*محمد بن جابر یمامی اور جمہور محدثین کی توثیق اور حدیث ترک رفع الیدین پر وارد تمام باطل اعتراضات کا مدلل رد *
*(تحقیق اسد الطحاوی )*
حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت جسکو ابراھیم النخعی سے امام حماد بن ابی سلیمان اور ان سے محمد بن جابر اور ان سے امام اسحاق بن ابی اسرائیل بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں میں نے نبی پاک کے ساتھ ، حضرت عمر اور حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ نماز پڑھی شوائے شروع کے پھر رفع الیدین نہیں کرتے تھے
اس روایت کی سند کم از کم حسن ہے شواہد میں اور اس کو امام ابن ترکمانی نےجید قرار دیا ہے الجوہر النقی میں
اور اس روایت کے راوی امام اسحاق بن ابی اسرائیل جنکی تعدیل کرتے ہوئے امام احمد کہتے ہیں یہ عقل مند اور بہت بڑے فقیہ تھے امام اسحاق خود اس روایت کو بیان کر کے کہتے ہیں کہ ہمارا عمل بھی اسی پر ہے (یعنی ترک رفع الیدین پر) غیر مقلد حمزہ یعنی اسنے کاپی پیسٹ ماری ہے زبیر زئی کی کتاب سے تو یہ زبیر زئی کے بیان کردہ اعتراضات کا بھی رد ہے ۔
ہم غیر مقلدین کی پیش کردہ ایک ایک جرح کا جواب دینگے اور آخر میں محمد بن جابر الیمامی الحنفی کی توثیق اور دوسری بیان کردہ علت کو بھی رفع کرینگے ۔
غیر مقلدین کے بیان کردہ اعتراضات مندرجہ زیل ہیں!
1اعتراض۔ امام بخاری نے فرمایا لیس بالقوی اور دوسری جگہ ضعیف قرار دیا ہے۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
امام بخاری نے یہ جرح محمد بن جابر پر حفظ میں کمزوری اور سئی الحفظ کی وجہ سے کی تھی لیکن امام ابو زعہ ، امام ابو حاتم، امام ابن عدی اور ابن سعد کی تصریح موجود ہے کہ یمامہ میں اس سے جو بھی لکھا گیا وہ صدوق تھے
اور محدثین نے اسکی کتب احادیث کی بھی تصریح کی ہے کہ اسکے پاس جو کتب احادیث تھیں وہ بالکل صحیح تھیں
*************
اعتراض 2۔امام احمد ابن حنبل نے فرمایا اس سے وہی روایت کرتا ہے جو اس سے زیادہ شریر ہے۔پھر فرمایا یروی احادیث مناکیر اور حدیثہ عن حماد فیہ اضطراب
الجواب: (اسد الطحاوی)
امام احمد بن حنبل یہ کئی وجہ سے قبول نہیں کیونکہ امام احمد بن حنبل کی اس جرح کو مان لیا جائے تو بہت سے بڑے بڑے محدثین سے ہاتھ دھونا پڑے گا
امام ابن عدی الکامل میں محمد بن جابر کے بارے لکھتے ہیں : وقد روی عن محمد بن جارب کما ذکرت من الکبار ایوب ، و ابن عون ، وہشام بن حسان ، سفیان الثوری و شعبہ و ابن عینیہ و غیرہم ممن زکر تھم ولولا ان محمد بن جابر فی زالك المحل لم یروعنه ھولا (الکامل ابن عدی جلد ۷ ، ص ۴۳۰)؎
ترجمہ: امام ابن عدی محمد بن جابر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے ابن عینیہ ، امام سفیان الثوری ، امام شعبہ ، امام ہشام بن حسان ، امام ایوب جیسے کبار محدثین رویات کرتے ہیں اگر یہ ابن جابر اس مقام کا نہ ہوتا تو یہ حضرات اس سے روایت نہ کرتے
کیا غیر مقلدین امام احمد کی بات مان کر امام سفیان ثوری ، امام ایوب ، ہشام بن حسان اور امام شعبہ جیسے کبار شیوخ کو شریر مانے گیں ؟
اور دوسری بات امام احمد نے محمد بن جابر پر مطلق جرح کی ہے اور اسکی کتب کا ضائع ہونے کی جرح کی ہے اس سے معلوم ہوا امام احمد کے علم میں یہ بات نہیں تھی جس کی تصریح امام ابن عدی ، امام ابوزرعہ ، امام ابو حاتم اور امام ابن مبارک نے کی ہے کہ یمامہ میں محمد بن جابر کی کتابیں یمامہ اور مکہ کے مقام پر صحیح تھیں اور اس سے جو لکھا گیا وہ بالکل صحیح ہے
یہ تعدیل خاص ہے اور تعدیل خاص کو عام جرح سے رد نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہاں امام احمد کی بات بھی جمہور محدثین جن میں متشدد امام بھی شامل ہیں انکی تعدیل کے خلاف ہے
*********************
اعتراض 3۔ابن حبان نے فرمایا: یہ نابیان تھا، اسکی کتابوں میں وہ چیزیں داخل کردی گئی جو اسکی حدیث نہیں تھیں اور انہیں چوری کرلیا گیا، جب اسکے سامنے اسکا ذکر کیا جاتا تو یہ اسے حدیث کے طور پربیان کردیتا تھا۔
