہی مہیا کر سکتے ہیں۔
اتنی آسانی سے ہمارے کامیاب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم جن افراد کو اپنی مطلب برادری کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ان سے تعلقات استوار کرنے میں ان کے ذہن کے حساس ترین تاروں کو چھیڑتے ہیں۔ مالدار ہونے کی خواہش، عاشق مزاجی، لا متناہی مادی خواہشات، ان میں سے ہر ایک انسانی کمزوری انفرادی طور پر ان کی اختراعی قوتیں مفلوج کر دینے کے لئے کافی ہیں۔ انسان اپنی قوت ارادی اس کے حوالے کر دیتا ہے جو اسے یہ چیزیں مہیا کرتا ہے۔
لفظ آزادی کے تجرد نے ہمیں ساری دنیا کے عوام کو یہ باور کرانے کے قابل بنا دیا ہے کہ اصل میں ملک کے حقیقی مالک وہ خودہیں اور ان کی حکومت کی حیثیت ملک کے عوام کے دراوغہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اور اس داروغہ کو اپنے پرانے دستانے کی طرح جب جی چاہے اتار کر پھینکا جا سکتا ہے۔
اپنے نمائندوں کی تبدیلی کے امکان ہی نے انہیں ہمارا دست نگر بنا دیا ہے اور اس طرح ہمیں ان کا تقرر کرنے کی صلاحیت مہیا کر دی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوسری دستاویز
معاشی جنگیں
دستوری حکومتیں۔ ڈارونیت ۔ مارکسیت۔ نطشائیت ۔ پریس سے متاثرہ ذہنیت
ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ جنگوں کے نتیجہ میں علاقے فتح نہ ہونے دئیے جائیں اور اس طرح جنگ کا رخ معاشی میدان کی طرف موڑ دیا جائے۔ متحارب ملکوں کو جو امداد فراہم کی جائے گی وہ ان ملکوں سے ہماری طاقت کا اعتراف کرائے بغیر نہیں رہے گی اور یہ صورت حال دونوں متحارب ملکوں کو ہمارے بین الاقوامی گماشتوں کے رحم و کرم پر لا ڈالے گی۔ ان بین الاقوامی گماشتوں کے پاس لاکھوں دیکھنے والی آنکھیں اور بے شمار وسائل ہیں۔ اور اسی طرح ہم ان قوموں پر بالکل اسی طرح حکومت کرں گے جیسے کسی ملک کا دیوانی قانون اس ملک میں ہونے والے مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے۔
ان کے جھگڑے چکانے کے لئے جو ناظم مقرر کئے جائیں گے وہ عوام میں سے لئے جائیں گے مگر ان کے تقرر میں اس بات کا خیال خاص طور پر رکھا جائے گا کہ وہ ہماری حکم عدولی نہ کر سکیں۔ چونکہ یہ لوگ رموز مملکت سے ناواقف ہوں گے اس لئے ان کی حیثیت رموز مملکت سے آشنا لوگوں کے ہاتھوں میں محض مہروں کی سی ہو کی۔ ان کے مشیر وہ ماہرین ہوں گے جنہیں بچپن سے ہی دنیا پر حکومت کرنے کی تربیت دی گئی ہو گی۔
جیسا کہ آپ کو علم ہے، ہمارے یہ ماہرین وہ جملہ معلومات اکٹھی کرتے رہتے ہیں جن کی ہمارے منصوبوں کے لئے ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ تاریخ سے سبق لیتے ہیں اور ہر ہر لمحہ گزرنے والے عالمی واقعات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ غیر یہودی تاریخ کا معروضی اور بے لاگ انداز میں عملی تجزیہ کر کے اس سے نتائج اخذ نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ ہونے والے واقعات کے منطقی نتائج کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے صرف نظریاتی لکیریں پیٹتے ہیں۔ ہمیں بہرحال انہیں کوئی اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں اپنے حال میں مگن رہنے دیں تاوقتیکہ وہ فیصلہ کن لمحہ آن پہنچے۔ انہیں اپنی نت نئی تفریحات اور منفعت بخش امیدوں کے سہارے یا گزرے ہوئے لمحات کی خوشگوار یادوں کے سہارے جینے کے لئے چھوڑ دیں۔ ہم نے انہیں ترغیبات دے دے کر یہ باور کرا دیا ہے کہ علمی دور کے تقاضوں کے مطابق زندگی میں یہی چیزیں اہم ترین ہیں۔اسی مقصد کے پیش نظر ہم اخباروں اور رسالوں کے ذریعے متواتر ان نظریات کا پرچار کر کے ان پر اندھا اعتقاد پیدا کر رہے ہیں۔ غیر یہودی دانشور ان نظریات سے لیس ہو کر بغیر کسی منطقی تصدیق کے ان نظریات کو روبعمل لانے کی کوشش کریں گے اور ہمارے ماہر گماشتے اپنی کمال عیاری سے ان کی فکر کارخ اس طرف موڑ دیں گے جو ہم نے ان کے لئے پہلے سے مقرر کی ہوئی ہے۔ آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ خالی خولی الفاظ ہیں۔ غور کیجئے کہ ڈارون کے نظرئیے کو کس نے کامیابی سے ہمکنار کرایا۔ مارکسیت اور نطشے کے فلسفے کا کس نے لوہا منوایا۔ ہم یہودیوں پر بہر طور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان نظریات سے غیر یہودی دماغ کس قدر منتشر
اور پراگندہ کئے گئے۔
ہمارے لئے دوسری قوموں کے خیالات کا تجزیہ کرنا اور ان کے خصائل اور کردار کا مطالعہ کرنا اس لئے ضروری ہے تاکہ سیاسی اور انتظامی امور میں کوتاہی کا معمولی سا بھی احتمال بھی باقی نہ رہے۔ ہمارے نظام کی کامیابی اور ان عوامل کی کامیابی جو اس نظام کو چلاتے ہیں (جن لوگوں سے ہماراواسطہ پڑنے والا ہے ان کی افتاد طبع اور مزاج کے مطابق طریقہ کار میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے)۔ اس وقت تک یقینی نہیں بنائی جاسکتی جب تک ماضی سے لے کر حال کی روشنی میں اس کے استعمال کا عملی خاکہ تیار نہ کر لیا جائے۔
موجودہ حکومتوں کے پاس ایک اتنی بڑی طاقت ہے جو عوام کے خیالات کو کسی بھی رخ پر موڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے ا ور یہ طاقت ہے پریس کی طاقت۔ پریس کا کام یہ ہے کہ وہ ناگزیر ضروریات کی نشاندہی کرتا ہے، لوگوں کی شکایات منظر عام پر لاتا ہے، بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے اور عدم اطمینان پیدا کرتا ہے۔ یہ پریس ہی ہے جس میں آزادی تقریر کو اپنا تناسخ نظر آتا ہے۔ لیکن غیر یہودی حکومتیں اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں جانتیں تھیں اور اس لئے یہ طاقت ہمارے ہاتھ لگ گئی۔پریس کے ذریعہ، خود کو پس پردہ رکھتے ہوئے ہم نے عوام پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ بھلا ہو پریس کا کہ آج ہمارے پاس دولت ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ دولت ہم نے خون اور آنسوؤں کے کتنے سمندروں سے گزر کر حاصل کی ہے۔ اس نے ہمیں بے اندازہ فائدہ پہنچایا ہے۔
