• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدریس سبق نمبر 5 (علم النحو 1)

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
الحمداللہ سب کو سمجھ آئی اور الحمدللہ مجھے بھی سمجھ آ گئی۔
جزاک اللہ خیرا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جملہ انشائیہ میں ندا اور دعا ایک ہی قسم نہیں ھیں؟؟؟
جزاک اللہ بہنا
ایک تو تمام ساتھیوں سے معذرت کہ روزوں میں مصروفیات زیادہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی سرسری سا چکر فورم پر لگتا ہے پس روزوں کے بعد تفصیل سے انشاءاللہ باتیں ہوں گی
دوسرا اوپر سوال کی صحیح وضاحت تو جملہ انشائیہ کی تفصیل پڑھ کر ہو سکتی ہے البتہ کچھ لکھ دیتا ہوں
دعا یدعو کا لغوی معنی پکارنا ہے نداء میں بھی کسی کو پکارا جاتا ہے اور اصطلاحی دعا میں بھی یہی پکارنے کا کام کیا جاتا ہے البتہ نداء میں پکارنا اس لئے ہوتا ہے کہ اسکو متوجہ کیا جا سکے اور دعا میں قبولیت کی استطاعت سمجھتے ہوئے طلب کرنے کے مقصد سے پکارا جاتا ہے واللہ اعلم
اسلوب نداء
اس میں کچھ مخصوص حروف نداء کے ساتھ پکارا جاتاہے اگرچہ کبھی وہ محذوف بھی ہو سکتے ہیں
اسلوب دعا
اس میں مختلف اسلوب آ سکتے ہیں مثلا امر کا صیغہ (جب چھوٹے سے بڑے کو ہو تو دعا کہلائے گا اگر بڑے سے چھوٹے کو ہو تو امر کہلائے گا) اس امر کے صیغے سے پہلے نداء ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی جب نداء ہو گی تو یہ امر کا صیغہ جواب نداء ہو گا اسی طرح ماضی کا صیغہ بھی اسلوب دعا میں آتا ہے
تفصیل آگے انشاءاللہ
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
اسلوب دعا میں آپنے لکھا ہے کہ ۔ امر کا صیغہ جب چھوٹے سے بڑے کیطرف ہو تو دعا کہلاے گاآ پ اگر مثال بھی دیتے تو سمجھ میں آسانی سے آجاتی۔ اگر چھوٹابچہ اپنے باپ سے کہتا ہے ۔ اعطنی روبیتین۔ مجھے دو روپیے دیدیجیے۔ تو کیا یہ دعا ہے۔ھرگز نہیں بلکہ اسمیں طلب کا معنی پایا جاتاہے۔ اسی طرح اپنے کہا ہے کہ ۔امر کے صیغے سے پہلے ندا ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔۔ اپکو معلوم ہونا چاہیے کہ حرف ندا اسم پر داخل ہوتا ہے نہ کہ فعل پر۔ جیسے۔ یا رب استغفرک۔ اے میرے رب میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔پہر ندا کا جواب نہیں ہوتا ہے۔ جواب شرط کا ہوتا ہے غیرشرط کا نہیں ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسلوب دعا میں آپنے لکھا ہے کہ ۔ امر کا صیغہ جب چھوٹے سے بڑے کیطرف ہو تو دعا کہلاے گاآ پ اگر مثال بھی دیتے تو سمجھ میں آسانی سے آجاتی۔ اگر چھوٹابچہ اپنے باپ سے کہتا ہے ۔ اعطنی روبیتین۔ مجھے دو روپیے دیدیجیے۔ تو کیا یہ دعا ہے۔ھرگز نہیں بلکہ اسمیں طلب کا معنی پایا جاتاہے۔
جزاک اللہ محترم بھائی کل کفی عرصہ بعد فورم پر آیا تو اب باری باری پوسٹیں پڑھ کر جواب دے رہا ہوں
محترم بھائی میں راسخ العلم عالم نہیں ہوں پس آپ جیسے لوگ یا محترم انس بھائی یا گرائمر کے ماہر محترم اشماریہ بھائی جیسے لوگ ہی میری اصلاح کر سکتے ہیں
اصل میں اوپر معاملہ میں میری نظر میں دعا اور طلب ایک ہی چیز ہے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے کیونکہ طلب میں حکم بھی آ جاتا ہے اور دعائیہ التجا بھی آ جاتی ہے یعنی بڑا چھوٹے سے طلب کرے تو وہ طلب حکمیہ ہو گی اور اسکے الٹ ہو تو وہ طلب التجائیہ یا دعائیہ ہو گی واللہ اعلم ویسے آپ جیسا سمجھنا چاہتے ہیں یا سمجھانا چاہتے ہیں اس طرح ہی استوڈنٹس کو سمجھا دیں واللہ میرے طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ خوشی ہو گی


