Bint e Rafique
رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2017
- پیغامات
- 130
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
بسم اللہ الرحمن الرحیم.
شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے.
الحمدللہ سورة المائدہ کی ترجمہ تشریح
تعارف سورة.
سورة المائدہ. مدنی سورت.
رکوع. 16.
آیات. 120.
مستدرک حاکم میں ہے حضرت جبیر بن نفیر رح فرماتے ہیں کہ حج کے لئے گیا وہاں حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا تم سورت مائدہ پڑهتے ہو؟
میں نے کہا ہاں فرمایا : سنو سب سے آخری یہی سورت نازل ہوئی ہے اس میں جس چیز کو حلال پاو ، حلال ہی سمجھو اور جس اس میں جس چیز کو حرام پاو حرام ہی جانو.
مسند احمد میں بهی یہ روایت ہے ۔
اس میں یہ بھی ہے کہ پهر میں نے اماں محترمہ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی نسبت سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق قرآن کا عملی نمونہ تهے -
یہ روایت نسائی شریف میں بھی ہے.
اے ایمان والو عہد و پیمان پورے کیا کرو، تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کئے جاتے ہیں بجز ان کے جن کے نام پڑهہ سنا دئیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے○ ( سورة المائدہ)(آیت نمبر 1)
ایمان والو اللہ تعالٰی کے نشانوں کی بے حرمتی نہ کرو نہ حرمت والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے جانوروں کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں ہاں جب تم احرام اتار لو تو شکار کھیل سکتے ہو، جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا، ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم حد سے نکل جاؤ، نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو، گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ○ ( سورة المائدہ)(آیت نمبر 2).
تشریح و تفسیر_______!!
ایفائے عہد کی تلقین_______!!
حضرت زہری رح فرماتے ہیں جہاں کہیں اللہ تعالٰی نے اپنے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے کہ اس حکم میں رسول اللہ ﷺ بهی شامل ہیں-"
حضرت خیمثہ رح فرماتے ہیں کہ تورات میں بجائے ((یا ایهاالذین آ منوا)) کے ((یا ایهاالمساکین)) ہے ۔
ایک اور روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ جہاں کہیں لفظ ((یا ایهاالذین آ منوا)) ہے ان تمام مواقع پر سب ایمان والوں کے سردار شریف اور امیر علی رضی اللہ عنہ ہیں، اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا، یاد رہے کہ اثر بالکل بے دلیل ہے اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بهی صحیح نہیں-
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے ۔
ہم کہتے ہیں کہ دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلی درجے کا شعیہ ہے ۔
پھر بهلا اس کی ایسی روایات جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو کیسے قبول کی جا سکے گی؟
یقیناً وہ اس میں ناقابل قبول ٹهہرے گا، اس روایت میں کہا گیا ہے کہ کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بجز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹا گیا ، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ ((ءاشفقتم ان تقدموا))الخ لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تها ہی نہیں، اختیاری امر تھا -
پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالٰی نے اسے منسوخ کر دیا -
پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سر ذد ہی نہیں ہوا-
پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی بات میں نہیں ڈانٹا گیا -
سورة انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ڈانٹا گیا ہے جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چهوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہے، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بهی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے واللہ اعلم -
ابن جریر طبری میں حضرت محمد بن مسلم رح فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکهوا کر دی تھی جبکہ انہیں نجران بهیجا تها - اس کتاب کو میں نے ابو بکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑها تھا ، اس میں اللہ
شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے.
الحمدللہ سورة المائدہ کی ترجمہ تشریح
تعارف سورة.
سورة المائدہ. مدنی سورت.
رکوع. 16.
آیات. 120.
مستدرک حاکم میں ہے حضرت جبیر بن نفیر رح فرماتے ہیں کہ حج کے لئے گیا وہاں حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا تم سورت مائدہ پڑهتے ہو؟
میں نے کہا ہاں فرمایا : سنو سب سے آخری یہی سورت نازل ہوئی ہے اس میں جس چیز کو حلال پاو ، حلال ہی سمجھو اور جس اس میں جس چیز کو حرام پاو حرام ہی جانو.
مسند احمد میں بهی یہ روایت ہے ۔
اس میں یہ بھی ہے کہ پهر میں نے اماں محترمہ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی نسبت سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق قرآن کا عملی نمونہ تهے -
یہ روایت نسائی شریف میں بھی ہے.
اے ایمان والو عہد و پیمان پورے کیا کرو، تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کئے جاتے ہیں بجز ان کے جن کے نام پڑهہ سنا دئیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے○ ( سورة المائدہ)(آیت نمبر 1)
ایمان والو اللہ تعالٰی کے نشانوں کی بے حرمتی نہ کرو نہ حرمت والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے جانوروں کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں ہاں جب تم احرام اتار لو تو شکار کھیل سکتے ہو، جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا، ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم حد سے نکل جاؤ، نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو، گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ○ ( سورة المائدہ)(آیت نمبر 2).
تشریح و تفسیر_______!!
ایفائے عہد کی تلقین_______!!
حضرت زہری رح فرماتے ہیں جہاں کہیں اللہ تعالٰی نے اپنے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے کہ اس حکم میں رسول اللہ ﷺ بهی شامل ہیں-"
حضرت خیمثہ رح فرماتے ہیں کہ تورات میں بجائے ((یا ایهاالذین آ منوا)) کے ((یا ایهاالمساکین)) ہے ۔
ایک اور روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ جہاں کہیں لفظ ((یا ایهاالذین آ منوا)) ہے ان تمام مواقع پر سب ایمان والوں کے سردار شریف اور امیر علی رضی اللہ عنہ ہیں، اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا، یاد رہے کہ اثر بالکل بے دلیل ہے اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بهی صحیح نہیں-
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے ۔
ہم کہتے ہیں کہ دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلی درجے کا شعیہ ہے ۔
پھر بهلا اس کی ایسی روایات جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو کیسے قبول کی جا سکے گی؟
یقیناً وہ اس میں ناقابل قبول ٹهہرے گا، اس روایت میں کہا گیا ہے کہ کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بجز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹا گیا ، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ ((ءاشفقتم ان تقدموا))الخ لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تها ہی نہیں، اختیاری امر تھا -
پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالٰی نے اسے منسوخ کر دیا -
پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سر ذد ہی نہیں ہوا-
پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی بات میں نہیں ڈانٹا گیا -
سورة انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ڈانٹا گیا ہے جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چهوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہے، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بهی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے واللہ اعلم -
ابن جریر طبری میں حضرت محمد بن مسلم رح فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکهوا کر دی تھی جبکہ انہیں نجران بهیجا تها - اس کتاب کو میں نے ابو بکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑها تھا ، اس میں اللہ