محترم کفایت الله بھائی آپ نے واقعی تفصیل سے جواب دیا ۔ لیکن میں نے تکبیر تحریمہ والا(؟) رفع الیدین کو متروک کہا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے
1- عن عبد الله بن مسعود ، أنه قال : ألا أصلي لكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم . فصلى ، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة
(اس روایت کو ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی کے علاوہ کئی حدیث کی دوسری کتب نے بھی نقل کیا ہے )
2- صحیح مسلم کی روایات جس کا آپ نے حوالہ دیا اور اس میں نماز میں سکون اختیار کا کہا گیا وہاں لفظ "في الصلاہ " السکون عند افتتاح الصلاہ نہیں تکبیر تحریمہ عند افتتاح الصلاہ ہے اور رکوع والا رفع الیدین فی الصلاہ ہے ۔ اس لیئے اس سے مراد تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین نہیں ۔
ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس وقت صحابہ کون سا والا رفع الیدین کررہے تھے جو اس حدیث میں منع کیا کیا ہے۔
3- عن سالم عن أبیہ: قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا افتتح الصلاة رفع یدیہ حتی یحاذي بہما وقال بعضہم: حذو منکبیہ وإذا أراد أن یرکع وبعد ما یرفع رأسہ من الرکوع لا یرفعھما (صحیح أبوعوانة ، مسند حمیدی )
اس کس علاوہ کئی احادیث ہیں جو صحابہ کا عمل بھی ترک رفع الیدین پر دلالت کرتی ہیں ۔
واضح رہے کہ میری تحقیق کے مطابق رفع الیدین اور ترک رفع الیدین میں اختلاف صرف افضلیت کا ہے نہ حلال و حرام کا۔
محترم آفتاب بھائی سب سے پہلے آپ اپنے دعوے پر نظر کرلیں:
جناب کفایت اللہ صاحب
رکوع کے وقت رفع الیدین کے متروک ھونے کی احادیث موجود ھیں۔
آپ نے رکوع والے رفع الیدین کے متروک ہونے کا دعوی کیا ہے ، اورمتروک کا معنی ہوتا ہے جس عمل کو ترک کردیا گیاہویعنی اب اس پرعمل نہیں ہوسکتا ، جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتاہے:
عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، قَالَا: صَلَّيْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ كَفَّيْهِ، وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ، وَضَرَبَ أَيْدِيَنَا، فَفَعَلْنَا ذَلِكَ، ثُمَّ لَقِيَنَا عُمَرُ بَعْدُ، فَصَلَّى بِنَا فِي بَيْتِهِ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقْنَا كَفَّيْنَا كَمَا طَبَّقَ عَبْدُ اللَّهِ، وَوَضَعَ عُمَرُ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «مَا هَذَا؟» فَأَخْبَرْنَاهُ بِفِعْلِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: «ذَاكَ شَيْءٌ كَانَ يُفْعَلُ ثُمَّ تُرِكَ» [مصنف عبد الرزاق الصنعاني : 2 /152]
امام بیہقی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ عمل سے متعلق فرماتے ہیں:
قال أبو معاوية هذا قد ترك رواه مسلم في الصحيح عن أبي كريب عن أبي معاوية
[السنن الكبرى ت :محمد عبد القادر عطا 2/ 83]
شیخ شعيب الأرنؤوط فرماتے ہیں:
وقال البيهقي بإثره: وقال أبو معاوية: هذا قد ترك: يعني التطبيق الذي جاء في خبر ابن مسعود هذا قد نسخ.
