• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تربیت اولاد کے عملی اقدام!

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
سیمینار میں آڈینس کی طرف دوران گفتگو جو الفاظ سب سے زیادہ استعمال کیے گئے۔وہ تھے سیل فون،سوشل میڈیا اور فیس بک۔چاہے موضوع بچے تھے،والدین یا زوجین۔
سر سلیمان نے سوال کیا کہ آپ کے بچے کو کس کس چیز کی اڈکشن یا لت ہے؟کیفین؟ شراب؟ان کی عادت کیوں نہیں ہوئی؟مشترکہ جواب تھا کہ مہیا نہیں ہے یا مہیا نہیں کی گئی یا دیکھتے نہیں ہیں۔سر نے کہا تو پھر سیل فون کے فائینانسر کو پکڑیں۔(ہم پہلے خود بچوں کو مہیا کرتے ہیں پھر خود پریشان ہوتے ہیں۔یا جب بچے آپ کو استعمال کرتا دیکھیں گے تو وہ بھی کریں گے۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے بچوں کو کسی اچھی چیز کی آڈکشن کیوں نہیں ہے؟کتابیں پڑھنے کی،جلدی سونے کی،اخلاق کی)
پروگرام کے اختتام پر سوالات کا ایک چھوٹا سا سلسلہ تھا۔ایک سوال مردانے سے کیا جا رہا تھا اور ایک زنان خانے سے۔سوالات کے دوران جو بات مجھے محسوس ہوئی کہ چونکہ ہمارے یہاں اہل علم سے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے سو ابھی ہمیں سوال کرنے کا درست طریقہ معلوم نہیں۔سوال مختصر،جامع اور سوال ہی ہونا چاہیے۔اس دوران کئی افراد کچھ تجربات بتانا چاہ رہے تھے یا سیمینار پر کمپلیمنٹ کرنا چاہ رہے تھے۔چند سوال مجھے بہت اچھے اور اہم لگے اور یہ ہم سب کہیں نہ کہیں پوچھنا بھی چاہتے ہیں۔
ایک سوال یہ تھا کہ یہ سب سوشل سائیسز میں پڑھایا جاتا ہے،آج کل سب نیشنل سائنس پڑھ رہے ہیں تو اگلی نسل کیسے سمجھے گی کیونکہ کوئی پڑھے گا ہی نہیں؟
جواب:یہ تو اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔جو دل کرے،منتخب کریں۔آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا منتخب کرنا چاہیے۔( پچھلی صدی میں یہ سب سوشل سائنسز پڑھے بنا ہی ان پڑھ والدین کو علم تھا۔اس حوالے سے میں اگلی تحریر میں اپنا تجربہ لکھوں گی۔ہمارے یہاں نجانے کب اور کیونکر یہ بات ذہن اور اقدار سے نکل کر تعلیم میں جا سمائی؟اور پھر نصابی باتوں پر توجہ کون دیتا ہے اور عمل کون کرتا ہے؟مرعوبیت کے مارے جس مٹی میں کھیلنے سے منع کیا گیا،آج پیسہ لگا کر سمجھا اور پھر زبردستی کھلایا جا رہا ہے کہ فائدہ مند ہے۔)
سوال:جو شخص دو وقت روٹی سے تنگ ہے،اس کے پاس کیا فرصت کہ ان تمام موضوعات کو سوچے اور سمجھے۔یہ سب تو مڈل کلاس اور اپر کلاس کے چونچلے ہیں۔وہ کیا کرے؟
جواب:ہر ایک کے لیے ضروری نہیں کہ ہو بہو وہی کام کرے۔میں نے صرف آوٹ لائن دی ہے۔اپنی سہولت کے مطابق دیکھ لیں(یہ واقعی اہم سوال تھا۔میں نے وہ افراد بھی دیکھے ہیں کہ جنہوں نے ہر طرح گزارا کر کے بچوں کو علم اور شعور دیا۔ہم لوئر کلاس میں کم از کم اس بات کا شعور تو اجاگر کر سکتے ہیں ناں؟)
سوال:بچہ چھوٹا ہے اور ضدی ہے۔بات نہیں مانتا،کیا کیا جائے؟
