السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔
کچھ مصروفیت کی وجہ سے حاضری نہ دے سکا اس کیلئے معذرت۔۔۔
محترمی ومکرمی
میں نے آپ سے ۶ سوالات کئے تھے۔آپ نے دو پر گفتگو فرمائے باقی سے سکوت چہ معنی دار؟
محترم شیخ صاحب جن سوالات کا یہاں کوئی تعلق بنتا ہے ان تمام کے میں نے جوابات دیئے ہیں۔ اور بہت سے سوالات کے ایک سے زائد بار میں نے وضاحت بھی کر دی ہے۔۔ لیکن واللہ اعلم آپ کی نظر سے شائد گزرتے نہیں۔۔۔؟؟؟؟؟؟
1۔آپ اوبر میری تمام تحریریں دیکھں میں نے آپ سے کہیں امام اثرم سے امام احمد تک والی سند کا مطالبہ نھیں کیا۔
غورآپنے نھیں کیا میری بات پر الزام مجھے دے رھے ھیں۔
اختلاط سعید۔
آپکے نزدیک اگر سعید مختلط ھے تو آپنے اوپر یہ کیوں فرمایا کہ اسکی تمام روایات رد نھیں کی جائیںگی۔بلکہ جہاں غلطی یا وھم یا مخالفت ثابت ھوجائے۔
تو آپکی اس بات کی بنیا د کیا ھے؟
حالانکہ مختلط تو وہ راوی ھوتا ھے جسکا بہت حافظہ بگڑا ھوا ھو۔
تو پھر جب ایک مسئلہ ایک امام سے ثابت کر دیا گیا تو اس پر کیا اشکال باقی رہتا ہے۔ ہاں وہ الگ بات ہے کہ امام احمد نے انکو اصطلاحی مختلط نہیں کہا بلکہ یخلط(لام کی تشدید کے ساتھ) الفاظ میں آگے پیچھے کر دینے والا کہا ہے۔۔ اور میں نے اسکی وضاحت بھی کی ہے کہ فی نفسہ ثقہ ہے لیکن ایسا وہم یا غلطی ہو جانا کوئی بری بات یا قادح نہیں بلکہ جس روایت میں ثابت ہو جائے وہاں اثر انداز ہوگا۔۔
۔(غلطی ہوئی تو اصلاح کیجئے گا)
۲
جس مختلط کا یہ معلوم نہ ھو کہ اسکے اختلاط سے قبل والی روایات کونسی ھیں اور بعد والی کونسی یعنی تمیز نہ رھے۔اسکی تمام روایات رد کی جاتی ھیں۔تو سعید کی روایات کے متعلق کیا فرمئیںگے۔
حالانکہ آج تک کس بھی امام نے سعید کے اختلاط کی وجہ سے حدیث کو ضعیف نھیں کہا۔
جب کہ اسکے برعکس اسکی روایات پر تصحیح کا حکم موجود ھے۔
سوال نمبر دو میں گزر چکا ہے اسکا جواب۔۔۔
۳
کسی ناقابل حجت بات کو کمزور کرنے کے لئے اتنا ھی کا فی ھے کہ اسکو بیان کرکے اسی طرح چھوڑدیا جائے۔ساجی کی بات کو جب ابن حجر بے حکایت کہکر اسکو چھوڑدیا تو اس حکایت کو کمزور کرنے کے لئے اتنا ھی کافی ھے۔خصوصا ابن حجر سے اسکی روایات کی تحسین بھی موجود ھے۔اگر ساجی کی حکایت کو وہ صحیح سمجھرھے ھوتے تو کیا اسکی روایت کی تحسین کرتے؟
شیخ صاحب تو کہنے والا یہ بھی تو کہہ سکتا ہے نا کہ اگر یہ بات غلط ہوتی الزام ہوتا تو ذکر کرنے والا اسکو رد کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔۔
تنبیہ: مذکورہ روایت میں ضعف کا مدار سعید ہرگز نہیں بلکہ اصل مسئلہ خزیمہ کا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے امام ترمذی کی بات نقل کی ہے۔۔۔
قال ابن حجر رحمہ اللہ : اخرجہ الترمذی عن احمد بن الحسن عن اصبغ بن الفرج وقال بعدہ ورجالہ رجال الصحیح الا خزیمۃ فلا یعرف نسبہ ولا حالہ ولا روی الا سعید ، وقد ذکرہ ابن حبان فی الثقات کعادتہ فیمن لم یجرح ولم یات بمنکر۔
(نتائج الافکار فی تخریج احادیث الاذکار ج1 ص81،82)
اور یاد رہے میں نے جو یہاں سعید کے بارے میں امام احمد کا قول ذکر کیا اسکے بارے میں ایک وضاحت تو میں تخریج کے آخر میں کر دی تھی۔
