- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بروز منگل ،بتاریخ 19 ربیع الثانی 1438 ، بمطابق 17 جنوری 2017ء
مسجد نبوی سے جو راستہ جبل احد کو آتا جاتا ہے ، اس کا نام ’ سید الشہداء روڈ ‘ ہے ۔
اس روڈ پر دونوں طرف بہت زیادہ ہوٹلز ( مطاعم ) ہیں ۔ انہیں میں سے ایک ’ فوڈ ماسٹر ‘ ہے ۔
اس وقت جس ’ مدنی محفل ‘ کے متعلق آپ پڑھ رہے ہیں ، وہ یہیں انعقاد پذیر ہوئی ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ( پاکستان ) کے ’ امیر ‘ محترم ساجد میر صاحب اپنے کئی رفقاء کے ساتھ سعودی عرب تشریف لائے ہوئے تھے ، مدینہ آنا ہوا ، بعض احباب کی کوششوں سے جامعہ اسلامیہ کے کچھ پاکستانی طلبہ کے ساتھ مجلس طے ہوئی ۔
وقت عشاء کے بعد کا تھا ، مرکزی جمعیت ضلع رحیم یار خان کے ناظم شیخ اسلم حنیف صاحب بھی ان دنوں مدینہ میں تھے ، عشاء کے بعد انہیں مسجد نبوی سے لیکر جائے مجلس پہنچنا میری ذمہ داری تھی ۔
شیخ اسلم حنیف صاحب جامعہ اسلامیہ کے سے فاضل ہیں ، جونہی ان سے ملاقات ہوئی ، میرے ذہن میں چار سال پہلے کا ایک واقعہ تازہ ہوگیا ، جب شیخ کلیۃ حدیث میں تشریف لائے اور ہماری ان سے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی ۔ شیخ آج سے تیس سال پہلے 1407 میں کلیۃ الحدیث سے متخرج ہوئے تھے ۔
استاذ القراء قاری ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ بھی ان دنوں جامعہ میں زیر تعلیم تھے ، اور جمعیت طلبہ سلفیہ کے امیرتھے ۔
ہوٹل پہنچے ، سب سے پہلے تو نہیں ، لیکن اندازہ ہوا کہ بہت سارے لوگوں سے ہم پہلے پہنچ چکے ہیں ، کرسیاں اور ٹیبلز ایک مخصوص انداز میں ترتیب دیے گئے تھے ۔ میں کوشش کرکے ابتدا میں ہی بیٹھ گیا ، لیکن احتیاطا اتنی نشستیں چھوڑ دیں کہ بعد میں آنے والی کسی بڑی یا چھوٹی شخصیت کی وجہ سے اٹھنا نہ پڑے ۔
تھوڑی ہی دیر بعد محترم میر صاحب بمع رفقا تشریف لے آئے ، جن میں پروفیسر عبد الستار حامد صاحب ، محترم سلمان اعظم صاحب اور مدینہ میں رہائش پذیر ہمارے ایک ساتھی محترم حافظ قاسم صاحب وغیرہ تھے ۔
یہ بات کئی دفعہ سنی تھی کہ ساجد میر صاحب ’ مصافحہ ‘ کرنے میں بہت محتاط واقع ہوئے ہیں ، میں نے نوٹ کیا کہ جب وہ تشریف لائے ، تو تمام حاضرین سے باقاعدہ دھیان کے ساتھ ہاتھ ملایا تاکہ کوئی رہ نہ جائے ۔
حافظ جنید صاحب ( امیر جمعیت طلبہ سلفیہ ) نے مجلس کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے میر صاحب سے گزارش کی کہ وہ اپنے خیالات عالیہ سے نوازیں ۔ اس پر انہوں نے پندرہ بیس منٹ کی ایک علمی و فکری تقریر فرمائی ، جس کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کردیا :
رضیت باللہ ربا و بمحمد رسولا و بالإسلام دینا
محترم ساجد میر صاحب نے عیسائیت پر ایک تفصیلی کتاب تحریر کی ہے ، جو مختلف زبانوں میں ایک عرصے سے شائع ہوچکی ہے ، ان کے اس ’ وقیع علمی بیان ‘ میں ان کا مطالعہ ’ علم ادیان ‘ بالکل نمایاں نظر آرہا تھا ۔