جواب:بچے کی شناخت ضدی،بدتمیز،شرارتی،کم عقل کے طور پر نہ ہونے دیں(ہمارا بڑا مسئلہ کہ یہ تو کھاتا ہی نہیں ہے۔یہ تو پڑھتا ہی نہیں ہے۔جب بچے کے منہ پر کہیں گے تو وہ کیونکر کرے گا؟اسے آپ نے ہی تو کو بتایا کہ وہ کیسا ہے؟والدین یہ کسر چھوڑیں تو ددھیال،ننھیال،ماموں کی بہو،خالہ کی ساس،اڑوسن کا سسرال،پڑوسن کا میکہ،میکے کا میکہ۔۔۔یہ سب شروع ہو جاتے ہیں)۔بچے کے عمل کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔وہ بلاوجہ کچھ نہیں کرتا۔اس کی وجہ جانیں اور تدارک کریں(اتنا ہی کرنا تھا تو کیا مرنا تھا؟ لیکن ہائے یہ جوائنٹ فیملی اور دوسروں کے معاملات میں سرکاری ٹانگ اڑانا۔۔جب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بھانجی یہ کرے تو بہنوئی سمجھتے ہیں نہ بھانجی کی پھپھو مانتی ہیں۔ہم کڑھ کر بہن پر غصہ و ملبہ گرا کر سوچتے ہیں کہ اپنے بچوں کیساتھ یہ نہیں ہونے دیں گے۔بچے ہونے تک یا تو ذہن اور ترجیحات بدل جاتی ہیں یا پھر بچوں کے ابا،دادا یا پھپھو کا سسرال کہتا ہے کہ ہا۔۔ہائے۔۔یہ کیا کر رہی ہے تمہاری بیوی،بہو اور بھابھی؟اس ضمن میں والدین کا ہم خیال ہونا بہترین نعمت ہے۔)
سوال:آپ کہتے ہیں کہ بچے کم از کم ایک گھنٹہ باہر کھیلیں،باہر کا ماحول اجارت نہیں دیتا،کیا کریں؟
جواب:ان کے ساتھ کبھی کبھار خود باہر جائیں۔اچھے افراد اور جگہیں ڈھونڈ کر منسلک کریں(چاہے جتنی مرضی مصروف روٹین ہو۔والدین میں سے ایک فرد یہ کام ضرور کر سکتا ہے۔ہمسائے میں کسی سے ملوانے لے جائیں۔شام میں جو ایک گھنٹہ آپ چائے پیتے ہیں،کم از کم بند کمروں سے نکل کر چھت یا ٹیرس میں جا کر پی لیں۔کسی سہولت والے شہر میں مقیم ہیں اور کسی مہمان نے آنا ہے تو کسی پارک میں بلا لیں۔کھانا پینا وہاں کر لیں۔)
سوال:کلاس روم سے باہر اپروچ نہیں کر سکتے اور کلاس میں وقت نہیں۔سٹوڈنٹ اور ٹیچر کا تعلق کیسے بنے؟
جواب:نصاب کی فکر نہ کریں۔جو پڑھائیں،اچھے سے پڑھائیں(اس بات پر کئی افراد مضطرب ہوئے کیونکہ ہمارے یہاں ایسے ٹیچر کو فائر تو کیا جا سکتا ہے لیکن عزت نہیں دی جا سکتی)بچوں کو موقع دیں بات کرنے کا(اسے ایڈمن کلاس مینینجمنٹ کے منافی سمجھتا ہے)
دوسری بات یہ کہ جو بھی پڑھائیں،پہلے اس سے پوچھیں کہ وہ اللہ تعالی،کمپیوٹر یا فزکس کے بارے میں کیا کیا جانتا ہے؟ٰ(اس سے بچے کا ذہن کھلے گا۔ آپ کو بھی علم ہو گا کہ وہ کیا جانتا ہے اور کیا اسے جاننے کی ضرورت ہے۔اس طرح تعلق بنے گا)
سوال:مزید پڑھنا نہیں چاہتی اور مالی طور پر خود مختار بننا چاہتی ہوں کہ خود سے کماؤں لیکن والدین نہیں مانتے کہ بہت چھوٹی ہو،نہیں کر پاؤ گی۔انہیں کیسے مناؤں؟
جواب:آپ جو کرنا چاہتی ہیں۔کیجیے۔بس اتنی سی بات ہے۔اللہ نے میڑک فرض نہیں کیا۔(یہ سوال کہہ لیجیےکہ شو سٹاپر تھا۔لیکن چونکہ آخری سوال تھا تو فوکس نہیں لے پایا اور یقین کیجیے کہ کتنے ہی افراد بشمول والدین نے یہ سوال دہرایا کہ سب جواب سننا چاہتے ہیں کہ کیسے منایا جائے؟)
سوالات بہت سوں کے تھے۔کئی کی تشنگی رہ گئی اور تشنگی کا باقی رہنا ہمیشہ مفید ہے۔دعا کے ساتھ سیمینار اختتام کو پہنچا۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
ہم چلا کر بچے کو منع کرتے ہیں کہ وہ مت چیخے!!
