ابو عبدالله
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 28، 2011
- پیغامات
- 723
- ری ایکشن اسکور
- 448
- پوائنٹ
- 135
جزاك الله
شائد مشوانی صاحب نے یہ پوسٹ نہیں دیکھی:دلائل پیش کرنے سے پہلے میں ایک بات دوبارہ واضخ کرنا چاہتا ہوں. کہ یہ دلائل میرے طرف سے نہی ہیں. تو مہربانی کر کے جواب دیتے وقت مجھ پر غصہ مت ہوں. :) . اور دوسری بات یہ کہ میں نے ان دلائل کا اردو ترجمہ کیا ہے. تو لازمی بات ہے کہ اسمیں غلطیاں ہونگی. جس پر میں معذرت خون ہوں. میں یہاں پر صرف ترجمان کا کام ادا کر رہا ہوں. اچھا.
دلیل # ١:
عثمان بن شیبہ – وکی – سفیان- عاصم (ابن کلیب) – عبدر رحمان بن اسود –ا لقا مہ نے کہا :
عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا :
کیا میں تمہارے ساتھ رسولاللہ ﷺ کی طرح نماز نہ پھڑو ؟
القامہ نے کہا :
پھر اس نے (ابن مسعود) نماز پڑھی اور ایک مرتبہ سے زیادہ اپنے ہاتھ نہیں ا ٹھا ے-
(ابو داود)
دلیل # ٢:
حسن بن علی معاویہ = خالد بن امر بن سید – ابو خذیفہ. انہوں نے کہا کے سفیان نے ہم سے روایت کیا ( اسی اسناد کے ساتھ جو دلیل # ١ میں ہے). اس نے کہا :
ابن مسعود نے نماز کی شوروع میں ہاتھ اٹھاے- اور کچھ راویوں نے کہا صرف ایک مرتبہ.
(ابو داود)
دلیل # ٣:
حناد – وکی-سفیان-عا صم بن کلیب-عبدرحمان بن ال اسود-القامہ –جس نے کہا:
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
کیا میں تمہارے ساتھ رسول اللہ ﷺ ک طرح نماز نہ پڑھوں؟
پھر اس (ابن مسعود) نے نماز پڑھی اور اس نے اپنے ہاتھ،نماز کے شوروع کے علاوہ نہیں اٹھاۓ- امام ترمزی نے برا بن عازب رضی اللہ کی حدیث بھی اسی لحاظ سے بیان کی ہے.
امام ترمزی نے کہا ابن مسعود کی حدیث حسن ہے.
دلیل # ٤:
محمّد بن غیلان ال مروازی-وکی-سفیان-عاصم بن کلیب-عبدر رحمان بن ال اسود –القامہ= عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ نے کہا:
کیا میں تمہارے ساتھ رسولللہ ﷺ کی طرح نماز نہ پڑھوں؟ پھر اسنے نماز پڑھی اور شوروع کی علاوہ دوبارہ ہاتھ نہی اٹھاۓ-
(نسائی)
دلیل # ٥:
وکی-سفیان-عاصم بن کلیب-عبدر رحمان بن ال اسود –القامہ= عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ نے کہا:
کیا میں تمہارے ساتھ رسولللہ ﷺ کی طرح نماز نہ پڑھوں؟ پھر اسنے نماز پڑھی اور شوروع کی علاوہ دوبارہ ہاتھ نہی اٹھاۓ-
(مسند احمد)
دلیل # ٦:
سوید بن نصر – عبدللہ بن ال مبارک- سفیان-عاصم بن کلیب-عبدر رحمان بن ال اسود –القامہ =سفیان- عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ نے کہا:
کیا میں تمہارے ساتھ رسولللہ ﷺ کی طرح نماز نہ پڑھوں؟ پھر اسنے نماز پڑھی اور شوروع کی علاوہ دوبارہ ہاتھ اٹھانا نہیں دہرایا-
(نسائی)
دلیل #٧:
وکی-سفیان-عاصم بن کلیب-عبدر رحمان بن ال اسود –القامہ= عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ نے کہا:
کیا میں تمہارے ساتھ رسولللہ ﷺ کی طرح نماز نہ پڑھوں؟ پھر اسنے نماز پڑھی اور شوروع کی علاوہ دوبارہ ہاتھ نہی اٹھاۓ-
(ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنے مصحف میں اسے بیان کیا)_
دلیل # ٨:
ابو عثمان سید بن محمّد بن احمد ال ہنات اور عبدل وہاب بن عیسا بن ابی حیاه (دونوں نے روایت کیا اسحاق بن ابی ابراہیم- القامہ-عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
میں نے رسولللہ ﷺ،ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی. وہ سواے نماز کے شوروع میں کہیں اور ہاتھ نہیں اٹھاتے.