اعتراض 4۔علامہ ابن الجوزیہ نے اسکو کتاب الضعفاء و المتروکین میں شامل کرنے کے بعد سخت جروحات نقل کی اور اسکی رفع یدین کی عمر اور ابو بکر سے نفی والی روایت کو کتاب الموضوعات کی زینت بنا کر ثابت کردیا کہ یہ گھڑی ہوئی روایت ہے۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
امام ابن حبان کی جرح بھی مطلق ہے جو کہ باطل ہے امام ابو زرعہ ، امام ابن عدی ، امام ابن سعد اور امام ابن مبارک کی تصیح کے سامنے امام ابن حبان متشدد کی جرح کی کوئی اہمیت نہیں ہے
اور یہی وجہ ہے کہ امام ذھبی اور امام ابن حجر عسقلانی ؒ امام ابن حبان کے بارے لکھتے ہیں کہ :ابن حبان بعض اوقات ثقہ اور صدوق راویوں کے خلاف ایسی جرح کرتے ہیں کہ انکے قلم یعنی سر سے کیا نکل رہا ہے انکو معلوم نہیں رہتا ہے
*****************
اعتراض 5۔ حافظ ہیثمی نے فرمایا اس سند مٰں محمد بن جابر الیمامی ہے جو جمہور کے نزدیک ضعیف ہے اور وثق کے کلمہ سے اسکی توثیق کو غیر معتبر قرار دیا۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
وہابیہ نے یہاں بھی امام نور الدین ہیثمی کا پورا موقف بیان نہیں کیا امام ہیثمی نے محمد بن جابر کی متعدد روایات پر اس پر کلام کیا ہے لیکن اپنی رائے انہوں نے ایک جگہ دی ہے مجمع الزوائد میں جسکو وہابیہ نے چھپا لیا ہے
امام ہیثمی مجمع الزوائد حدیث نمبر 3367 کے تحت لکھتے ہیں : وفیہ محمد بن جابر الیمامی ، وفیہ کلام کثیر وھو صدوق فی نفسه صحیح الکتاب ، ولکنه ساءحفظه وقبل التلقین
ترجمہ: امام ہیثمی لکھتے ہیں کہ محمد بن جابر پر بہت کلام ہے لیکن یہ فی نفسی صدوق یعنی سچے ہیں اور انکی احادیث کی کتب بھی بالکل صحیح تھیں اور انکا حافظہ بہت برا ہو گیا اور تلقین بھی قبول کر لیتے تھے
یعنی امام ہیثمی نے بھی صریح طور پر زکر کر دیا ہے کہ فی نفسی صدوق تھا اور اختلاط کے بعد سئی الحفظ کی وجہ سے یہ تلقین بھی قبول کرلیتا تھا لیکن اسکی کتب صحیح تھیں جیسا کہ جمہور محدثین نے تصریح کی ہے کہ یمامہ اور مکہ کے مقام پر اسکی کتب صحیح تھیں اور ان سے جو لکھا گیا سچ ہے یعنی صحیح ہے
**********************
6 اعتراض ۔عبدالرحمن ابن مھدی نے فرمایا یضعفہ، اور پرفرمایا یحدث عنہ عن حماد ثم ترکہ بعد۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
یہ جرح کا پس منظر دیکھنا لازمی ہے تاکہ وہابیہ کی دھاندلی ثابت کی جا سکے امام عبد الحمن بن مھدی جو کہ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں وہ بھی محمد بن جابر کے شاگرد ہیں اور ان سے کتب سے سماع کیا ہے اور محمد بن جابر سے حماد کی روایات بھی لیتے تھے جو کہ اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ امام ابن مھدی کے نزدیک محمد بن جابر کی حماد بن ابی سلیمان سے روایت صحیح ہوتی ہے تبھی تو ابن مھدی ان سے روایت لیتے
چناچہ امام ابن عدی لکھتے ہیں : حدثنا حماد ، ثنا عباللہ بن احمد حدثنی ابی قال ثنا عتاب بن زیاد قال قدم عبداللہ بن مبارک علی محمد بن جابر وھو یحدث بہ مکہ فی سنة ثمان وستین ومائة فقال : حد یا شیخ من کتب، قا من ہذا؟ قیل ؟ابن مبارک فارسل الیه بکتبه، وکان عبدالرحمن یساله من حدیث حماد ، وعبداللہ ساکت
ترجمہ : عبداللہ بن مبارک محمد بن جابر کے پاس آئے اور محمد بن جابر مکہ مکرمہ میں حدیث بیان ک رہے تھے 168ھ میں تو عبداللہ بن مبارک نے فرمایا اے شیخ ! اپنی کتابوں سے حدیث بیان کریں محمد بن جابر نے کہا یہ کون ہے ؟ تو کہا گیا کہ یہ عبداللہ بن مبارک ہیں تو محمد بن جابر نے اپنی کتابیں عبداللہ بن مبارک کے ہاں بیج دیں اور محمد عبدالرحمن بن مھدی محمد بن جابر سے حضرت حماد کی حدیث پوچھتے تھے اور عبداللہ بن مبارک خاموش تھے
(الکامل ابن عدی جلد 7 صفحہ 329)
اس سے معلوم ہوا کہ محمد بن جاابر کی حدیث جو انکی کتابوں میں ہیں وہ صحیح ہیں تبھی تو انکی کتب احادیث حاصل کرنے کے لیے ابن مبارک جیسا محدث نے کہا اور حماد کی حدیث بھی صحیح ہے کیونکہ عبدالرحمن بن مھدی محمد بن جابر سے حماد کی حدیث کار بارے سوال کرتے تھے یاور عبداللہ بن مبارک خاموش تھے یہ خاموشی رضا کی دلی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا ابن مبارک اور ابن مھدی بھی مکہ اور یمامہ کے مکام پر محمد بن جابر سے روایات لیتے اور انکی کتب کو صحیح مانتے تھے
