آپ کی رائے کے پختہ یاخام ہونے سے مجھے کیافرق پڑے گاخواہ وہ پختہ ہویاخام خیالی ہو،اورمیری رائے سے آپ کی صحت پر کیااثرپڑسکتاہے؟
اگر معاملہ صرف آپ کی صحت کی درستی کا ہو ، تو ہم اس چکر میں پڑیں ہی کب ، معاملہ قارئین فورم کی آگاہی کا ہے ، اس لیے کچھ نہ کچھ لکھ دیتے ہیں ۔
اول الذکر کتاب میں اس کتاب کے محقق کی خبرلی ہے، مقدمہ دوبارہ پڑھ لیں،
اہل علم کا یہ انداز ہے ، جب کسی کتاب کی خدمت کرتے ہیں ، تو ماقبل لوگوں کے کام پر تبصرہ کرتے ہیں ، اس کو طعن و تشنیع سے تعبیر کرنا آپ کا کمال ہے ۔ میں نے پڑھا ہے ، آپ جس بات کو مفید مطلب سمجھتے ہیں ، یہاں نقل فرمادیں ۔
دوسری کتاب میں کہاجاسکتاہے کہ واقعتاکسی کے خلاف کوئی غبار انہوں نے نہیں نکالاہے ،
چلو یہ تو مانا البانی صاحب کی ایسی کتب بھی ہیں ، جن میں مخالفین کے بارے وہ کچھ موجود نہیں ، جس کا جناب نے عادت سے مجبور ہو کر حکم صادر کردیا تھا ۔
تیسری کتاب الکلم الطیب کا خضرحیات نے خود مطالعہ نہیں کیا اور دوسروں کے بارے میں رائے پختہ کررہے ہیں،بہرحال جمہوریت میں کسی کی رائے پر قید وبند نہیں لگایاجاسکتاخواہ وہ پختہ ہویاخام۔
میں نے کتاب پڑھ کر یہ بات لکھی ، آپ عبارت نقل کرکے ، دعوے کا ثبوت فراہم کریں ۔
مزيد نام نوٹ کریں :
آداب الزفاف
اصل صفۃ صلاۃ النبی
ارواء الغلیل
تخریج اورزوائد کا فن محض سہولت کیلئے ہے، اس کی حیثیت بنیادی امر کی کبھی نہیں رہی ہے کہ اس کے بغیر کسی کاکام نہ چلے
جناب اگر کتب تخریج اور زوائد سے آشنا ہوتے تو اس طرح کی بے مقصد گفتگو سے پرہیز فرماتے ۔
احادیث کی تصحیح وتضعیف توبنیادی امر ہے اورعوام الناس کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،امام بخاری کی تالیف بخاری کا سبب یہی تھاکہ عوام کے ہاتھوں میں ایک ایسامجموعہ ہاتھ آجائے جس پر وہ بلاکھٹکے عمل کرسکیں،تواس چیز کی ضرورت تو شروع سے تھی ہی،صرف البانی کے دور میں اس کی ضرورت تونہیں تھی لیکن اگراگلوں نے ایسانہیں کیا
البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی مقصد تھا کہ عوام کے ہاتھوں میں احادیث کا ایسا مجموعہ ہو ، جس پر وہ بلا کھٹکے عمل کرسکیں ۔
رہا یہ کہنا کہ پہلے کسی نے یہ کام نہیں تو یہ بھی آپ غفلت یا تغافل ہے ، خود بخاری کا حوالہ آپ پیش کر چکے ، اوپر رضا بھائی بھی کچھ مثالیں پیش کر چکے ، حافظ عراقی کی کتاب تخریج الإحیاء میں بھی علامہ غزالی کی احیاء کا آپریشن موجود ہے ۔
پھر سب سے اہم بات جیسا کہ رضا بھائی نے کہا ، تصحیح و تضعیف شروع سے موجود ہے ، اور آپ بھی مان گئے کہ اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے ، اگر علامہ البانی نے کسی کتاب کے متعلق اپنی تحقیق کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے ، تو اس میں طوفان کھڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا البانی نے صحیح ترمذی اور ضعیف ترمذی کے بعد سنن ترمذی کو دریا برد کرنے کا حکم دے دیا تھا ؟
تواس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اگلے حضرات اس تقاضا سے غافل تھے ،انہوں نے عوام کی اس دینی ضرورت کا احساس نہیں تھااورالبانی صاحب کو اس ضرورت کا سب سے زیادہ احساس ہوا
کسی جگہ آپ کے ایک دوست کہہ رہے ہیں کہ سب سے پہلے امام ابو حنیفہ نے فقہ مرتب کی ، تو کیا امام صاحب سے اگلے حضرات اس تقاضا سے غافل تھے ، انہوں نے عوام کی اس دینی ضرورت کا احساس نہیں کیا ، اور امام ابو حنیفہ کو اس ضرورت کا سب سے زیادہ احساس ہوا ؟