اس کے لئے ہمیں بے شمار افراد کی قربانی دینی پڑی ہے لیکن ہمارے ایک ایک فرد کی قربانی خدا کی نظر میںغیر یہود کے ایک ایک ہزار افراد کی قربانی کے برابر ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تیسری دستاویز
تسخیر کا طریقہ کار
روایتی سانپ۔ عوام کے حقوق۔ غیر یہودیوںکی نسل کشی۔ دنیا کا مطلق العنان فرمانروا۔ عالمی معاشی بحران۔ وہ ہمیں ہاتھ نہیں لگا سکتے فری میسن کے خفیہ گماشتے۔
آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہماری منزل چند قدم کے فاصلے پر رہ گئی ہے۔ ہمیں اس طویل راہ پر جس پر روایتی سانپ اب تک رینگتا رہا ہے، دائرہ مکمل کرنے کی لئے صرف تھوڑی دور اور چلنا ہے۔ جب یہ دائرہ مکمل ہو جائے گا تو یوروپ کے تمام ممالک اس کے حلقے میں اس طرح پھنس جائیں گے گویا کسی طاقتور شکنجے میں جکڑے ہوئے ہوں۔
اس دور کی دستوری میزانوںکا توازن عنقریب بگڑنے والا ہے۔ ہم نے انہیں اس طرح ترتیب دیا ہے کہ ان میزانوں کے پلڑے ہم وزن رہ ہی نہیں سکتے۔ اور بغیر رکے متواتر ہلکے اور بھاری ہوتے رہیں گے۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وہ محور جس پر یہ ٹکے ہوئے ہیں گھس پٹ کرناکارہ نہیں ہو جاتا۔ غیر یہودی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اسے کافی مستحکم بنایا ہے اور یہ امید کر رہے ہیں کہ ان پلڑوں میں توازن قائم ہو جائے گا۔ لیکن ان کے محور، یعنی تاج و تخت کے مالک بادشاہ اپنے حواریوں میںگھرے ہوئے ہیں جو اپنی لا محدود اور غیر ذمہ دار طاقت کے گھمنڈ میں حماقتوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ انہیں یہ طاقت اس خوف اور ہیبت کی بناء بر حاصل ہوئی ہے جو شاہی محلوں سے منسوب کرا دی گئی ہے۔ چونکہ عوام سے ان کا تعلق منقطع ہو چکا ہے لہٰذا بادشاہ اپنے عوام سے ا فہام و تفہیم نہیں کر سکتے اور جب تک ایسا نہ ہو وہ ان جاہ پسندوں کا
مقابلہ نہیں کر سکتے جن کے گرد وہ گھرے ہوئے ہیں۔ ہم نے بیدار مغز حکمرانوں اور ان کے عوام کی کور چشم طاقت کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل کر دی ہے کہ دونوں اپنا اصل مصرف کھو بیٹھے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ اندھا اور اس کی چھڑی۔ اگر دونوں الگ الگ ہوں تو ایک دوسرے کے لئے بالکل بے مصرف ہوتے ہیں۔
جاہ پرستوں کو طاقت کے غلط استعمال پر اکسانے کے لئے ہم نے حزب اختلاف کی تمام قوتوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کر کے ان کی آزاد خیالی کے رجحانات کو آزدی کے حصول کی راہ پر لگا دیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہم نے ہر قسم کی مہم جوئی کو ہوا دی، ہر پارٹی کو ہتھیاروں سے لیس کیا اور اقتدار کے حصول کو ہر خواہش کی منزل مقصود بنا دیا۔ ملکوں کو ہم نے ایسے اکھاڑوں میںتبدیل کر دیا ہے جہاں بھانت بھانت کے پراگندہ مسائل ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ اگر یہ صورت حال تھوڑی دیر اور قائم رہی تو بدنظمی اور معاشی بدحالی عالمگیر ہو جائے گی۔
مستقل بکواس کرنے والوں نے مقننہ اور انتظامی اداروں کو تقریر مقابلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ڈھیٹ قسم کے صحابی اور بے ایمان اشتہار باز، انتظامیہ کے افسران کو روزانہ اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ طاقت کا غلط استعمال (جس کی مستقل نشاندہی ہو رہی ہے) تمام اداروں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ اور ہر جیز بے لگام عوام کی غیض و غضب کا شکار ہو کر ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔
غربت کی وجہ سے عوام سخت محنت کی زنجیروں میں اب اس سے زیادہ جکڑے ہوئے ہیں جتنا کہ غلامی کے دور میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ اس غلامی سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں کسی نہ کس ذریعہ سے ان مسائل پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے لیکن احتیاج سے وہ کبھی بھی چھٹکارا نہیں پا سکتے۔
ہم نے اپنے دستور میں عوام کو ایسے حقوق دینے کا وعدہ کیا ہے جو محض فرضی ہیں۔ حقیقت سے ان کا دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ تمام نام نہاد ’’عوام کے حقوق‘‘ صرف ایک خیالی تصور کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں انہیں کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔
اگر ادنیٰ طبقہ ہمارے دستور سے، اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ حصال نہ کر سکے ہ اسے ہمارے نامزد کردہ افراد کو ووٹ دینے کے عوض جنہیں ہم اقتدار میں لانا چاہتے ہیں اور جو ہمارے گماشتوں کے تنخواہ دار ہیں، ہمارے خوان نعمت سے بچے کھچے ٹکڑے مل جائیں تو اس ادنیٰ طبقے کے مزدور کے لئے جس کی کمر محنت کر کر کے دوہری ہو چکی ہو اور وہ خود اپنی زندگی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو اس سے کیا فرق پڑے گا کہ چند تقریر بازوں کو بولنے کاحق مل جائے یا اخبارچیوں کو اچھا مواد چھاپنے کے ساتھ ساتھ کچھ اوٹ پٹانگ باتیں لکھنے کاحق مل جائے۔