**********************
اعتراض 7۔یحییٰ بن معین نے فرمایا لیس بشئ اور دوسری جگہ ولکنہ عمی واختلط علیہ۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
امام ابن معین متشدد امام ہیں جیسا کہ امام ذھبی نے زکر کیا انکو متعنت اماموں میں اور سنابلی اور زبیر علی زئی کے نزدیک بھی امام ابن معین متشددین میں سے ہیں
اور لیس بشئی کے کلمات امام ابن معین کے جرح میں سے نہیں ہے جیسا کہ ابن قطان نے تصریح کی ہے کہ ابن معین جس راوی کی کم رویات دیکھتے ہیں تو اسکے بارے میں لیس بشئی کہہ دیتے ہیں اس سے مراد تضعیف نہیں ہوتی ہے ۔ اور دوسری جگہ امام ابن معین نے انکے اختلاط کا زکر کیا ہے اور یہ بات تو متفقہ ہے کہ اختلاط کے بعد سئی الحفظ ہونے کی وجہ سے محمد بن جابر ضعیف ہو گیا تھا لیکن ہماری یہ روایت محمد بن جابر کی کتاب سے ہے جیسا کہ تصریح آخر میں پیش کرینگے کہ یمامہ اور مکہ میں ان سے جو لکھا گیا وہ سچ ہے یعنی اس وقت انکا حافظہ صدوق اور کتابیں صحیح تھیں
********************
8 اعتراض ۔ابو حفص ابن شاہین نے اسکو تاریخ الضعفاء وا لکذابین والمتروکین مٰں شامل کرکے لکھا لیس بشئ اور پھر لکاھ لیس حدیثھما بشئی۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
امام ابن شاھین کا اسکو الضعفاء میں درج کرنا اور اس پر لیس بشئی اور لیس حدیثھما بشئی کی جرح کرنا جمہور محدثین کی تصریح کہ مکہ اور یمامہ میں یہ صدوق درجے کا تھا اور اسکی کتب بھی اس وقت صحیح تھیں اس تعدیل پر مضر نہیں ہے کیونکہ تعدیل خاص پر جرح بھی خاص چاہیے ہوتی ہے
اور دوسری بات متشدد اماموں کی توثیق کے سامنے ابن شاھین کی جرح باطل ہے نیز جرح عام ہے اور تعدی خاص ہے اورتیسری بات یہ حدیث محمد بن جابر کی کتاب سے ہے تو اس طرح محمد بن جابر کے حفظ پر کلام کرنا بھی اس روایت کے مضر نہیں ہے
**************
9 اعتراض ۔عمر بن علی نے اس پر جرح مفسر کرتے وہئے لکھا صدوق کثیر الوہم، متروک الحدیث۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
امام عمر بن افلاس علل کے اتنے بڑے امام نہیں جو امام ابو زرعہ ، امام ابو حاتم ہیں اور ابن جابر کی توثیق میں امام شعبہ ، امام ابن مھدی ، امام ابن عدی اور امام ابن ترکمانی جیسے جید محدثین شامل ہیں اور دوسری بات امام ابن افلاس نے بھی انکو صدوق مانتے ہوئے کثیر الوھم کہاہے اور کثیر الوھم کی جرح کا تعلق یقینن انکے اختلاط سئی الحفظ ہونے کے بعد کی جرح ہے وگرنہ مکہ اور یمامہ کے مقام پر محمد بن جابر صدوق ہیں
***************
اعتراض 10۔یعقوب بن سفیان فسوی نے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
امام یعقوب بن سفیان الفسوی نے جرح مبھم کی ہے بغیر وجہ کے فقط ضعیف کہہ دینا جرح مفسر نہیں ہوتا اور تعدیل خاص مقدم ہوتی ہے جرح مبھہم پر یہ تو متفقہ اصول ہے
************
اعتراض 11۔حافظ ذہبی نے اسکو دیوان الضعفاء میں ذکر کرکے ضعیف قرار دیا ، اور الکاشف میں لکھا "سئی الحفظ۔"
الجواب: (اسد الطحاوی)
یہاں پر وہابیہ غیر مقلد حمزہ نے روایت آدھی زکر کی ہے اور دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جبکہ ہم پوری روایت نقل کرتے ہیں الکاشف سے
4762- محمد بن جابر الحنفي اليمامي عن حبيب بن أبي ثابت وعدة وعنه مسدد ولوين وخلق سئ الحفظ وقال أبو حاتم هو أحب إلي من إبن لهيعة د ق
امام ذھبی لکھتے ہیں کہ محمد بن جابر الیمامی حبیب بن ابی ثابت اور ان سے مدد وغیرہ نے بیان کیا ہے انکا حافظہ خراب تھا اور ابو حاتم (متشدد) کہتے ہیں کہ محمد بن جابر مجھے ابن لھیہ سے زیادہ پسند ہے
اور امام ذھبی خو د سیر اعلام میں لکھتے ہیں کہ جس راوی کی توثیق امام ابو حاتم کر دیں اسکو مضبوطی سے پکڑ لو اور جس پر یہ جرح کر دیں تو دوسرے اماموں کے اقوال دیکھ کر پھر فیصلہ کرو۔
