• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تراویح پر ۱۰ احادیث

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
آٹھ رکعات تراویح سنت ہے۔
کیا آپ ‫ﷺ‬ کی رمضان غیر رمضان کی رات کی نماز ہمئشہ گیارہ رکعات ہی ہوتی تھی؟

۱۔ (۴۵۷۰)، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ بِأُذُنِي فَجَعَلَ يَفْتِلُهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَوْتَرَ
۔۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ: ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت تہجد کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر وتر کی نماز پڑھی۔ بخاری
ف: آپ ‫ﷺ‬ نے ۱۰ یا ۱۲ رکعت تہجد پڑھی۔
۲۔ (۴۵۸) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہو گئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک سب مروی ہیں، ۴- اسحاق بن ابراہیم ( ابن راہویہ ) کہتے ہیں: یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد ( قیام اللیل ) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ترمذی
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
مولوی انور شاہ تقلیدی فرماتے ہیں
‎علامہ انور شاہ کشمیری کا مسلک :
‎امام العصر خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری خود بیس تراویح کے قائل ہیں اور آٹھ رکعات پڑ ھنے والے کو سواد اعظم ‪)‬اہل السنت والجماعت‪(‬سے خارج سمجھتے ہیں ،چنانچہ فرماتے ہیں:واما من اکتفیٰ بالرکعات الثمانیہ وشذ عن السواد الاعظم و حبل یر میہم بالبدعۃفلیر عاقبۃ۔ ‪)‬فیض الباری شرح صحیح بخاری ج3ص181‪(‬
‎یعنی جوشخص آٹھ رکعات پر اکتفا کر کے سواد اعظم سے کٹ گیا اورسواد اعظم کو بدعتی کہتا ہے وہ اپنا انجام سوچ لے ۔
‎حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ مزید لکھتےہیں:لم یقل احد من الائمۃ الاربعۃ باقل من عشرین رکعۃ فی التراویح والیہ جمہور الصحابۃرضی اللہ عنہم ‪…‬ وقال ابن ہمام ان ثمانیۃ رکعات سنۃ مؤکدۃ وثنتی عشررکعۃً مستحبۃ وماقال بھذا احد اقول ان سنۃ الخلفاء الراشدین ایضاًیکون سنۃ الشریعۃ لما فی الا صول ان السنۃ سنۃ الخلفاء وسنۃ علیہ السلام وقد صح فی الحدیث علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین فیکون فعل الفاروق الاعظم ایضاسنۃً۔۔۔ففی التاتارخانیۃ سئل ابو یوسف ابا حنفیۃ رحمہ اللہ ان اعلان عمر بعشرین رکعۃً ھل کان لہ عھد منہ علیہ السلام قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ ما کان عمر مبتدعا ای لعلہ یکون لہ عہد فدل علی ان عشرین رکعۃً لا بدلہ من ان یکون لھا اصل منہ علیہ السلام ‪…‬واستقر الامر علی عشرین رکعۃً ۔ ‪)‬العرف الشذی علی ھامش الترمذی ج1ص100،99‪(‬
‎ترجمہ: ائمہ اربعہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ نماز تراویح بیس رکعات سے کم ہے اور اسی طرف جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم گئے ہیں اور ابن ہمام رحمہ اللہ نےجو کہا ہے کہ آٹھ رکعات سنت مؤکدہ ہے اور بارہ رکعات مستحب ہے اور یہ بات کسی اور نے نہیں کہی ‪)‬یعنی ابن ہمام رحمہ اللہ کا تفرد ہے ‪(‬
‏‎خلفاء راشدین کی سنت بھی شریعت کی سنت ہے کیونکہ اصول میں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفاء راشدین کی سنت، سنت ہے اور یہ بات صحیح حدیث میں ہے کہ تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین مھدیین کی سنت لازم ہے،فاروق اعظم کا عمل بھی سنت ہے۔فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو بیس رکعات تراویح کا اعلان کیا ہے کیا انہوں نے اس کا علم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا ہے ؟امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‪)‬معاذ اللہ ‪(‬مبتدع نہیں تھے یعنی شاید ان کے پاس اس کا علم تھا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ لامحالہ بیس رکعات تراویح کی اصل خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور تراویح کا استقرار بیس رکعات پر ہے ۔
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي
امام طحطاوی حنفی رحمہ اللہ آٹھ رکعات تراویح کےقائل نہیں بلکہ وہ بھی دوسرے علماء احناف کی طرح بیس کے قائل ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پر توارث کے ساتھ اجماع ہے۔ ‬الطحاوی ج۱ ص ۴۶۸
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014؁ھ) نے کہا :
ملا علی قاری رحمہ اللہ کے نام سے جو عبارت پیش کی گئی وہ عبارت ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ انہوں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ حنفی بذات خود بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں:لکن اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃً
‏‎یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے ۔ ‪)‬ مرقاۃ ج 3ص194 ‪(‬
‏‎اسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ نے شرح نقایہ ص 104 میں بھی بیس رکعات تراویح پر اجماع نقل کیا ہے
۸۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ،چنانچہ امام موصوف ؛ علامہ سبکی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
‏‎ومذھبنا ان التراویح عشرون رکعۃلما روی البیہقی وغیرہ بالا سناد الصحیح عن السائب بن یزید الصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال کنا نقوم علی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعشرین رکعۃ والوتر ۔ ‪)‬الحاوی للفتاویٰ ج1ص350‪(‬
‏‎اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ نماز تراویح بیس رکعات ہے اس لیے کہ بیہقی وغیرہ نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم لوگ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھتے تھے ۔پھر لکھا ہے :استقر العمل علی ہذا ۔یعنی بالآخر بیس رکعات تراویح پر عمل پختہ ہوا یعنی خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیس رکعات پر اتفاق اور اجماع کیا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ملا علی قاری رحمہ اللہ کے نام سے جو عبارت پیش کی گئی وہ عبارت ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ انہوں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ حنفی بذات خود بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ۔
آپ چونکہ عالم نہیں ،اور آپ کو عربی عبارت بالکل سمجھ نہیں آتی ،اسلئے آپ کو یہاں مرقاۃ کی عبارت بالکل سمجھ نہیں آئی ،
آپ کی سمجھ دانی شریف کیلئے مرقاۃ کا محولہ پورا صفحہ پیش ہے ، ملا علی القاری نویں صدی کے مشہور حنفی فقیہ كمال الدين محمد المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861ھ) کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
مرقاة تراويح 2.jpg https://archive.org/stream/mmsmmmmsmme/mmsmm03#page/n344/mode/2up
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ آپ تو یہ حقیقت نہیں جانتے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ تو (سنۃ 725 ھ) کو دارالبقاء روانہ ہوگئے تھے ، جبکہ کمالؒ ابن الھمام ان سے ڈیڑھ صدی بعد (المتوفى: 861ھ)
فوت ہوئے ، اس لا علمی کی وجہ سے آپ نے یہ ہانک دی کہ یہ ابن تیمیہؒ کا کلام ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــ
 
Top