ایک بہت مفید نکتہ انہوں نے بیان کیا ، جسے میں اپنی سمجھ کے مطابق تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا ، اس وقت انکار کرنے والوں میں ایسے ایسے لوگ تھے ، جو اپنے زمانے کے بڑے پڑھے لکھے ، عقلمند اور دانشور تصور کیے جاتے تھے ، زبان و بیان پر ان کی مہارت ضرب المثل سمجھی جاتی تھی ، لیکن یہ سب خوبیاں ان کی اسلام کی طرف ہدایت کا سبب تبھی بن سکیں ، جب اللہ تعالی نے ان پر کرم کیا ۔ بہت سارے اپنی حکمت و دانائی کے سبب ’ ابو الحکم ‘ کہلایا کرتے تھے ، لیکن حالت کفر میں ہی مرے اور آج تک ’ ابو جہل ‘ کے نام سے ذکر کیے جاتے ہیں ۔
گویا ایسی ’ حکمت و دانش ‘ جو ’ حق شناسی ‘ کا سبب نہ بن سکے ، وہ سوائے جہالت کے اور کچھ نہیں ۔
اور حق کیا ہے ؟ یہ صرف عقلی موشگافیوں یا خالی دانشورانہ مزاج سے طے نہیں ہوگا ، بلکہ اس کے لیے ’ دینی بیانیے ‘ کا پابند ہونا پڑے گا ۔
آج لوگوں کا مزاج بن گیا ہے ، جس طرح بچے ’ گلے‘ کو ہلا کر سکے نکال لیا کرتے تھے ، تھوڑی دیر دماغ جھٹک کر ’ نظریات ‘ بنالیتے ہیں ، قرآن ، سنت ، فہم سلف اور چودہ صدیوں کا تسلسل چاہے جو بھی ہو ، اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔
میر صاحب کی تقریر کے اختتام پر حاضرین سے کہا گیا کہ اگر کسی کا کوئی سوال یا استفسار ہے تو پیش کرسکتا ہے ۔
محترم فردوس جمال صاحب نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا کہ آئندہ حالات میں ایک نیا دعوتی محاذ کھل رہا ہے ، یعنی چائنہ کے لوگ یہاں آئیں گے ، اس کے لیے اہل تشِیع بہت سرگرم ہیں ، اور وہ چائنی زبان سیکھنے میں بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں ، ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے ، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے علاقے کے کچھ طالبعلموں کی ضروریات کا ذکر کیا کہ وہ لاہور اس مقصد کے لیے آنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے لیے رہائش وغیرہ سہولیات کی ضرورت ہے ، جس پر ساجد میر صاحب نے تو کچھ نہ کہا ، البتہ پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے اس پر تعاون کی یقین دہائی کروائی ۔
پھر محترم شفقت الرحمن مغل صاحب کھڑے ہوئے ، انہوں نے بھی سی پیک کے حوالے سے ہی ایک ’ دعوتی لائحہ عمل ‘ کا ذکر کیا کہ اس میں ہمیں اپنی دینی و قومی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترویج کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟
اس پر انہوں نے اپنی آراء تحریری شکل میں ساجد میر صاحب تک بھی پہنچادیں ، اور مزید کچھ کاپیاں دیگر لوگوں کو بھی عنایت فرمادیں ۔ ( یہ مکمل تحریر براہ راست شفقت الرحمن مغل (@ابن مبارک ) صاحب سے رابطہ کرکے حاصل کی جا سکتی ہے )
اس کے بعد میں نے گزارش کی کہ : شیخ صاحب ! ہم یہاں جامعہ میں زیر تعلیم ہیں ، ہماری اپنے بزرگوں کے متعلق ایک رائے ہے ، یقینا بزرگ بھی ان طالبعلموں کے متعلق کوئی تاثر رکھتے ہوں گے ؟ ہم آپ کی اپنے متعلق یہ سوچ جاننا چاہتے ہیں ۔