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
جو باتیں اللہ نے فرض نہیں کیں،انہیں بچوں پر فرض نہ کیجیے۔بلوغت سے قبل اس پر گناہ نہیں تو آپ بھی بلوغت سے قبل اسےتمام معاملات میں رعایت دیں۔
جو کام اللہ نے فرض نہیں کیے یا حرام نہیں ٹھہرائے،ان پر زور زبردستی کی جائے یا اجازت نہ دی جائے۔رعایت دین میں نہیں ہوتی لیکن ہماری پسند،ناپسند میں ضرور ہوتی ہے۔پانچ چھ سالہ بچیاں ضد کرتی ہیں کہ لپ اسٹک لگا دیں۔آپ ایک آدھ بار لگا دیں اور ساتھ سمجھا دیں کہ گھر سے باہر نہیں جائیے گا،خوش ہو لیں اور یہ کہ جب آپ بڑی ہو جائیں گی تو تب آپ روز لگا سکتی ہیں،ابھی آپ کی جلد نازک ہے۔یا کچھ بھی جو ان کو سمجھ آ سکے۔آپ اتنے چھوٹے بچے کو ڈپٹ کر متنفر کر سکتے ہیں یا چھپ کر کام کرنے کا عادی بنا سکتے ہیں۔بچے شعور کو پہنچیں تو پھر سمجھائیے پردے کے حوالے سے۔
بیٹا کرکٹ کھیلنا چاہتا ہے لیکن ہمیں ناپسند ہے تو ایسے گھرکیں گے کہ گویا جہنم میں جانے کا سبب ہے۔اب میوزک حرام ہے تو اسے بچے کی معصومیت کا عذر دیکر چلانے نہیں دے سکتے بالکل جیسے آپ اسے سگریٹ یا شراب نہیں پینے دیں گے۔،بچے کے دل میں اپنے سے زیادہ اللہ کی محبت راسخ کیجیے کہ جب لوجک پر بات ہو تو وہ اللہ کی محبت میں چیزیں اپنا اور چھوڑ سکے۔
جو کام آپ کو ناپسند ہے،اسے اتنی محبت دیں کہ جب آپ اپنی پسند،ناپسند کے بارے میں بتائیں تو وہ چھوڑ سکے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
وہ پچھلے ایک گھنٹے سے مسلسل باتیں کر رہی تھی اور مجھے اپنا کام چھوڑ کر اسے سننا پڑ رہا تھا کیونکہ اس وقت اسے صرف ایک عدد سامع کی ضرورت تھی، جو اسے مل چکی تھی۔میٹرک کی چودہ سالہ طالبہ کی باتیں ہی کیا تھیں؟سکول میں کیا کیا؟سر نے کیا کہا؟لڑکیوں نے کیوں کیا؟اور اسکی باتوں سے اس کی شخصیت کی کئی پرتیں کھل رہی تھیں۔
میں اس دفعہ اپنی عزیزہ کے ہاں جانے پر قطعا راضی نہیں تھی۔وجہ یہ کہ پچھلے دو سال تک جو بچیاں پاس بیٹھ کرگھنٹوں کھیلتی تھیں اور باتیں کرتے نہ تھکتی تھیں۔اب سمارٹ فونز پر گیمز کھیل رہی ہیں۔باربی کا میک اوور ہو رہا اور کچھ نہیں تو ڈیجیٹل بلا پالا جا رہا ہے۔نتیجتا مجھے بھی اپنا فون اٹھانا پڑتا یا خالی دیواریں تکتے وقت بیت جاتا یا کونے کھدروں سے کئی دفعہ پڑھی کتابوں کو پھر سے نکالا جاتا حتی کہ بچیوں کی نصابی کتب تک!لیکن اس دفعہ انٹرنیٹ پیکج ختم ہو گیا تھا سو وہ میرے پاس آ بیٹھی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ میری عدم موجودگی میں وہ اتنی ڈھیر باتیں آخر کس سے کرتی ہو گی؟اسے کون سنتا ہو گا؟والدہ تو باورچی خانے میں مصروف ہیں یا پھر سارا دن اِس اُس کی باتیں۔ہفتے میں ایک آدھ بار اتنی باتیں سن لیں تو بھی بہت بات تھی۔