اسی طرح اپنے کہا ہے کہ ۔امر کے صیغے سے پہلے ندا ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔۔ اپکو معلوم ہونا چاہیے کہ حرف ندا اسم پر داخل ہوتا ہے نہ کہ فعل پر۔ جیسے۔ یا رب استغفرک۔ اے میرے رب میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔پہر ندا کا جواب نہیں ہوتا ہے۔ جواب شرط کا ہوتا ہے غیرشرط کا نہیں ۔
محترم بھائی یہاں شاید حرف ندا اور خآلی ندا میں فرق اوجھل ہو گیا ہے حرف ندا تو فعل پر داخل نہیں ہوتا مگر ندا سے مراد حرف ندا نہیں بلکہ یہاں بریصغیر کی بدعتی یا غیر بدعتی طریقہ ترکیب کے مطابق جملہ شرطیہ کی طرح جملہ ندائیہ بھی بنایا جاتا ہے جس کا پہلا جز پورا جملہ ہوتا ہے جو حرف ندا پر اور منادٰی پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ پورا جملہ ندا کہلاتا ہے ور اسکے بعد جو ہوتا ہے وہ جملہ جواب ندا کہلاتا ہے اور یار لوگ اسکو ملا کر کہتے ہیں ندا اور جواب ندا ملکر جملہ ندائیہ وغیرہ
جس پس منظر میں سوال پوچھا گیا تھا اس حوالے سے اس طرح بتایا تھا آپ نے اصلاح کر دی اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
میرے بھایی دعا اور طلب میں فرق ہے دعا صرف اللہ سے کیجاتی ہے اس میں عرض اور التجا ہوتی ہے ۔لیکن طلب میں صرف طلب کا معنی پایا جاتا ہے چاہے چھوٹا بڑے سے طلب کرے یا بڑا چھوٹے سے۔یہ نحوی قاعدہ ہے ۔اب اس میں اگر کویی عقلی گھوڑا دوڑاتاہے تو وہ بھٹک جاتا ہے اسی طرح لوگوں نے قرآن و حدیث میں عقلی گھوڑے دوڑانے کیوجہ سے گمراہی کو اختیار کرلیاہے ۔۔ اسیطرح ندا اور حرف ندا میں کویی فرق نہیں ہے جب تک حرف ندا نہ ہو ندا ہو ہی نہیں سکتا چاہے حرف ندا ظاہر ہوجیسے یارب استغفرک ۔یا حرف ندا پوشیدہ ہو جیسے ۔ربنا آتنا فی الدنیاحسنۃ۔وغیرہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میرے بھایی دعا اور طلب میں فرق ہے دعا صرف اللہ سے کیجاتی ہے اس میں عرض اور التجا ہوتی ہے ۔لیکن طلب میں صرف طلب کا معنی پایا جاتا ہے چاہے چھوٹا بڑے سے طلب کرے یا بڑا چھوٹے سے۔یہ نحوی قاعدہ ہے ۔اب اس میں اگر کویی عقلی گھوڑا دوڑاتاہے تو وہ بھٹک جاتا ہے اسی طرح لوگوں نے قرآن و حدیث میں عقلی گھوڑے دوڑانے کیوجہ سے گمراہی کو اختیار کرلیاہے
جزاک اللہ محترم بھائی آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا مجھ سے غلطی ہو گئی تھی کیونکہ میں شاید عالم تو ہوں مگر آپ کی طرح راسخ العلم نہ ہوں اصل میں نے جہاں سے پڑھا تھا وہاں ایسا ہی لکھا ہوتا تھا تو میں نے اسی طرح غلط سیکھ لیا اور غلط راستے پر چلا گیا مثلا ملتقی اہل حدیث کے لنک پر لکھا ہے
الدرس العاشر


الجوازم

يجزمُ المضارعُ إذا وقع جوابًا لطلب، أو بعد أداة تجزم فعلًا واحدًا، أو فعلين، والتفصيل فيما يلي:
أولا: إذا وقع جوابًا لطلب. وقد تقدمت أنواعه: كالأمر، والنهي، والدعاء، والاستفهام...


اللہ آپ کو میری اصلاح کرنے پر خوش رکھے

اسیطرح ندا اور حرف ندا میں کویی فرق نہیں ہے جب تک حرف ندا نہ ہو ندا ہو ہی نہیں سکتا چاہے حرف ندا ظاہر ہوجیسے یارب استغفرک ۔یا حرف ندا پوشیدہ ہو جیسے ۔ربنا آتنا فی الدنیاحسنۃ۔وغیرہ
یہاں بھی محترم بھائی میرے غلط چیزیں پڑھنے کی وجہ سے میں گمراہ ہو گیا اصل میں میں نے ہدایۃ النحو میں شاید کہیں پڑھا تھا کہ انہوں نے حرف نداء اور نداء کو علیحدہ علیحدہ لکھا تھا میں ہدایۃ النحو کا وہ حصہ لکھ کر اسکے آخری حصے کا ترجمہ جو اس کتاب میں کیا ہے وہ یہاں لکھ دیتا ہوں

فعلم ان الکلام لا یحصل الا من اسمین نحو زید قائم ویسمی جملۃاسمیۃ او من فعل و اسم نحو قام زید و یسمی جملۃ فعلیۃ اذ لا ہوجد المسند و المسند الیہ معا فی غیرھما ولا بد للکلام منھا
فان قیل قد نقض بالنداء نحو یا زید قلنا حرف النداء (یا) قائم مقام ادعو واطلب فلا نقض