(تمام باتوں کے اسکین نیچے موجود ہیں )
***************
12 اعتراض ۔امام عجلی نے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
صرف ضعیف کہہ دینے سے فقط راوی ضعیف نہیں ہوتا جب جرح و تعدیل کے اقوال ہوں تو جرح مفسر ثابت کرنی پڑتی ہے نیز اس پر تعدیل بھی خاص ہے مکہ اور یمامہ کے مقام سے حوالے سے
***************
13 اعتراض ۔امام ابو زرعہ الرازی نے فرمایا علماء کے نزدیک محمد بن جابر ساقط الحدیث ہے۔
یہاں امام ابو زرعہ سے تعدیل چھپا لی گئی اور صرف جرح جو کہ انکے حافظے خراب ہونے کی وجہ سے انکو ترک کرنے کی وجہ سے بیان کر دی گئی اور یہ جرح بھی امام ابو زرعہ کی اپنی نہیں ہے انہوں نے محدثین کے لحاظ سے بیان کیا ہے اور صیغہ مجہول ہے
جبکہ امام ابو زعہ کے مطلق امام ابن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو زرعہ اور اپنے والد سے پوچھا کہ محمد بن جابر کا مقام آپ کے نزدیک کیا ہے ؟
تو دونوں نے کہا کہ محمد بن جابر میرے نزدیک صدوق ہے اور یہ مجھے ابن الھیہ سے زیادہ محبوب ہے
اور دوسری جگہ امام ابو حاتم و ابو زرعہ کہتے ہیں مکہ اور یمامہ کے مقام پر ان سے جو بھی لکھا گیا وہ اس وقت صدوق تھے
(الجرح و تعدیل برقم 1215)
**************
14 اعتراض ۔امام ابو حاتم نے محمد بن جابر کی سند سے مروی ایک حدیث کو منکر قرار دیا اور اسکی وجہ ابن جابر کا بھلکڑ پن بتایا ۔ یعنی یہ ابو حاتم کے نزدیک منکر الحدیث تھا۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
یہاں وہابی غیر مقلد ابو حمزہ نے پھر اپنی جہالت سے دھوکہ دینے کی کوشش کی زبیر زئی کے راستے پر چلتے ہوئے
جبکہ وہابی غیر مقلد نے اسکی سند بیان نہ کی کہ امام ابو حاتم نے کس روایت کے بارے یہ بات کی جبکہ جس روایت کے بارے امام ابو حاتم نے بات کی اس سند میں محمد بن جابر الحارث (کذاب)سے روایت کر رہے ہیں اور یہاں محمدامام ابو حاتم سے تسامع ہوا کہ انہوں نے سند میں کذاب راوی کو چھوڑ کرمحمد بن جابر پر جرح کر دی کہ انکے بھولنے کی وجہ سے ہے
دوسری بات یہ ہے امام ابو حاتم نے خود تعدیل خاص کررکھی ہے محمد بن جابر پر جب وہ مکہ اور یمامہ کے مقام پر تھے تو اس جرح سے انکی تعدیل پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ الحارث سے محمد بن جابر نے یہ روایت مکہ یا یمامہ میں بیان کی ہے اسکی کوئی تصریح نہیں ہے
نیز یہا ں ایک اور جہالت وہابی نے یہ دیکھائی ہے کہ کسی راوی کی منکر روایت کی نشاندہی پر اسکو منکر الحدیث نہیں کہا جاتا ہے ۔۔ ۔منکر الحدیث اور حدیث منکر میں بہت فرق ہے اگر اس جاہل کو یہ پتہ ہوتا تو اتنی بڑی جہالت نہ دیکھاتا ۔
***********
15 اعتراض ۔ امام ابن خثٰیمہ نے فرمایا لیس حدیثھما شئی
الجواب: (اسد الطحاوی)
نمبر گیم کھیلنے کے لیےوہابیہ لوگوں کو طرح طرح سے دھوکا دیتے ہیں اسکا ایک نمونہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے امام ابن خثیمہ نے تاریخ الکبیر میں یہ جرح ابن معین کی طرف سے نقل کی ہے جبکہ یہاں یہ الفاظ ابن خثیمہ کی طرف منسوب کر دیے گئے ہیں ۔
******************
16 اعتراض ۔علامہ زائد کوثری نے اسکو مجروح قرار دیتے ہوئے لکھا اس سے وہی ادمی روایت کرتا ہے جو اس سے زیادہ شریر ہوتھا ہے۔پھر ابن ابی حاتم کا اس سے روایت لینے پر ابن ابی حاتم پر خوب تنقید کی۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
علامہ زاہد الکثوری صاحب نے یہ قول امام احمد کا نقل کیا نہ کے خود سے اور امام ابو حاتم نے تو اسکی تعدیل صرف مکہ اور یمامہ کے مطلق کی ہے نہ کہ مطلق تو یہاں کوثری صاحب کا ابو حاتم پر نتقید کرنا محل نظر ہے
****************
اعتراض 17۔علامہ ابن قیم الجوزی نے اسکی رفع یدین کی نفی والی روایت کو منقطع لا یصح کرکے مجروح قرار دیا ۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
ابن قیم جوزی کوئی متفقہ محدثین کی لسٹ میں نہیں ہیں جو انکی بات کو اہمیت دی جا سکے