ذہن میں فورا اپنا وقت یاد آ گیا۔امی جان نے عادت بنائی ہوئی تھی کہ ہم بہن بھائی بچپن سے لیکر جوانی تک گھر سے باہر گزارا ایک ایک لمحہ گھر آ کر بتاتے تھے۔شاید عادت اس طرح بنی کہ امی جان بھی ایسے ہی کرتی تھیں۔آٹھ دن بعد بھی سفر سے واپسی ہوتی تو آٹھ دن قبل کے سفر سے لیکر گھر واپسی تک تمام واقعات بشمول مسافر خواتین سے کی گئی بات چیت تک بتا ڈالتیں۔کبھی مجھے کوفت ہوتی کہ یہ کیا؟وقت کا ضیاع!!لیکن آج اس کی اہمیت پتا چلی کہ امی جان ہمارے اشاروں اور آنکھوں تک سے کیسے پہچان لیتی تھیں کہ مسئلہ کیا چل رہا ہے؟سب کے خیالات کی خبر رہتی اور جب گھر میں ہی سب مسائل حل ہو جاتے تھے تو ہمیں گھر سے باہر سہیلیوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
اور آج جب مائیں جان بوجھ کر اپنے آپ کو مصروف کر لیں تو ان بچوں کو کون سنے گا؟ پھر یہ سننے والے کی تلاش میں باہر کا رخ کرتے اور ان کے مشوروں پر عمل درآمد کرتے ہیں اور پھر کرتے کراتے جنس مخالف سامع مل جاتے ہیں اور بچے اور والدہ کا نازک رشتہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ جاتا ہے۔جناب!وہ تو اسی دن دم توڑ گیا تھا جب آپ کی بیٹی سکول میں یاد کی گئی پہلی نظم سنا رہی تھی اور آپ نظر انداز کیے اسے کھانا ٹھونسے میں مصروف تھیں۔جب اس کو اس کی کلاس فیلو نے کاغذ کی کشتی بنانی سکھائی تھی اور آپ نے اس سے دوبارہ نہیں بنوائی تھی۔جس دن آپ کا بیٹا سائیکل ریس میں سب سے پہلے گھر پہنچا تھا اور آپ اس کے چہرے پر چھلکتی خوشی سے بے خبرکپڑے دھو رہی تھیں اور کپڑے گندے کرنے پر اسے ڈانٹ الگ پڑی تھی۔جس دن رانگ کال آنے پر آپ کی بیٹی نے آپ کو کچھ بتانا چاہا تھا لیکن آپ ہمسائی کے دکھڑے سن رہی تھیں۔جس دن آپ کی بیٹی نے چھپ کر سہیلی سے سوشل میڈیا اکاونٹ بنوایا تھا اور آپ خاندان بھر کی لڑکیوں کے عیب بیان کر رہی تھیں۔وہ تو اسی دن دم توڑ گیا تھا!!
تعلق کوئی بھی ہو۔اس کی مضبوطی یا کمزوری گفتگو میں پنہاں ہے۔جتنی زیادہ گفتگو ہو گی۔اتنی زیادہ ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی ہو گی۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا گھرانہ والدین کی علیحدگی کے بغیر بروکن فیملی کی تصویر پیش نہ کرے تو اپنے بچے کو وقت دینا سیکھیں۔چاہے آپ ماں ہیں یا باپ،دونوں کی محبت۔۔دونوں کی توجہ از حد ضروری ہے۔چاہے وہ بیٹی ہے یا بیٹا۔۔دونوں کو برابر پیار اور توجہ چاہیے۔اپنی بات چیت میں ٹھہراؤ لائیں۔متحمل بنیں۔اگر آپ نے کسی ناگوار بات یا واقعہ پر فوری ردعمل ظاہر کیا تو وہ آپ کے بچوں سے آپ کی گفتگو کا آخری دن ہو گا۔بچے اس ردعمل کے زیر اثر آپ سے چیزیں چھپانے لگیں گے۔
چیزوں کو وقت دینا سیکھیں اور اپنی عظیم ذمہ داری کو بانداز احسن نبھاتے ہوئے نعمت کا اکرام کیجیے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
ہم بچوں پر چلاتے کیونکر ہیں؟سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔نہیں ہو پا رہا۔۔؟کوئی بات نہیں۔۔بعد میں سمجھ لیں گے،پھر کر لیں گے۔۔بس اتنی سی بات ہے۔۔پر کاش اتنی سی ہی ہو!!
 
Top