پس اگر یہ کہا جائے کہ نداء (یعنی حرف ندا+منادی=پورا جملہ) میں یہ اصول ٹوٹ جاتا ہے تو ہم کہیں گے کہ حرف نداء(یا) ادعو فعل کے قائم مقام ہے پس وہ اصول نہیں ٹوٹتا

آپ کی توجہ دلانے پر میں نے اپنی درستگی کر لی ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
،(فعلم ان الکلام لایحصل)سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کلام جسے جملہ بھی کہا جاتا ہے کم سے کم دو کلموں سے بنتا ہے اس سے کم سے نہیں ۔ اب وہ دونوں کلمے یا تو اسم ہونگے جیسے۔زید قایم۔یہ کلام ہے اس سے بات پوری ہوجاتی ہے کہ زید کھڑاہے اور یہ دونوں اسم ہیں یا ایک اسم ہو اور ایک فعل جیسے ذھب الاستاذ یعنی استاذ چلاگیااسسے بات پوری سمجھ میں آگیی کہ استاذ موجود نہیں ہیں بلکہ چلے گیے اس جملہ میں ایک فعل ہے اور ایک اسم۔ اس سے کم میں جملہ نہیں بنتا۔ اب اگر کویی اعتراض کرے اور کہے کہ جناب آپ تو کہتے ہیں کہ دو سے کم کلمہ سے جملہ نہیں بنتاتو۔ یا زید ۔ تو جملہ ہے اور دوسے کم ہے یہاں کیا ہوگا تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ۔ یازید۔بظاہر ایک لگ رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ دو کلمے ہیں حرف ۔یا۔ ادعو یا اطلب کے معنی میں ہے کیونکہ اسکے معنی ہیں ۔میں زید کو بلاتاہوں یا میں زیدکو طلب کرتاہوں۔ تو جب ۔یا۔ حرف ندا ۔ادعو۔یا۔اطلب کے معنی مین ہے تو دو کلمے ہوگیے ایک ادعو یا اطلب دوسرا زید۔ اور یہ جملہ فعلیہ ہوگیا ۔۔ فافھم جیدا ۔وجزاک اللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب اگر کویی اعتراض کرے اور کہے کہ جناب آپ تو کہتے ہیں کہ دو سے کم کلمہ سے جملہ نہیں بنتاتو۔ یا زید ۔ تو جملہ ہے اور دوسے کم ہے یہاں کیا ہوگا تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ۔ یازید۔بظاہر ایک لگ رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ دو کلمے ہیں حرف ۔یا۔ ادعو یا اطلب کے معنی میں ہے کیونکہ اسکے معنی ہیں ۔میں زید کو بلاتاہوں یا میں زیدکو طلب کرتاہوں۔ تو جب ۔یا۔ حرف ندا ۔ادعو۔یا۔اطلب کے معنی مین ہے تو دو کلمے ہوگیے ایک ادعو یا اطلب دوسرا زید۔ اور یہ جملہ فعلیہ ہوگیا ۔۔ فافھم جیدا ۔وجزاک اللہ
جزاک اللہ محترم بھائی آپ نے درست تشریح کی ہے
اسکے علاوہ ایک اور بات بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اعتراض دو سے کم کلموں پر نہیں تھا کیونکہ حرف بھی کلمہ ہی ہے اور یا زید میں دو کلمے موجود ہیں اعتراض یہ تھا کہ اصول یہ بیان کیا گیا تھا کہ دو اسم مل کر یا ایک اسم اور ایک فعل ملکر جملہ بنیں گے یعنی مسند اور مسند الیہ اکٹھے موجود ہوں گے لیکن حرف نہ مسند ہوتا ہے نہ مسند الیہ پس نداء یعنی یا زید میں چونکہ ایک حرف ہے اور ایک اسم ہے پس اگرچہ دو کلمے تو موجود ہیں مگر اذا لا یوجد المسند والمسند الیہ معا فی غیرھما------ والے اصول کے ٹوٹنے کا اعتراض تھا وللہ اعلم
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
ایک بات کی وضاحت کردوں حالانکہ یہ بات آپکے ذھن میں بھی ہوگی کہ سب حروف یکساں نہیں ہوتے بلکہ حرف حرف میں فرق ہوتا ہے مثلا ۔من ۔الی۔ عن۔وغیرہ یہ بھی حرف ہیں اور ۔ یا ۔ بھی حرف ہے اب دونوں میں فرق یہ ہے کہ ۔من ۔الی۔عن یا دوسرے حروف جرانکا اپنا معنی ہے جو بغیردوسرے کلمہ کے ساتھ ملاے انکا معنی سمجھ میں نہیں آتا۔اسکے برعکس حرف نداجیسے یا یہ بھی حرف ہے لیکن یہ قایم مقام ادعو یا اطلب کے ہے گویا ادعو یا اطلب کہنے کے بجاے مختصر میں یا کہدیا اور معنی ادعو یا اطلب کا ہوگیا۔ھذا ما فھمت واللہ اعلم بالصواب۔
 
Top