محترم میر صاحب نے جو کچھ فرمایا ، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ : سعودیہ میں کئی لوگ آکر یہاں رائج موقف کے قائل ہوجاتے ہیں ، اور سختی سے اس پر کاربند ہوتے ہیں ۔ اس پر انہوں نے کئی ایک مثالیں بھی ذکر کیں ۔
میر صاحب کے الفاظ یہ تھے کہ : یہاں طالبعلموں میں تشدد آجاتا ہے ۔
تشدد کی جو توجیہ میرے ذہن میں آئی ، وہ اوپر میں نے اپنے الفاظ میں بیان کردی ، شاید اس معنی میں انہوں نے تشدد مراد لیا ہو ۔
ورنہ اگر عام اور معروف معنوں میں تشدد لیا جائے ، تو پھر ان کی رائے کئی ایک علماء کے خلاف ہوگی ، جو کہتے ہیں کہ سعودیہ جاکر کئی ایک اہل حدیث طلبہ تساہل پسند ہوجائے ہیں ، ان کے اندر تمسک بالنصوص والا جذبہ ذرا ماند پڑ جاتا ہے ، کیونکہ یہاں تقلید و اجتہاد والی بحثیں وہ پس منظر نہیں رکھتیں ، جس نظر سے انہیں پاک و ہند میں دیکھا جاتا ہے ۔
محترم میرصاحب نے ابھی اپنی بات مکمل کی ہی تھی کہ پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے میری تصحیح کرتے ہوئے فرمایا : ان کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں ان سے ( یعنی جامعہ اسلامیہ والوں سے ) کیا توقعات وابستہ ہیں ؟
مجھے نہیں یاد کہ محترم میر صاحب نے اس حوالے سے کچھ خاص کہا ہو ۔
البتہ انہوں نے ایک عمومی بات کی تھی کہ بعض طالبعلم اور علماء کرام صرف جماعت سے توقعات وابستہ رکھتے ہیں کہ جماعت ہمارے لیے یہ کرے ، وہ کرے ، یہ کیوں نہ کیا ؟ وہ کیوں نہ کیا ؟ البتہ خود انہوں نے جماعت کے لیے کیا کیا ؟ یا کیا کریں گے ؟ اس طرف وہ توجہ نہیں دیتے ۔
شیخین طالب الرحمن و توصیف الرحمن صاحب کے متعلق بھی انہوں نے مختصرا ذکر کیا کہ جماعت نے ان کے لیے وہاں پاکستان سے بھی خط و کتابت کی تھی ، اور یہاں ریاض میں آکر بھی کئی ایک بڑی شخصیات سے صرف اسی کام کے لیے ملے ہیں ، اور امید ہے کہ بہت جلد غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی ، اور وہ رہا ہو کر واپس آجائیں گے ۔
جماعت نے اب تک کیا کیا ہے ؟
یہ سوال زبان زد عام ہے ، ہر کوئی یہ سوال کرتا ہے ، یہ سوال یہاں اس مجلس میں تو زیر بحث نہیں آیا ، لیکن ایک بات مزید ذہن میں پختہ ہوئی کہ ’ جماعت بہت سارے کام ایسے کرتی ہے ، جن کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاسکتا ‘ ۔
مجلس ختم ہوئی ، جامعہ اسلامیہ کی طرف سے پاکستانی طلبہ کے لیے مقرر کردہ ’ مندوب ‘ محترم وقارچنا صاحب نے ، سندی روایات کے مطابق محترم امیر صاحب کو ایک عدد مخصوص رنگدار کپڑا (اجرک) ہدیہ کرتے ہوئے ، ان کے گلے میں ہار کی طرح ڈال دیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈرائیور ایک بہترین گاڑی لے کر آگیا ، اور امیر صاحب اپنے رفقاء سمیت اس میں سوار ہوگئے ، شیخ اسلم حنیف صاحب کو وہیں موجود دیکھ کر مجھے انداز ہوا کہ وہ ’ پروٹوکول ‘ میں شامل نہیں ، جس کا مطلب تھا کہ ان کو واپس پہنچانے کی سعادت بھی میرے ذمہ ہی ہے ۔
واپسی مسجد بلال کے پاس شیخ کی رہائش تک پہنچتے ہوئے کئی ایک اہم باتیں زیر بحث آئیں ، شیخ نے کھل کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ، ان باتوں کو اس تحریر میں ذکر کرنے کی بجائے ، کبھی کسی مستقل مدنی محفل میں درج کردیا جائے گا ۔ إن شاءاللہ ۔
