اخت ولید
سینئر رکن
- شمولیت
- اگست 26، 2013
- پیغامات
- 1,792
- ری ایکشن اسکور
- 1,297
- پوائنٹ
- 326
سیمینار میں آڈینس کی طرف دوران گفتگو جو الفاظ سب سے زیادہ استعمال کیے گئے۔وہ تھے سیل فون،سوشل میڈیا اور فیس بک۔چاہے موضوع بچے تھے،والدین یا زوجین۔
سر سلیمان نے سوال کیا کہ آپ کے بچے کو کس کس چیز کی اڈکشن یا لت ہے؟کیفین؟ شراب؟ان کی عادت کیوں نہیں ہوئی؟مشترکہ جواب تھا کہ مہیا نہیں ہے یا مہیا نہیں کی گئی یا دیکھتے نہیں ہیں۔سر نے کہا تو پھر سیل فون کے فائینانسر کو پکڑیں۔(ہم پہلے خود بچوں کو مہیا کرتے ہیں پھر خود پریشان ہوتے ہیں۔یا جب بچے آپ کو استعمال کرتا دیکھیں گے تو وہ بھی کریں گے۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے بچوں کو کسی اچھی چیز کی آڈکشن کیوں نہیں ہے؟کتابیں پڑھنے کی،جلدی سونے کی،اخلاق کی)
پروگرام کے اختتام پر سوالات کا ایک چھوٹا سا سلسلہ تھا۔ایک سوال مردانے سے کیا جا رہا تھا اور ایک زنان خانے سے۔سوالات کے دوران جو بات مجھے محسوس ہوئی کہ چونکہ ہمارے یہاں اہل علم سے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے سو ابھی ہمیں سوال کرنے کا درست طریقہ معلوم نہیں۔سوال مختصر،جامع اور سوال ہی ہونا چاہیے۔اس دوران کئی افراد کچھ تجربات بتانا چاہ رہے تھے یا سیمینار پر کمپلیمنٹ کرنا چاہ رہے تھے۔چند سوال مجھے بہت اچھے اور اہم لگے اور یہ ہم سب کہیں نہ کہیں پوچھنا بھی چاہتے ہیں۔
ایک سوال یہ تھا کہ یہ سب سوشل سائیسز میں پڑھایا جاتا ہے،آج کل سب نیشنل سائنس پڑھ رہے ہیں تو اگلی نسل کیسے سمجھے گی کیونکہ کوئی پڑھے گا ہی نہیں؟
جواب:یہ تو اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔جو دل کرے،منتخب کریں۔آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا منتخب کرنا چاہیے۔( پچھلی صدی میں یہ سب سوشل سائنسز پڑھے بنا ہی ان پڑھ والدین کو علم تھا۔اس حوالے سے میں اگلی تحریر میں اپنا تجربہ لکھوں گی۔ہمارے یہاں نجانے کب اور کیونکر یہ بات ذہن اور اقدار سے نکل کر تعلیم میں جا سمائی؟اور پھر نصابی باتوں پر توجہ کون دیتا ہے اور عمل کون کرتا ہے؟مرعوبیت کے مارے جس مٹی میں کھیلنے سے منع کیا گیا،آج پیسہ لگا کر سمجھا اور پھر زبردستی کھلایا جا رہا ہے کہ فائدہ مند ہے۔)
سوال:جو شخص دو وقت روٹی سے تنگ ہے،اس کے پاس کیا فرصت کہ ان تمام موضوعات کو سوچے اور سمجھے۔یہ سب تو مڈل کلاس اور اپر کلاس کے چونچلے ہیں۔وہ کیا کرے؟
جواب:ہر ایک کے لیے ضروری نہیں کہ ہو بہو وہی کام کرے۔میں نے صرف آوٹ لائن دی ہے۔اپنی سہولت کے مطابق دیکھ لیں(یہ واقعی اہم سوال تھا۔میں نے وہ افراد بھی دیکھے ہیں کہ جنہوں نے ہر طرح گزارا کر کے بچوں کو علم اور شعور دیا۔ہم لوئر کلاس میں کم از کم اس بات کا شعور تو اجاگر کر سکتے ہیں ناں؟)
سوال:بچہ چھوٹا ہے اور ضدی ہے۔بات نہیں مانتا،کیا کیا جائے؟