اعتراض 18۔علامہ محمد بن طاہر مقدسی نے اسکی رفع یدین کی نفی والی روایت کو تذکرۃ الموضو عات میں شامل کرکے لکھا فیہ محمد بن جابر لیس بشئی ۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
اس روایت کو علامہ محمد بن طاہر المقدی سے ابن جوزی کی تقلید میں الموضوعات میں ذکر کیا ہے نیز اس کی سند میں کوئی بھی ایسا راوی نہیں ہے جس پر متہم بلکذب کی جرح جسکی وجہ سے اسکی روایت کو موضوع سمجھا جائے
اور دوسری بات یہ کےا لبانی نے محمد بن جابر سے مروی ایک روایت پر کلام کرتے ہوئے محمد بن جابر کو ضعیف قرار دیتا ہے لیکن شواہد کی وجہ سے اسکی مروی روایت کو حسن قرا ردیتے ہوئے لکھتا ہے کہ محمد بن جابر پر متہم بلکذب کی کوئی جرح نہیں ہے تو شواہد و متابعت میں تو البانی نے بھی اسکو قبول کیا ہے
جبکہ یمامہ اور مکہ میں اسحاق بن اسرائیل نے محمد بن جابر سے سماع کیا اور اس کی کتب سے تمام روایات نقل کر لیں جن کتب کی توثیق ابن عدی ، ابن مبارک، ابن عدی اور ابن سعد وغیر سب نے کی ہے ْ
******************
اعتراض 19۔علامہ سیوطی نے محمد بن جابر کی رفع یدین کی نفی والی روایت کو الاحادیث الموضوعۃ میں ذکر کرکھے لکھا موضوع اور محمد بن جابر یمامی کے بارے میں لکاھ آفۃ الیمامی۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
یہ بھی امام سیوطی پر جھوٹ ہے جبکہ جب انکی تصنیف کی طرف نظر کی جائے تو امام سیوطی نے یہ الفاظ امام ابن الجوزی کی طرف سے نقل کی ہے آگے قلت کہہ کر اسکا رد کرتے ہوئے ترمذی اور نسائی اسکی سند بیان کر کے متعدد محدثین سے تصحیح پیش کی ہے اور محمد بن جابر جسکی توثیق امام ابو حاتم و ابو زرعہ ، اور انکے ساتھ امام ابن حجر عسقلانی جیسا محدث بھی کر دے اسکو امام سیوطی کیسے ضعیف قرار دیکر موضوع مان سکتے ہیں روایت کو ۔
*********************
20 اعتراض ۔زیلعی حنفی نے لکھا یہ حدیث میں اہل علم کے مطابق ضعیف ہے۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
اما م زیلعی کی یہ بات ادھوری لکھی گئی ہے نیز اہل علم صیفہ بھی مجہول کا ہے دوسری بات یہ کے امام زیعلی نے محمد بن جابر کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں بہترین کلام ابن عدی کا ہے کہ اسحاق بن اسرائیل اپنے شیوخ پر محمد بن جابر کو فضیلت دیتے تھے اور جبکہ وہ ان سے اوثق اور فضیلت میں زیادہ تھے
************************
اعتراض 21۔اسکا شاگر اسحق بن ابی اسرائیل 20سال کی عمر کا تھا جب یہ فوت ہوگیا یعنی اس نے یمامی سے اختلاط کے بعد روایت کی۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
وہابی جی نے یہاں بھی فقط اندھی گھمائی ہے اور محدثین کی تصریح کے خلاف بات بیان کی ہے جبکہ بات اسکے بر عکس ہے ہم محدثین سے اس تصریح کا زکر بیان کرتے ہیں کہ محمد بن جابر سے اسحاق بن اسرائیل کا سماع یمامہ کے مقام پر کا ہے اور انہوں نے محمد بن جابر کی تمام کتب کو لکھ لیا تھا یعنی محمد بن جابر سے اسحاق بن اسرائیل کا سماع انکی کتب سے ہے تو اس میں حفظ پر کوئی جرح مفسر اگر ثابت بھی ہوتی تو اس روایت کے مضر نہ ہوتی کیونکہ اسحاق بن اسرائیل کا سماع محمد بن جابر سے کتب کے زریعے ہے نیز اس مقام پر محمد بن جابر کا مرتبہ بھی صدوق تھا
۱.امام ابن عدی الکامل میں بیان کرتے ہیں : اسحاق بن ابی اسرائیل عن محمد بن جابر کتاب احادیث صالحة وکان اسحاق یفضل محمد بن جابر علی جماعة شیوخ ہم افضل منه و اوثق(الکامل ابن عدی جلد 7 ص 230)
ترجمہ: ابن عدی فرماتے ہیں : اسحاق بن ابی اسرائیل وہ محمد بن جابر سے روایت کرتے ہیں انکے پاس حدیث کتب تھیں جو بالکل صحیح سلامت تھیں اور امام اسحاق محمد بن جابر کو جماعت شیوخ پر فضیلت دیتے تھے اور وہ ان سے افضل اور اوثق تھے
۲.امام ابن سعد الطبقات الکبریٰ میں بیان کرتے ہیں کہ : محمد بن جابر با لیمامة فکتب کتبه وقد م البصرة من الیمامة بعد موت ابی عوانة بیومین او ثلاثة (ص 353)
ترجمہ: امام محمد بن سعد اسحاق بن ابراھیم کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ اسحاق بن اسرائیل محمد بن جابر کی رف سفر کیا یمامہ کی طرف اور انکی سب کتابوں کو لکھ لیا پھر بسرہ آئے یمامہ سے ابو عوانہ کی موت کے دو دن بعد یا تین دن بعد