(دارالقطنی ) ( ابن ادی نے بھی اسکو اپنے اسناد نے ساتھ روایت کیا ہے.)
دلیل # ٩:
ابن ابی داود- نعیم بن حماد-وکی-سفیان-عاصم بن کلیب-عبدر رحمان بن ال اسود –القامہ= عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ نے کہا:
رسولللہ ﷺ
پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے.اور دوبارہ نہی اٹھاتے.
( طحاوی شرحی ماانل اثار )
دلیل # ١٠:
محمّد بن نعمان- یحییٰ بن یحییٰ-وکی-سفیان نے اسکو اسکو اسی اسناد سے بیان کیا جس طرح دلیل # ٩ میں ہے.
( طحاوی شرحی ماانل اثار )
دلیل # ١١:
ابو بکرہ-مامّل-سفیان نے مغیرہ سے روایت کیا.
کہ میں نہیں وائل کی حدیث کو بیان کیا ابراہیم سے، کہ وائل نے رسولللہ ﷺ کو دیکھا کہ نماز شوروع کرتے وقت دیکھا کہ وہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں. اور رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد بھی .
ابراہیم کہا کہ اگر وائل رضی اللہ نے رسولللھ کو ایک دفعہ رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے ابن مسعود رضی اللہ نے ٥٠ مرتبہ دیکھا ہے کہ رسولللہ ﷺ رفع یدین نہیں کر رہے-
( طحاوی شرحی ماانل اثار )
دلیل # ١٢:
احمد بن ابی داود- مسدد-خالد بن عبدللہ- حسین امر بن مررہ جس نے کہا:
میں مسجد حضرا میں داخل ہوا. اور دیکھا کہ اتقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کر رہیں ہیں کہ رسولللہ ﷺ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھے- میں نے جا کے کے اسکو ابراہیم سے بیان کیا. تو ابراہیم کو غصّہ آیا اور کہا:
وائل رضی اللہ نے رسول کو دیکھا اس طرح کرتے ہوئے. لیکن ابن مسعود رضی اللہ اور ان کے ساتھیوں نے نہیں دیکھا.
( طحاوی شرحی ماانل اثار )
دلیل #١٣:
ابو حنیفہ کے ساتھیوں نے بیان کیا:
ابو حنیفہ نے کہا کہ حرماد نے روایت کیا ابراہیم سے،اس نے روایت کیا القامہ اور ال اسود،اور انوں نے ابن مسعود سے.:
بے شک رسولللہ ﷺ
پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے.اور دوبارہ نہی اٹھاتے.
( اصحاب مسانید امام ابو حنیفہ)
نوٹ:
ابن مسعود کی ہدیتہ بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق جید ہیں.
حافظ ابن حجر،دارالقطنی،ابنل قطان نے ابن مسودد کی حدیث کو صحیح کہا. حافظ ابن حجرنے زیلائ پڑ تخریج جے دوران ہونے تلخیص میں اس فیصلے کی موافقت کی ہے.
مسند ابو بکر بن ابی شیبہ کی اس حدیث کی ایک صحیح سند جس کے پانچ راوی ہیں،ابن مسعود کے علاوہ. جو کے مندجہ ذیل ہیں.
وکی، سفیان،اصم بن کلیب، عبد رحمان بن ال اسود اور القامہ. آئیں دیکھتے ہیں کے محدثین ان راویوں کے بڑے میں کیا کہتے ہیں.
١): وکی:
حافظ ابن حجر تہذیبٹ تہذیب میں کہتے ہیں کہ:
وکی بن ال جرح بن ملیح ایک کوفی راوی ہیں. وہ ابو ابو سفیان کے نام سے جانا جاتا ہے. اس نے اپنے والد، اور اسمعیل بن خالد،اور ایمن بن: وائل ،ابن حتھن اور کئی دوسروں سے روایت کیا. اس کے بیٹے سفیان، ملے اور عیینہ نے اس سے احادیث روایت کیں. اس کے مشائخ میں سفیان ثوری، ابی شیبہ کے ٢ بیٹے، ابو حیتھمہ اند حمیدی شامل ہیں.
عبدللہ بن احمد بن حنبل اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
میں نے وکی سے زیادہ علم والا اور حافظے میں مضبوط کسی کو نہیں دیکھا.
احمد بن سہل بن بہر امام احمد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وکی اپنے وقت میں مسلمانو کا امام تھا.
ابن معین نے کہا:
کہ میں نے واککے سے زیادہ بہترین انسان نہی دیکھا.
ملا علی قاری کے مطابق،وکی بخاری کے مستند ترین راویوں میں سے ہے.
امام ابرود نے کہا کے وو وکی کو یحییٰ بن سید پڑ ترجیح دیتے ہیں. صحاح ستا کے تمام توی وکی سے روایت کرتے ہیں.
