مجھے لگتا ہے ، آپ عزیزیہ سے آئیں گے ، خیر جس طرف سے بھی آئیں ( دوسری طرف سے مراد شاید مسجد نبوی تھی ) دوار السلام ( سلام چوک ) سے دائیں ہاتھ رہیں ، آگے سوق خضار ( سبزی منڈی ) آئے گی ، ایک ٹوٹا پھوٹا پٹرول پمپ آئے گا ، اس کے بعد دائیں ہوجائیں ، پھر فلاں دکان ہوگی ، جس پر یہ لکھا ہوگا ، ایک اور بورڈ آئے گا ، جس کے درمیان میں یہ لکھائی ہوگی ، اور اطراف میں یہ یہ عبارت نقش ہوگی .....
یہ مجھے گھر کا رستہ سمجھار رہے تھے ، محترم جناب عبد الوکیل فہیم صاحب ، سب باتیں تفصیل سے سن کر میں نے واٹساپی قہقہ کے ساتھ سوال کیا: بازار بہت تفصیلی یاد کیا ہوا ؟ جوابا بھی وہی قہقہ لوٹا دیا گیا ۔
عبد الوکیل فہیم صاحب مرحوم ڈاکٹر عبد الرشید اظہر صاحب کے بھتیجے بھی ہیں ، اور داماد بھی ، جامعہ سلفیہ پڑھتے رہے ، پھر کچھ عرصہ جامعہ رحمانیہ لاہور بھی آئے ، اس کے بعد فیصل آباد مرکز التربیۃ الإسلامیۃ میں زیر تعلیم ہوگئے ، اور وہاں سے ان کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہوگیا ۔
جبہ و دستار میں رہنا ، ان کی شروع سے عادت ہے ، ہم اب جامعہ اسلامیہ آ کر کسی مجبوری کے تحت شماغ (سر پر رکھنے والا سعودی رومال) وغیرہ لگا لیتے ہیں ، لیکن ان کےبارے مجھے یاد ہے ، میں جامعہ رحمانیہ میں حفظ میں پڑھتا تھا ، دوپہر کے وقت لڑکے آرام کرتے ہیں ، اذان ہوئی ، اٹھانے کے لیے اچانک ایک طویل القامت شیخ لال رومال زیبِ سر کیے ہوئے ، اٹھانے آگئے ، میں جاگ ہی رہا تھا ، پہلے تو حیران ہوا ، یہ کون ؟ جب انہوں نے طالبعلموں کو اٹھانا شروع کیا ، تو مجھے لگا ، یہ کوئی نئے استاذ ہیں ، میں نے فورا طالبعلموں کو جگانے اور اٹھانے میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ، بعد میں پتہ چلا ، یہ دو طالبعلم بھائی ہیں ( ۤدوسرے ان کے بھائی عبد الجلیل صاحب ہیں ) ، جو جامعہ سلفیہ سےیہاں آئے ہیں ، البتہ عظیم شخصیت ہیں ، اس لیے اساتذہ کرام کے کمروں میں ہی رہائش پذیر ہیں ۔ اس لیے ’ استادوں میں استاد ‘ یا ’ استادوں کے استاد ‘ نظر آتے ہیں ۔
خیر یہ تو ان سے ہمارا پہلا ( یک طرفہ ) تعارف تھا ، جامعہ اسلامیہ میں آکر کچھ عرصے بعد دو طرفہ ہوگیا ، اور اچھا ہوگیا ۔