جواب:بچے کی شناخت ضدی،بدتمیز،شرارتی،کم عقل کے طور پر نہ ہونے دیں(ہمارا بڑا مسئلہ کہ یہ تو کھاتا ہی نہیں ہے۔یہ تو پڑھتا ہی نہیں ہے۔جب بچے کے منہ پر کہیں گے تو وہ کیونکر کرے گا؟اسے آپ نے ہی تو کو بتایا کہ وہ کیسا ہے؟والدین یہ کسر چھوڑیں تو ددھیال،ننھیال،ماموں کی بہو،خالہ کی ساس،اڑوسن کا سسرال،پڑوسن کا میکہ،میکے کا میکہ۔۔۔یہ سب شروع ہو جاتے ہیں)۔بچے کے عمل کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔وہ بلاوجہ کچھ نہیں کرتا۔اس کی وجہ جانیں اور تدارک کریں(اتنا ہی کرنا تھا تو کیا مرنا تھا؟ لیکن ہائے یہ جوائنٹ فیملی اور دوسروں کے معاملات میں سرکاری ٹانگ اڑانا۔۔جب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بھانجی یہ کرے تو بہنوئی سمجھتے ہیں نہ بھانجی کی پھپھو مانتی ہیں۔ہم کڑھ کر بہن پر غصہ و ملبہ گرا کر سوچتے ہیں کہ اپنے بچوں کیساتھ یہ نہیں ہونے دیں گے۔بچے ہونے تک یا تو ذہن اور ترجیحات بدل جاتی ہیں یا پھر بچوں کے ابا،دادا یا پھپھو کا سسرال کہتا ہے کہ ہا۔۔ہائے۔۔یہ کیا کر رہی ہے تمہاری بیوی،بہو اور بھابھی؟اس ضمن میں والدین کا ہم خیال ہونا بہترین نعمت ہے۔)
سوال:آپ کہتے ہیں کہ بچے کم از کم ایک گھنٹہ باہر کھیلیں،باہر کا ماحول اجارت نہیں دیتا،کیا کریں؟
جواب:ان کے ساتھ کبھی کبھار خود باہر جائیں۔اچھے افراد اور جگہیں ڈھونڈ کر منسلک کریں(چاہے جتنی مرضی مصروف روٹین ہو۔والدین میں سے ایک فرد یہ کام ضرور کر سکتا ہے۔ہمسائے میں کسی سے ملوانے لے جائیں۔شام میں جو ایک گھنٹہ آپ چائے پیتے ہیں،کم از کم بند کمروں سے نکل کر چھت یا ٹیرس میں جا کر پی لیں۔کسی سہولت والے شہر میں مقیم ہیں اور کسی مہمان نے آنا ہے تو کسی پارک میں بلا لیں۔کھانا پینا وہاں کر لیں۔)
سوال:کلاس روم سے باہر اپروچ نہیں کر سکتے اور کلاس میں وقت نہیں۔سٹوڈنٹ اور ٹیچر کا تعلق کیسے بنے؟
جواب:نصاب کی فکر نہ کریں۔جو پڑھائیں،اچھے سے پڑھائیں(اس بات پر کئی افراد مضطرب ہوئے کیونکہ ہمارے یہاں ایسے ٹیچر کو فائر تو کیا جا سکتا ہے لیکن عزت نہیں دی جا سکتی)بچوں کو موقع دیں بات کرنے کا(اسے ایڈمن کلاس مینینجمنٹ کے منافی سمجھتا ہے)
دوسری بات یہ کہ جو بھی پڑھائیں،پہلے اس سے پوچھیں کہ وہ اللہ تعالی،کمپیوٹر یا فزکس کے بارے میں کیا کیا جانتا ہے؟ٰ(اس سے بچے کا ذہن کھلے گا۔ آپ کو بھی علم ہو گا کہ وہ کیا جانتا ہے اور کیا اسے جاننے کی ضرورت ہے۔اس طرح تعلق بنے گا)
سوال:مزید پڑھنا نہیں چاہتی اور مالی طور پر خود مختار بننا چاہتی ہوں کہ خود سے کماؤں لیکن والدین نہیں مانتے کہ بہت چھوٹی ہو،نہیں کر پاؤ گی۔انہیں کیسے مناؤں؟
جواب:آپ جو کرنا چاہتی ہیں۔کیجیے۔بس اتنی سی بات ہے۔اللہ نے میڑک فرض نہیں کیا۔(یہ سوال کہہ لیجیےکہ شو سٹاپر تھا۔لیکن چونکہ آخری سوال تھا تو فوکس نہیں لے پایا اور یقین کیجیے کہ کتنے ہی افراد بشمول والدین نے یہ سوال دہرایا کہ سب جواب سننا چاہتے ہیں کہ کیسے منایا جائے؟)