غریب آدمی کے لئے جمہوری حقوق ایک بدذائقہ ستم ظریفی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ایک طرف تو وہ سخت محنت کرنے پرمجبور ہے اور اسے اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ اپنے ان جمہوری حقوق سے فائدہ اٹھا سکے دوسری طرف اس کے ساتھ اس سے ہڑتال کر کے یا مالک کام بند کر کے اسے اس مستقل روزگار سے جو اس کا واحد ذریعہ آمدنی تھا محروم کر دیتے ہیں۔
عوام نے ہماری قیادت میں، اشرفیہ کو، جو خود اپنی غرض کے لئے مزدوروںکا واحد دفاع اور سرپرست تھی کھود کے گاڑ دیا۔ اشرافیہ کا اپنا مفاد مزدوروں کی خوشحالی میں تھا۔ اشرافیہ کے خاتمے کے بعد، عوام بے رحم، زر پرست بدمعاشوں کے چنگل میں بھنس گئے جنہوں نے عوام کے کندھوں پر ظالم اور رحم جوا رکھ دیا ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اب اس موقعہ پر ہم مزدر کے استحصال کے خلاف اس کے نجات دہندہ کے روپ میںظاہر ہوتے ہیں اور یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ ہماری متحارب قوتوں یعنی اشتراکیوں، نراجیوں اوراشتمالیوںکے ساتھ مل جائے جن کی مدد ہم ایک نام نہاد برادری (تمام بنی نوع انسان کا اتحاد) کے اصول کے مطابق اپنی سماجی فری میسن تحریک کے توسط سے کرتے رہے ہیں۔
اشرافیہ، جو قانونی طور پر مزدوروں سے مزدوری کروانے کی حقدار تھی وہ یہ چاہتی تھی کہ مزدوروں کو پیٹ بھر کے روٹی ملیتاکہ وہ صحتمند اور توانا رہیں۔ ہمارا مفاد اس کے بالکل برعکس ہے۔ غیر یہود کی تعداد میں کمی اور ان کی نسل کشی سے ہمارا مفاد وابستہ ہے۔ ہم اپنی قوت، دائمی غذائی قلت اور مزدوں کی جسمانی کمزوری سے حاصل کرتے ہیں۔ کمزور ہونے کی وجہس ے مزدور ہماری مرضی کا غلام بنتا ہے۔ اس کے اپنے ذی اقتدار افراد میں وہ قوت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ مزدوروں کو ہماری مرضی کے خلاف صف آراء کر سکیں۔ بھوک، سرمایہ دار کو، مزدور پر حکومت کرنے کااس سے زیادہ حق دیتی ہے جتنا شاہی اقتدار نے قانون کے ذریعہ اشرافیہ کو دیا تھا۔ ہم احتیاج، نفرت اور حسد کے ذریعہ جوا س عمل سے وجود میں آتے ہیں، عوام کو اکسائیں گے اور ان کے ہاتھوں سے اپنے راستے میںآنے والی تمام رکاوٹوں کوملیامیٹ کر دیں گے۔ جب ہماری مطلق العنان حکمران عالم کی تاجپوشی کاوقت آئے گا تویہی لوگ ہوں گے جوہمارے راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو ملیامیٹ کر دیں گے۔ جب ہمارے مطلق العنان حکمران عالم کی تاجپوشی کا وقت آئے گا تو یہی لوگ ہوں گے جو ہمارے راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوںکوتہس نہس کریں گے۔
غیر یہود تفکر کی صلاحیت سے محروم ہیں اور یہ اس وقت تک نہیں سوچتے جب تک ہمارے ماہرین اپنی کوئی تجویز پیش کر کے ا ن کے ذہنوں میںتحریک پیدا نہ کر دیں۔ اس لئے وہ ہماری طرح اس بات کی فوری ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے کہ جب ہماری بادشاہت قائم ہو گی توسب سے پہلے ہم کیا کام کریں گے۔ وہ کام یہ ہے اور یہ بڑی اہمیت ک حامل ہے کہ قومی تعلیمی اداروں میں ایک سادہ بنیادی علم پڑھانا شروع کیا جائے گا وہ علم جو حق پر مبنی ہے۔ وہ علم جو سارے علوم کا منبع ہے۔ اور وہ ہے حیاتِ انسانی کی ساخت کاعلم۔ معاشری وجود جو تقسیم کار کا مقتضی ہے اور جس کے نتیجے میں انسانوں میںطبقاتی تقسیم وجود میں آتی ہے۔
ہر شخص کے لئے یہ جاننا ضروری ہی کہ حلقہ عمل کے معروضی اختلافات کی وجہ سے انسانوں میں مساوات ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ فرد جو اپنے کسی فعل سے ایک پورے طبقے کے حقوق کا سودا کر سکتا ہے، قانون کی نظر میں اس شخص کی برابر ذمہ دار نہیں ہو سکتا جس کے کسی فعل سے صرف اس کی ذات پر حرف آتا ہو۔ معاشرے کی ساخت کاصحیح ادراک (جس کے اسرار میں ہم غیر یہودیوں کو شامل نہیں کرتے) اس بات کا مقتضی ہے کہ لوگوں کا منصب اور دائرہ کار صرف ایک مخصوص حلقہ افراد میں ہی محدود رکھا جائے تاکہ عوام، ایسا علم حاصل کر کے جو ان سے لئے جانے والے کام سے تطابق نہیں رکھتا، دوسروں کے لئے مصیبت کا ذریعہ نہ بن جائیںـ۔
اس علم کے تفصیلی مطالعہ کے بعد لوگ رضاکارانہ طور پر اقتدار کی اطاعت کریں گے اور وہ اپنی وہ حیثیت قبول کرنے پر مجبور ہوں گے جس پر انہیں فائز کیا جائے گا۔
ادراک کی موجودہ کیفیت میں اور نہج کی وجہ سے جو ہم نے اس کے نشوونما کو دی ہے، لوگ بے سوچے سمجھے ہر لکھی ہوئی چیز پر ایمان لا کر اسے سینے سے لگاتے ہیں۔ عوام کو طبقات یا حالات کی فہم نہیں۔ لہٰذا اوّل تو اس ترغیب کی وجہ سے جو ہم نے
انہیں غلط راہ پر ڈالنے کے لئے دی ہے دوسرے خود اپنی لا علمی کی وجہ سے، ان تمام حالات کے خلاف جو عوام کی دسترس سے باہر ہوں گے ان میں ایک اندھی نفرت جنم لے گی۔
یہ نفرت ان معاشی بحرانوں کی وجہ سے اور بڑھے گی جو اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار بند کروا کے صنعتی اداروں میں تالے ڈلوائیں گے۔
ہم اپنے خفیہ زیر زمین ذرائع اور وہ دولت استعمال کر کے جس کا ارتکاز ہمارے ہاتھوں میں ہے، زبردست عالمگیر معاشی بحران پیدا کریںگے اور ساتھ ہی یورپ کے ملکوں کی سڑکوں کو مزدوروں کی فوج سے بھر دیں گے۔
مزدوروں کے یہ ہجوم ان لوگوں کا خون خوشی سے بہانے کے لئے بے تاب ہوں گے جن سے وہ اپنی سادگی اور لا علمی کی وجہ سے بچپن سے ہی حسد کرتے رہے ہوں گے۔ اب انہیں یہ موقع مل جائے گا کہ وہ ان کی دولت او راملاک کو لوٹیں۔ چونکہ حملے کے وقت کا علم صرف ہمیں ہی ہو گا اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اپنی املاک کے تحفظ کا پیشگی بندوبست کر چکے ہوں گے لہٰذا ہماری املاک کو وہ ہاتھ نہیں لگا سکیں گے۔
ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ترقی کے ساتھ ساتھ غیر یہود منطق کی بالادستی تسلیم کرتے چلے جائیں گے۔ یہی درحقیقت ہماری مطلق العنانی ہو گی۔ چونکہ غیریہود خود ان پیدا ہونے والی شورشوں کو سختی سے کچل دینے کے قابل ہو چکے ہوں گے، تمام اداروں سے آزاد خیالی کا خناس یکسر نکال کر پھینک دیا جائے گا۔
عوام جب یہ دیکھیں گے کہ آزادی کے نام پرہر قسم کی مراعات حاصل کی جا سکتی ہیں تووہ بزعم خود یہ سمجھنے لگیں کے کہ انہوں نے اپنی حاکمیت خود اپنے زور بازو سے حاصل کی ہے لیکن اسی کوتاہ بینی اور کور چشمی کی وجہ سے انہیں قدم قدم پر ٹھوکریں کھانی پڑیں گی اور پھر انہیں کسی راہبر کی تلاش ہو گی۔ اب پچھلی صورتِ حال پر واپسی کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہوں گے اور اس طرح کلی اختیارات ہمارے قدموں تلے آجائیں گے۔ آپ کو فرانسیسی انقلاب یاد ہے۔ اسے ہم نے انقلابِ عظیم کا نام دیا تھا اس انقلاب کی تیاری کے رازوں سے صرف ہم ہی واقف تھے اور سب کچھ ہمارا ہی کیا دھرا تھا۔
اس وقت سے لیکر آج تک ہم عوام کو مسلسل یکے بعد دیگرے محرومیوں اور ناامیدیوں سے دوچار کر رہے ہیں تاآنکہ آخر میں وہ ہم سے بھی بددل ہو کر اس مطلق العنان بادشاہ کی اطاعت قبول کر لیں جو صیہونی نسل سے ہو گا اور جسے ہم دنیا کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ موجودہ دور میں ہم ایک بی الاقوامی طاقت کی حیثیت سے ناقابل تسخیر ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی ملک ہمارے اوپر حملہ آور ہو تو دوسرے ممالک ہمارے مدد کرنے کو دوڑ پڑتے ہیں۔
غیر یہودی قوموں کا یہ انتہائی سلہ پن ہے کہ وہ طاقت کے سامنے تو اپنی ناک رگڑتے ہیں لیکن کمزوروں کے ساتھ بے رحمی سے پیش آتے ہیں۔ کسی غلطی کو تو معاف نہیں کرتے لیکن جرائم کی پرورش کرتے ہیں۔ آزاد معاشری نظام کے تضادات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے لیکن ڈھٹائی سے ظلم کرنے والے آمروں کے تشدد کا شکار ہونے والے شہیدوں پر صبر کرتے ہیں۔ ان کی یہی خصوصیات آزادی کی تحریکوں کی مدد کرتی ہیں۔ موجودہ دور کے درجہ اوّل کے آمروں کو غیر یہود صبر سے برداشت کرتے ہیں اور ان کی ایسی غلط کاریوں سے صرف نظر کر لیتے ہیں جن کے لئے پہلے وہ بیس بادشاہوں کے سر قلم کر سکتے تھے۔
اس غیر معمولی رویہ کی کیا توجیح پیش کی جا سکتی ہے آخر ان حالات میں اب عوام کے کان پر جوں کیوں نہیں رینگتی حالانکہ بادی النظر میں حالات ویسے ہی ہیں۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان آمروں نے اپنے کارندوں کے ذریعہ عوام میں یہ مشہور کرا دیا ہے کہ اختیارات کے استعمال میں تجاوز کے ذریعہ ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے حکومتوں سے نفرت پیدا کروائی جا رہی ہے اور وہ مقصد ہے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی خوشحالی۔ اس طرح ایک عالمی برادری تشکیل دے کر اور انہیں متحد کر کے عوام کو مساوی حقوق دلوائے جا سکیں گے۔ یہ آمر اصل بات نہیں بتاتے کہ ایسا اتحاد صرف ہماری خود مختار حکمرانی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
اس طرح لوگ صاف گوئی پر ملامت کرتے ہیں اور مجرم کو بری کر دیتے ہیں اور یوں مجرموں کو اور شہ ملتی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ بھلا ہو ان حالات کا، لوگ ہر طرح کے استحکام کو غارت کر کے ہر قدم پر بدنظمی اور انتشار پیدا کر رہے ہیں۔
’’آزادی‘‘ کا لفظ لوگوں کو ہر طاقت سے نبرد آزمائی پر اکساتا ہے۔ ہر قسم کے اقتدار کی نفی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا اور قانونِ قدرت سے بھی بغاوت کراتا ہے۔ اس لئے جب ہماری حکومت قائم ہو کی توہم اس لفظ کو زندگی کی لغت سے یکسر خارج کر دیں گے۔ ہمارے ہاں یہ لفظ ایک ظالم اور بے ضمیر طاقت کے مترداف ہو گا۔ ایسی طاقت جو انسانوں کو خون آشام درندوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔
یہ درست ہے کہ درندے جب شکار کا خون پی کر اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں تو ان پر نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے اور اس وقت انہیں زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر انہیں خون پینے سے باز رکھا جائے تو وہ سونے کی بجائے شکار کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چوتھی دستاویز
مادیت مذہب کی جگہ لیتی ہے
عوامی حکومت کے مراحل۔ غیر یہود کی فری میسن ایک نقاب۔ صنعت میں بین الاقوامی قیاس اندازی (SPECULTION) زرپرستی کا مسلک۔
ہر عوامی حکومت محتلف مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلا مرحلہ شروع کے دنوں میں کور چشم عوام کے جنونی غیض و غضب پر مشتمل ہوتا ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر، کبھی دائیں کبھی بائیں، یعنی اس کی کوئی سمت متعین نہیں ہوتی۔ دوسرا مرحلہ شورش پسند بازاری قسم کے تقریر بازوں کا ہوتا ہے جس سے لا قانونیت اور نرا جیت جنم لیتی ہے اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر ایک ظالم اور جابر مطلق العنانی وجود میں آتی ہے۔ یہ مطلق العنانی قانونی اوراعلانیہ نہیں ہوتی اس لئے ذمہ داری سے کام کرتی ہے۔ ہوتی تو مطلق العنانی ہی ہے لیکن ظاہر بظاہر نظر نہیں آتی اور خفیہ ہوتی ہے۔