٢): سفیان بن سید بن مسروق ثوری کوفی:
ملا علی قاری اپنے تذکرہ میں کہتے ہیں. کہ سفیان مسلمانوں کا امام اور اللہ کا ثبوت تھے. وہ اپنے وقت میں فق،اجتہاد اور حدیث کے عآلم تھے. وو طبع تابعین میں شامل تھے وکی کی طرح.
ابو قاسم نے کہا:
سفیان حدیث میں امیرل مومنین ہے.
صحاح ستا کے تمام توی وکی سے روایت کرتے ہیں.
٣):عاصم بن کلیب:
ملا علی قاری کہتے ہیں، عاصم صدیق ہیں،ثقہ ہیں. یحییٰ بن معین اور نسائی نے حدیث میں اسکی مستند ہونے کی گواہی دی ہے. مسلم،ابو داود،نسائی،ابن ماجہ اور ترمزی نے ان سے احادیث روایت کی ہیں.
٤): عبدرحمان بن ال اسود:
ملا علی قاری تذکرہ میں کہتے ہیں:
عبدرحمان بن ال اسود عظیم تابعی ہیں. وہ روزانہ ٧٠٠ رکعت نفل پھڑتے تھے. وح میں بہترین تھے.
حافظ ابن حجر تہذیب و تہذیب میں لکتے ہیں:
عبدرحمان بن ال اسود نے احادیث اپنے چا چا ، القامہ بن قیس سے سنی.
عاصم بن کلیب اور اوروں نے احادیث عبدرحمان بن ال اسود سے روایت کیں. ابن معین،نسائی،اجل،ابن خراش اور ابن حبان اسے ثقہ کہا.
٥): القامہ بن قیس:
ملا علی قاری تذکرہ میں کہتے ہیں:
القامہ بڑے تابعی تھے. انو نے ابن مسعود اور دوسرے صحابہ سے احادیث روایت کیں.
ابراہیم نخی نے کہا:
القامہ ابن مسعود سے مشبیحات رکھتا تھا. ابن ماجہ کے علاوہ تمام محدثین نے ان سے روایت کیا.
یہاں ثابت ہو ہو گیا کہ مسند ابو بکر بن ابی شیبہ کی حدیث کی سند صحیح ہے.
اسی طرح سنن ابو داود کی حدیث بھی بخاری اور مسلم کے شرائط پڑ صحیح ہے. اس سند میں ابو داود نے ایک اضافی راوی عثمان بن ابی شیبہ کو لانے ہیں. جن ترمزی کے علاوہ تمام محدثین نے انسے روایت کیا.
ترمزی کی سند مسلم کے شرائط کے مطابق صحیح ہے.
نسائی کی سند بھی بخاری اور معلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے کیونکہ اس سند میں صرف محمّد بن غیلان کا اضافہ ہے. اور ابو داود کے علاوہ تمام محدثین صحاح ستا نے انسے روایت کیا.
اسی طرح امام ابو حنیفہ کی ابن مسعود والی حدیث کی سند بھی صحیح ہے کیونکہ حماد بن ابی سلیمان کے علاوہ تمام راوی ثقہ ہیں. بخاری اور مسلم کے علاوہ تمام محدثین نے حماد سے روایت کیا ہے.
اسی طرح برا بن عازب کی حدیث بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ رسول نے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھاۓ.
اس حدیث کو عبدر رزاق، احمد، ابو داود، ابن ابی شیبہ، طحاوی،دارالقتنی اور دوسروں نے روایت کیا.
دلیل # ١٤:
عبدرالرزاق- ابن عیینہ-یزید- ادبو رحمان بن ابی لیلیٰ،برا بن ازب رضی اللہ نے کہا:
جب رسول اللہ ﷺ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ ہم ان کے انگوٹھے ان کے کانوں کے قریب دیکھ لیتے. اسکے بعد پھر آپ نماز میں اسکو نہی دہراتے.
(عبدرالرزاق نے اپنے جامع میں اس حدیث کو بیان کیا).
دلیل # ١٥:
امام احمد- ہشیم- یزید بن ابی زیاد- عبدر رحمان بن ابی لیلی-برا بن عازب نے کہا:
جب رسول اللہ ﷺ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ ہم ان کے انگوٹھے ان کے کانوں کے قریب دیکھ لیتے. اسکے بعد پھر آپ نماز میں اسکو نہی دہراتے.
(مسند احمد)
دلیل # ١٦:
ابو داود- محمّد بن صباح ال بزار- شریک- یزید بن ابی زیاد- عبدر رحمان بن ابی لیلی-برا بن عازب نے کہا:
بے شک رسول اللہ جب نظام شوروع کرتے تھو اپنے ہاتھو کو کانو کے نزدیک تک اٹھاتے. پھر وہ اسکو نہی دہراتے.
