• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تارکین رفع الیدین کے تمام شبہات کا ایک تاریخی اوردندان شکن جواب۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا :

ترفع يديک في کل تکبيرة کأنک تريد أن تطير
” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “
امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :
ان کنت أنت تطير في الاولي فاني أطير فيما سواها
اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔

امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔
( کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123 )

ربط


یہاں‌ امام ابن البارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کو جو مسکت جواب عنایت کیا ہے وہ دراصل رفع الیدین کے خلاف اٹھائے جانے والے ہر شبہے کا جواب ہے۔
آج امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکار اس عظیم سنت کے خلاف جو بھی اعتراضات پیش کرتے ہیں ان سب کا جواب عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ کی مذکورہ بات میں‌ موجود ہے جس پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی مبہوت ہوکررہ گئے تھے۔

ذیل مین‌ تارکین رفع الیدین کے کچھ اعتراضات پیش کئے جاتے ہیں جوبالکل ان کے امام ہی کے پیش کردہ اعتراض سے ملتے جلتے ہیں ، نیز ان سب کا جواب بھی امام ابن المبارک رحمہ کے مسکت جواب ہی کی طرح ہے:
ملاحظہ ہو:



اعتراض‌ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
صحیح‌ مسلم کی حدیث میں‌ رفع الیدین کو سرکش گھوڑوں‌ کے دم سے تشبیہ دی گئی ہے
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
تو پھر تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے بارے میں‌ کیا خیال ہے؟



اعتراض‌ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
کوئی ایسی حدیث پیش کریں‌ جس میں‌ یہ لکھا ہو کی تاحیات رفع الیدین کرناہے۔
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
کوئی ایسی حدیث پیش کریں‌ جس میں تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین سے متعلق تا حیات کی صراحت ہو ۔


اعتراض‌ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہوکہ رفع الیدین کرو۔
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہوکہ تکبیرتحریمہ کے وقت رفع الیدین کرو۔



اعتراض‌ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
اگرکوئی رفع الیدین نہ کرے تو اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
اگر کوئی تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین نہ کرے تو اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں ۔



اعتراض‌ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
رفع الیدین واجب فرض ہے یا سنت ؟
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین واجب فرض ہے یا سنت؟



فماکان جوابکم فهوجوابنا​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ کفایت اللہ بھائی جان،
واقعی اس عظیم سنت کی مخالفت میں منکرین استخفاف سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اورامام ابن المبارک رحمہ اللہ کا یہ جواب ان کی ایسی ہر عقلی دلیل کا توڑ ہے۔ بہت اچھا پوائنٹ ہے۔۔!
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جناب کفایت اللہ صاحب
آپ نے تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین اور رکوع کے وقت رفع الیدین کو ایک جیسا سمجھ لیا جبکھ رکوع کے وقت رفع الیدین کے متروک ھونے کی احادیث موجود ھیں اور تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے متروک ھونے کی میری ناقص علم کے مطایق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
جناب کفایت اللہ صاحب
آپ نے تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین اور رکوع کے وقت رفع الیدین کو ایک جیسا سمجھ لیا جبکھ رکوع کے وقت رفع الیدین کے متروک ھونے کی احادیث موجود ھیں اور تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے متروک ھونے کی میری ناقص علم کے مطایق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
محترم آفتاب صاحب !
تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین اور رکوع کے وقت رفع الیدین کو ایک جیسا سمجھنے میں، میں پہلاشخص نہیں ہوں بلکہ جیسا کہ اوپرآپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے بھی تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین اور رکوع کے وقت رفع الیدین کو ایک جیسا سمجھاہے جس پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔
مجھے حیرت ہے کہ آج کے تارکین رفع الیدین کی فقاہت کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقاہت سے بھی بڑھ گئی؟ جوبات آپ کہہ رہے ہیں کیاوجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وہی بات نہیں کہہ سکے ؟