سوالات بہت سوں کے تھے۔کئی کی تشنگی رہ گئی اور تشنگی کا باقی رہنا ہمیشہ مفید ہے۔دعا کے ساتھ سیمینار اختتام کو پہنچا۔
سر سلیمان نے سوال کیا کہ آپ کے بچے کو کس کس چیز کی اڈکشن یا لت ہے؟کیفین؟ شراب؟ان کی عادت کیوں نہیں ہوئی؟مشترکہ جواب تھا کہ مہیا نہیں ہے یا مہیا نہیں کی گئی یا دیکھتے نہیں ہیں۔سر نے کہا تو پھر سیل فون کے فائینانسر کو پکڑیں۔(ہم پہلے خود بچوں کو مہیا کرتے ہیں پھر خود پریشان ہوتے ہیں۔یا جب بچے آپ کو استعمال کرتا دیکھیں گے تو وہ بھی کریں گے۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے بچوں کو کسی اچھی چیز کی آڈکشن کیوں نہیں ہے؟کتابیں پڑھنے کی،جلدی سونے کی،اخلاق کی)
پروگرام کے اختتام پر سوالات کا ایک چھوٹا سا سلسلہ تھا۔ایک سوال مردانے سے کیا جا رہا تھا اور ایک زنان خانے سے۔سوالات کے دوران جو بات مجھے محسوس ہوئی کہ چونکہ ہمارے یہاں اہل علم سے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے سو ابھی ہمیں سوال کرنے کا درست طریقہ معلوم نہیں۔سوال مختصر،جامع اور سوال ہی ہونا چاہیے۔اس دوران کئی افراد کچھ تجربات بتانا چاہ رہے تھے یا سیمینار پر کمپلیمنٹ کرنا چاہ رہے تھے۔چند سوال مجھے بہت اچھے اور اہم لگے اور یہ ہم سب کہیں نہ کہیں پوچھنا بھی چاہتے ہیں۔
ایک سوال یہ تھا کہ یہ سب سوشل سائیسز میں پڑھایا جاتا ہے،آج کل سب نیشنل سائنس پڑھ رہے ہیں تو اگلی نسل کیسے سمجھے گی کیونکہ کوئی پڑھے گا ہی نہیں؟
جواب:یہ تو اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔جو دل کرے،منتخب کریں۔آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا منتخب کرنا چاہیے۔( پچھلی صدی میں یہ سب سوشل سائنسز پڑھے بنا ہی ان پڑھ والدین کو علم تھا۔اس حوالے سے میں اگلی تحریر میں اپنا تجربہ لکھوں گی۔ہمارے یہاں نجانے کب اور کیونکر یہ بات ذہن اور اقدار سے نکل کر تعلیم میں جا سمائی؟اور پھر نصابی باتوں پر توجہ کون دیتا ہے اور عمل کون کرتا ہے؟مرعوبیت کے مارے جس مٹی میں کھیلنے سے منع کیا گیا،آج پیسہ لگا کر سمجھا اور پھر زبردستی کھلایا جا رہا ہے کہ فائدہ مند ہے۔)
سوال:جو شخص دو وقت روٹی سے تنگ ہے،اس کے پاس کیا فرصت کہ ان تمام موضوعات کو سوچے اور سمجھے۔یہ سب تو مڈل کلاس اور اپر کلاس کے چونچلے ہیں۔وہ کیا کرے؟
جواب:ہر ایک کے لیے ضروری نہیں کہ ہو بہو وہی کام کرے۔میں نے صرف آوٹ لائن دی ہے۔اپنی سہولت کے مطابق دیکھ لیں(یہ واقعی اہم سوال تھا۔میں نے وہ افراد بھی دیکھے ہیں کہ جنہوں نے ہر طرح گزارا کر کے بچوں کو علم اور شعور دیا۔ہم لوئر کلاس میں کم از کم اس بات کا شعور تو اجاگر کر سکتے ہیں ناں؟)
سوال:بچہ چھوٹا ہے اور ضدی ہے۔بات نہیں مانتا،کیا کیا جائے؟