واٹس ایپ کی سہولت آنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے ’ جمعیۃ الطلبۃ السلفیۃ ‘ کے نام سے گروپ اس وقت بنایا ، جب ہمیں گروپس کیا ، واٹس ایپ سے ہی کوئی دلچسپی نہیں ہوا کرتی تہی ، آہستہ آہستہ یہ سلسلہ رواں ہوا، اور انہوں نے مجھے بھی ساتھ ایڈمن کا عہدہ عنایت فرمادیا ، جس سے کچھ عرصہ پہلے ، میں نے خود ہی معذرت کر لی ۔
محترم عبد الوکیل بھائی کے حوالے سے بات ذرا تفصیلا اس لیے آگئی ، کہ انہوں نے بروز ہفتہ اپنے گھر میں بعد نماز عشاء ایک دعوت رکھی تھی ، اور ساتھ بتایا کہ اس میں پاکستان سے تشریف لائے ہوئے محترم شیخ عبد المنان راسخ کے علاوہ جامعہ اسلامیہ کے کئی فضلاءِ افاضل بھی شرکت کر رہے ہیں ۔
عزیزیہ سے تقریبا رستے میں ہی جامعہ اسلامیہ پڑتا ہے ، عشاء کی نماز کے بعد وہاں سے امیر جمعیت طلبہ سلفیہ حافظ جنید صاحب کو لیا ، گو رستہ تفصیلا بتادیا گیا تھا ، لیکن پھر بھی احتیاطا گوگل والی باجی سے رہنمائی لینا ہی بہتر سمجھا ، جس نے تقریبا ٹھیک ٹھیک ہی رہنمائی کی ، اور ہم دس پندرہ منٹ میں مطلوبہ مقام پر پہنج گئے ۔
ہم سے پہلے ہی وہاں محترم شفقت الرحمن مغل صاحب ، محترم ارشاد الحسن ابرار صاحب ، اور محترم عبد اللہ عارف جاوید صاحب موجود تھے ۔ کچھ عرصہ بعد شیخ عبد الباسط فہیم صاحب اور شیخ فراز الحق صاحب بھی تشریف لے آئے ، ڈاکٹر عبد الرشید اظہر صاحب کے صاحبزادے محمود اظہر صاحب غالبا پہلے سے ہی وہاں موجود تھے ( گویا وہ میزبان تھے ) ، شیخ عبد المنان راسخ صاحب نے وصال اردو کے بروگرام ’ میرا سوال ‘ میں شرکت کرنی تھی ، وہ ابھی تک نہیں پہنچے تھے ، کچھ وقت گزرنے کے بعد شیخ راسخ ، ان کے ساتھ ان کے شاگرد حبیب الرحمن صاحب اور ہمارے رحمانی دوست عبید الرحمن شفیق صاحب تشریف لے آئے ، شیخ راسخ صاحب سعودی لباس یعنی ثوب اور شماغ میں ، حبیب الرحمن صاحب پاکستانی کپڑوں میں ، جبکہ ہمارے اینکر صاحب پینٹ شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھے ۔
یہاں ایک راز کی بات سن لیں ، جو اس محفل میں شریک بعض بھائیوں کو بھی اس تحریرکے ذریعے معلوم ہوگی ، کہ پینٹ شرٹ والے بھائی کو دیکھتے ہی ایک دو ساتھیوں نے ایک دوسرے کو اشارےمیں کہنا شروع کردیا ، یہ کیا ہے ؟ اگر میں اسے اپنی طرف سے محتاط الفاظ سے تعبیر کروں تو یوں کہا جاسکتا ہے ، کہ مولویوں کی مجلس میں جس میں سب یا تو پاکستانی یا سعودی لباس میں ملبوس ہیں ، یہ نمونہ کہاں سے ؟!