ظفر احمد تھانوی صاحب سے پہلے کسی حنفی عالم نے مذہب کی تائید کے لیے ’’ قواعد فی علوم الحدیث ‘‘ ترتیب نہیں دیے ، کیا پہلے احناف اس تقاضا سے غافل تھے ، پہلوں کو اس ضرورت کا احساس نہ ہوا ، تھانوی صاحب کو اس ضرورت کا سب سے زیادہ احساس ہوا ؟
دوسرانظریہ ہے کہ اگلے حدیث کی تصحیح وتضعیف کو بڑاخطیر امر سمجھتے تھے اوراس کیلئے مطلوبہ لیاقت کامعیار بڑاسخت رکھتے تھے۔ البانی صاحب نے جرات وجسارت اوربے باکی سے کام لیااوراس پرخطرمیدان میں کودپڑے۔خود البانی نے الکلم الطیب کے مقدمہ میں اس فن کی عظمت ورفعت اور پرخطر ہونے کو اچھی طرح سے بیان کیاہے،اوراس کے بعد اپنے منہ میاں مٹھوبن کر اپنی خود ستائی کا راگ الاپاہے،میں نے جوانی ااس میں لگادی،بڑھاپاجھونک دیاوغیرذلک۔
جی یہ میدان واقعہ پر خطر ہے ، اس کے لیے بڑی لیاقت و اہلیت کی ضرورت ہے ، البانی صاحب نے اللہ کی توفیق سے اس میدان میں قدم رکھا ، لوگوں نے ان کے کام کی قدر کی ، ہم عصر علماء نے ان کو داد دی ، جامعات میں ان کی جہود کو نمایاں کرنے کے لیے رسائل لکھے گئے ، لکھے جارہے ہیں ، کچھ لوگوں نے نقد بھی کیا ، ان کے اوہام و اغلاط کی تصحیح کی ، تو یہ ایک معتاد امر ہے
من ذا الذي ترضى سجاياه كلها
كفى بالمرء نبلا أن تعد معايبه
آپ کسی کانام جانناچاہتے ہیں یاپھر رائے پختہ کرناچاہتے ہیں؟
میں اس بات کا حوالہ جاننا چاہتا ہوں ، اس معتدل رائے رکھنے والے کا نام جاننا چاہتا ہوں ، بصورت دیگر آپ کی زبانی آپ سے اقرار کروانا چاہتا ہوں کہ آپ بڑی بڑی باتیں اپنے کیس سے نکال کر کسی کی طرف منسوب کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ۔
ہم یقینامحدث کے اس مفہوم سے ناآشنااورناواقف ہیں جس میں محدث کو بالطبع فقیہہ کہاگیاہے اوریہ کہاگیاہے کہ حدیث کے ضمن میں خودبخود فقاہت حاصل ہوجاتی ہے،
آپ اگر ’’ محدث ‘‘ کی تعریف سے نا آشنا ہیں ، تو آپ کے عدم علم یا کم علمی کا علاج اس کو دور کرنا ہے ، ناکہ دوسروں پر اعتراض کرنا ۔
یہ البانی کی فقاہت کی کتنی اچھی دلیل ہے کہ عبادات ومعاملات میں ان کی لکھی ہوئی کتابوں سے ایک عالم استفادہ کررہاہے،لیکن یہ ذکر نہیں کیاکہ جدید مالیاتی اورغیرمالیاتی کتنے معاملات پر البانی نے روشنی نہیں روشنائی ڈالی ہے؟اورالبانی کے معاصرین اوربعد والے کتنوں نے البانی کی رائے سے استفادہ کیاہے۔ہم بھی تھوڑابہت انٹرنیٹ کی دنیا پر گھوم لیتے ہیں اورکتب خانوں کی سیر کرلیتے ہیں،لیکن وہاں بھی یہی پایاکہ کچھ البانی کے ہم خیال لوگ توان کی علم حدیث کے تعلق سے معلومات سے استفادہ کرتے ہیں لیکن فقہی معاملات میں ان کاحوالہ شاذ ونادر ہی کوئی پختہ رائے والادے تو دے ۔
وماتوفیقی الاباللہ
نماز کے مسائل پر جامع اور مفصل کتاب ، احکام الجنائز ، قیام رمضان ، مناسک الحج والعمرۃ فقہ سے عاری شخص نہیں لکھ سکتا ۔ فقہ الواقع کےنام سے منہجی کتاب کا تصنیف فقاہت کےبغیر ممکن نہیں ، الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ و الکتاب جیسی کتاب ایک فقیہ اور اصولی کا ہی کام ہے ۔
آپ البانی کی فقاہت اور اہلیت میں کیڑے نکالتے رہیں ، دنیا نے
عقیدہ و
منہج میں بھی ان کے موسوعات (20 سے زائد جلدیں تقریبا ) تیار کر لیے ،
فقہ میں بھی ان کا مجموعہ (18 جلدیں) منظر عام پر آگیا ، اور اسی
البانی کے
فتاوی عربی سے ترجمہ ہو کر اردو میں بھی چھپنے لگے ۔
میں روشنی بن کے زمانے میں پھیل جاؤں گا
تم آفتاب میں کیڑے نکالتے رہنا