(ابو داود)
دلیل # ١٧:
ابو داود-حسین بن عبدر رحمان- وکی-ابن ابی لیلیٰ- اسکا بھائی عیسیٰ-حکم-عبدر رہمن بن ابی لیلیٰ- برا بن ازب:
میں نے رسول اللہ کو دیکھ.وو نماز شوروع کرتے وقت ہاتھ اٹھاتے اور پجیر نماز ختم ہونے تک ہاتھ نہی اٹھاتے.
(ابو داود)
دلیل # ١٨:
ابو بکر بن ابی شیبہ-وکی-ابنے ابی لیلیٰ-حکم اور عیسیٰ- عبدر رہمن بن ابی لیلیٰ- برا بن ازب:
میں نے رسول اللہ کو دیکھ.وو نماز شوروع کرتے وقت ہاتھ اٹھاتے اور پجیر نماز ختم ہونے تک ہاتھ نہی اٹھاتے.
(ابو بکر بن ابی شیبہ)
دلیل # ١٩:
طحاوی – ابو بکرہ – مامّل – سفیان – یزید بن ابی زیاد ابن ابی لیلیٰ- برا بن عازب سے روایت ہے :
جب رسول اللہ نماز شوروع کرنے کے لئے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے،یہاں تک کہ انکے انگھوٹے انکے کانوں کے نزدیک ہوتے. پھر دوبارہ اسطرح نہی کرتے تھے.
(شرح سنن ال اثار)
دلیل # ٢٠:
طحاوی – ابن ابی داود – امر بن اون – خالد – ابن ابی لیلیٰ – عیسیٰ بن عبد رحمن اپنے والد سے اور وو برا بن عازب سے روایت کرتے ہیں کہ:
باقی حدیث دلیل # ١٩ کی طرح ہے.
دلیل # ٢١:
طحاوی – محمّد بن نعمان – یحییٰ بن یحییٰ روایت کرتے ہیں –
١.وکی – ابن ابی لیلیٰ-اور انےٰ بھائی
٢ . حکم – ابن ابی لیلیٰ
اور ے دونو روایت کرتے ہیں برا بن عازب سے:
دلیل # ٢١ کی طرح حدیث.
دلیل # ٢٢:
دارقطنی – احمد بن علی الالہ – عبدل اشتہ – محمّد بن بکر – شعبہ – یزید بن ابی زیاد نے کہا:
میں نے سنا ابن لیلیٰ سے، اس نے کہا میں نے سہ برا بن عازب سے.جو ایک مجلس میں خطب کر رہے تھے.، جس میں کعب بن اجرہ موجود تھے. برا بن عازب نے کہا:
میں نے رسولللہ کو دیکھا کے آپ پہلے تکبیر میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ہیں.
(دارقطنی)
دلیل # ٢٣؛
دارقطنی – یحییٰ بن محمّد بن سید، محمّد بن سلیمان لوائم – اسمعیل بن زکریا – یزید بن ابی زیاد، عبدر رحمان بن ابی لیلیٰ، برا بن عازب:
میں نے رسولللہ کو دیکھا کے آپ نماز شوروع کرتے وقت اپنے ہتھن کو اپنے کانوں کے برابر اٹھاتے، اسکے بعد وو ے عمل نہی دہراتے یہاں تک کے نماز مکمّل ہو جاتی.
(دارقطنی)
دلیل # ٢٤:
دارقطنی – ابن سید – لوائم – اسمعیل بن زکریا – یزید بن ابی زیاد – ادی بن ثابت – برا بن عازب:
دللیل #٢٣ کی طرح.
دلیل # ٢٥:
دارقطنی – ابو بکر ال آدامی – آبرود بن اسمعیل – عبدللہ بن محمّد بن ایوب ال مخرامی – علی بن آسم- محمّد بن ابی لیلیٰ – برا بن ابی زیاد – عبدر رحمان بن ابی لیلیٰ برا بن ازب:
دلیل # ٢٣ کی طرح.
(دارقطنی)
دلیل # ٢٦:
جابر نے روایت کیا کہ:
رسولللہ اپنے گھر سے ہماری طرف نکل آے اور کہا، تم نماز میں گھوڑوں کی دم کی طرح ہاتھ کیو اٹھاتے ہو؟
(صحیح مسلم)
امام بخاری کہتے ہیں کہ ے حدیث حنفیوں کے طریقے کی تائید نہیں کرتی کیونکے عبدللہ بن ال قبطی جبر بن سمرا سے روایت کرتے ہیں. کہ جبر کہتے ہیں:
ہم رسولللہ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے. جب وو اسسلام علیکم کہتے، تو ہم دونوں طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے. تو رسولللہ نے فرمایا:
ان لوگو کے ساتھ کیا مسلہ ہیں. ے لوگ ہاتھون سے اشارہ کرتے ہیں گھوڑوں کی دم کی طرح. ہاتھوں کو رانوں پڑ رکنا کافی ہیں اور پھر دائیں بائیں سلام پھیرو.