کسی خفیہ تنظیم کی مطلق العنانی، جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے پس پردہ کام کرنے کی وجہ سے زیادہ بے ضمیر ہوتی ہے۔ یہ تنظیم خود پس پردہ رہ کر اپنے گماشتوں کے ذریعہ کام چلاتی ہے جنہیں حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے چہرے بدلنے سے تنظیم کو نقصان کی بجائے الٹا فائدہ ہوتا ہے۔ مستقل تبدیلیاں کرنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو منظر سے ہٹا کر وسائل میںاضافہ کرنے کے لئے دوسروں کو ان کی خدمات کے معاوضہ کے طور پر لے آیا جاتا ہے۔
ایسی قوت کو جو نظر ہی نہ آتی ہو، کون اور کس طرح شکست دے سکتا ہے۔ ہماری قوت بعینہ یہی ہے۔ فری میسن کے غیر یہودی افراد جنہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ کس لئے کام کر رہے ہیں،اپنی لا علمی کی وجہ سے، اندھوں کی طرح ہماری اور ہمارے مقاصد کی پردہ پوشی کرتے ہیں ہماری تنظیم کے عملی منصوبے، یہاں تک کہ تنظیم کے مستقر کا محل وقوع تک ان لوگوں کے لئے ایک
نامعلوم سربستہ معمہ ہی رہتا ہے۔
آزادی ہمیشہ مضرت رساں نہیں ہوتی۔ یہ بے ضرر بھی ہو سکتی ہے اور اسے ملکی معیشت میں، عوام کی خوشحالی کو نقصان پہنچائے بغیر ایک مقام دیا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس کی بنیادیں خدا پر ایمان اور ایسی انسانی اخوت پر ہوں جس کا تعلق مساوات سے نہ ہو۔ مساوات، تخلیق کے قانون کی، جس میں ایک پر دوسرے کی اطاعت واجب کی گئی ہے، ضد ہے۔
اگر یہ عقیدہ ہو توکلیسا کی زیر کفالت عوام پر حکومت کی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں عوام اطمینان اور فروتنی کے ساتھ اپنے روحانی پیشوا کے زیر سایہ رہ کر زمین پر خدا کی اطاعت اختیار کر سکتے ہیں۔اسی لئے ہمارے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم تمام مذاہب کو شبہ اور تذبذب کا شکار کر دیں اورغیر یہود کے دماغ سے خدا اور روح کا تصور نوچ کر پھینک دیں اور اس کے بدلے ان کے دماغوں میں حساب کی جمع تفریق اور مادی ضروریات کی خواہش بھر دیں۔
غیر یہود کو سوچنے سمجھنے کا وقت نہ دینے کے لئے ان کے ذہنوں کا رخ صنعت ا ور تجارت کی طرف موڑ دینا چاہئیے۔ اس طرح ساری قومیں مالی منفعت کی دوڑ میں مصروف ہو جائیں گی اور اس تگ و دو میں لگ کر وہ اپنے مشترکہ دشمن کو نظر انداز کر دیں گی۔
لیکن اب اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ آزادی غیر یہودی معاشرے کو پارہ پارہ کر کے بالکل تباہ کر دے ہمیں صنعت کے شعبے کو قیاس اندازی کی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ اس کے نتیجے میں انہوںنے جو سرمایہ آراضی سے نکال کر صنعتی شعبے میں لگایا ہو گا وہ ان کے ہاتھوںسے نکل کر قیاس اندازی کے شعبے میں منتقل ہو جائے گا یعنی دوسرے الفاظ میں ہمارے ہاتھ میں آجائے گا۔
مسابقت کی شدید جدو جہد اور معاشی زندگی کے جھٹکے ایسے گروہوں کو وجود میں لے آتے ہیں بلکہ وجود میں لا چکے ہیں جو انسانی جذبات سے عاری، بے رحم اور بے ضمیر ہیںـ یہ لوگ کسی بہتر سیاسی نظام اور مذہب بیزاری کے جذبات کو ہوا دیں گے۔ ذاتی مفادات کا حصول، یعنی حصولِ زر ان کا واحد نصب العین ہو گااور ان مادی لذتوں کی خاطر جو دولت سے مہیا ہوتی ہیں، یہ لوگ زر پرستی کے مسلک کی بنیاد ہلا ڈالیں گے۔ اس کے بعد وہ وقت آئے گا کہ جب کسی نیکی کی خاطر نہیں، دولت کے حصول کے لئے بھی نہیں، بلکہ صرف اس نفرت کی بنیاد پر جو انہیں مراعات یافتہ سے ہو گی، غیر یہود کے ادنیٰ طبقے کے لوگ، ہماری قوت کے حریفوں، یعنی غیر یہود کے باشعور افراد کے خلاف ہمارا حکم مانیں گے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پانچویں دستاویز
مطلق ا لعنانیت اور جدید ترقی
حکومت کی مرکزیت ۔ ملکوں کے درمیان خلیجیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے لفاظی کا استعمال۔ سپر گورنمنٹ کا انتظامی ڈھانچہ ۔
ایسے معاشرے میں جس میں بدعنوانی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہوں، کس قسم کا نظامِ حکومت ہوناچاہئیے۔ ایسا معاشرہ جہاں دولت، عیاری، پرفریب چالوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ کمائی جاتی ہو، جہاں بے راہ روی کی حکمرانی ہو، جہاں اخلاقی اصولوں کی بجائے سخت تعزیری قوانین کا سہارا لینا پڑے جہاں مذہبی عقائد اور حب الوطنی، وسیع المشربی کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ چکے ہوں تو ایسے لوگوں کیلئے جابر مطلق العنانی کے علاوہ، جس کی تفصیل میں بعد میں بتاؤں گا اور کون سا طرزِ حکومت
کارگر ہو سکتاہے۔
اس معاشرے کی تمام منتشر قوتوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ہم ایسی حکومت قائم کریں گے جس کی تمام تر قوت کا ارتکاز مرکز میں ہو گا۔
مرکز اپنے نئے وضع کردہ قوانین کی مدد سے عوام کی سیاسی زندگی کو مشینی انداز میں چلائے گ۔ نئے قوانین، غیر یہودی حکمرانوں کی دی ہوئی تمام مراعات اور آزادیوں کو ایک ایک کر کے سلب کر لیںگے۔ اس حکومت کا طرہ امتیاز وہ شاندار اور زبردست مطلق العنانی ہو کی جو ہماری مخالفت کرنے والے غیر یہودیوں کو، خواہ ان کی مخالفت قول سے ہو یا عمل سے، کسی بھی وقتاور کسی بھی جگہ، حرف غلط کی طرح مٹا سکے گی۔
کہا جا سکتا ہی کہ اس قسم کی مطلق العنانی، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، موجودہ ترقی یافیتہ دور سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ لیکن میں ثابت کروں گا کہ یہ عین ممکن ہے۔