[صحيح ابن حبان - محققا: 5 /193]
معلوم ہوا کہ کہ متروک کا مطلب ہوتاہے جس پر عمل موقوف ہوچکا ہے بالفاظ دیگرجو منسوخ ہوچکاہے۔
یہ تو آپ کے دعوے کی وضاحت ہوئی اب آپ کی دلیل دیکھتے ہیں:
1- عن عبد الله بن مسعود ، أنه قال : ألا أصلي لكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم . فصلى ، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة
(اس روایت کو ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی کے علاوہ کئی حدیث کی دوسری کتب نے بھی نقل کیا ہے )
ہم کہتے ہیں :
اولا:
محترم آفتاب صاحب اب آپ بتائیے کہ اس حدیث میں رکوع والے رفع الیدین کے متروک ہونے کی دلیل کہاں ہے؟؟؟ اس میں تو صرف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ایک بار رفع الیدین والی نماز پڑھ کربتلائی ہے ، اس سے بقیہ رفع الیدین کا ترک کہاں لازم آیا؟؟؟
آپ کومعلوم ہونا چاہے کہ نمازظہر سے قبل کتنی رکعات سنت مؤکدہ ہیں اس سلسلے میں ایک حدیث میں آتاہے کہ چاررکعت، اورایک دوسری حدیث میں آتاہے کہ دورکعت ، توکیا اس دوسری حدیث سے آپ یہ نتیجہ اخذکریں گے کہ ظہرسے قبل چاررکعت پڑھنا متروک ہے صف دو ہی پڑھیں گے؟؟؟
جناب اس طرح کی احادیث سے متروک کا دعوی ثابت نہیں ہوتا کوئی ایسی روایت تلاش کریں جس میں متروک کی دلیل ہو۔
ثانیا:
بھائی آفتاب صاحب آپ کی پیش کردہ دلیل آپ کے دعوی سے غیرمتعلق ہونے کے ساتھ ساتھ ٍضعیف بھی ہے، ہم اس کے ضعف کی وجوہات لکھنے بیٹھ جائیں تو ایک مستقل رسالہ تیار ہوجائے گا لہٰذا تفصیل میں نہ جاتے ہوے چند چیزوں کی وضاحت کرتے ہیں:
(الف)
ناقدین نے اس روایت پر جرح مفسرکی ہے اورجرح مفسرکے ازالہ میں تعدیل مفسرپیش کرنا لازم ہے وہ بھی جمہورکی۔
واضح رہے کہ کسی حدیث پر ناقدین اگر جرح کریں تو یہ روایت کے ضعف کی دلیل ہے اوراگرتضعیف کریں تو دلیل سے خالی ایک حکم ہے بس، بہت سارے لوگ ان دونوں میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اورجرح کو تضعیف سمجھ کراس کے مقابلے میں تصحیح نقل کرکے بلادلیل جرح کو رد کردیتے ہیں حالانکہ کی جرح کی تردید تعدیل ہی سے ہوسکتی ہے نہ کہ تصحیح سے۔
اب ذیل میں اس روایت پر ناقدین کی جرح مفسرملاحظہ ہو:
ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:
وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ الثّورِيُّ ، عن عاصِمِ بنِ كُليبٍ ، عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ الأسودِ ، عن علقمة ، عن عَبدِ اللهِ أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم قام فكبّر فرفع يديهِ ، ثُمّ لم يعُد.قال أبِي : هذا خطأٌ ، يُقالُ : وهِم فِيهِ الثّورِيُّ.وروى هذا الحدِيث عن عاصِمٍ جماعةٌ ، فقالُوا كُلُّهُم : أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم افتتح فرفع يديهِ ، ثُمّ ركع فطبّق وجعلها بين رُكبتيهِ ، ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ.
علل الحديث [1 /96 رقم 258]
یہ جرح مفسر ہے امام ابوحاتم نے خاص اس روایت پر کلام کیا ہے اس کے مقابلہ میں آپ جمہور سے اس جرح کا صراحۃ ازالہ پیش کریں محض تصحیح مبہم کافی نہیں ہے۔
امام ابوحاتم کے علاوہ دیگرمحدثین نے بھی اس روایت پر جرح مفسرکی ہے، تفصیل کے لئے دیکھیں:
نور العینین :ص١٣٠تا ١٣٤۔
(ب)
اس روایت کی سند میں سفیان ثوری ہیں جو مشہورمدلس ہیں (عام کتب رجال)۔
اورانہوں نے عن سے روایت کیا ہے۔
علامہ عینی فرماتے ہیں:
وسُفْيَان من المدلسين، والمدلس لَا يحْتَج بعنعنته إِلَّا أَن يثبت سَمَاعه من طَرِيق آخر
عمدة القاري شرح صحيح البخاري [3 /112]
تنبیہ :
سفیان کا عنعنہ مقبول ہے، لیکن ایک روایت جو متواترروایت کے خلاف ہو اس میں ان کے عنعنہ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے جب ہم اوثق رواۃ کی مخالفت کرنے والے ثقہ غیرمدلس کی روایت کو رد کردیتے ہیں تو پھر متواتر روایات کی مخالفت میں ایک مدلس کی روایت کیونکر تسلیم کرسکتے ہیں۔
ثالثآ:
بفرض محال اگراس روایت کو صحیح مان لیں تویہ رکوع والےرفع الیدین کے ترک کی دلیل نہیں بن سکتی بلکہ اس روایت میں بیان کردہ طریقہ نماز بجائے خود متروک ثابت ہوگا کیونکہ یہ طریقہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے اوران کا بیان کردہ طریقہ نماز صحیح اورصریح احادیث کی رو سے قدیم ہے ، دلیل ملاحظہ ہو:
عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: «عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ» قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ سَعْدًا، فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي، قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ هَذَا ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا يَعْنِي «الْإِمْسَاكَ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ» [سنن أبي داود :1 /199 رقم 747]