تو حنفیوں کی طرف سے اسکا جواب یہ ہے- بھائی یہ دو مختلف احادیث ہیں جو مختلف موضوعات پر مبنی ہے. جو حدیث ہم نے دلیل کے طور پڑ پیش کی ہے اس میں موضوع فرا یدین ہیں. جس حدیث کی امام بخاری بات کر رہیں ہیں اس میں موضوع نماز کے دوران سلام کا ہے. اسکی مکمّل وضاحت ملا علی قاری نے مکرات شرح مشکات میں کی ہے. امام جمالدین ذیلی کی اس بات کی شدید رد کی ہے کے – اور ثابت کیا ہے کہ یہ دونوں احادیث دو مختلف موضوعات پر مبنی ہے.
دلیل # ٢٧:
طبرانی – عبد رحمان بن ابی لیلیٰ – حکم – مسقام – ابن عباس:
رسولللّہنے فرمایا:
٧ جگہوں کے علاوہ ہاتھ مت اٹھاؤ.
١ . جب نماز شوروع کرو،
٢ . جب مسجدل حرام میں داخل ہو اور بیٹللہ کو دیکھو.
٣ . جب مروہ پڑ کھڑے ہو.
٤ . جب لوگو کے ساتھ عرفات میں وقوف کرو.
٥ . مزدلفہ میں.
٦ . مقامین میں.
(طبرانی).(بخاری نے اپنی جز میں اسکو روایت کیا.) یہ حدیث اس سند سے بھی روایت کی گیئ ہے،
وکی – ابنے ابی لیلیٰ – حکم – مسقام – ابن عباس-
دلیل # ٢٨:
حدیث آباد بن زبیر:
میں نے رسولللہ کو دیکھا کے آپ نماز شوروع کرتے وقت اپنے ہا تھوں کو اٹھاتے، اسکے بعد وو ے عمل نہی دہراتے یہاں تک کے نماز مکمّل ہو جاتی.
(بیہقی)
امام بیہقی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں. آباد تابعی ہے. اور یہ حدیث مرسل ہے. مرسل حدیث حجت ہوتی ہے جب اسکا تعلق قرون سلاسہ سے ہو. اور جب اور احادیث اس حدیث کی تائید کرتے ہوں.
علامہ انور شا کاشمیری کہتے ہیں . کھ میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے. تفصیل کے لئے دیکھئے نیلیل فرقدیں.
دلیل # ٢٩:
ابراہیم ال اسود کی حدیث:
میں نے عمر خطّاب کے ساتھ نماز پڑھی. شوروع کے علاوہ اسنے کہیں بھی ہاتھ نہیں اٹھاے.
(مصنف ابن ابی شیبہ) (دارقطنی) (طحاوی)
"بزلل مجھود " کے مصنف کہتے ہیں کے یہ حدیث صحیح ہے.
دلیل # ٣٠:
کلیب جرمی کی حدیث:
کلیب جرمی اپنے والد سے روایت کرتے کیں جو حضرت علی کے ساتھیوں میں سے تھے. حضرت علی نماز کے شوروع والی تکبیر کے علاوہ کہیں بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے.
(موطا امام محمّد)
دلیل #٣١:
دلیل # ٣٠ کی طرح.
( ابن ابی شیبہ) (طحاوی)
دلیل # ٣٢:
دلیل # ٣٠ جیسے.
(ابن ابی شیبہ). (طحاوی اور بیہقی نے اسکو اپنے اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے.)
امام طحاوی کہتے ہیں کہ حضرت علی کی اس حدسس سے ثابت ہوگیا کھ رفع یدین منسوخ ہیں.
علامہ عینی نے اس حدیث کو صحیح کہا.
حافظ نے اد درایۂ میں کہا کھ اسنکے راوی ثقہ ہیں.
ذیلی نے کہا یہ حدیث صحیح ہے.
دلیل # ٣٣:
ابن مسعود والی حدیث:
(موطا امام محمّد)
دلیل # ٣٤:
ابن مسعود والی حدیث:
(ابن ابی شیبہ)
طحاوی نے اسی حدیث کو اپنے اسناد کے ساتھ روایت کیا. اسکے اسںعدد مرسل جید ہیں.
دلیل # ٣٥:
عبدل عزیز بن حکیم کی حدیث؛
میں نے ابن عمر دیکھا کھ وو نماز کے شورو میں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اسکے بات کہیں نہیں.
(موطا امام محمّد)
دلیل # ٣٦:
مجاہد کی حدیث:
میں نے ابن عمر کو صرف شوروع نماز کے بغیر ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا.
