- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
فعل مضارع میں عموما حال اور مستقبل کا معنی پایا جاتا ہے نیچے اسکے بنانے کا طریقہ کچھ سمجھایا جائے گا اگر سمجھ آ جائے تو درست ہے اور نہ آئے تو بھی خیر ہے البتہ انکا رٹا لگانا دونوں صورتوں میں ضروری ہے سمجھنے سے فائدہ یہ ہو گا کہ کہیں رٹا بھول جاتا ہے تو کچھ نہ کچھ سوچ کر انسان لکھ لیتا ہےپچھلے سبق نمبر 3 (علم الصرف 1) میں ہم نے پوسٹ نمبر 2 میں صیغہ میں فرق کی چار بنیادیں پڑھی تھیں اور انکا اطلاق پھر فعل ماضی پر پڑھا تھا اب ہم نے فعل مضارع پڑھنا ہے پس صیغوں میں تبدیلی کی ان چاروں وجوہات کا اطلاق اب فعل مضارع پر کریں گے
یہ وضاحت اس لئے ہے کیونکہ مضارع میں صیغہ میں ایک تبدیلی اعراب کی علامت کی وجہ سے بھی آتی ہے پس جب ہمیں اعراب کا پتا ہونا ضروری ہے تاکہ اسکی علامت کو سمجھ سکیں اور یاد رکھ سکیںمگر اس سے پہلے ایک بنیادی وضاحت ضروری ہے جو ہم نے پہلے نہیں پڑھی کہ اس کی طرح فعل معرب بھی ہو سکتا ہے اور مبنی بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ سبق نمبر 2 پوسٹ نمبر 4 میں ہم نے پڑھا تھا کہ فعل کی بھی اعراب کے لحاظ سے قسمیں ہوتی ہیں یعنی جس طرح اسم معرب کی آخری حرف کی حالت تبدیل ہوتی ہے اسی طرح فعل معرب میں بھی ایسا ہوتا ہے- البتہ جو اسم یا فعل مبنی ہوتے ہیں ان میں اعراب کی تبدیلی نہیں ہوتی
فعل ماضی چونکہ مبنی تھا پس پچھلے سبق نمبر 3 میں ہم نے اسکے صیضے پڑھتے ہوئے اسکے اعراب کے بارے نہیں پڑھا
مگر فعل مضارع چونکہ معرب ہے پس یہاں ہم صیغے بناتے ہوئے اعراب کی تبدیلی کو بھی ذہن میں رکھیں گے
ان علامتوں کو دیکھ لیں البتہ یہ یاد رکھیں کہ کچھ چیزیں پکی ہوتی ہیں کہ جن ک لئے علامت کی ضرورت نہیں ہوتی مثلا اگر مونث کی علامت نہ ہو تو وہ مذکر ہو گا مذکر کی علامت کی ضرورت نہیں اسی طرح غائب کی اپنی علامت یاء ہے تو سہی مگر یہ لازمی نہیں اگر مخاطب یا متکلم کی علامت نہ ہو تو وہ غائب ہی ہو گااب ہم صیغوں میں فرق کی ان چار وجوہات کو یہاں ایک ایک کر کے کوٹ کرتے ہیں اور انکا اطلاق فعل مضارع پر کرتے ہیں
1-پہلی وجہ کا فعل مضارع پر اطلاق
۱-سب سے پہلے تو ہر زمانے کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے یعنی ماضی کا علیحدہ اور مضارع کا علیحدہ اور امر کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے جیسے اردو اور انگلش میں بھی ماضی حال اور مستقبل کے لئے علیحدہ علامات استعمال کی جاتی ہیں مثلا تھا، ہے، گا، وغیرہ
اوپر بتائی گئی صیضوں میں فرق کی پہلی وجہ کے تحت مضارع کو پہچاننے کے لئے کچھ علامات استعمال ہوتی ہیں جنکو علامت مضارع کہا جاتا ہے وہ علامات چار ہیں یعنی الف، تاء، یاء، نون - انکا مجموعہ اتین کہلاتا ہے یہ علامات جب فعل ماضی کے شروع میں لگا دیں اور تھوڑی سی اور تبدیلی کر لیں تو فعل مضارع بن جاتا ہے
علامات مضارع یعنی اتین میں آنے والے چاروں حروف کا استعمال مندرجہ ذیل چیزوں کے لئے ہو سکتا ہے
الف واحد متکلم کی علامت ہوتی ہے
تاء مخاطب یا مونث کی علامت ہو سکتی ہے
یاء غیب کی علامت ہوتی ہے
نون جمع متکلم کی علامت ہوتی ہے
انکی تفصیل نیچے چارٹ میں اور وضاحت بھی دی گئی ہے2-دسری وجہ کا فعل مضارع پر اطلاق
۲-پھر ہر زمانہ کے اندر جملوں کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے مثلا مثبت، منفی یا Assertive, Negative وغیرہ پس مثبت کے لئے ہمیں علیحدہ صیغہ بنانا ہو گا اور منفی کا علیحدہ صیغہ
فعل ماضی کو ہم نے دو سب زمانوں یعنی ماضی مثبت اور ماضی منفی میں تقسیم کیا تھا مگر یہاں فعل مضارع کو ہم دو سے زیادہ سب زمانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں مثلا مضارع مثبت، منفی، نہی، نفی جہد بلم، نفی تاکید بلن وغیرہ پس یہاں اس دوسری وجہ سے صیغے دو اقسام یعنی صرف مثبت اور منفی کے نہیں ہوں گے بلکہ نہی وغیرہ کے بھی صیغے پڑھیں گے