اس روڈ پر دونوں طرف بہت زیادہ ہوٹلز ( مطاعم ) ہیں ۔ انہیں میں سے ایک ’ فوڈ ماسٹر ‘ ہے ۔
اس وقت جس ’ مدنی محفل ‘ کے متعلق آپ پڑھ رہے ہیں ، وہ یہیں انعقاد پذیر ہوئی ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ( پاکستان ) کے ’ امیر ‘ محترم ساجد میر صاحب اپنے کئی رفقاء کے ساتھ سعودی عرب تشریف لائے ہوئے تھے ، مدینہ آنا ہوا ، بعض احباب کی کوششوں سے جامعہ اسلامیہ کے کچھ پاکستانی طلبہ کے ساتھ مجلس طے ہوئی ۔
وقت عشاء کے بعد کا تھا ، مرکزی جمعیت ضلع رحیم یار خان کے ناظم شیخ اسلم حنیف صاحب بھی ان دنوں مدینہ میں تھے ، عشاء کے بعد انہیں مسجد نبوی سے لیکر جائے مجلس پہنچنا میری ذمہ داری تھی ۔
شیخ اسلم حنیف صاحب جامعہ اسلامیہ کے سے فاضل ہیں ، جونہی ان سے ملاقات ہوئی ، میرے ذہن میں چار سال پہلے کا ایک واقعہ تازہ ہوگیا ، جب شیخ کلیۃ حدیث میں تشریف لائے اور ہماری ان سے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی ۔ شیخ آج سے تیس سال پہلے 1407 میں کلیۃ الحدیث سے متخرج ہوئے تھے ۔
استاذ القراء قاری ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ بھی ان دنوں جامعہ میں زیر تعلیم تھے ، اور جمعیت طلبہ سلفیہ کے امیرتھے ۔
ہوٹل پہنچے ، سب سے پہلے تو نہیں ، لیکن اندازہ ہوا کہ بہت سارے لوگوں سے ہم پہلے پہنچ چکے ہیں ، کرسیاں اور ٹیبلز ایک مخصوص انداز میں ترتیب دیے گئے تھے ۔ میں کوشش کرکے ابتدا میں ہی بیٹھ گیا ، لیکن احتیاطا اتنی نشستیں چھوڑ دیں کہ بعد میں آنے والی کسی بڑی یا چھوٹی شخصیت کی وجہ سے اٹھنا نہ پڑے ۔
تھوڑی ہی دیر بعد محترم میر صاحب بمع رفقا تشریف لے آئے ، جن میں پروفیسر عبد الستار حامد صاحب ، محترم سلمان اعظم صاحب اور مدینہ میں رہائش پذیر ہمارے ایک ساتھی محترم حافظ قاسم صاحب وغیرہ تھے ۔
یہ بات کئی دفعہ سنی تھی کہ ساجد میر صاحب ’ مصافحہ ‘ کرنے میں بہت محتاط واقع ہوئے ہیں ، میں نے نوٹ کیا کہ جب وہ تشریف لائے ، تو تمام حاضرین سے باقاعدہ دھیان کے ساتھ ہاتھ ملایا تاکہ کوئی رہ نہ جائے ۔
حافظ جنید صاحب ( امیر جمعیت طلبہ سلفیہ ) نے مجلس کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے میر صاحب سے گزارش کی کہ وہ اپنے خیالات عالیہ سے نوازیں ۔ اس پر انہوں نے پندرہ بیس منٹ کی ایک علمی و فکری تقریر فرمائی ، جس کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کردیا :
رضیت باللہ ربا و بمحمد رسولا و بالإسلام دینا
محترم ساجد میر صاحب نے عیسائیت پر ایک تفصیلی کتاب تحریر کی ہے ، جو مختلف زبانوں میں ایک عرصے سے شائع ہوچکی ہے ، ان کے اس ’ وقیع علمی بیان ‘ میں ان کا مطالعہ ’ علم ادیان ‘ بالکل نمایاں نظر آرہا تھا ۔