ایک زمانے میں جب لوگ بادشاہ کو خدا کا مظہر سمجھتے تھے اور اسے ظل سبحانی کہتے تھے، وہ چوں چرا کئے بغیر اس کی اطاعت کرتے تھے لیکن اس دن سے جب سے ہم نے ان کے ذہنوں میں ان کے حقوق کا تصور ڈالا ہے اس دن سے انہوں نے بادشاہوں کو بھی عام فانی انسانوں جیسا سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ عوام کی نظر میں، بادشاہوں کے سروں پر سے خدا کا سایہ اٹھ چکا ہے اور جب ہم نے ان کے دلوںسے خدا پر ایمان بھی چھین لیا تو بادشاہت کی قوت سڑک پر بکھر کر عوامی ملکیت بن گئی اور اس طرح ہمارے قابو میں آگئی۔
اس کے علاوہ فطانت سے تراشے ہوئے شاندار الفاظ پر مشتمل بھانت بھانت کے نظریات، طرزِ زندگی کے قواعد اور اس قبیل کی دوسری چالیں ایجاد کر کی، جن سے غیر یہودی قطعی نابلد ہیں، عوام اور افراد کی رہنمائی کرنے کا قن صرف ہمارے انتظامی ماہرین کا ہی حصہ ہے۔
تجربہ، معاہدہ اور جزئیات بینی کے میدان میں ہمارا کوئی حریف نہیں ہے۔ خصوصیت سے سیاسی طریف واردات کے منصوبے ہم سے بہتر اور کوئی نہیں بنا سکتا۔ اس میدان میں یسوعی ہماری ہم پلہ ہو سکتے تھے لیکن ہم اپنی تدبیر سے، عام نا سمجھ عوام میں ان کی ساکھ بالکل ختم کر چکے ہیں اور یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ وہ علانیہ ریاکار ہیں۔ دوسری طرف خود ہم نے اپنی تنظیم کو بالکل پس پردہ رکھا ہوا ہے۔
دنیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا حکمراں اعلیٰ کون ہے؟ اس کا تعلق رومن کیتھولک فرقے سے ہے یا وہ صیہونی النسل ہے۔ لیکن ہم جو خدا کی متنخب کردہ قوم ہیں اس بات سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔
اگر ساری دنیا کے غیر یہود متحد ہو جائیں تو شاید کچھ عرصے کے لئے ہمارے مقابلے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس خطرے سے ہم اس لئے محفوظ ہیں کہ خود ان میں آپس میں شدید اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے گزشتہ بیس صدیوں میں غیر یہود کے ذاتی اور قومی اختلافات کو اتنی ہوا دی ہے اور ان میں عقائد کے اختلافات اور نسلی نفرتوں کو اتنا بھڑکا دیا ہے کہ اب انہیں ختم کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔
یہی وجہ ہی کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو ہمارے خلاف کسی دوسرے ملک کی مدد پر آمادہ کیا جا سکے۔ یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے خلاف کیا ہوا کوئی معاہدہ خود ان کے مفاد کے لئے نقصان دِہ ہو گا۔
اس فرقے کی بنیاد (IGNATIUS LOYLA) نے ۱۵۳۳؁ء میں ڈالی تھی۔ صیہونیوں نے اپنی چابکدستی سے اس فرقے کے کردار کو مسخ کر کے عوام میں اس طرح متعرف کرایا کہ اب یہ لفظ ہی ریاکاری کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم بے اندزہ طاقت کے مالک ہیں ۔ ہماری طاقت سے صرف نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور جب تک اس میں ہمارا خفیہ ہاتھ نہ ہو کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے کوئی ادنیٰ سا معاہدہ بھی نہیں کر سکتا۔
"PER ME REGES REGNSNT" میرے ہی توسط سے بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔
انبیاء کے قول کے موجب خدا نے ہمیں دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے خود منتخب کیا ہے۔ خدا نی ہمیں اسی لئے غیر معمولی ذہانت بھی بخشی ہے تاکہ ہم اس منصب کے اہل ہو سکیں جس کے لئے ہمارا انتخاب کیا گیا ہے۔ اب اگر یہ دوسرے بھی اتنے ہی ذہین ہو جائیں تو وہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو ہم چونکہ پہلے ہی سے مستحکم ہو چکے ہیں، یہ نئے لوگ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مقابلہ بڑا شدید ہو گا۔ یہ ایسی جنگ ہو گی جو چشم فلک نے آج تک نہ دیکھی ہو گی۔
وہ وقت کہ جب دشمن کے ذہین اور ذی فہم افراد ہماری جگہ لے سکتے تھے، گزر چکا ہے۔ اب انہیں بہت دیر ہو چکی۔ تمام ملکوں کے نظام کے پہئیے ایک انجن کی طاقت سے گھومتے ہیں اور وہ انجن ہمارے قبضے میں ہے۔ وہ انجن جو ملکوں کی انتظامی مشین چلاتا ہے وہ ہے سرمایہ۔ سیاسی معاشیات کا علم جو ہمارے دانا بزرگوںنے ایجاد کیا تھا، مدت سے سرمایہ کو شاہی عظمتوں سے ہمکنار کر رہا ہے۔
سرمایہ، اگر بغیر قیود کی تعاون کرے تو اسے صنعتوں اور تجارت کے میدان میں اجارہ داری قائم کرنے کے لئے آزاد ہونا چاہئیے۔ ایک نادیدہ ہاتھ پہلے سے ہی دنیا کے گوشے گوشے میںاس پر عمل کروا رہا ہے۔ یہ آزادی ان لوگوں کو جو صنعتی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ایک سیاسی قوت بنا دے گی اور اس قوت سے عوام کو کچلنے میں مدد ملے گی۔
فی زمانہ عوام کو جنگ میںجھونکنے کی بجائے انہیں نہتا کرنا زیادہ سود مند ہے۔ آگ بجھانے کی بجائے ان جذبات کو جو بھڑک کر شعلوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں اپنے مقاصد کے لئے استمال کرنا زیادہ اہم ہے۔ اور دوسروں کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے یہ زیادہ فائدہ مند ہے کہ ان کو اچھی طرح سمجھ کر ان کی اس طرح تشریح اور وضاحت کی جائے کہ وہ ہمارے مقاصد کے کام آ سکیں۔
ہمارے ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں کو تنقید سے پراگند کیا جائے اور قبل اس کے کہ مزاہمت کے جذبے کو ابھارنے والے عوامل ان پر اثر انداز ہونا شروع ہو جائیں ان کا رح موڑ دیا جائے اور دماغی قوتوں کو بھٹکا کر لفاظی کی مصنوعی جنگ میں الجھا دیا جائے۔
