خضرحیات صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے تمام مقدمات سباب وشتام پر مشتمل نہیں ہیں اوریکے بعد دیگر کتابوں کی فہرست پیش کرتے ہیں، ان کو یاتومعلوم نہیں یاپھر وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں کہ البانی کی کتابوں کے متعدد ایڈیشن ہیں،اگرایک میں کچھ نہیں کہاتویہ ضروری ہے کہ دوسرے تیسرے چوتھے،پانچویں اوردیگر طبعات کے مقدمہ میں بھی وہ خاموش ہیں۔جب ان سے کسی سوال کا جواب بن نہیں آتاتوفرماتے ہیں کہ میرے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں یااسی قبیل سے کچھ اور ،لیکن دوسروں کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ بس وقت ہی وقت ہے،جووہ پوچھتے جائیں دوسرے تفصیل سے بتاتے جائیں۔
بیساکھیوں پر کھڑے ہوکر بڑے بڑے دعوی کیے جائیں تو ایسے ہی ہوتا ہے ، ذرا اپنی پہلی پوسٹ دیکھیں ، جس میں آپ نے صراحتا کہا کہ البانی کی کوئی کتاب آپ کو اس طرز عمل سے خالی نہیں ملے گی ، حوالے پیش کرنے سے میرا مقصد آپ کی نام نہاد تحقیق کا پول کھولنا تھا ، تاکہ عام قاری دھوکے میں نہ رہے کہ جناب البانی کو مکمل پڑھنے کے لیے بعد یہ کلام فرمارہے ہیں ۔
وثالث آخر :اعتاد ان یخرج علی الناس بین الحین والآخر بکتاب من تالفیہ اوتحقیقہ،ویخصص مقدمتہ للسباب والشتائم والاقذاع والوقیعۃ، لایرید ان یوجد فی الدنیا من یمسک قلماالاوھوخاضع امامہ،وارث من اقذاعہ وبذائتہ،اعشتہ غطرستہ عن ان یری غیرہ اھلالعلم او رای او فھم ۔(اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء ص12)
شیخ محمد عوامہ نے یہ کتاب البانی کے انتقال سے دوسال پہلے لکھی تھی۔امید ہے کہ البانی نے اسے دیکھاہوگالیکن اس کی تردید نہیں فرمائی، نیٹ پر شتائم الالبانی لکھ کر سرچ کیجئے، ایک بڑی فہرست سامنے آجاتی ہے البانی کی مغلظات اور سباب وشتام کے۔اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ اورنہیں کہناہے۔
وہ کیا کہتے ہیں کہ بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی ، اچھا ہوا آپ نے اپنی بیساکھی کا اظہار کیا اور شیخ عوامہ کا حوالہ ، اور ساتھ کتاب کا نام بھی سامنے آیا ، بھلا اثر الحدث الشریف فی اختلاف الفقہاء میں البانی کا کیا قصور نکل آیا ؟
اگر شیخ عوامہ کی یہ تنقید بر محل ہے ، تو البانی کی اپنی مختلف کتابوں میں تنقید کیوں ناگوار گزرتی ہے ؟
اور عوامہ تو وہ ہیں جنہوں نے کتب حدیث کے عزت و احترام کو مسلک کے دفاع پر قربان کردیا ، لیکن خود دوسروں کے اپنی کتابوں کے لکھے مقدمات بھی عیب بنادیے گئے ۔
آپ البانی کو فقیہہ تسلیم کرتے ہیں لیکن جب فقاہت کے کچھ نمونے طلب کئےجاتے ہیں توفرماتے ہیں کہ منوانامقصود نہیں ،توکیاہمیں آپ کو منوانامقصود ہے جو ہم سے دلیل اورثبوت کا مطالبہ کیاجارہاہے،یہ اچھاطریقہ ہے خود سے کوئی دعوی کرو،کوئی اس تعلق سے پوچھے تو جواب دے دوکہ منوانامقصود نہیں لیکن دوسرے کی بات پر دلیل اورثبوت طلب کرو۔