۳.امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں : وقال ابن ابی حاتم ایضا: وسمت ابی و ابا زرعة یقولا : من کتب عنه بالیمامة وبمکة فھو صدوق الا ان فی احادیث تخالیط واما اصوله فھی صحاح (الجرح و تعدیل ، جلد 7 ص 219)
ترجمہ : امام ابن ابی حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ سے سنا وہ دونوں فرماتے ہیں جو کچھ بھی اس سے (محمد بن جابر) سے لکھا گیا مکہ اور یمامہ کے مقام پر اس وقت وہ صدوق تھے
تین تین محدثین سے خاص تصریح کے امام اسحاق بن ابی اسرائیل کا سماع محمد بن جابر سے یمامہ کے مقام پر ہے اور انہوں نے اپنے شیخ محمد بن جابر کی کتب کو لکھ لیا تھا یعنی سماع بھی کتب سے ہے ۔
*******************
اعتراض:
نوٹ شعیب الارنووط نامی کوثری حنفی نے پہلے محمد بن جابر پر تقریب التہدیب کے حاشیہ پر سخت جروحات نقل کی اور بعد مں جب دارقطنی کا حاشیہ لکھا تو دیکھا کہ یہ تو اسکے احناف کی چھترول اسکے اپنے ہاتھوں ہوگی ہے تو اسنے روایتی تقلیدی تصعب کا ثبوت دیتے ہوئے اس روایت کو جو کہ ایک گھڑی ہوئی روایت ہےاور امام دارقطنی خود اس پر جرح کررہے ہیں، صحیح کا حکم لگاکر خود کو ہی ساقط الاعتبار قرار دے دیا۔
الجواب: (اسد الطحاوی)
علامہ شعیب الارنووط نے محمد بن جابر پر جروحات نقل کی ہیں تقریب میں اور نیز محمد بن جابر کو سئی الحفظ اور ضعیف تو ہم بھی کہتے ہیں لیکن مکہ اور یمامہ کے مقام کے بعد جب انکے حافظے میں اختلا ط آگیا لیکن مکہ اور یمامہ میں انکا مقام صدوق تھا نیز اسحاق کا سماع بھی محمد بن جابر سے کتب سے ہے تو روایت کی تصحیح کرنے سے علامہ شعیب کو متعصبی کہنا جہالت ہے
نیز علامہ شعیب الارنووط نے حاشیے میں یہ بھی تصریح کی ہے کہ اس طرح ابن مسعو دسے مسند احمد اور دوسرے مقام پر روایت ہے جیسا کہ ترمذی اور نسائی میں ہے تو تقویت دے رہے تھے انکی اور روایات سے ۔
جبکہ ہم دیکھاتے ہیں اصل تعصب اور اپنے فرقے کو دیکھ کر اپنے اصولوں کو توڑ موڑ دینے میں زبیر زئی میاں مشہور تھے اور آج تک انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر مقلدین انکی تصانیف سے اندھی تقلید کرتے ہوئے لوگوں میں انکی باتیں پھیلا رہے ہیں
زبیر زئی اپنی کتاب نصر الباری میں صفح 241 پر لکھتا ہے محمد بن جابر خود کہتا ہے کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چرائی ہیں (الجرح و تعدیل وسند صحیح )
جب امام ابی حنیفہ کو مجروح ثابت کرنا تھا محمد بن جابر کے قول کے قول کو سند سمیت صحیح قرا ردے دیا
اور جب یہی روایت ترک رفع الدین میں آیا تو اپنی توسری کتاب نور العنین میں اس راوی پر 20 محدثین کی لسٹ بنا کر جرح ثابت کر کے ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے نیز اسکی لسٹ جس میں ہم نے اوپر جھوٹ اور فریب پکڑ کر بیان کر دیے ہیں وہ ساری کاپی پیسٹ اسی کتاب نور العنین سے کاپی پیسٹ تھی لہذا ہم نے جو شروع میں کہا کہ یہ زبیر زئی ہی کے مضمون کا رد ہے جسکو وہابیہ ابو حمزہ سمیت اندھی دھند کاپی کر کے اپنا دانی پانی چلاتے ہیں
****************************
اب ہم محمد بن جابر کی محدثین سے توثیق پیش کرتے ہیں
۱.امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ جس نے اس سے یمامہ اور مکہ میں سنا اس وقت و صدوق تھے
۲.امام ابو زرعہ فرماتے ہیں جس نے اس سے یمامہ و مکہ میں لکھا وہ اس وقت صدوق تھے
۳.دوسرے مقام پر امام ابو حاتم و ابو زرعہ نے فرمایا محمد بن جابر مجھے ابن الھیہ سے زیادہ پسندیدہ ہے
۴.امام ابن الفاس کہتے ہیں صدوق ہیں لیکن غلطیاں زیادہ کرتے ہیں (کثیر الوھم کی جرح انکے حافظے کے خراب ہونے کے بعد کی ہے )
۵.اس روایت کو بیان کر کے ثقہ محدث امام اسحاق بن ابی سرائیل کہتے ہیں اس روایت پر ہمارا عمل ہے یعنی انکے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے اور ویسے بھی وہ محمد بن جابر کو اپنے دیگر شیوخ پر فضیلت دیتے تھے