ہر زمانے میں دنیاکے عوام اور افراد کے لئے عمل کے مقابلے میں اقوال زیادہ مقبول ہوتے رہے ہیں۔ عوم کو صرف تماشہ چاہئیے اور اس تماشے سے وہ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ انہیں تھوڑا سا رک کر یہ سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ قول کتنا قابل عمل ہے۔ لہٰذا ہم ایسے نمائشی ادارے قائم کریں گے جن کا کام یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ترقی کے لئے ان کا وجود کتنا ضروری اور فائدہ مند ہے۔
ہم تمام سیاسی جماعتوں او رمکتبہ ہائے فکر کا آزاد خیال سیاسی کردار اختیار کریں گے اور تقریر بازوں کوآزادخیالی کی زبان دے کر انہیں اتنا بلوائیں گے کہ سننے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور انہیں تقریر کے فن سے ہی نفرت ہو جائے۔ رائے عامہ کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اسے پراگندہ رکھنا ضروری ہے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ ہم بھانت بھانت کے اختلاف رائے کے مواقع فراہم کریں اور ان اختلافات کو اتنے عرصے تک شہ دیتے رہیں کہ غیر یہودیوں کے دماغ مختلف نظریات کی بھول بھلیوں میں گم ہو جئایں اور ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ بہترین بات یہی ہے کہ رموز مملکت کے بارے میں(جنہیں عوام کے لئے سمجھنا ضروری نہیں ہے) کوئی رائے زنی ہی نہ کی جائے۔ وہ یہ سمجھ لیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ان معاملات کو سمجھنا انہی لوگوں کا کام ہے جنہیں عوام کی قیادت کرنی ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہ ہونا چاہئییـ۔ یہ پہلا راز ہے۔
ہماری حکومت کی کامیابی کا دوسرا راز مندرجہ ذیل ہے۔
قومی کمزوریاں، عادات، جذبات اور معاشرتی زندگی کے حالات بیان کرنے میں اس قدر غلو سے کام لینا چاہئیے کہ عام آدمی کو یہ پتہ ہی نہ چل سکے کہ وہ اس افراتفری میں کہاں کھڑا ہے۔ اور اس طرح لوگ دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھیں۔ یہ افراتفری ہماری طرح ایک اور طریقہ سے بھی مدد کرے گی اور یہ اس طرح کہ مختلف جماعتوں میں پھوٹ پڑ جائے گی اور ان تمام اجتماعی قوتوں کے جو ہماری اطاعت قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، قدم اکھاڑ دے گی اور ہر اس فرد کی حوصلہ شکنی کرے گی جو اپنی ذاتی اختراعی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ہمارے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بن سکتاہو۔
ہمارے لئے انفرادی اختراع سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں ہے اور اگر اس اختراع کے پیچھے فطانت اور ذہانت بھی ہو تو ایسی اختراع ان دس لاکھ آدمیوں سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے جن میں ہم نے نفرت کی پرورش کی ہے۔
ہمیں غیر یہودیوں کے تعلیمی شعبے کو اس طرح منظم کرنا چاہئیے کہ جب بھی وہ کسی ایسے مسئلے سے دوچار ہوں جس میںاختراع کی ضرورت ہو تو وہ اپنے آپ کو بیکس و معذور سمجھ کر خود ہی ہار مان لیں۔
وہ تناؤ جو آزادی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے، جب کسی دوسرے کی آزادی سے ٹکراتا ہے تو اپنی توانائی کھو دیتا ہے اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بھیانک نفسیاتی صدمے، ناامیدیاں اور ناکامیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ان تمام باتوں سے ہمارامقصد یہ ہے کہ ہم غیر یہودیوں کو تھکا کر اتنا مضمحل کر دیں کہ وہ آخر کار ہمیں ا س قسم کی بین الاقوامی طاقت پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں جو ہمیںاس قابل ک ردے کہ بغیر کوئی تشدد کئے ہم دنیا کے ملکوں کی ساری طاقت رفتہ رفتہ چوس کر ایک سپر گورنمنٹ بنا سکیں۔ موجودہ حکمرانوں کی بجائے ہم ان پر ایک ایسا عفریت مسلط کر دیں گے جوا س سپر گورنمنٹ کی انتظامیہ کہلائے گی۔ اس کے پنجے ہر سمت گڑے ہوئے ہوں گے اور اس کی تنظیم اتنی وسیع و عریض ہو گی کہ ہمارے لئے ساری دنیا کی قوموں کی تسخیر میں ناکامی، نا ممکن ہو گی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چھٹی دستاویز
جانشینی کا طریقہ
دولت کے ا نبار۔ غیر یہودی اشرافیہ کا خاتمہ۔ قیمتوں میں اضافے کا لامتناہی سلسلہ
عنقریب ہم بڑی بڑی اجارہ داریاں قائم کرنی شروع کریں گے جو دولت کی کانیں ہوں گی اور ان پر غیر یہودی سرمایہ کا اتنا انحصار ہو گا کہ سیاسی تباہی کے اگلے دن ملکوں کے قرضوں کے ساتھ ساتھ ان کا سرمایہ بھی ڈوب جائے گا۔
آپ حضرات جو یہاں موجود ہیں معاشیات کے ماہرین ہیں، ذرا ان اجتماع وقوعات کی اہمیت کااندازہ لگائیے۔
ہمیں ہر ممکنہ طریقہ استعمال کر کے اپنی سپر گورنمنٹ کی اہمیت کی نشوونما کرنی ہے اور اسے ان کے لئے جو خوشی سے رضاکارانہ طور پر ہماری اطاعت قبول کریں أیک سرپرست، مربی اور محسن کے روپ میں پیش کرناچاہئیے۔
غیر یہودی اشرافیہ کا بحیثیت ایک سیاسی قوت کے، جنازہ نکل چکا ہے۔ اب ہمیں اس کی چنداں پرواہ نہیں کرنی چاہئیے لیکن زمیندار چونکہ خود کفیل ہیں اس لئے وہ ہمیں اب بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے، یہ انتہائی ضروری ہے کہ انہیں ان کی زمینوں سے محروم کر دیا جائے۔ یہ مقصد آراضی کی ملکیت پر قرضوں کا بوجھ ڈال کر بہ آسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قرضے آراضی کی ملیکت پر بند باندھیں گے اور ان کے ہاتھ میں کاسئہ گدائی دیکر ہماری غیر مشروط اطاعت کی حالت میں رکھیں گے۔