ایک شیخ صاحب نے مجھے کہا بھی کہ انہیں ذرا توجہ دلائیں ، آب کے دوست ہیں ، میں نے کہا ، ٹھیک ہے ۔ دوران گفتگو ذرا موقعہ ملا تو میں نے ذرا تمہید باندھ کر پینٹ شرٹ کو موضوع بناہی لیا ، اور ساتھ ہی عبید صاحب کی طرف اشارہ کردیا ۔
کہ دیکھیں ، ہمارے پاکستانی مدارس اور یہاں کے ماحول میں کتنا فرق ہے ۔!! میرا مقصد بینٹ شرٹ کی شرعی حیثیت زیر بحث لانے کی بجائے ، یہی تھا کہ اس ’ تنگ لباس ‘ کو اور اس میں محنت و مشقت کے ساتھ داخلے ہونے والے جینٹل مین کو مولویوں کی ’ تنگ نظریں ‘ کس انداز سے دیکھتی ہیں ۔ :)
ابتدا میں ایک چھوٹے کمرے میں بیٹھے تھے ، سب کے آجانے کے بعد ہم ایک بڑے کمرے میں چلے گئے ، وہاں دستر خوان وغیرہ کے آثار نظر آرے تھے ، اس لیے شیخ ارشاد صاحب جو بہلے شیخ راسخ صاحب کے ساتھ تھے ، بیٹھتے ہوئے ، انہوں نے مجھے شیخ کے ساتھ کردیا ، کیونکہ یہ بھی تجربہ شدہ بات ہے کہ کھاتے پیتے ہوئے بزرگوں سے ذرا دور بیٹھنا فائدہ مند رہتا ہے ۔
درمیان میں شیخ راسخ ان کے دائیں طرف شیخ عبد الباسط اور ساتھ شیخ فراز ، بائیں طرف راقم اور پھر بالترتیب شیخ ارشاد ، شیخ عبد اللہ عارف ، اور شیخ شفقت ، سامنے عبید صاحب ، حافظ جنید ، شیخ زید حارث اور ان کے ساتھ حبیب صاحب ، دائیں نکڑ میں میزبانوں کی جگہ تھی ، جو اشیاء خور و نوش مہیا کرنے میں مصروف رہے ۔
اس مجلس میں کئی ایک مسائل زیر بحث رہے ، لیکن ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ، جس نے اکثر وقت لیا ، وہ تھا ، ذکر و اذکار کے حوالے سے ۔
بات اس طرح شروع ہوئی کہ شیخ راسخ صاحب ، ایک کتاب لکھ رہے تھے ، ویسے تواس موضوع پر بے شمار کتابیں ہیں ، لیکن ان کے بقول اس کتاب میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ اس میں وہ اذکار اور دعاؤں میں موجود دعوتی اور تربیتی پہلؤوں کو بھی اجاگر کر رہے ہیں ۔ تاکہ اذکار کو صرف رٹا لگانے والی چیز کی بجائے ، غور و فکر اور سمجھ کر پڑھا جائے ، دعاؤں کو صرف مانگنے کی بجائے ، ان میں موجود دیگر علمی و تربیتی بہلؤوں پر بھی غور کیا جائے ۔ مشایخ نے ان کی اس سوچ کو سراہا ۔
شیخ فراز صاحب نے یہ مسئلہ چھیڑ دیا کہ :
کیا مسنون ادعیہ یا اذکار کو وقت یا عدد متعین کرکے پڑھنا جائز ہے ؟ یعنی دعا یا ذکر مسنون ہے ، لیکن اسے کتنی بار پڑھنا ہے ؟ کس وقت پڑھنا ہے ؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ، تو کیا وقت یا عدد کی تحدید کرنا درست ہے ؟
اس پر بحث تو بہت لمبی چوڑی ہوئی ، میں یہاں اس کا خلاصہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں :
چند باتوں پر تقریبا سب کا اتفاق تھا :
1۔ مسنون اذکار و ادعیہ ہی افضل ہیں ۔
2۔ عام حالات میں اللہ سے مانگتے ہوئے ، کوئی سے بھی الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں ، بشرطیکہ ان میں کوئی غلط عقیدہ یا شرعی محظور نہ ہو ۔
3۔ عدد یا وقت کی تحدید کرنا ، اور اسے شریعت سمجھنا ، یہ بالکل غلط ہے ۔
جو بات زیادہ زیر بحث رہی یہ تھی کہ :
