الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
انا للہ و انا الیہ رجعون ۔
بس بہت ہوگیا ، میری نظر میں آپ مزید فورم پر لکھنے کے اہل نہیں ہیں ۔ اور شاید آپ کی اپنی خواہش بھی یہ ہے ۔
غیر محدود مدت کے لیے آپ کو فورم پر ’’ بین ‘‘ کیا جاتا ہے ۔
ایک بچہ کی تصویر ھے کہاں سے آئی کوئی خبر نہیں اور ناشائستہ زبان کا استعمال، کنٹرول کرنا چاہئے۔
پچھلے کچھ دنوں سے یورپ میں بےشمار کشتیاں انسانی سمگلنگ میں ڈوب رہی ہیں جس پر سمندر سے لاشیں ہی برآمد ہو رہی ہیں، ہو سکتا ھے یہ بچہ بھی اسی کا حصہ ہو تھوڑی دیر میں چیک کر کے تفصیل بتاتے ہیں۔ رفیوجی نیوز پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اس لئے انہیں یہاں لایا نہیں گیا۔
Photo shows one tiny victim of Europe's refugee crisis
Updated 1055 GMT (1755 HKT) September 3, 2015
CNN
Young refugee's body washes ashore in turkey
Authorities stand near the child's lifeless body. This photo has been shared widely around the worid, often with a Turkish hashtag that mean
"Flotsam of Humanity"
A officer in Bodrum, Turkey, carries the body of a young toddler who washed ashore on Wednesday, September
The child was one of 12 refugee who drowned during a failed attempt to sail to the Greek island of Kos.
یہ تصویر تو آپ نے دیکھ ہی لی لیکن اس کی درد بھری کہانی پڑھ کر آپ کی آنکھیں بھی نم ہو جائیں گے
03 ستمبر 2015 استنبول (مانیٹرنگ ڈیسک) کوس کے جرمن جزیرے پر پہنچنے کی کوشش میں کم ازکم 12 شامی مہاجرین کی ہلاکت کے بعد کھلے سمندرمیں ڈوبنے والے معصوم بچے کی ترکی کے ایک معروفی سیاحتی مقام پر بہہ کرآنیوالے جسدخاکی کی تصویر نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا ۔
عرب میڈیا کے مطابق تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ساحلی گاﺅں بوڈرم کے نزدیک گہری لال ٹی شرٹ میں ملبوس معصوم بچہ منہ کے بل ساحل پر پڑا تھا اور بعدازاں پولیس اہلکاروں نے بچے کی لاش کو اپنی تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کر دیا۔
ترک میڈیا کے مطابق بچے کی شناخت تین سالہ ایلان کردی کے نام سے ہوئی ہے جس کا پانچ سالہ بھائی بھی اسی بدقسمت کشتی میں سوار تھا۔ ایلان کا تعلق ترک سرحد کے قریب واقع شام کے شمالی قصبے کوبانی سے تھا جہاں داعش اور کردوں کی مقامی فورسز کے درمیان گزشتہ ماہ سے جھڑپیں جاری ہیں ۔
اس تصویرکے سامنے آنے کے بعد کیساتھ ٹوئٹر پر ’ انسانیت کنارے پر دھل گئی‘ ہیش ٹیگ استعمال ہونا شروع ہو گئے اور اس واقعے کے رپورٹ ہونے کے پہلے چند گھنٹوں میں ہی یہ تصویر ہزاروں مرتبہ ری ٹوئیٹ کی گئی ۔
ترک نیوی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ دونوں کشتیوں میں مجموعی طورپر 23 افراد سوار تھے جو الگ الگ کشتیوں میں روانہ ہوئے تھے ، پانچ بچوں اور ایک خاتون سمیت چھ ہلاکتوں ، سات کو بچا لیے جانے اور دو کے ساحل پر پہنچنے کی تصدیق ہو گئی ہے تاہم مزید دوافراد آخری اطلاعات تک لاپتہ ہیں ۔
آرمی کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی دنوں میں ترکی اور جرمن جزیرے کے درمیان سینکڑوں مہاجرین کی جانیں بچا چکے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے جنگ زدہ شام سے ہجرت پر مجبور ہیں۔
شام کے 3 سال ننھے غیر قانونی تارک وطن کی تصویر نے دنیا کو دہلا دیا
لندن: ترکی کے ساحل پر شام سے تعلق رکھنے والے ننھے تارک وطن کی لاش کی تصویر نے دنیا بھر کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
شام سے تعلق رکھنے والے عبداللہ کُردی کے دل میں بھی اپنے ہزاروں ہم وطنوں کی طرح گھر والوں کے لئے داعش کے خوف سے آزاد فضا کی خواہش تھی، اس کے لئے اس نے بھی اپنی آبائی زمین چھوڑ کر پہلا پڑاؤ ترکی میں ڈالا، جہاں اس نے کینیڈا میں پناہ کے حصول کے لئے درخواست دی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
کینیڈین سفارت خانے کی جانب سے درخواست مسترد کئے جانے کے بعد اس نے ترکی کے راستے یورپ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ جس خاندان کے لئے وہ تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کو تیار تھا، وہی اس سفر کے دوران جان کی بازی ہار جائیں گے۔