اسکا اطلاق اسی طرح ہو گا جس طرح ماضی میں ہوتا ہے البتہ وہاں مجہول بناتے وقت عین کلمہ کو کسرہ (زیر) اور پہلوں کو ضمہ (پیش) دیا تھا مگر یہاں اوپر والا قاعدہ لگانا ہے3-تیسری وجہ کا فعل ماضی پر اطلاق
۳-اسکے بعد مثبت یا منفی وغیرہ میں سے ہر ایک کے اندر معروف اور مجہول کے علیحدہ صیغے درکار ہوں گے کیونکہ یہ بھی صیغوں کے اختلاف کی ایک وجہ یا بنیاد ہے جیسے انگلش اور اردو میں بھی Active voice اور Passive voice کے علیحدہ الفاظ ہو تے ہیں
یہ فرق فعل ماضی کی طرح ہی ہوتا ہے پس ہم فعل مضارع میں جب اوپر دوسری والی قسمیں (مثبت، منفی، نہی وغیرہ) پڑھ رہے ہوں گے تو ہر ایک کے اندر معروف اور مجہول کو اسی طرح پڑھیں گے جس طرح ماضی میں پڑھا تھا
پس اب ہمارے پاس مضارع مثبت کے دو سب زمانے (معروف اور مجہول) ہوں گے اسی طرح مضارع منفی کے بھی دو سب زمانے اور اسی طرح مضارع نہی کے وغیرہ وغیرہ
البتہ مضارع میں مجہول بنانے کا طریقہ ماضی سے تھوڑا سا مختلف ہے یہاں علامت مضارع کو ضمہ (پیش) دیتے ہیں اور آخر سے پہلے حرف کو فتحہ (زبر) دیتے ہیں
4-چوتھی وجہ کا فعل ماضی پر اطلاق
۴- اسکے بعد ہر معروف یا مجہول کے اندر اپنے چودہ صیغے ہو سکتے ہیں انکے اختلاف کی بنیاد یا وجہ ایک ہی ہوتی ہے یعنی فاعل کی ضمیر کا اختلاف
یہ صیغوں کا اختلاف اسی طرح ہو گا جس طرح ماضی میں ہوا تھا البتہ تھوڑی سی تبدیلی آئے گی بڑی تبدیلیاں دو قسم کی ہوں گی
a-کیونکہ یہاں شروع میں اتین میں سے کوئی حرف آ چکا ہو گا جس کے بارے اوپر پڑھ چکے ہیں کہ ہم انکو مخاطب اور غائب اور مونث اور متکلم وغیرہ کی علامات کے لئے استعمال کر سکتے ہیں پس یہاں ماضی والی مخاطب کی ضمیریں یعنی تائے مخاطبہ اور مونث کی ضمیر تائے ساکنہ اور متکلم کی ضمیروں کی علامات استعمال نہیں ہوں گی بلکہ یہ کام اتین سے لیا جائے گا
یعنی اتین میں تاء سے مخاطب یا مونث کا کام لیا جائے گا اور الف اور نون سے متکلم کی تُ اور نا کا کام لیا جائے گا وغیرہ
فعل کے چودہ صیغوں میں سے دو صیغے مبنی ہوتے ہیں انکا اعراب کا معاملہ نہیں ہوتا باقی 12 میں ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ جہاں آخر پر حرکت نہیں آ سکتی وہاں اعراب کی رفعہ علامت کے لئے نون لگائیں گے پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ تثنیہ والے صیغوں میں یہ نون تثنیہ کی مناسبت سے مکسور ہو گا اور جمع والے صیغوں میں یہ جمع سالم کی مناسبت سے مفتوح ہو گاb-اوپر یہ بھی پڑھا ہے کہ فعل مضارع معرب ہوتا ہے اور معرب کی آخری حالت بدلتی ہے جیسے اسم معرب میں آخر پر پیش اور زبر اور زیر آتے ہیں (البتہ مضآرع میں دو صیغے مبنی ہوتے ہیں یعنی جمع مونث غائب اور جمع مونث حاضر)
لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ کچھ فعل مضارع ایسے ہوں گے کہ جو ہوں گے تو معرب یعنی انکی آخر کی حالت کو تبدیل ہونا چاہیے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہم اسکو تبدیل نہ کر سکتے ہوں گے پس وہاں پھر ہم اعراب زبر زیر کی بجائے کسی اور طریقے سے ظاہر کریں گے
مثلا ضِرِبِ فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے اسکا مضارع بنانے کے لئے شروع میں اتین میں سے یاء لگاتے ہیں تو یَضرِبُ بن جاتا ہے جو رفعی حالت ہے اسکی نصبی حالت یَضرِبَ ہو گی
اسی طرح ضَرَبَا فعل ماضی کا دوسرا صیغہ ہے اسکے شروع میں یاء لگا کر اسکو جب مضآرع بناتے ہیں تو یہ یَضرِبا بن جاتا ہے مگر یہاں آخر پر الف ساکن ہے جس سے اسکے رفی یا نصبی وغیرہ حالت کا پتا نہیں چل سکتا لیکن یہاں اعراب کو ظاہر کرنا بھی لازمی ہے پس ہم یہاں آخر میں ایک اعراب کی علامت لگاتے ہیں جس کو نون اعرابی کہتے ہیں پس جب نون ساتھ لگا ہو گا تو وہ رفعی حالت میں ہو گا اور جب نون نہیں لگا ہو گا تو وہ نصبی حالت میں ہو گا پس رفعی حالت میں وہ یِضرِبانِ اور نصبی حالت میں وہ صرف یضرِبا بن جائے گا