کوئی ایسا ورد یا وظیفہ جس کے الفاظ قرآن وسنت میں موجود ہوں ، لیکن عدد اور وقت کی تحدید نہ ہو ، اگر کوئی بندہ اس میں ان دونوں چیزوں کی اپنی طرف سے تحدید کرلے ، تو کیا یہ درست ہے ؟
ایک موقف تھا : بالکل نہیں ، ایسا کرنا درست نہیں ، ویسے بھی اس سے بدعت کا دروازہ کھلے گا ، اور وہ جادو ٹونے والے ، جنہوں نے طرز طرز کے ورد وظائف گھڑ رکھے ہیں ، اور آئے دن اخبارات میں چھپتے ہیں ، یہ سب غلط کام اس میں داخل ہوجائیں گے ۔
دوسرا موقف تھا : خود کرلیں ، کوئی حرج نہیں ، لیکن دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دیں ، کیونکہ تبلیغ اور رہنمائی شریعت کی طرف ہونی چاہیے ، نہ کہ اپنے ذاتی ورد وظیفوں یا تجربات کی طرف ۔
تیسرا موقف یہ تھا کہ جب تک کسی ورد یا وظیفے میں خلافت شریعت بات نہ ہو ، اس میں عدد یا وقت کی تحدید کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اگر کسی کو اس سے فائدہ ہو ، تو وہ اپنے اس تجربے کی بنیاد پر دوسروں کو بھی اس طرف رہنمائی کرسکتا ہے ، البتہ جو وقت یا عدد کی اس نے تحدید کی ہے ، اسے شریعت کی طرف سے نہ بتائے ، بلکہ اپنا تجربہ بتائے ، اور اگر اس میں کوئی کمی بیشی کرنا چاہے تو اس کو بالکل آزادی ہونی چاہیے ، وہ اسے شریعت کی خلاف ورزی نہ سمجھے ۔
اس آخری کی کئی ایک مثالیں ، علماء کرام سے بھی پیش کی گئیں ، اور کئی ایک علماء کے حوالے بھی ذکر ہوئے ، جن میں سے دو عرض کرتا ہوں :
حافظ یحیی عزیز محمدی رحمہ اللہ بتایا کرتے تھے ، جو حج یا عمرہ کی بہت تڑپ رکھتا ہے ، وہ ہر نماز کے آخر میں ’ و أرنا مناسکنا ‘ تین تین مرتبہ پڑھے ، اللہ اپنے فضل و کرم سے اس پر رحم فرمائے گا ۔ یہ قرآنی وظیفہ میں نے چار سال پہلے عمرہ پر آنے والے ایک نوجوان سے سنا تھا ، کہ انہیں یہ بات میر محمدی صاحب کے حوالے سے شیخ عبد المنان راسخ صاحب نے بتائی تھی ، اور اس نے کہا کہ میں نے اس پر عمل کیا ، اور اب اللہ کے فضل سے عمرہ کرنے کے بعد آپ کے سامنے مدینہ میں ہوں ۔ کئی سال پہلے سنی ہوئی بات کی شیخ راسخ صاحب نے اس مجلس میں تصدیق بھی کردی ۔
ایک اور بات جو علامہ سخاوی نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ترجمہ الیواقیت و الدرر میں ذکر کی ہے ، کہ حافظ ابن حجر کسی چیز کے گم ہو جانے پر ایک دعا پڑھا کرتے تھے ، جس سے مطلوبہ چیز مل جایا کرتی تھی ، یہ بات سب سے پہلے میں نے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے سنی ، جب وہ آخری بار مدینہ منورہ تشریف لائے تھے ، انہوں نے بتایا میں نے بعض کتب کے گم ہو جانے پر اس دعا کا تجربہ کیا ہے ، وہ کتابیں مل جاتی ہیں ، اس مجلس میں شیخ زید حارث صاحب نے ابنے ایک استاذ گرامی کے حوالے سے اس دعا کی اثر انگیزی کا بھی واقعہ بیان کیا ۔
اسی طرح کی بات مناوی ، علامہ نووی وغیرہ سے بھی منقول ہے ۔