اس حدیث میں عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ جس نماز کا طریقہ بتلارہے ہیں اس میں تطبیق بھی ہے اوریہ عمل احادیث صحیحہ وصریحہ کی روسے پہلے کا عمل ہے اورمنسوخ ہے ۔ اس سے سے ثابت ہوگیا کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نمازی نبوی کا جوطریقہ یا د کررکھا تھا تو پہلے کا تھا ۔
تنبیہ: بعض حضرات جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اتنے دنوں تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیارکی آخرانہیں رکوع والے رفع الیدین کا علم کیسے نہیں ہوسکا؟
ایسے حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علم میں تطبیق کے منسوخ ہونے والی بات کیوں نہ آئی؟ ماکان جوابکم فہوجوابنا۔
اب مذکورہ بات ثابت ہونے کے بعد ہمیں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث ملتی ہے جس میں رکو ع والے رفع الیدین کا ذکرہے اوریہ بھی ثبوت ملتاہے کہ عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے نمازنبوی کا جوطریقہ یا د کررکھا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر دور کا ہے ، کیونکہ اول تو عبداللہ ابن عمر کم عمرصحابی ہیں دوم درج ذیل حدیث ملاحظہ ہو:
عبد الله بن عمر، قال: صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم العشاء في آخر حياته، فلما سلم قام، فقال: «أرأيتكم ليلتكم هذه، فإن رأس مائة سنة منها، لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد» [صحيح البخاري : 1 /34 رقم116 ]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے نمازنبوی کا جوطریقہ اخذکیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دورکا طریقہ تھا ، اسی طرح صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ بھی ہے آپ رضی اللہ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے آخری دوروالا نماز کا طریقہ سیکھا ہے جیساکہ میں گذشتہ پوسٹ میں صحیح بخاری سے اس کی دلیل دے چکا ہوں ، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی نماز نبوی میں رکوع والا رفع الیدین ذکر کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رکوع والا رفع الیدین حیات طیبہ کے آخری دورکا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ آفتاب بھائی نے رکوع والے رفع الیدین کے متروک ہونے کی جو دلیل دی ہے وہ بجائے خود متروک ہے۔
2- صحیح مسلم کی روایات جس کا آپ نے حوالہ دیا اور اس میں نماز میں سکون اختیار کا کہا گیا وہاں لفظ "في الصلاہ " السکون عند افتتاح الصلاہ نہیں تکبیر تحریمہ عند افتتاح الصلاہ ہے اور رکوع والا رفع الیدین فی الصلاہ ہے ۔ اس لیئے اس سے مراد تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین نہیں ۔
اولا:
اگرمذکورہ روایت میں ’’سکون عندافتتاح الصلاۃ‘‘ کی صراحت نہیں ہے تو کیا ’’سکون عندالرکوع‘‘ کی صراحت ہے؟؟؟
ثانیا:
مذکورہ حدیث میں ’’فی الصلاۃ ‘‘ کا لفظ ہے تو کیا تکبیرتحریمہ ’’فی الصلوٰۃ ‘‘ میں داخل نہیں ہے، ذرا درج احادیث غورسے پڑھیں پھر بتلائیں کہ ’’تکبیرتحریمہ‘‘ فی الصلاۃ میں داخل ہے یا نہیں ؟؟
عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ " إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ "، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مُخْتَصَرًا [صحيح البخاري : 1 /148 رقم739]۔
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، وَمَوْلًى لَهُمْ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ: أَنَّهُ " رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ، - وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ - ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ، ثُمَّ رَفَعَهُمَا، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ، فَلَمَّا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمَّا، سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ "
[صحيح مسلم: 1 /301 رقم401 ]
مذکورہ دونوں احادیث سے معلوم ہواکہ کہ تکبیرکے ساتھ ہی مصلی نماز میں داخل ہوجاتا ہےیعنی تکبیرنماز سے خارج کوئی الگ چیز ہرگزنہیں بلکہ یہ بھی فی الصلاۃ میں شامل ہے۔
اوردرج ذیل حدیث تو بہت ہی واضح طورپربتلاتی ہے کہ تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین نماز کے اندر کارفع الیدین ہے۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أبي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاةِ كَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حِيَالَ أُذُنَيْهِ وَرُبَّمَا، قَالَ: حَذَا أُذُنَيْهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ.