۶.امام ابن ترکمانی نے اس روایت کی سند کو جید کہا ہے شاہد میں اور منفرد روایت کی توثیق کرنا سارے راویوں کی توثیق ہوتی ہے
۷.امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں لکھتے ہیں کہ محمد بن جابر فی نفسہ صدوق درجے کا ہے اور اسکی کتایبں (بعد) میں ضائع ہو گئی تھیں اور حافظہ بھی کمزور ہو گیا تھا
۸.امام ذھلی فرماتے ہیں کہ لا باس بہ یعنی اس میں کوئی حرج نہیں
۹.امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ محمد بن جابر سے کبار شیوخ جیسا کہ امام شعبہ ، امام ابن عینیہ ، سفیان الثوری اور ہشام بن حسان جیسے محدثین روایت کرتے ہیں اگر انکا یہ مقام (ثقہ)ٌ نہ ہوتا تو وہ ان سے روایت نہ کرتے جو ان سے بھی افضل تھے
۱۰.امام ابن مبارک کہتے ہیں میں ابن جابر کے پاس گیا مکہ میں وہ اپنی کتب سے بیان کر رہے تھے میں نے انکی کتب دیکھی وہ بالکل صحیح تھیں اور ان سے کہا کہ ان کتب سے روایت کیجیے
۱۱.امام عبدالرحمن بن مھدی مکہ کے مقام پر امام محمد بن جابر سے حماد کی روایات کے بارے سوال کرتے تھے یعنی پوچھتے تھے حماد سے مروی روایات (اور وہابیہ کو بھی تسلیم ہے کہ ابن مھدی اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت لیتے ہیں نیز ابن مھدی سے جرح یا انکو ترک کرنا انکے حافظے میں اختلاط آنے کے بعد کا ہے )
۱۲.امام الحافظ ابن الجارود نے بھی محمد بن جابر سے روایت اپنی تصنیف المنتقیٰ میں نقل کی ہے اور وہابیہ کو بھی تسلیم ہے کہ المنتقیٰ میں تمام روایات سندا صحیح ہیں یعنی امام ابن الجارود کے نزدیک یہ ثقہ ہیں
۱۳.امام ابو الولید کہتے ہیں ہم نے محمد بن جابر کی حدیث نہ لے کر ان پر ظلم کرتے ہیں ٌ(یعنی قبل اختلاط محمد بن جابر ثقہ و صدوق تھے )
۱۴.امام سیوطی نے الموضوعات میں ابن الجوزی کی طرف سے محمد بن جابر کی وجہ سے اسکو موضوع کہنے کا رد کیا ہے اور اس روایت کو نسائی ، ترمذی میں ابن مسعود کی روایت کردہ روایت سے شاہد کے طور پر بیان کیا
۱۵. امام ملا علی قاری نے بھی اس رویات پر ابن الجوزی کا رد کیا الموضوعات میں
۱۶.امام شافعی نے اپنی کتاب الام میں محمد بن جابر عن حماد کے طرق سے ابراھیم نخعی کا قول بیان قلت سے بیان کر کے استدلال کیا ہے اور محدث کا کسی سند سے قول سے استدلال کرنا اسکے نزدیک سب راویوں کی توثیق ہوتی ہے
۱۸.امام ابو داود نے ایک روایت پر لکھا کہ اس روایت کو محمد بن جابر سے امام سفیان اور امام شعبہ نے روایت کیا ہے اور غیر مقلدین کو بھی یہ بات قبول ہے کہ امام شعبہ صرف اپنے نزدیک ثقہ سے روایت کرتے ہیں
۱۹.اور زبیر زئی امام ابو حنیفہ سے جرح ثابت کرنے کے لیے محمد بن جابر کے قول کو سند ا صحیح مان کر مدلس ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
۲۰. امام ذھبی نے الکاشف میں اسکے حفظ پر کلام کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام ابو حاتم کے نزدیک یہ ابن الھیہ سے زیادہ پسندیدہ تھے اور ابو حاتم کے متلق امام ذھبی کا قول اوپر نقل کر چکے ہیں
۲۱. امام طحاوی نے شرح مشکل الاثار اور معنی الاثار میں محمد بن جابر سے روایات لی ہیں اور کوئی جرح نہیں کی
اب آتے ہیں غیر مقلدین کی طرف سے بیان کردہ دوسری علت کی طرف کہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حماد بن ابی سلیمان بھی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور محمد بن جابر کا سماع حماد بن ابی سلیمان سے اختلاط کے بعد کا ہے کیونکہ امام ہیثمی فرماتے ہیں مجمع الزوائد میں کہ حماد بن ابی سلیمان سے انکی روایت وہی قبول ہے جو ان سے قدماء شاگرد بیان کرتے ہیں ہشام ، سفیان الثوری ، شعبہ
الجواب: (اسد الطحاوی)