غیر یہودی اشراف کی یہ خاندانی روایت ہے کہ وہ تھوڑی سی پر قناعت نہیں کرتے اس لئے وہ جلد ہی اپنی جائیدادوں کو فضول خرچی میں اڑا دیں گے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تجارت اور صنعت کی خصوصیت کے ساتھ حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے لیکن پہلے اور سب سے پہلے قیاس اندازی (SPECULTION) کی سر پرستی ضروری ہے جو صنعتی شعبے کے لئے پاسنگ کا کام کرتی ہے۔ اگر قیاس اندازی کا شعبہ نہیں ہو گا تو افراد کے پاس سرمایہ بڑھتا چلا جائے کا جس سے وہ آراضی کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلا کر دوبارہ زرعی شعبے کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ محنت ا ور سرمایہ دونوں آراضی سے کھنچ کر صنعت میں آجائیں اور اس کے نتیجے میں قیاس اندازی کے ذریعہ دنیا کی ساری دولت سمٹ کرہمارے قدموں تلے آجائے اوریوںسارے غیر یہودیوں کو ادنیٰ طبقے میں دھکیلا جا سکے۔ اس کے بعد سارے غیر یہود، اگر کسی وجہ سے نہیں تو صرف اپنے زندہ رہنے کا حق لینے کے واسطے ہمارے سامنے سربسجود ہوں گے۔
غیر یہود کی صنعتیں مکمل طور پر تباہ کرنے کے لئے ہم قیاس اندازی کی مدد سے انہیں عیش و عشرت میں مبتلا کر دیں گے جس کا ہم نے انہیں پہلے ہی عادی بنا دیا ہے۔ وہ عیش و عشرت جس کی حریصانہ احتیاج ہر چیز کو ہڑپ کئے جا رہی ہے۔ ہم مزدوروں کی اجرت بڑھائیں گے لیکن یہ اضافہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ چونکہ ساتھ ہی ہم بنیادی ضرورت کی اشاء کی قیمتوں میں اس بہانے اضافہ کر دیں گے کہ زرعی پیداوار اور مویشیوں کی افزائش میں کمی واقع ہو گئی ہے مزدوروں کو لاقانونیت کا عادی بنا کر اور انہیں شراب خوری کا خوگر بنا کرہم چابکدستی سے ذرائع پیداوار کی جڑیں مزید کھوکھلی کر دیں گیـ۔ اس کے ساتھ ہی ہم وہ اقدامات کریں گے کہ جن سے غیر یہود کے تعلیم یافتہ طبقے کا مکمل استیصال ہو جائے۔ مبادا غیر یہود کو مناسب وقت آنے سے پہلے ہی ہماری سازش کا علم ہو جائے، ہم اس وقت تک اپنے چہروں پر محنت کشوں کی خدمت کے مبینہ پر خلوص جذبے اور سیاسی معاشیات کے عظیم اصولوں کی نقاب اوڑھے رہیں گے جن کا ہمارے معاشی نظریات شدو مد سے پرچار رکر رہے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ساتویں دستاویز
عالمگیر جنگیں
ہتھیاروں کی دوڑ کی ہمت افزائی۔ غیر یہودی مخالفت کا سد باب کرنے کے لئے عالمی جنگ۔ امریکہ، چین اور جاپان کی عسکری قوت ۔
مذکورہ بالا منصوبوں کی تکمیل کے لئے ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور پولیس کی نفری میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ملکوں میں ہمارے علاوہ صرف ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ہوں، ہمارے لئے کام کرنے والے چند کروڑ پتی ہوں، پولیس ہو اور فوج ہو۔
پورے یورپ میں اور یورپ کی وساطت سے دوسرے براعظموں میں بھی ہمیں ہنگامہ، فساد، اختلافات اور باہمی عداوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ اس سے ہمیں دو فوائد حاصل ہوں گے۔ اوّل تو اس طرح ہم تمام ملکوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے۔ چونکہ یہ بات انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے پاس ایسے وسائل ہیں کہ جب چاہیں افراتفری پھیلا سکتے ہیں اور جب چاہیں ہنگامے دُور کر کے امن و امان قائم کر سکتے ہیں۔ یہ تمام ممالک ہمارے اندر جبر و استبداد کی بے بدل قوت دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ریشہ دوانیوں کے ذریعہ ہم نے مختلف ملکوں کے گرد، سیاسی اور معاشی معاہدوں اور قرضوں کے بوجھ کا جو تانا بانا بنا ہواہے اسے گتھیوں میں الجھا سکیں گے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں گفت و شنید کے دوران اور معاہدوں میں انتہائی ہوشیاری اور باریک بینی سے کام لینا پڑے گا۔ اس کے برخلاف ان معاہدوں کے متن میں استعمال ہونے والی ’’دفتری زبان‘‘ کے سلسلے میں ہمیں بالکل متضاد حکمت عملی استعمال کرنی پڑے گی۔ اس پر مکمل دیانتداری اور معاہدوں پر پابندی کا نقاب ہو گا ۔ اس طرح غیر یہودی عوام اور حکومتیں، جنہیں ہم نے اپنے پیش کردہ منصوبوں کا صرف ظاہررخ دیکھنا سکھایا ہے، ہمیں اپنا محسن اور بنی نوع انسان کا نجات دہندہ سمجھتے رہیں گے۔ اگر معاہدہ کرنے والے ملک کا کوئی پڑوسی ملک ان معاہدوں میں ہماری مخالفت کی جرأت کرے تو ہمیں اس قابل ہونا چاہئیے کہ بزورِ شمشیر اس مخالفت کی سزا دلوا سکیں اور اگر تمام پڑوسی ممالک ہمارے خلاف متحد ہو جائیں تو ہمیں عالمگیر جنگ چھیڑ کر اس کی مزاحمت کرنی چاہئیے۔
سیاسی میدان میں کامیابی کااہم ترین نکتہ اس مہم کی رازدار ہے۔ فن سفارت میں قول و عمل میں کبھی بھی مطابقت نہیں ہونی چاہئیے۔ ہمیں غیر یہودی حکومتوں کے لئے ایسے حالات پیدا کر دینے چاہئیں کہ وہ صرف وہی اقدامات کرنے پر مجبور ہوں جو ہمارے ہمہ گیر منصوبوں کو ہماری منشاء کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہمای مدد کر سکیں۔ یہ کام رائے عامہ کے ذریعہ حکومت پر دباؤ ڈال کر کیا جائے گا اور اس سلسلے میں اس طاقتور ہتھیار، یعنی پریس کو استعمال میں لایاجائے گا جو صرف چند غیر اہم مستثنیات کو چھوڑ کر پورا کا پورا ہمارے قبضے میں ہے۔
مختصراً ۔ یورپ کی غیر یہودی حکومتوں کو اپنی حدود میں رکھنے کے لئے ہم تخریب کاری کے ذریعہ ایک ملک میں، بلکہ تمام ملکوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور اگر یہ سب ہمارے خلاف متحد ہو گئے تو ہم امریکہ ، چین اور جاپان کی عسکری قوت استعمال کریں گے۔
 
Top