’ من أحب أن یذکر فلم یذکر ، و من کرہ أن یذکر فذکر ‘ حافظ ذہبی کی سیر کے حوالے سے شیخ راسخ صاحب نے یہ قول ذکر کیا ، اس مناسبت سے حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کا تذکرہ شروع ہوگیا ۔
ان کے نرالے اسلوب استدلال ، اچھوتے طرز تحریر اور دلنشیں انداز تقریر کی کئی ایک مثالیں شیخ راسخ نے ذکر کیں ، جن میں سے ایک آپ بھی سن لیجیے ، کسی نے مصارف زکاۃ کے متعلق پوچھا ، فرمایا :
(مصارف زکاۃ ہیں آٹھ ، دیکھیے سورہ توبہ کی آیت نمبر ساٹھ ) ( یہ انہوں نے پنجابی میں کہا تھا ) ۔
مولانا نورپوری کے فتاوی بنام ( احکام و مسائل ) پڑھیں تو اس میں اس طرح کی کئی ایک مثالیں مل جاتی ہیں ۔
شیخ نورپوری کی ایک خوبی یہ ذکر ہوئی کہ وہ اپنی مجلس میں علما کی چغلیاں یا غیبت نہیں ہونے دیتے تھے ۔
شیخ نورپوری کے اساتذہ کے احترام اور وفا کے متعلق بات ہوئی تو دو اہم باتیں ذکر کی گئیں ، ایک یہ کہ ارشاد القاری میں ان کا ترجمہ ( حالات زندگی ) لکھے گئے ، جب اساتذہ کے نام لکھنے کی باری آئی تو انہوں نے اپنے ایک ایسے استاذ کا بھی نام ذکر کیا ، جس سے انہوں نے صرف کپڑے سلائی کرنا سیکھا تھا ، حیرانی کا اظہا رکیا گیا تو انہوں نے کہا بھئی ! اگر اساتذہ لکھنے ہیں ، تو یہ نام اس فہرست میں آئے گا ۔
یہاں حافظ جنید صاحب ( جو ان کے آخری عمر کے شاگرد ہیں ) نے یہ بھی اضافہ کیا کہ شیخ ابنے کپڑے خود سلائی کیا کرتے تھے ۔
شیخ عبد الحمید ہزاروی حفظہ اللہ ، نورپوری صاحب کے اساتذہ میں سے ہیں ، استاذ و شاگرد دونوں ایک جامعہ ( جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ ) میں پڑھاتے تھے ، جنید صاحب بتاتے ہیں ، حافظ صاحب ہر روز ہزاروی صاحب کی کلاس میں جاتے ، اور وہاں جاکر انہیں سلام عرض کرتے اور حال احوال پوچھ کر آتے ۔
جلسے جلوس اور اجتماعات میں بعض واعظین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا نام ’ نمایاں ‘ اور ’ بالقابہ ‘ ہونا چاہیے ۔ یہ مرض کی حد بڑھ گیا تھا ۔
شیخ نورپوری اس کے سخت خلاف تھے ، اشتہار میں ان کے نام کے ساتھ اگر کوئی علامہ فہامہ وغیرہ لکھ دیتا ، تو جاتے نہیں تھے ، لا علمی میں چلے جاتے تو بلا تقریر کیے ، واپس آجاتے تھے ۔
اس طرح کے ان کے کئی ایک واقعتا بیان ہوئے ، کہ وہ مبالغہ آرائی سن کر تقریر یا جمعہ پڑھائے بغیر واپس آجاتے تھے ۔
اور بھی کئی علماء زہد و ورع کی بنا پر ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں ، مجھ کوتاہ نظر کو تو اس میں بھی بے جا سختی ہی معلوم ہوتی ہے ، لیکن بہر صورت ان بزرگوں کے اس متشدد رویے کی یہ تاویل نظر آتی ہے کہ ایک ایسی غلطی جو معاشرے میں ایک مرض کی طرح بڑھ رہی ہے ، ان بزرگوں کا یہ نقطہ نظر ہوگا کہ اس کا رد بھی اسی سختی سے ہوگا تو اسے روکنا ممکن ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ذہبی عصر علامہ معلمی رحمہ اللہ کا تذکرہ خیر ہوا ، تو شیخ عبد المنان راسخ صاحب نے ، یہ سوال اٹھایا کہ دوران تحریر ، مخالف ، بالخصوص جب وہ بدعتی یا منحرف ہو ، کا تذکرہ کیسے کرنا چاہیے ؟