[مستخرج أبي عوانة: 2/ 174 رقم 1261 اسنادہ صحیح، قتادہ صرح بالسماع عندالنسائی فی الکبری(1 /459) وصرح بالتحدیث عندالطبرانی فی المعجم الكبير (19 /284)]
اس حدیث میں غور کریں پہلے ہے
’’ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاةِ كَبَّرَ،‘‘ اس کے بعد ہے
’’ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین ہر حال میں نماز کے اندر ہی داخل ہے۔
ثالثا:
اگرتکبیر نماز میں داخل نہیں ہے تو پھر سلام کوبھی نماز سے خارج ہی ماننا پڑھے گا ایسی صورت میں مذکورہ روایت کا داخل نماز سے کوئی تعلق رہ ہی نہیں جائے گا کہ کیونکہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ مذکورہ حدیث مسلم میں بوقت سلام والے رفع الیدین سے منع کیا گیاہے ، مثلا ملاحظہ ہو یہ حدیث:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
ملون ومخطوط الفاظ پر غورکریں ، رفع الیدیں کی صراحت ہے اوراگے یہ بھی صراحت ہے کہ یہ سلام والا رفع الیدین تھا اب تو افتاب بھائی ہی کے اصول سے اس حدیث کا داخل نماز سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا ۔
تنبیہ: یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے منع رفع الیدین والی حدیث کے بالکل بعد ہی میں ہے لیکن مسلم میں موجود اس دوسری روایت پر احناف یہ حجت کرتے ہیں کہ اس میں سلام کی صراحت تو ہے لیکن رفع الیدین کے الفاظ نہیں ہیں ، اس لئے میں نے طبرانی سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے جس سلام اور رفع الیدین دونوں کی صراحت ہے۔
ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس وقت صحابہ کون سا والا رفع الیدین کررہے تھے جو اس حدیث میں منع کیا کیا ہے۔
میں نے ضمنا اپنے اس مضمون کا لنک دے دیا تھا جس میں میں نے وضاحت ہے کے اس سے مراد اخری تشہد میں بوقت سلام والارفع الیدین مراد ہے اور ابھی اوپر ’’ثالثا ‘‘ کے تحت بھی اس کی وضاحت ہوچکی ہے، مزید تفصیل کے لئے درج ذیل لنک دیکھیں:
کیا صحیح مسلم میں مسنون رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے؟
3-عن سالم عن أبیہ: قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا افتتح الصلاة رفع یدیہ حتی یحاذي بہما وقال بعضہم: حذو منکبیہ وإذا أراد أن یرکع وبعد ما یرفع رأسہ من الرکوع لا یرفعھما (صحیح أبوعوانة ، مسند حمیدی )
محترم آفتاب !
اولا:
یہ روایت بھی آپ کے دعوی کی دلیل نہیں ہے کیونکہ آپ کا دعوی متروک کا ہے اورعبداللہ ابن عمر کی اثبات رفع الیدین والی روایت آپ کو بھی تسلیم ہے ، لہٰذا یہ محرف روایت بھی آپ کے دعوی کی دلیل نہیں ہے۔
ثانیا:
یہ بہت بڑی جسارت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں تحریف کی جائے ، اہل حدیث کی طرف سے بار بار یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ آپ کے اکابرنے جہنم کی وعید سے بے خبر ہوکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسا فعل منسوب کیا ہے جس کا صدور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگزنہیں ہوا ہے۔
غرض یہ کہ صحیح ابوعوانہ اورمسندحمیدی میں عصرحاضر کے دیوبندیوں نے تحریف کر ڈالی ہے، اس تحریف کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ عصرحاضر سے قبل کسی بھی حنفی عالم اورتارک رفع الیدین نے اس حدیث کو ترک رفع الیدین پردلیل نہیں بنایاہے۔
اس دونوں کتاب کے جس قدر بھی قدیم مخطوطے دستیاب ہیں سب میں مذکورہ حدیث رفع الیدین کے اثبات کے ساتھ ہی ہے، ان سب مخطوطات کی فوٹو کاپی اورتفصیل کے لئے دیکھئے :
نورالعینین : ص ٦٨ سے ص٨١ تک ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ کلا م یہ کہ آپ کے اس د عوی پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ رکوع والا رفع الیدین منسوخ ہے۔
اس کس علاوہ کئی احادیث ہیں جو صحابہ کا عمل بھی ترک رفع الیدین پر دلالت کرتی ہیں ۔
کسی ایک بھی صحابی سے بسندصحیح ترک رفع الیدین ثابت نہیں ہے،آپ کا دعوی بلا دلیل ہے۔
واضح رہے کہ میری تحقیق کے مطابق رفع الیدین اور ترک رفع الیدین میں اختلاف صرف افضلیت کا ہے نہ حلال و حرام کا۔
آفتاب بھائی بڑی حیرانی ہوئی آپ کی اس تحقیق سے پہلے آپ نے یہ دعوی کیا کہ رکوع والا رفع الیدین متروک ہے پھر اس پردلائل دئے اور آخرمیں اشارۃ یہ کہہ رہے ہیں کہ رکوع والا رفع الیدین مفضول ہے ، یہ عجیب تضاد دہے۔
جناب بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا متروک ہے تو کیا آپ اسے حرام نہ کہتے ہوئے صرف مفضول مانتے ہیں ۔