(مصنف ابن ابی شیبہ)
دلیل # ٣٧:
دلیل # ٣٦ کی طرح:
( شرح ما انل اثار)
اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے امام طحاوی کہتے ہیں. یہ ابن عمر ہیں. جس نے نبی کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے. پھر نبی کے بعد آپنے اسے ترک کر دیا. پس یہ ثابت ہوا کے رفع یدین منسوخ ہے.
امام ابن حمام نے اس حدیث کو تحریرل اصول. بیہقی نے اسے ال ما'رفاہ میں روایت کیا. امام طحاوی کی اسناد صحیح ہے.
ابن ابی شیبہ ترک رفع یدین کی دلائل میں مندرجہ ذیل شخصیات کو بطور شریعی ثبوت پیش کرتے ہیں.
حضرت علی اور ان کے اصحاب. ابن مسعود، ابراہیم نخائ، ہیشامہ،قیس،ابن ابی لیلیٰ، مجاہد،ال اسود، شعبی، ابو عشاق، امام ابو حنیفہ، امام مالک.
دلیل # ٣٨:
ابو بکر بن آیاش مجاہد سے روایت کرتے ہیں:
میں نے ابن عمر کے پیچھے کئی سال تک نماز پڑھی (ایک روایت کے مطابق دس سال). آپ نے تکبیر اولیٰ کے علاوہ کہیں بھی ہاتھ نہی اٹھاۓ.
یہ سند صحیح ہے. جب کسی صحابی کا عمل اسکی کسی روایت کئے قول سے تضاد کری تو مطلب یہ جو اسنے روایت کیا ہے وو منسوخ ہے. ابو بکر بن عیاش جو اس حدیث کے راوی ہیں. ال قسطلانی نے شرح بخاری میں ان کو ضعیف قرار کیا ہے. لیکن یہ دعوہ بذات خود ضعیف ہے. کیونکے بخاری اور مسلم دونوں نے ابو بکر بن عیاش سے روایت کیا.
حافظ،ثوری، ابن مبارک، یحییٰ بن معین اور امام احمد کے نزدیک یہ ثقہ راوی ہیں.
دلیل # ٣٩:
حضرت ابو ہریرہ جب نماز شوروی کرتے تھ ہاتھ اٹھاتے، اور جب بھی نیچے اور اپر ہوتے تو اللہ اکبر کہتے. آپ کہتے کھ میری نماز تم سب می سے زیادہ رسول اللہ کی مشابہ ہے.
(حافظ ابو امر نے ال-استثکار اور علامہ عینی نے مبانیل اخبار میں روایت کیا ہے.)
دلیل # ٤٠:
احمد بن یونس – ابو بکر بن آیاش:
میں کسی فقیہ کو تکبیر اولیٰ کے بغیر نماز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے نہی دیکھا ہے.
(طحاوی)
دلیل # ٤١:
ابن عمر:
بے شک رسسولللہ نماز شوروع کرتے وقت ہاتھ اٹھاتے. اور پھر وو دوبارہ نہی کرتے.
حاکم نے کہا یہ حدیث باطل ہے موضوع ہے. تا ہم حکیم کا یہ د'عوہ خود باطل ہے. احناف کا قول ہے باطل کا یہ دعوہ بی بنیاد ہے. شیخ احد سندھی نے کہا کے اسکے راوی ثقہ ہیں. تفصیل کے لئے دیکھیے مواہیبل لطیفہ.
حنفیوں کی رد میں ایک دلیل پیش کی جاتی ہے کھ برا بن عازب رضی اللہ کیحدسس میں محمد بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں. ابو داود نے انہیں ضعیف کہا ہے. لیکن بات یہ ہے حنفیوں کا یہ عمل صرف اس حدسس سے ثابت نہیں. اور بھی بہت احادیث ہیں جن میں محمد بن ابی لیلیٰ نہیں ہیں. اور وو احادیث صحیح ہیں.
اسی طرح ان احادیث میں بہت سے احادیث بخاری اور مسلم کے شرائط کے مطابق صحیح ہیں. خاص طور پر عبدر رزاق کی سند. یہ دعوہ کھ یزید بن زیاد ضعیف ہیں بے بنیاد ہے.
علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں.:
بی شک یزید کو ال اجلی ، یعقوب بن سفیان، احمد بن سالح، صباحی اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے. مسلم اور ابن خزیمہ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں. اور صرف یزید نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا، بلکے عیسیٰ عبدر رحمان نے بھی اسے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کیا. اسی طرح حکم نے بھی اسے ابنے ابی لیلیٰ سے روایت کیا،جیسا کے ابو داود نے کیا.
دللیل # ٤٢:
انور شا کاشمیری نیلل فرقدین میں کہتے ہیں:
یہاں پڑ ایک بات نہیں وھولنی چاہیے کھ جو لوگ رفع یدین نہی کرتے انکا عمل ادمی ہے( وہ کسی عمل کے نہیں ہونے کو ثابت کرتے ہیں). یہ بات ذہین میں رکتھے ہوئے انکا عمل بھی احادیث پر ہی ہے، جس میں اس بات کا ثبوت ہے، ان احادیث میں رفع یدین کا کوئی ذکر نہی. اور ان احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے بہ نسبت رفع یدین والے احادیث کے.