اس پر وہ سب کی رائے چاہتے تھے ، لیکن کچھ احباب کی آراء آسکیں :
ایک رائے یہ تھی کہ علامہ معلمی کا اسلوب بہترین ہے ، انہوں نے التنکیل میں علامہ کوثری کی گمراہیوں کوبھی بہترین انداز سے واضح کیا ، لیکن ان کو مخاطب بھی بہترین اسلوب میں کیا ہے ۔
ایک دوسرا اسلوب وہ ہے ، جو ہمارے بعض مشایخ کی تحریروں میں نظر آتا ہے ، جیساکہ شیخ زبیر صاحب وغیرہ ۔ وہ فریق مخالف کانام ، ان کی شخصیات کا تذکرہ انتہائی سرد مہری سے کرتے ہیں ، بلکہ بعض دفعہ ساتھ دو چار القاب بھی لگادیتے ہیں ( تقلیدی ، صوفی ، بدعتی ) ۔
شیخ راسخ صاحب کے نزدیک یہ اسلوب اس اعتبار سے بہتر ہے ، کہ پڑھنے والے لا علم لوگوں کے ذہن میں ایسی شخصیات کی حقیقت واضح رہتی ہے ، اور وہ ان کے غلط افکار سے متاثر نہیں ہوتے ۔
میری اپنی رائے پہلے والی ہے ، شیخ شفقت صاحب نے بھی یہی کہا تھا ، میں سمجھ رہا تھا کہ شیخ راسخ صاحب کی بھی یہی رائے ہوگی ، جب میں نے شیخ زبیر صاحب کے طرز عمل کو ازراہ تعجب ذکر کیا ، تو شیخ راسخ صاحب کے خلافِ توقع فوری رد عمل اور چہرے کے تاثرات سے محسوس ہوا ، کہ میرا اس رائے کو از راہ تعجب ( یا مذمت ) نقل کرنا غلط تھا ۔
اس مجلس میں ہم شیخ راسخ صاحب کی شخصیت کے حوالے سے بھی کچھ جاننا چاہتے تھے ، ایک دو بار بات شروع کرنے کے باوجود صحیح طرح سے آگے نہ بڑھ سکی ، بہر صورت یہ بات میرے ذہن میں پہلے سے ہی موجود تھی کہ شیخ ایک محنتی ، متقی اور علمی شخصیت ہیں ، بیک وقت تدریس ، تبلیغ اور تصنیف و تالیف جیسے اہم کام سر انجام دے رہے ہیں ، کئی کتابوں کے مترجم ہیں ، خود اپنی ان کی تصنیفات بھی کافی ہیں ، اس مجلس میں یہ بھی علم ہوا کہ وہ کئی عربی کتابوں کے بھی مصنف ہیں ، جو طبع ہوچکی ہیں ، یہ باتیں سن کر رشک آیا ، اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالی انہیں مزید برکت دے ۔
شیخ راسخ صاحب کی درجن سے زائد کتابیں محدث لائبریری میں بھی موجود ہیں ، جو
یہاں سے ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
میں نے ان کی سب سے پہلی کتاب ’ من اطیب المنع فی علم المصطلح ‘ کا ترجمہ پڑھی تھی ۔
انہوں نے علمی و تحقیقی موضوعات سے ہٹ کر اصلاحی و معاشرتی موضوعات پر بھی بہت اچھا لکھا ہے ، خطباء کے لیے بھی انہوں نے بہت قیمتی کتابیں ترتیب دی ہیں ، اب چاہتے ہیں ’ وعظ و نصیحت اور خطابت ‘ کے میدان اور اس سے منسلک افراد میں جو اصلاح کی گنجائش ہے ، ان پر قلم اٹھائیں ۔ اللہ تعالی ان کے سب علمی و اصلاحی کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔
پر تکلف کھانے کی ابتداء سوپ سے ہوئی اور انتہا لذیذ رس ملائی پر ، سب وقت علمی گفتگو اور بحث و مباحثہ میں گزرا ، جس میں علم و فضل اور معلومات کے ’ کش ‘ بھی لگتے رہے ، ساتھ ساتھ ظریفانہ نوک جھونک سے مجلس کشت زعفراں بھی بنتی رہی ۔ شکم سیر ہوا ، قلب و نظر سیراب ہوئے ، سلام و دعا ئے رسمی اور میزبان سے اظہار تشکر کے بعد اس آٹھویں مدنی محفل کے شرکاء اپنے اپنے ’ مدنی مساکن ‘ کو روانہ ہوئے ۔