بہرحال آپ کا یہ کہنا کہ :
رکوع کے وقت رفع الیدین کے متروک ھونے کی احادیث موجود ھیں اور تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے متروک ھونے کی میری ناقص علم کے مطایق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
توعرض ہے کہ رکوع کے وقت بھی رفع الیدین کے متروک ہونے کی میری ناقص علم کے مطابق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
اوراس ضمن میں جن صحیح احادیث کو پیش کیاجاتاہے ، اگراس سے استدلال درست سمجھ لیا جائے تو ان صحیح احادیث میں تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے متروک ہونے کی بھی دلیل ہے ۔
مثلا ترک رفع الیدین ایک صحیح حدیث صحیح مسلم سے پیش کی جاتی ہے،ملاحظہ ہو:
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ»
[صحيح مسلم (1/ 322) رقم 430]

جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو فرماتے ہیں دوبارہ ایک دن تشریف لائے تو ہم کو حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو متفرق طور پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں پھر ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم صفیں نہیں بناتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں فرمایا کہ پہلی صف کو مکمل کیا کرو اور صف میں مل مل کر کھڑے ہوا کرو۔
جناب غورکریں اس حدیث میں اگررکوع والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے تو تکبیرتحریمہ کے بھی ترک کی دلیل ہے کیونکہ اس حدیث میں رکوع والے رفع الیدین کی تخصیص موجود نہیں ہے، پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تکبیرتحریمہ والے رفع الدین کے ترک کی دلیل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل موجودنہیں ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نزدیک یہ بھی مسلم ہے کہ رکوع والے رفع الیدین کے ترک پربھی کوئی دلیل نہیں ہے۔
آپ حضرات رکوع والے رفع الیدین کے ترک پر جوصحیح احادیث پیش کرتے ہیں ان سے استدلال درست مان لیا جائے تو ان سے تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین بھی متروک ثابت ہوگا، جیساکہ اوپر وضاحت کی گئی۔

ایک اور صحیح حدیث ملاحظہ جسے تارکین رفع الیدین صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس میں رکوع والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے:
۔۔۔فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ: أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١) رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، (٢)وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، (٣)فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ القِبْلَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اليُسْرَى، وَنَصَبَ اليُمْنَى، (٤)وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اليُسْرَى، وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ
[صحيح البخاري:1 /165 رقم828 ]

ابوحمید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساعدی بولے کہ مجھے تم سب سے زیادہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ(١) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، (٢)اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، (٣)جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر لیا، (٤)جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے
اس حدیث سے بھی رکوع والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث میں نماز کے تمام طریقوں کا ذکرنہیں ہے تو کیا نماز کی جن جن چیزوں کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے انہیں متروک مان لیاجائے؟
صرف ایک چیز کی وضاحت کرتاہوں بخاری کی اس حدیث میں جس طرح صرف تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کا ذکر ہے ٹھیک اسی طرح سے اس حدیث میں صرف تکبیرتحریمہ والی تکبیرہی کا ذکربھی ہے ۔
میں نے حدیث کے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبرڈالے ہیں ان چاروں میں سے صرف پہلے مقام تکبیرکا ذکر ہے اوربقیہ مقامات پر جس طرح رفع الیدین کا ذکرنہیں ہے اسی طرح تکبیرکایا اس کے قائم مقام تسمیع کا بھی ذکر نہیں ہے۔
توکیا یہ کہہ دیا جائے کہ بقیہ رفع الیدین کے ساتھ بقیہ تکبیرات بھی متروک ہوگئی ہیں؟

یادرہے کہ بخاری کی یہی حدیث ابوداؤد میں موجود ہے اوراس میں دیگررفع الیدین کا بھی ذکر ہے اوردیگرتکبیرات کا بھی ذکر ہے ملاحظہ ہو:
۔۔۔قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١)إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا،(٢) ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، (٣)ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، (٤)ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ " ، قَالُوا: صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
[سنن أبي داود :1 /194 رقم 730 واسنادہ صحیح]

ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ واللہ تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(١) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے (٢)پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔(٣) پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے(٤) پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
اس حدیث میں بھی ہم نے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبرڈالے ہیں ان چاروں میں پہلے مقام کی طرح رفع الیدین کا بھی ذکر ہے اورتکبیریا تسمیع کا بھی ذکرہے، تکبیرکے ذکر والے الفاظ کو ہم نے لال رنگ سے ملون ومخطوط کیا ہے اوررفع الیدین کے ذکروالے الفاظ کو نیلے رنگ سے ملون کیاہے۔

معلوم ہوا کہ اس صحیح حدیث میں بھی تکبیرتحریمہ کے علاوہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل نہیں ہے، اوراگراس جیسی احادیث میں واقعی ترک کی دلیل ہے تو لیجئے ہم اسی جیسی ایک ایسی صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل بھی موجود ہے ملاحظہ ہو:
صحیح بخاری میں ہے:
۔۔۔ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، " كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلاَةٍ مِنَ المَكْتُوبَةِ، وَغَيْرِهَا فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الجُلُوسِ فِي الِاثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلاَةِ "، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا [صحيح البخاري:1 /159رقم803]
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے فرض ہو یا کوئی اور رمضان میں (بھی) اور غیر رمضان میں (بھی) ، پس جب کھڑے ہوتے تھے تکبیر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تھے تکبیر کہتے، پھر سجدہ کرنے سے پہلے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے اس کے بعدرَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہتے، اس کے بعد جب سجدہ کرنے کے لئے جھکتے، اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے۔ پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تکبیر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے ، تکبیر کہتے، پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے، تکبیر کہتے، (خلاصہ یہ کہ) اپنی ہر رکعت میں اسی طرح کرکے نماز سے فارغ ہوجاتے، اس کے بعد جب نماز ختم کر چکتے تو کہتے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلاشبہ میں تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں، بلا شبہ آپ کی نماز اس وقت تک بالکل ایسی ہی تھی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا
غورفرمائیں اس صحیح حدیث میں تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کا بھی ذکرنہیں ہے تو کیا آپ کے اصول کے مطابق تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر صحیح حدیث ہے یا نہیں؟
لطف تو یہ ہے کہ آپ کے اصول کے مطابق تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر دلالت کرنے والی اس حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تاحیات تھا اس حدیث کے اخیرمیں دیکھیں آپ کو یہ الفاظ نظر آئیں گے:
إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا

کیا خیال ہے تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر آپ کے اصول کے مطابق یہ کیسی زبردست دلیل ہے جس میں تاحیات اور آخری وقت کی بھی صراحت ! اس کے باوجود بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ :
تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے متروک ھونے کی میری ناقص علم کے مطایق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
بھائی صاحب کیا یہ صحیح حدیث نہیں ہے؟

اگرآپ کہیں کہ اس صحیح حدیث سے تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال درست نہیں ہے تو یہی تو ہم بھی کہتے ہیں کی رکوع کے بعد والے رفع الیدین کے ترک پر بھی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اورجن صحیح احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے ان سے استدلال درست نہیں ہے جیسا کہ وضاحت کی گئی ۔

اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کی جوحیثیت ہے بجنسہ وہی حیثیت رکوع والے رفع الیدین کی بھی ہے۔
امید ہے کہ اتنی وضاحت کافی ہوگی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
پہلی بات تو یہ ہے کہ افتاب بھائی آپ نے کفایت اللہ بھائی کی بات کو سمجھے بغیر ان پر بات کردی ہے کہ آپ نے دونوں کو ایک سمجھ لیا ہے۔انہوں نے اپنی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے تو ایک امام کی بات کو نقل کیا ہے۔جس پر امام ابوحنیفہؒ کوئی جواب نہیں دے سکے۔جب امامؒ نے کوئی جواب نہیں دیا تو آپ اور میں کون ہوتے ہیں۔اس کے جواب دینے والے۔؟؟یا امامؒ نے کیوں نہیں جواب دیا وجہ کیا ہے ؟ یا اگر جواب دیا ہے تو وہ پیش کریں۔
’’جبکھ رکوع کے وقت رفع الیدین کے متروک ھونے کی احادیث موجود ھیں‘‘ آپ کی اس بات پر کفایت اللہ بھائی نے جو جواب نقل کیے ہیں ان کا جواب آپ پر لازم ہے
’’تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے متروک ھونے کی میری ناقص علم کے مطایق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ ‘‘ آپ یہ بتائیں کہ کیا کہ ایک چیز کے عدم ذکر سے اس کا عدم وجود ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟اگر نہیں آتا تو پھر آپ کو ثابت کرنا ہوگا اوراگر آتا ہے تو پھر کفایت اللہ بھائی کی دلیل کو مانیں۔
نوٹ
ماشاءاللہ بہت خوشی ہوئی دونوں طرف سے دلائل کے ساتھ بات کی جارہی ہے۔دلائل سے بات کرکے ایک نتیجے تک پہنچانا اور پھر قوی دلائل والے کی بات کو ماننا اہل علم کی نشانی ہوتی ہے۔جو شخص دلائل کےواضح ہوجانے کے بعد بھی بات کو نہ مانے یا اس کے ذہن میں جو اشکالات ہوں بحث ومباحثہ میں اشکالات دور نہ کرے بس جان چھڑا لے تو اس طرح کا آدمی خائن ہوتا ہے۔جو سراسر صحیح موقف سے بھاگ رہا ہوتا ہے۔اوراس کاانجام بھی بہت برا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
باقی افتاب بھائی کفایت اللہ بھائی کی اس پوسٹ کا جواب بھی آپ پر لازم ہے۔کیونکہ بات چھڑ گئی ہے تو ضرور اس کو ایک نتیجہ تک لے جانا چاہیے۔جس بھائی نے بھی بغیردلیل کے کوئی بات کی یا بحث سے فرار ہونے کی کوشش کی تو اس کے موقف کو کمزور سمجھا جائے گا۔
نوٹ
دلائل میں برائے مہربانی صرف صحیح دلیل پیش کی جائے۔ضعیف احادیث پیش کرنے سے خداراہ گریز کیا جائے۔اور ہاں علماء کی شایان شان ہی نہیں کہ وہ ضعیف احادیث کا سہارا لے یا عوام کے سامنے پیش کرے۔علماء کا کام صرف اتھنٹک بات پیش کرنا ہوتاہے۔امید ہے کہ ان گزارشات پر عمل کیا جائے گا۔
اگر کسی بھائی کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو پیشگی معذرت۔!!!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم آفتاب بھائی! اس فورم پر آپ کی آمد سے بہت خوشی ہوئی، اور آپ بھی ان شاء اللہ یہاں انقباض اور دباؤ کی بجائے فرحت وانبساط محسوس کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت پر دل وجان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں!
محترم بھائی! آپ نے اس پوسٹ
جناب کفایت اللہ صاحب
آپ نے تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین اور رکوع کے وقت رفع الیدین کو ایک جیسا سمجھ لیا جبکھ رکوع کے وقت رفع الیدین کے متروک ھونے کی احادیث موجود ھیں اور تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے متروک ھونے کی میری ناقص علم کے مطایق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
میں شد ومد سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’رکوع کے وقت رفع الیدین کے متروک ہونے کی احادیث موجود ہیں۔‘‘
آپ سے گزارش ہے کہ اپنے اس دعویٰ کی کوئی ’ایک‘ صحیح وصریح دلیل پیش کریں۔ تاکہ ہم بھی اس پر عمل کریں!
ورنہ بغیر دلیل کے دعوے تو بہت کیے جا سکتے ہیں، جن کی کوئی حیثیت نہیں۔
علاوہ ازیں! میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی اس فورم پر لائیں تاکہ زیادہ بہتر انداز میں دلائل کی روشنی میں گفتگو آگے بڑھائی جا سکے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top