یہ اعتراض بہت ہی کمزور ہے محدثین اور علل کےا ماموں میں کسی نے بھی حماد بن ابی سلیمان کی روایات میں صرف انکے قدماء شاگردوں حماد کو ثقہ فقط نہیں مانا بلکہ مطلق حماد کی ہر روایت اور خاص کر ابراھیم سے تو ہر روایت کو مطلق قبول کیا اور حماد کو ثقہ و ثبت مانا ہے نیز امام نسائی ، امام احمد اور ان جیسے دگیر محدثین نے حماد کو ثقہ پر فضیلت دی ہے یہاں تک کہ امام نسائی نے اپنی سنن میں حماد کی قدماء شاگردوں کے علاوہ نقل کی ہیں اور البانی نے بھی اس تخصیص کو نہیں مانا بلکہ اس نے صاف لکھا کہ حماد پر جرح کسی بھی قسم کی ضرر نہیں پہنچاتی ہے اور البانی نے اپنی کتاب سلسلہ الصحیہ میں حماد بن ابی سلیمان سے مروی روایات نقل کر کے جگہ جگہ تصحیح کی ہے روایات کی جو غیر قدماء شاگردوں سے بیان ہے نیز ایک روایت جس میں حماد سے اسکی عمر کے آخری وقت میں بیان کرنے والا شاگرد ہے البانی کہتا ہے کہ اسکے تمام طرق کا دارومدار حماد بن ابی سلیمان پر ہے اور اسکو وھم بھی ہو جاتا تھا لیکن یہ سند حسن ہے ۔۔ یعنی حماد کا وھم اتنا سخت نہیں تھا کہ اسکی روایت کو مطلق رد کیا جا سکے
نیز حماد بن ابی سلیمان کے بارے محدثین نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ انکو مرگی کےدوڑے پڑتے جس کی وجہ سے محدثین نے اس کے حٖفظ پر اختلاط کی جرح کی ہے
اور وہابی غیر مقلد کے ایک محقق جنکا نام ڈاکٹر قاسم علی سعد ہے انہوں نے منہج امام نسائی کے جرح و تعدیل پر ایک کتاب لکھی ہے وہ حماد بن ابی سلیمان کے اختلاط پر تویل بحث کرتے ہوئے آخر میں یہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ یقینا حماد بن ابی سلیمان ثقہ ہے جب اس سے قدیم ثقہ شاگردوں میں کوئی روایت کرے تو صحیح الحدیث ہے اور اس کے قدیم شاگردوں کے علاوہ جب کوئی اس سے روایت کرے جس میں کوئی منکر روایت نہ ہو تو یہ صدوق ہے اور حسن الحدیث ہے اس سے کم نہیں امام نسائی کا اسکی حدیث پر حکم صحیح سے یہی ظاہر ہے ۔ واللہ اعلم!
(دعاگو:اسد الطحاوی خادم الحدیث 24 دسمبر 2018)
21897 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21896 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21895 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21894 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21893 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21892 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21891 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21890 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21889 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
21888 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
حافظ ہیثمی کہتے ہیں و لم یقبل من حدیث حماد الا ما رواہ عنہ القدماء: شعبۃ ،و سفیان الثوری، والدستوائی، ومن عدا ھؤلاء روواعنہ بعدالاختلاط۔
مجمع الزوائد:1/ 120
اسی طرح خاص حماد کی ابراہیم سے روایت بھی ضعیف ہوتی ہے ملاحظہ ہو امام ابوداود کہتے ہیں قلت لأحمد مغیرۃ أحب اليك فى إ براهيم أو حماد
کہ میں نے امام احمد سے پوچھا آپ کو ابراہیم سے روایت بیان کرنے میں مغیرہ پسند ہیں یا حماد؟ تو امام احمد نے کہا: مافیما روی سفیان و شعبۃ عن حماد فحماد أحب إلی لأن فی حدیث الآخرین عنہ تخلیطا
سؤلات ابی داود(338)
امام احمد کی یہ تصریح خاص ہے جس سے حمادکی ابراہیم سے روایت بارے وضاحت ہو جاتی ہے کہ صحیح ہرگز نہیں ہوتی۔
مقالات راشدیہ از محدث بدیع الدین میں ہے واضح ہو محدثین عظام نے حماد بن ابی سلیمان پر خاص طور ہر اس کی ابراہیم نخعی سے روایت بیان کرنے پر کلام کیا ہے مقالات راشدیہ:3/ 406
الغرض حماد کی یہ روایت قبل از اختلاط ثابت نہیں حماد کا مختلط ہونا ثابت ہے اور جن نے ان سے قبل از اختلاط سنا ان کے نام بھی معلوم ہیں
یہ روایت علتوں سے بھر پور ہے محمد بن جابر متروک و مختلط و کثیر الخطا وغیرہ ہے حماد بن ابی سلیمان بھی مختلط ہے بلکہ مدلس بھی ہے کسی بھی محدث سے اس روایت کا حسن ہونا ثابت نہیں بلکہ موضوع و منکراََ جداََ مقلوب وغیرہ ہونا ثابت ہے
تم سے بات کرنا ہی بےکار وقت کا ضیاع ہے کیونکہ تم تعصب کی آگ میں جل رہے ہو ۔
میں ایک دیوبندی کی کتاب کا قسط وار جواب لکھ رہا ہو اسلیے میرے پاس تمہارے جیسے جاہل کے ساتھ بحث کرنے کا وقت نہیں ہے
Sent from my vivo 1726 using Tapatalk