دلیل # ٤٣:
عثمان ابن محمّد نے مجھ سے کہا، اس نے کہا کھ عبیداللہ ابن یحییٰ نے اس سے کہا، عثمان ابن سودہ ابن آباد مجھ سے کہا ،کہ اس نے سنا حفص ابن میسرہ، اس می سنا زائد ابن اسلم سے، اس می سنا عبدللہ ابن عمر سے: انہوں نے کہا:
ہم مکّہ میں رسولللہ کے ساتھ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھے. جب رسولللہ نے مدینہ ہجرت کی، تو آپ نے رکوع سے پہلے اور بعد میں ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا. اور نماز کی شوروع میں ہاتھ اٹھانا جاری رکھا.
(اخبار ال فقہا وال محدثین (صفحہ ٢١٤) امام محمّد ابن حارث ال کشانی (متوفی ٣٦١)
اس فورم پر اردو میں ہی بات کو آگے بڑھانا مناسب ہوگا۔
پہلے رفع الیدین کے متعلّق اپنا اپنا موقف پیش کیا جائے۔
پھر مشوانی صاحب اپنے بھائی کی طرف سے ترکِ رفع یدین کی ایک ایک حدیث پیش کرتے جائیں اور اسے صحیح ثابت کرتے جائیں۔ اور پھر اس پر اعتراضات کا جواب دیں۔ ان شاء اللہ صورتحال واضح ہو جائے گی۔
اپنے بھائی کو اس فتوے پر عمل کرنے کو بھی کہیے:بھائی جان. رفع یدین حق ہے۔ اسمیں میرا کوئی شعبہ نہیں۔ بڑا بھائی بار بار اپنے دلائل پیش کر رہا تھا۔ جو میں نے یہاں پڑ پیش کر دیے- ایک بھائی نے مجھے نے کہا کے میرے پاس اسکا جواب ایک فائل میں موجود ہے جو کہ انہوں نے مجھے بیجھ دیا- میں دلائل بھائی کے سامنے رکھے وہ لے گئے ایک مفتی صاھب کے پاس. مفتی صاھب نے یہ کہ کر بات ختم کر دی. کہ سب طریقے رسول سے ثابت ہیں- اگر کرو تو بھی ٹیک ہے اور نا کرو تو کوئی گناہ نہیں- چونکے میرے بھائی بھی اندھی تقلید کا جیالا ہے، اسلئے اسنے مفتی صاھب کی بات من و عن مان لی. اور مجھے بھی جواب دیا. کہ دونوں طریقے ٹھیک ہیں. اسلئے میں نے اس دھاگے میں آگے پوسٹ ہی نہی کیا.
ماشاء اللہاگر میرے کسی اہلحدیث دوست کے پاس کو ئی دلیل ہے جس میں یہ ثابت ہو کہ نبی ﷺ نے پوری زندگی رکوع کے دوران بھی رفع الیدین کیا تووہ صحیح ، صریح حدیث پیش کریں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہتمام دوستوں کو میری طرف سے السلام علیکم۔۔!
ماشاء اللہ بہت خوبصورت بات کہی آپ نے کہ دلیل صرف قرآن وسنت ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کسی مسئلے میں انہی دو دلائل سے رہنمائی لیتے ہونگے۔ اور ہاں باقی ماخذ شریعت سے رہنمائی لینا بھی نہ بھولیے گا لیکن اس وقت جب ان کی ضرورت پڑے۔جہاں تک اسلام میں کسی بھی مسٰلے کا تعلق ہے تو گزارش یہ ہے کہ کسی فرد واحد کی بات کسی کے لیے دلیل نہیں ہونی چاہیے۔ دلیل صرف قرآن و سنت ہے۔ جیسا کہ یہاں کچھ علما ٔ کی ذاتی رائے کی بات کی گئی۔
آپ کی اس عبارت میں چار باتیں بیان کی گئی ہیںمیں جہاں تک جانتا ہوں احناف کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ نے رفع الیدین کیا اس میں کوئی اختلاف نہیں ، لیکن نبی ﷺ نے رفع الیدین پوری زندگی نہیں کیا، کیونکہ یہ بعد میں منسوخ ہو گیا جیسا کہ دونوں سجدوں کے درمیان بھی رفع الیدین کیا جاتا تھا جس کو اہلحدیث (وہابی) مانتے ہیں لیکن رکوع کے دوران کو منسوخ نہیں مانتے، ۔
بہت مضحکہ خیز ہے۔’’ صرف ایک صحیح ، صریح حدیث آخری نماز تک اس کتاب سے نکال کر یہاں پیش کر دیں ۔‘‘
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔ (البقرۃ: 106)
جس آیت کو ہم منسوخ کردیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور ﻻتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
اب یہ الفاظ یوں پڑھ لیںآپ لوگوں کو تکلیف تو ہو گی لیکن ہماری اصلاح کے لیے۔ والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہتمام دوستوں کو السلام وعلیکم !
