- شمولیت
- فروری 21، 2012
- پیغامات
- 1,280
- ری ایکشن اسکور
- 3,232
- پوائنٹ
- 396
الحمداللہ سب کو سمجھ آئی اور الحمدللہ مجھے بھی سمجھ آ گئی۔
جزاک اللہ خیرا
جزاک اللہ خیرا
جزاک اللہ بہناجملہ انشائیہ میں ندا اور دعا ایک ہی قسم نہیں ھیں؟؟؟
جزاک اللہ محترم بھائی کل کفی عرصہ بعد فورم پر آیا تو اب باری باری پوسٹیں پڑھ کر جواب دے رہا ہوںاسلوب دعا میں آپنے لکھا ہے کہ ۔ امر کا صیغہ جب چھوٹے سے بڑے کیطرف ہو تو دعا کہلاے گاآ پ اگر مثال بھی دیتے تو سمجھ میں آسانی سے آجاتی۔ اگر چھوٹابچہ اپنے باپ سے کہتا ہے ۔ اعطنی روبیتین۔ مجھے دو روپیے دیدیجیے۔ تو کیا یہ دعا ہے۔ھرگز نہیں بلکہ اسمیں طلب کا معنی پایا جاتاہے۔
محترم بھائی یہاں شاید حرف ندا اور خآلی ندا میں فرق اوجھل ہو گیا ہے حرف ندا تو فعل پر داخل نہیں ہوتا مگر ندا سے مراد حرف ندا نہیں بلکہ یہاں بریصغیر کی بدعتی یا غیر بدعتی طریقہ ترکیب کے مطابق جملہ شرطیہ کی طرح جملہ ندائیہ بھی بنایا جاتا ہے جس کا پہلا جز پورا جملہ ہوتا ہے جو حرف ندا پر اور منادٰی پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ پورا جملہ ندا کہلاتا ہے ور اسکے بعد جو ہوتا ہے وہ جملہ جواب ندا کہلاتا ہے اور یار لوگ اسکو ملا کر کہتے ہیں ندا اور جواب ندا ملکر جملہ ندائیہ وغیرہاسی طرح اپنے کہا ہے کہ ۔امر کے صیغے سے پہلے ندا ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔۔ اپکو معلوم ہونا چاہیے کہ حرف ندا اسم پر داخل ہوتا ہے نہ کہ فعل پر۔ جیسے۔ یا رب استغفرک۔ اے میرے رب میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔پہر ندا کا جواب نہیں ہوتا ہے۔ جواب شرط کا ہوتا ہے غیرشرط کا نہیں ۔
جزاک اللہ محترم بھائی آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا مجھ سے غلطی ہو گئی تھی کیونکہ میں شاید عالم تو ہوں مگر آپ کی طرح راسخ العلم نہ ہوں اصل میں نے جہاں سے پڑھا تھا وہاں ایسا ہی لکھا ہوتا تھا تو میں نے اسی طرح غلط سیکھ لیا اور غلط راستے پر چلا گیا مثلا ملتقی اہل حدیث کے لنک پر لکھا ہےمیرے بھایی دعا اور طلب میں فرق ہے دعا صرف اللہ سے کیجاتی ہے اس میں عرض اور التجا ہوتی ہے ۔لیکن طلب میں صرف طلب کا معنی پایا جاتا ہے چاہے چھوٹا بڑے سے طلب کرے یا بڑا چھوٹے سے۔یہ نحوی قاعدہ ہے ۔اب اس میں اگر کویی عقلی گھوڑا دوڑاتاہے تو وہ بھٹک جاتا ہے اسی طرح لوگوں نے قرآن و حدیث میں عقلی گھوڑے دوڑانے کیوجہ سے گمراہی کو اختیار کرلیاہے
یہاں بھی محترم بھائی میرے غلط چیزیں پڑھنے کی وجہ سے میں گمراہ ہو گیا اصل میں میں نے ہدایۃ النحو میں شاید کہیں پڑھا تھا کہ انہوں نے حرف نداء اور نداء کو علیحدہ علیحدہ لکھا تھا میں ہدایۃ النحو کا وہ حصہ لکھ کر اسکے آخری حصے کا ترجمہ جو اس کتاب میں کیا ہے وہ یہاں لکھ دیتا ہوںاسیطرح ندا اور حرف ندا میں کویی فرق نہیں ہے جب تک حرف ندا نہ ہو ندا ہو ہی نہیں سکتا چاہے حرف ندا ظاہر ہوجیسے یارب استغفرک ۔یا حرف ندا پوشیدہ ہو جیسے ۔ربنا آتنا فی الدنیاحسنۃ۔وغیرہ
جزاک اللہ محترم بھائی آپ نے درست تشریح کی ہےاب اگر کویی اعتراض کرے اور کہے کہ جناب آپ تو کہتے ہیں کہ دو سے کم کلمہ سے جملہ نہیں بنتاتو۔ یا زید ۔ تو جملہ ہے اور دوسے کم ہے یہاں کیا ہوگا تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ۔ یازید۔بظاہر ایک لگ رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ دو کلمے ہیں حرف ۔یا۔ ادعو یا اطلب کے معنی میں ہے کیونکہ اسکے معنی ہیں ۔میں زید کو بلاتاہوں یا میں زیدکو طلب کرتاہوں۔ تو جب ۔یا۔ حرف ندا ۔ادعو۔یا۔اطلب کے معنی مین ہے تو دو کلمے ہوگیے ایک ادعو یا اطلب دوسرا زید۔ اور یہ جملہ فعلیہ ہوگیا ۔۔ فافھم جیدا ۔وجزاک اللہ