عبداللہ کردی نے اپنی بیوی ریحان، 5 سالہ بیٹے گالپ اور 3 سالہ ایلان کے ہمراہ ترکی سے یورپ جانے کے لئے کشتی کا سفر شروع کیا۔ ابھی ان کی کشتی یونان کے جزیرے کوس کے قریب ہی پہنچی تھی کہ الٹ گئی، حادثے میں عبداللہ تو بچ گیا لیکن اس کی بیوی ریحان، 5 سالہ بیٹا گالپ اور 3 سالہ ایلان جاں بحق ہو گئے۔
ریحان اور گالپ کی لاشیں تو یونانی حکام نے نکال لیں لیکن ایلان کی لاش بہتے ہوئے ترکی کے ساحل بودرم پر جا پہنچی، ساحل سمندر پر موجود اس کی لاش کی تصویر نے شام اور عراق میں ناصرف مسلم دنیا بلکہ عالمی طاقتوں کے مکروہ کھیل کو بھی واضح کر دیا ہے۔
دنیا بھر میں 3 سالہ ایلان کی تصویر نے لوگوں کے دل دہلا دیئے ہیں اور اس سے عراق، شام اور لیبیا سے یورپی ممالک کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کے مسئلے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ اس تنازعے کا ذمہ دار کون ہے اور اس سے کس طرح نمٹا جائے۔ تمام ترمصائب سہنے کے بعد اب عبداللہ کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو اس کی آبائی سرزمین میں سپرد خاک کرے۔
السلام علیکم
اس میں ایک قصور والدین کا ہے جو اس معصوم کو ساتھ لے کر گئے کیا ترکی میں رہ کر اچھی زندگی گزار نہیں سکتے تھے یورپ جانے کی کیا ضرور ت ہے۔ دوسرہ اس علائقہ کے حکمرانوں کا جنہوں نے اپنی انا کی خاطر معصوم لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا اور سب سے بڑا قصور داعش کا ہے جس کے ڈر سے بہت سے لوگ بھاگنے پر مجبور ہوئے ہین۔۔۔لیکن یہ بد نصیب فیملی شاید بشر اسد کے علائقہ کے تھی مین کہیں نیوز میں پڑھا تھا کل۔۔۔۔۔ اللہ تعالے مسلمانوں پر رحم فرمائے
السلام علیکم
اس میں ایک قصور والدین کا ہے جو اس معصوم کو ساتھ لے کر گئے کیا ترکی میں رہ کر اچھی زندگی گزار نہیں سکتے تھے یورپ جانے کی کیا ضرور ت ہے۔ دوسرہ اس علائقہ کے حکمرانوں کا جنہوں نے اپنی انا کی خاطر معصوم لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا اور سب سے بڑا قصور داعش کا ہے جس کے ڈر سے بہت سے لوگ بھاگنے پر مجبور ہوئے ہین ۔۔۔ لیکن یہ بد نصیب فیملی شاید بشر اسد کے علائقہ کے تھی مین کہیں نیوز میں پڑھا تھا کل۔۔۔۔۔ اللہ تعالے مسلمانوں پر رحم فرمائے
آپ نے بہت اچھی باتیں لکھی ہیں میں اسی پر ایک الگ سے دھاگہ بنانا چاہتا تھا چلیں یہیں کچھ عرض کرتے ہیں۔
اس بچہ کے حوالہ سے بہت سے کام لکھے جا رہے ہیں کہ بچہ کی موت نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا تو ایسا کچھ نہیں، کیونکہ داعش کی طرف سے یورپئن ممالک پر حملوں کی کال ھے اور حالیہ خبروں کے حوالہ سے ایک خبر یہ بھی ھے کہ انہیں ان ممالک میں پناہ نہیں دی جائے گی کیونکہ داعش ان میں اپنے جنگجو بھیج رہی ھے۔ سمندری راستوں پر تفصیلی بعد میں بات ہو گی پھر بھی پچھلے کچھ دنوں ملک بدری کے حوالہ سے ایسی ہزاروں موتیں ہو چکی ہیں جن میں فیملیاں بھی شامل ہیں۔
قصور 100 فیصد عبداللہ کردی کا ھے۔ جو خود ساختہ ملک بدری پر سہانے خواب کی شکل میں کسی ایسے ملک کا خواہشاں تھا جہاں 5 سال تک کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔
خوف داعش کا ہو یا کسی کا بھی ملک بدری پر کچھ قوانین ہیں کہ پہلے شہر بدر ہوں اس پر بھی اگر گھیرا تنگ ہو جاتا ھے تو پھر ملک بدر ہوں اور ملک بدری پر ایسا نہیں کہ آپ کی چوائس یا خواہش پر! بلکہ جو بھی آپ کے ملک کے قریب ممالک لگتے ہیں ان ممالک میں آپ جان کی پناہ لے سکتے ہیں۔
عبداللہ کردی کی کینیڈا پر اسائلم کی درخواست جب خارج ہو گئی تو اس نے یورپ جانے کی کیوں ٹھانی، کیونکہ ان کے پاس تمام معلومات ہوتی ہیں اور یہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سمندری راستہ خطرناک ہوتا ھے پھر بھی رسک لیتے ہیں، خیر کچھ بھی ہو سمندری اور زمینی راستوں پر اختیاط برتنی چاہئے اس میں جان کا 99 فیصد خطرہ ہوتا ھے۔
بھائیو اگرچہ تبصرے حق پر مبنی ہیں مگر شقاوت اور سنگدلی کی بو آتی ہے ان سے. یہ حالات تو سکتے میں ڈال دینے والے ہیں کہ انسان ساحلوں پر ایسے ملیں جیسے آبی جانور