السلام علیکم
لیڈنگ مراسلے میں جو مضمون لکھا ھوا نظر آرہا ھے اسمیں حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ تعالٰی علیہ سے سوال کیا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے کہ "آپ نماز کی ہر تکبیر میں رفع الیدین کرتے ہیں" ؟
جسکے جواب میں ابن المبارک رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں
اس جواب میں صاف صاف زکر ھے رفع الیدین کا ؟ ٹھیک
یعنی یہ کہ حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ نماز کی ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین فرماتے تھے ۔۔۔۔۔ٹھیک ؟
ارے بھی سیدھی سی بات ھے دو رکعت میں تیرہ بار ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین فرماتے تھے اور آپ اہل حدیث حضرات دو رکعت میں چھے جگہ رفع الیدین کرتے ہیں ۔
کیا کہتے ہیں جناب اہل حدیث صاحبان ؟؟
بسم اللہ کرئیے اور اپنی غلطی درست کیجئے ۔ ابن مبارک رحمہ اللہ تو نماز کی ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کریں اور آپ لوگ انہیں کا نام لیکر بھی ان جیسا عمل نہیں کرتے ؟
امید ھے میں اپنی بات و سوال سمجھا سکا ھوں گا ۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ آپ دوست احباب کیسے اور کیا جواب دیتے ہیں ۔
والسلام
حسین
وعلیکم السلام۔
اولا:
مذکورہ پوسٹ کے ذریعہ یہ بتلایا گیا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ والے رفع الیدین پر جوبھی اعتراض کیا جاتاہے وہی اعتراض تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین پر بھی وارد ہوتا ہے۔
آپ کے اشکال کا اس استدلال سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ مذکورہ روایت کو ہم نے رفع الیدین پر وارد اعتراضات کے جواب کے لئے پیش کیاہے۔
ثانیا:
مذکورہ روایت اس باب میں صریح ہرگز نہیں ہے کہ عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کرتے تھے ، اورمیرے ناقص علم کے مطابق آپ سے قبل کسی ایک بھی امام نے اس روایت کی بنا پر عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف یہ بات منسوب نہیں کی ہے کہ وہ ہر تکبیر پر رفع الیدین کے قائل تھے۔
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ سے مراد ہرتکبیر پر رفع الیدین کرتے تھے لیکن کون سی ہر تکبیر پر؟ اس کی صراحت روایت مذکورہ میں نہیں ہے۔
اورکبھی کبھی
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ بول کر مخصوص تکبیرات مراد لی جاتی ہیں جیسا کہ درج ذیل روایت میں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكُونَ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى تَكُونَ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ " [سنن أبي داود 1/ 192رقم 722 ]
ثالثا:
اس ضمن کی دیگر روایات سے وضاحت ہوجاتی ہے مذکورہ روایت میں
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ اپنے عموم پر نہیں ہے ، مثلا:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ
[السنن الكبرى للبيهقي 2/ 117 رقم 2538]
امام وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ کی مسجد میں نماز پڑھی تو وہاں ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی نماز پڑھ رہے تھے اوران کے بغل میں امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نماز پڑھ رہے تھے تو عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نماز میں جب بھی رکوع میں جاتے اوررکوع سے اٹھتے تو رفع الیدین کرتے تھے، اورابوحنیفہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے جب یہ لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوحنیفہ نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا: اے ابوعبدالرحمان (ابن المبارک) ! میں نے تمہیں نماز میں بکثرت رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا کیا تم نماز میں اڑنا چاہ رہے ہو؟ اس پر امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو جواب دیا کہ : اے ابوحنیفہ ! میں نے دیکھا تم نے نماز کے شروع میں رفع الیدین کیا تو کیا آپ اڑنا چاہ رہے تھے؟ اس جواب پر ابوحنیفہ خاموش ہوگئے ۔
امام وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابن المارک رحمہ اللہ سے زیادہ حاضر جواب کسی کو نہیں دیکھا ۔
اس روایت میں
’’كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ‘‘ سے کل تکبیرۃ کی تشریح ہوجاتی ہے یعنی
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ سے ہررکعت میں قبل الرکوع اوربعدالرکوع والا رفع الیدین مراد ہے۔
نیز اس روایت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زبانی ابن المبارک رحمہ اللہ کا جو عمل بیان ہو اہے وہ
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ کے الفاظ سے نہیں بلکہ
’’ رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ‘‘ کے الفاظ سے ، اس سے
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ کی تشریح بخوبی ہوجاتی ہے۔
اوراگردیگرروایات کو نظر انداز کرکے صرف ایک ہی روایت کو پکڑ کر بیٹھ جایا جائے تو کوئی
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ ‘‘ کو پیش نظر رکھ کراس بات پر بھی ضد کرسکتا ہے کہ ابن المبارک رحمہ اللہ تسمیع کے وقت رفع الیدین نہیں کرتے تھے ، کیونکہ
’’ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ‘‘ کے ساتھ تسمیع کا ذکر نہیں ہے لیکن اس کا کوئی قائل نہیں۔
رابعا:
اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیں کہ عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کرتے تھے تو اس سے ہم پر کیا اعتراض وارد ہوسکتاہے ، ہم نے عبد اللہ ابن لمبارک رحمہ اللہ کے عمل کو نہیں ان کے اس جواب کو پیش کیا ہے جسے امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اعتراض پر پیش کیا تھا اگر اس جواب میں کوئی کمی ہے تواس کی وضاحت کریں خواہ مخواۃ غیر متعلق بات چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
نوٹ: آفتاب صاحب سے ہماری مزیدگفتگو درج ذیل دھاگہ میں ملاحظہ فرمائیں۔