جواب:بچے کی شناخت ضدی،بدتمیز،شرارتی،کم عقل کے طور پر نہ ہونے دیں(ہمارا بڑا مسئلہ کہ یہ تو کھاتا ہی نہیں ہے۔یہ تو پڑھتا ہی نہیں ہے۔جب بچے کے منہ پر کہیں گے تو وہ کیونکر کرے گا؟اسے آپ نے ہی تو کو بتایا کہ وہ کیسا ہے؟والدین یہ کسر چھوڑیں تو ددھیال،ننھیال،ماموں کی بہو،خالہ کی ساس،اڑوسن کا سسرال،پڑوسن کا میکہ،میکے کا میکہ۔۔۔یہ سب شروع ہو جاتے ہیں)۔بچے کے عمل کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔وہ بلاوجہ کچھ نہیں کرتا۔اس کی وجہ جانیں اور تدارک کریں(اتنا ہی کرنا تھا تو کیا مرنا تھا؟ لیکن ہائے یہ جوائنٹ فیملی اور دوسروں کے معاملات میں سرکاری ٹانگ اڑانا۔۔جب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بھانجی یہ کرے تو بہنوئی سمجھتے ہیں نہ بھانجی کی پھپھو مانتی ہیں۔ہم کڑھ کر بہن پر غصہ و ملبہ گرا کر سوچتے ہیں کہ اپنے بچوں کیساتھ یہ نہیں ہونے دیں گے۔بچے ہونے تک یا تو ذہن اور ترجیحات بدل جاتی ہیں یا پھر بچوں کے ابا،دادا یا پھپھو کا سسرال کہتا ہے کہ ہا۔۔ہائے۔۔یہ کیا کر رہی ہے تمہاری بیوی،بہو اور بھابھی؟اس ضمن میں والدین کا ہم خیال ہونا بہترین نعمت ہے۔)
سوال:آپ کہتے ہیں کہ بچے کم از کم ایک گھنٹہ باہر کھیلیں،باہر کا ماحول اجارت نہیں دیتا،کیا کریں؟
جواب:ان کے ساتھ کبھی کبھار خود باہر جائیں۔اچھے افراد اور جگہیں ڈھونڈ کر منسلک کریں(چاہے جتنی مرضی مصروف روٹین ہو۔والدین میں سے ایک فرد یہ کام ضرور کر سکتا ہے۔ہمسائے میں کسی سے ملوانے لے جائیں۔شام میں جو ایک گھنٹہ آپ چائے پیتے ہیں،کم از کم بند کمروں سے نکل کر چھت یا ٹیرس میں جا کر پی لیں۔کسی سہولت والے شہر میں مقیم ہیں اور کسی مہمان نے آنا ہے تو کسی پارک میں بلا لیں۔کھانا پینا وہاں کر لیں۔)
سوال:کلاس روم سے باہر اپروچ نہیں کر سکتے اور کلاس میں وقت نہیں۔سٹوڈنٹ اور ٹیچر کا تعلق کیسے بنے؟
جواب:نصاب کی فکر نہ کریں۔جو پڑھائیں،اچھے سے پڑھائیں(اس بات پر کئی افراد مضطرب ہوئے کیونکہ ہمارے یہاں ایسے ٹیچر کو فائر تو کیا جا سکتا ہے لیکن عزت نہیں دی جا سکتی)بچوں کو موقع دیں بات کرنے کا(اسے ایڈمن کلاس مینینجمنٹ کے منافی سمجھتا ہے)
دوسری بات یہ کہ جو بھی پڑھائیں،پہلے اس سے پوچھیں کہ وہ اللہ تعالی،کمپیوٹر یا فزکس کے بارے میں کیا کیا جانتا ہے؟ٰ(اس سے بچے کا ذہن کھلے گا۔ آپ کو بھی علم ہو گا کہ وہ کیا جانتا ہے اور کیا اسے جاننے کی ضرورت ہے۔اس طرح تعلق بنے گا)
سوال:مزید پڑھنا نہیں چاہتی اور مالی طور پر خود مختار بننا چاہتی ہوں کہ خود سے کماؤں لیکن والدین نہیں مانتے کہ بہت چھوٹی ہو،نہیں کر پاؤ گی۔انہیں کیسے مناؤں؟
جواب:آپ جو کرنا چاہتی ہیں۔کیجیے۔بس اتنی سی بات ہے۔اللہ نے میڑک فرض نہیں کیا۔(یہ سوال کہہ لیجیےکہ شو سٹاپر تھا۔لیکن چونکہ آخری سوال تھا تو فوکس نہیں لے پایا اور یقین کیجیے کہ کتنے ہی افراد بشمول والدین نے یہ سوال دہرایا کہ سب جواب سننا چاہتے ہیں کہ کیسے منایا جائے؟)
سوالات بہت سوں کے تھے۔کئی کی تشنگی رہ گئی اور تشنگی کا باقی رہنا ہمیشہ مفید ہے۔دعا کے ساتھ سیمینار اختتام کو پہنچا۔