کتاب وسنت کے علاوہ ماخذ شریعت کیا ہیں ؟ کہاں کہاں ان کی ضرورت پڑتی ہے اور کیوں پڑتی ہے ؟ اور کون لوگ ہیں جو ان ماخذ شریعت سے استفادہ کا حق رکھتے ہیں۔ یہ سب باتیں خارج از موضوع ہیں۔اگر ان پر بات کرنا چاہتے ہیں تو الگ تھریڈ قائم کرلیں۔ما خذ شریعت سے آپ کی کیا مراد ہے تھوڑی تفصیل سے بتا دیجیے گا۔ ان کی ضرورت آپ کے نزدیک کہا ں پڑھتی ہے وہ بھی بتا دیجیے گا۔
کیا آپ لوگوں کا منسوخیت کا دعویٰ نہیں ؟یہاں آپ نے مقلدین سے تو منسوخ کا مطالبہ کیا ہے ،
ہم سے آپ لوگوں کا مطالبہ بنتا ہی نہیں اور آپ لوگوں کا یوں مطالبہ کرتے جانا بڑے سے بڑے لطیفے سے کم نہیں۔ کیونکہ ایک وقت تک کے رفع الیدین کے آپ بھی قائل اور ہم بھی قائل۔ اختلاف تو آپ لوگوں نے آکر ڈالا کہ رفع منسوخ ہوگیا ہے۔ اب کرنا چھوڑ دو۔ تو جناب جب بیچ میں آکر آپ لوگوں نے دراڑ ڈالیں تو اس دراڑ کی وجہ اور پھر یہ کس دلیل پر ڈالی گئی وہ پیش کرنا آپ پر آتا ہے۔ اس لیے مطالبہ دوبارہ پیش ہے کہآپ بھی کرم فرمائیں، نبی ﷺ کی آخری نماز تک اس کو صحیح ، صریح ، مرفوع حدیث سے ثابت کریں۔
دیکھیں محترم پوری زندگی کی بات کچھ وقت کےلیے ایک طرف رکھیں۔ زندگی کے کچھ حصہ میں رفع الیدین کے آپ بھی قائل ہیں اور ہم بھی قائل ہیں۔ رائٹ ؟ آپ لوگوں کا کہنا کہ بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اس بات پر شاہد ہے کہ ضرور اس پر کوئی دلیل بھی نازل ہوئی ہوگی۔ اور ساتھ رب تعالیٰ نے رفع الیدین کرنے کے نقصانات اور نہ کرنے کے فوائد بھی بتائے ہونگے۔ اور ظاہر ہے جب آپﷺ نے رفع الیدین کیا تو اس کا لازمی عنصر یہ ہے کہ وہ کچھ وقت کےلیے ہوگا۔ یعنی ایک سال، دو سال، تین سال یا دس سال وغیرہ۔اس عرصہ بعد نہ کرنے کا حکم نازل ہوگیا۔اگر آپ نے پوری زندگی کا عمل دکھایا ہوتا تو احناف کبھی اعتراض نہ کرتے، پہلے آ پ آخری نماز تک اس کو صحیح ، صریح ، مرفوع حدیث سے ثابت کریں۔ پھر آپ ہم سے مطالبہ کر سکتے ہیں،
ایک بات کا جواب آپ سجدوں والی رفع الیدین کے قائل ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ میں نے لکھا تھا کہ اس رفع کے ہم بھی قائل نہیں اور آپ بھی قائل نہیں۔ لیکن آپ کی اس عبارت نے مجھے شک میں مبتلا کردیا ہے کہ شاید آپ سجدوں والی رفع کے قائل ہیں۔؟ اس لیے تصدیق مطلوب ہے۔آپ اس بات کے قائل ہیں کہ سجدوں میں رفع الیدین منسوخ ہو گیا اس کی دلیل اور کس اصول کے تحت یہ منسوخ ہوا وہ صحیح ، صریح ، مرفوع حدیث پیش کر دیجیے، ۔
پچھلی پوسٹ میں پیش باتوں کا جواب نہیں دیا۔ امید ہے کہ اگلی پوسٹ میں ان باتوں کا جواب ضرور دو گے۔ اور پھر یوں کہنا بہتر رہے گا کہمیں آپ کی حدیث کا منتظر رہوں گا۔۔ پھر کہو ں گا کہ تکلیف تو ہے، لیکن ہماری اصلاح کے لیے۔ والسلام۔