ایک بہت مفید نکتہ انہوں نے بیان کیا ، جسے میں اپنی سمجھ کے مطابق تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا ، اس وقت انکار کرنے والوں میں ایسے ایسے لوگ تھے ، جو اپنے زمانے کے بڑے پڑھے لکھے ، عقلمند اور دانشور تصور کیے جاتے تھے ، زبان و بیان پر ان کی مہارت ضرب المثل سمجھی جاتی تھی ، لیکن یہ سب خوبیاں ان کی اسلام کی طرف ہدایت کا سبب تبھی بن سکیں ، جب اللہ تعالی نے ان پر کرم کیا ۔ بہت سارے اپنی حکمت و دانائی کے سبب ’ ابو الحکم ‘ کہلایا کرتے تھے ، لیکن حالت کفر میں ہی مرے اور آج تک ’ ابو جہل ‘ کے نام سے ذکر کیے جاتے ہیں ۔
گویا ایسی ’ حکمت و دانش ‘ جو ’ حق شناسی ‘ کا سبب نہ بن سکے ، وہ سوائے جہالت کے اور کچھ نہیں ۔
اور حق کیا ہے ؟ یہ صرف عقلی موشگافیوں یا خالی دانشورانہ مزاج سے طے نہیں ہوگا ، بلکہ اس کے لیے ’ دینی بیانیے ‘ کا پابند ہونا پڑے گا ۔
آج لوگوں کا مزاج بن گیا ہے ، جس طرح بچے ’ گلے‘ کو ہلا کر سکے نکال لیا کرتے تھے ، تھوڑی دیر دماغ جھٹک کر ’ نظریات ‘ بنالیتے ہیں ، قرآن ، سنت ، فہم سلف اور چودہ صدیوں کا تسلسل چاہے جو بھی ہو ، اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔
میر صاحب کی تقریر کے اختتام پر حاضرین سے کہا گیا کہ اگر کسی کا کوئی سوال یا استفسار ہے تو پیش کرسکتا ہے ۔
محترم فردوس جمال صاحب نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا کہ آئندہ حالات میں ایک نیا دعوتی محاذ کھل رہا ہے ، یعنی چائنہ کے لوگ یہاں آئیں گے ، اس کے لیے اہل تشِیع بہت سرگرم ہیں ، اور وہ چائنی زبان سیکھنے میں بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں ، ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے ، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے علاقے کے کچھ طالبعلموں کی ضروریات کا ذکر کیا کہ وہ لاہور اس مقصد کے لیے آنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے لیے رہائش وغیرہ سہولیات کی ضرورت ہے ، جس پر ساجد میر صاحب نے تو کچھ نہ کہا ، البتہ پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے اس پر تعاون کی یقین دہائی کروائی ۔
پھر محترم شفقت الرحمن مغل صاحب کھڑے ہوئے ، انہوں نے بھی سی پیک کے حوالے سے ہی ایک ’ دعوتی لائحہ عمل ‘ کا ذکر کیا کہ اس میں ہمیں اپنی دینی و قومی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترویج کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟
اس پر انہوں نے اپنی آراء تحریری شکل میں ساجد میر صاحب تک بھی پہنچادیں ، اور مزید کچھ کاپیاں دیگر لوگوں کو بھی عنایت فرمادیں ۔ ( یہ مکمل تحریر براہ راست شفقت الرحمن مغل (@ابن مبارک ) صاحب سے رابطہ کرکے حاصل کی جا سکتی ہے )
اس کے بعد میں نے گزارش کی کہ : شیخ صاحب ! ہم یہاں جامعہ میں زیر تعلیم ہیں ، ہماری اپنے بزرگوں کے متعلق ایک رائے ہے ، یقینا بزرگ بھی ان طالبعلموں کے متعلق کوئی تاثر رکھتے ہوں گے ؟ ہم آپ کی اپنے متعلق یہ سوچ جاننا چاہتے ہیں ۔
محترم میر صاحب نے جو کچھ فرمایا ، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ : سعودیہ میں کئی لوگ آکر یہاں رائج موقف کے قائل ہوجاتے ہیں ، اور سختی سے اس پر کاربند ہوتے ہیں ۔ اس پر انہوں نے کئی ایک مثالیں بھی ذکر کیں ۔