انہوں نے فقہی موضوعات پر لکھا ہے ، آپ ان کی فقاہت پر نقد کریں ، اور ثابت کریں کہ فقہ البانی کا میدان نہیں تھا لیکن جان بوجھ کر اس میں قدم رکھا ، میں نے بطور حوالہ ان کی کئی کتابیں پیش کردیں ، اور معتبر موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پیش کیں ، جن کو امت کے اک معتدبہ حصے نے تسلیم کیا ، عربی سے دیگر زبانوں میں تراجم ہوئے ، ان سب قرائن کی موجودگی میں ہم ضرورت نہیں سمجھتے کہ آپ کو نمونے پیش کیے جائیں ۔
آپ کی تعلی و تکبر کا تو یہ حال ہے ، کہ ایک عالم دین کے صحیح نام تک سے آپ واقف نہیں ہیں ، لیکن اس کی فقاہت کی نفی آپ نے بڑی شان سے کردی ہے ، حالانکہ علماء نے ان کو فقیہ کے لقب سے نوازا ہے ۔
آپ بنیادی بات گول کرگئے، ضرورت موجود ہونے کے باوجودپہلوں نے یہ کام نہیں کیاتواب اس طرح کاکام کرناکیادعوت غوروفکر نہیں دیتا۔اگرکوئی کام ضرورت وحاجت کے باوجود متقدمین نے نہیں کیاہو،توکیاہمیں اس کام کے کرنے پر سوچنانہیں چاہئے۔
جہاں تک کتب تخریج اور زوائد کا تعلق ہے تو پھر شاید اصل اورزوائد کافرق ہی نگاہوں سے اوجھل ہے،ہرفن میں کچھ چیزیں اصل کی حیثیت رکھتی ہیں اورکچھ چیزیں زوائد کی۔اگرایک شخص صحاح ستہ کو معیار بناکر مسند احمد بن حنبل اورایک دودیگر کتابوں سے زائد احادیث کا ایک مجموعہ تیار کرتاہے یاایک شخص سابقہ مصنف کی ذکرکردہ احادیث کی تخریج کرتاہے تواس کو زوائد میںشمار کیاجائے گا یااصل فن ماناجائے گا؟؟؟؟؟؟؟؟فیاللعجب
یہ آپ کی خانہ ساز باتیں اور وہمی فروق ہیں ، جن کی دوسرے کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ۔ہم یہ بات پہلے ذکر کر چکے ہیں ، کہ تصحیح و تضعیف اور دیگر اعتبارات سے کتب کو اپنے علمی و فنی ذوق کے مطابق مرتب کرنا ، البانی سے صدیوں پہلے یہ کام ہوچکے تھے ۔
صل اورزوائد کی ساری بحثیں بھی ازقبیل زوائد ہی ہیں، اصل بحث یہ ہے کہ کیاالبانی میں اس عظیم کام کو انجام دینے کی مطلوبہ لیاقت تھی۔میری مراد یہ قطعانہیں ہے کہ کسی خاص سندکوضعیف اورکمزور قراردیاجائے، اتنی مطلوبہ لیاقت توالبانی میں تھی ،کسی حدیث پر کلی اورعمومی حکم کہ فلاں حدیث ضعیف ہے یافلاں حدیث صحیح ہے ،اس کی لیاقت میں صرف ہمیں نہیں علماء کی ایک معتدبہ تعداد کو شبہ ہے۔
وماتوفیقی الاباللہ
البانی میں لیاقت تھی ، صلاحیت تھی ، اور کئی معاصر اہل علم نے ان کے ان علمی کاموں کا اعتراف بھی کیا اور ان پر اعتماد بھی کر رہے ہیں ۔ رغم أنوف الحاقدین ۔
یہ البانی کی تنقید پر لکھی گئی کچھ کتابیں ہیں،مطالعہ میں رکھیں۔انشاء اللہ افاقہ ہوگا،اوریہ بھی واضح ہوجائے گاکہ ان پر تنقید کرنے والوں کو تین زمرے میں تقسیم کرنا غلط تھایاصحیح تھا۔
البانی کو فرشتہ ہم نے کبھی نہیں سمجھا تھا ، غلطیاں علماء سے ہو جاتی ہیں ، اور علماء کے ایک دوسرے پرردود و تعقبات علمی فائدہ سے خالی نہیں ہوتے ، رہے حاسدین و حاقدین تو وہ چاند کی طرف دیکھ کر جو کرسکتے ہیں ، اس سے کب باز رہیں گے ۔ پھر آپ کو البانی کا سب و شتم تو نظر آیا حالانکہ دوسری طرف آپ کی نقل کردہ فہرست میں ایک کثیر تعداد ایسی کتابوں کی ہے جن کا عنوان ہی سب و شتم سے خالی نہیں ۔ کئی کتابیں ایسی ہیں جن کا جواب خود شیخ یا ان کے تلامذہ کی طرف سے آچکا ہے ۔
رہی افاقے کی بات تو اس کی آپ کو ضرورت ہے ۔ کہ چڑھے سورج کے منکر ہورہے ہیں ۔