1۔سعید بن ابی ھلال ثقہ راوی ہیں اور ثقہ راوی کو کبھی وہم ہو جانا عجیب بات نہیں (میں نے مذکورہ مسئلہ کی وضاحت کیلیئے یہان انکے چند اوھام کا ذکر کیا) کیونکہ یہ ایک فطری چیز ہے اس سے راوی ضعیف نہیں ہوتا الا یہ کہ اس کے وہم ذیادہ ہوں۔اور مزید یہ کہ یہ قول صرف اس مؤقف کو ثابت کرنے کیلیے ذکر کیا گیا ہے کہ خزیمہ کے واسطے کے بغیر یہ حدیث ثابت نہیں جس پر اصل دلائل میں نے بھی ذکر کیئے ہیں اور محترم رضا بھائی نے بھی ذکر کیئے ہیں۔۔ سعید کا مسئلہ ایک اضافی دلیل ہے۔۔۔فلیفہموا
۴
یہ احتمال ہے کہ ساجی نے امام احمد کے وھی الفاظ بیان کئے ھوں جو امام اثرم نے امام احمد سے بیان کئے ھیں لیکن ابن حجر نے اس سے اختلاط سمجھا ھو۔
۵
یا ساجی نے ھی اسی طرح بیان کیا ھو۔
واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ساجی کی مکمل عبارت کیا ہے یہ ہم سے اوجھل ہے جس کی وجہ سے مسئلہ بنا ہوا ہے۔
۶
یا جو ساجی اور امام احمد کے درمیان واسطہ ھو اسنے اس طرح بیان کئے ھوں۔بہرحال جو بھی ھو ابن حجر کے نزدیک اس حکایت کی کوئی قیمت نہیں تھی اس لئے اسکی احادیث کی تحسین کی ھے۔
اوپر وضاحت ہو چکی سوال نمبر 3 میں۔
۷
ایک طرف امام احمد سے بواسطہ امام اثرم سعید کے متعلق پختہ بات "یخلط فی الاحادیث "
موجود ھے جس سے اختلاط مراد نھیں جیسا کہ آپ بھی رجوع فرما چکے ھیں۔اور ایک طرف وہ بات ھے جسکا ھمیں کچہ بھی علم نہیں
کیا آپکے لئے مناسب ھے کہ مضبوط بات کے مقابلے ایک کمزور اور نا قابل حجت بات کو اھمیت دیں۔واللہ باللہ تاللہ یہ بات تحقیق سے بہت دور ھے۔
شیخ صاحب اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔۔جیسا کہ آپ نے خود کہا کہ میں ایک بات سے رجوع کر چکا تو اسکو پھر میری طرف منسوب کرنا عجیب بات ہے۔۔۔۔۔
میں پہلے بھی بار بار کہہ چکا ہوں کہ جب امام ساجی کی کتاب نہیں ہمارے پاس تو اس لیے اس کے بارے میں صرف حافظ ابن حجر اور امام ابن حزم کا قول ہی ہم بیان کرینگے۔۔لیکن چونکہ وجود نہیں تو اس لیئے امام اثرم کی بات بار بار میں نے ذکر کی اور اسکی وضاحت بھی کر دی کہ کیا مراد ہے اس سے۔۔۔۔
۸
محترم امام اثرم کی میں نے سند نہیں پوچھی بلکہ اس نے امام احمد سے جو بات نقل کی تھی جس سے آپ اختلاط مراد لے رھے تھے اسکا ترجمہ کرنے کو کہا تھا کہ تاکہ آپکو ترجمہ سے پتہ چل جائے کہ اس سے اختلاط مراد نھیں۔اب آپ میری عبارات کو غور سے نھیں پڑہیںگے تو اس میں میرا تو کو قصور نہیں۔
اور میں نے یہ کب کہا ھے ک آپ نے سعید کو ضعیف کہا ھے۔میں نے تو ابن حزم کی بات کی تھی۔
جی جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔ میں نے امام اثرم کی بات کو اختلاط کہا تھا اور پھر رجوع بھی کیا جس کا آپ کو علم ہو چکا تھا تو پھر یہ سوال نہ کیا جاتا تو بہتر تھا۔۔۔۔
۹
آپ بتا دیں کہ اسکے بعد آپکے نزدیک سعید مختلط رھا؟ اور اسکی بھی وضاحت فرمادیں کہ آپ اسکو مختلط کہنے کے باوجود بھی اس سے مختلط جیسا سلوک نہیں کرتے۔
میرے محترم کیا جسکا وھم یا مخالفت وغیرہ ثابت ھوجائے وہ مختلط ھوتا ھے؟
یہ میں پہلی دفعہ آپ سے سن رہا ھوں۔اگر ایسا ھے تو پھر کون وھم اور مخالفت سے بچا ھے۔
امید ھے آپ میرے تمام جوابات دیکر مطمئن فرمائینگے۔
امید ہے اب مسئلہ واضح ہو گیا ہو گا ان شاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