میر صاحب کے الفاظ یہ تھے کہ : یہاں طالبعلموں میں تشدد آجاتا ہے ۔
تشدد کی جو توجیہ میرے ذہن میں آئی ، وہ اوپر میں نے اپنے الفاظ میں بیان کردی ، شاید اس معنی میں انہوں نے تشدد مراد لیا ہو ۔
ورنہ اگر عام اور معروف معنوں میں تشدد لیا جائے ، تو پھر ان کی رائے کئی ایک علماء کے خلاف ہوگی ، جو کہتے ہیں کہ سعودیہ جاکر کئی ایک اہل حدیث طلبہ تساہل پسند ہوجائے ہیں ، ان کے اندر تمسک بالنصوص والا جذبہ ذرا ماند پڑ جاتا ہے ، کیونکہ یہاں تقلید و اجتہاد والی بحثیں وہ پس منظر نہیں رکھتیں ، جس نظر سے انہیں پاک و ہند میں دیکھا جاتا ہے ۔
محترم میرصاحب نے ابھی اپنی بات مکمل کی ہی تھی کہ پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے میری تصحیح کرتے ہوئے فرمایا : ان کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں ان سے ( یعنی جامعہ اسلامیہ والوں سے ) کیا توقعات وابستہ ہیں ؟
مجھے نہیں یاد کہ محترم میر صاحب نے اس حوالے سے کچھ خاص کہا ہو ۔
البتہ انہوں نے ایک عمومی بات کی تھی کہ بعض طالبعلم اور علماء کرام صرف جماعت سے توقعات وابستہ رکھتے ہیں کہ جماعت ہمارے لیے یہ کرے ، وہ کرے ، یہ کیوں نہ کیا ؟ وہ کیوں نہ کیا ؟ البتہ خود انہوں نے جماعت کے لیے کیا کیا ؟ یا کیا کریں گے ؟ اس طرف وہ توجہ نہیں دیتے ۔
شیخین طالب الرحمن و توصیف الرحمن صاحب کے متعلق بھی انہوں نے مختصرا ذکر کیا کہ جماعت نے ان کے لیے وہاں پاکستان سے بھی خط و کتابت کی تھی ، اور یہاں ریاض میں آکر بھی کئی ایک بڑی شخصیات سے صرف اسی کام کے لیے ملے ہیں ، اور امید ہے کہ بہت جلد غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی ، اور وہ رہا ہو کر واپس آجائیں گے ۔
جماعت نے اب تک کیا کیا ہے ؟
یہ سوال زبان زد عام ہے ، ہر کوئی یہ سوال کرتا ہے ، یہ سوال یہاں اس مجلس میں تو زیر بحث نہیں آیا ، لیکن ایک بات مزید ذہن میں پختہ ہوئی کہ ’ جماعت بہت سارے کام ایسے کرتی ہے ، جن کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاسکتا ‘ ۔
مجلس ختم ہوئی ، جامعہ اسلامیہ کی طرف سے پاکستانی طلبہ کے لیے مقرر کردہ ’ مندوب ‘ محترم وقارچنا صاحب نے ، سندی روایات کے مطابق محترم امیر صاحب کو ایک عدد مخصوص رنگدار کپڑا (اجرک) ہدیہ کرتے ہوئے ، ان کے گلے میں ہار کی طرح ڈال دیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈرائیور ایک بہترین گاڑی لے کر آگیا ، اور امیر صاحب اپنے رفقاء سمیت اس میں سوار ہوگئے ، شیخ اسلم حنیف صاحب کو وہیں موجود دیکھ کر مجھے انداز ہوا کہ وہ ’ پروٹوکول ‘ میں شامل نہیں ، جس کا مطلب تھا کہ ان کو واپس پہنچانے کی سعادت بھی میرے ذمہ ہی ہے ۔
واپسی مسجد بلال کے پاس شیخ کی رہائش تک پہنچتے ہوئے کئی ایک اہم باتیں زیر بحث آئیں ، شیخ نے کھل کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ، ان باتوں کو اس تحریر میں ذکر کرنے کی بجائے ، کبھی کسی مستقل مدنی محفل میں درج کردیا جائے گا ۔ إن شاءاللہ ۔