• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تسبیح کی شرعی حیثیت اور شیخ البانی پر اعتراضات!

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
وأدرك عائشة لا بد. وقد كانت لها شهرة يندر من مثل سعيد أن لا يسمع منها.
محترم بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ احادیث کا معاملہ ہے عقل کا نہیں بہت سی چیزیں عقل تسلیم کرتی ہے لیکن اصول حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کر دی جاتی ہیں بغیر کسی اصولی دلیل کہ صرف اوپر مذکورہ بات سے جہالت کی تردید اور سماع کی تصریح سمجھ سے باہر ہے۔۔ بلکہ امام البانی بھی کئی جگہ اسی اصول کو مد نظر رکھ کر احادیث کو حسن کہہ دیتے ہیں لیکن اسکے باوجود اس حدیث کو انہوں نے ضعیف کہا،
بھائی ایسے تو مدلس اور اسکی تدلیس والا مسئلہ دھڑام سے نیچے آجائے گا۔۔

أن البزار بوب في "مسنده" على هذا الحديث بقوله :"ومما روى سعيد بن أبي هلال عن عائشة، عن أبيها "، فذكره.[/arb]
رہی یہ بات تو یہ بھی اس سماع کی قطعا کسی صورت میں دلیل نہیں بن سکتی مطلق باب باندھ دینے سے سماع کیسے ثابت ہوتا ہے؟؟
صحیح ابن حبان ، صحیح ابن خزیمہ ، سنن نسائی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں روات کے نام سے باب ہیں تو کیا وہ سب صحیح ہیں ؟؟؟
اور یہاں انہوں نے سماع کی بات بھی نہیں کی کیا عن سماع کا صیغہ ہے؟؟؟
بھائی یہاں تو مطلق ایک روایت کا ذکر کیا ہے کہ وہ روایت جو اس سند سے مروی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکہ یہاں تو یہ روایت اور تضعیف کی طرف جاتی ہے کہ اصل میں یہ روایت خزیمہ کے واسطے کے بغیر ہے اور وہ منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو گی۔۔

حالاں کہ دونوں مدینے کے باسی ہیں اور دونوں کا زمانہ بھی ایک ہی ہے
یہ ایک خیالی بات ہے جس کا اصول حدیث سے تعلق نہیں میں نے اوپر بھی ذکر کیا ہے کہ روایات پر صحت اور ضعف کا حکم اصول حدیث کو مد نظر رکھ کر لگایا جاتا ہے اس طرح کی خیالی باتوں کے ساتھ نہیں
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
وصول التهاني بإثبات سنية السبحة والرد على الالباني اس کتاب میں محمودسعيد ممدوح علامہ البانی کے موقف کی کمزوری کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اعترض معترض لا علم له بالحديث على طريق سعيد بن أبي هلال عنعائشة بنت سعد الذي لا يوجد فيه خزيمة ، بأن خزيمة سقط منه ، وأنسعيد بن أبي هلال لا يروي عن عائشة بدليل أن الحافظ في التهذيب لميذكره في الرواة عن عائشة . وجواب الاعتراض الاول : أن هذه دعوى كبيرة بدون دليل ، فعليه بالدليل وهيهات . وأن السنة فيها الكثيرمن أمثال هذه الرواية بنزول ثم بعلو ، فيكون سعيد بن أبي هلال كانيرويه عن خزيمة عن عائشة مرة ، ومرة أخرى عن عائشة بدون واسطة ،وما دام الراوي ثقة ، وأدرك عائشة إدراكا واضحا بينا ، وكانت مشهورة بالرواية ، بحيث إنهم ذكروا في ترجمتها أن مالكا رضي اللهتعالى عنه لم يرو عن امرأة غيرها ، تبين لك شهرتها واتساع روايتهافرواية سعيد الثقة المكثر عنها واردة لا يردها إلا مكابر . ولهذاصحح هذا الطريق جماعة من الحفاظ منهم الذهبي ، وقبله ابن حبان
والحاكم في صحيحيهما . فالسند متصل إن شاء الله تعالى على مذهب منيشترط اللقاء ومن لم يشترطه .

کتنے ہی علما نے البانی صاحب کی اس بارے میں تردید کی ہے،اور امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم جیسے اجل علما نے دانوں والی تسبیح کے بدعت ہونے کی تردید کی ہے

سب باتوں کا تعلق اور لنک پچھلی باتوں کے ساتھ ہی ہے رہی ایک یہ بات بلکہ یہ دعوہ۔۔۔۔

وأدرك عائشة إدراكا واضحا بينا ، وكانت مشهورة بالرواية
کیسے اور کس طرح کس جادوئی چھڑی سے یہ بات ثابت ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔!!!!!!!!!!!!

اگر تو شہرت ہی جہالت کو رفع کرنے کیلئے کافی ہے تو پھر ایسے بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں راوی کثیر الروایۃ ہے لیکن کسی نے توثیق تجریح نہیں کی اور وہ مجہول ہے۔۔

باقی میں نے اوپر بھی ذکر کیا کہ میں نے اس روایت کی تحقیق کی ہوئی ہے فی الحال وہ میرے پاس نہیں وہ آجائے تو ان شاء اللہ سمجھنے مین اور آسانی ہو جائے گی۔۔

ولهذاصحح هذا الطريق جماعة من الحفاظ منهم الذهبي ، وقبله ابن حبان
والحاكم في صحيحيهما
یہ مقامات مل جائیں تو مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی کہ کہاں کہاں کہا انہوں نے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
برائے مہربانی ان کا ترجمہ اردو میں کر دیں۔اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

ویسے تو اسکے ترجمے کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب تقاضہ کر ہی دیا گیا تو لیجئے۔۔

وقال الحاكم: صحيح الإسناد، ووافقه الذهبي فأخطأ، لأن خزيمة هذا مجهول،
قال الذهبي نفسه في " الميزان ": خزيمة، لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال وكذا قال الحافظ في " التقريب ": إنه لا يعرف، وسعيد بن أبي هلال مع ثقته حكى الساجي عن أحمد أنه اختلط، وكذلك وصفه بالاختلاط يحيى كما في " الفصل " لابن حزم (2 / 95) ،
ولعله مما يؤيد ذلك روايته لهذا الحديث، فإن بعض الرواة الثقات عنه لم يذكروا في إسناده خزيمة فصار الإسناد منقطعا ولذلك لم يذكر الحافظ المزي عائشة بنت سعد في شيوخ ابن أبي هلال فلا يخلوهذا الإسناد من علة الجهالة أو الانقطاع فأنى للحديث الصحة أو الحسن؟ ! .
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة حدیث 83]
کچھ اختصآر کے ساتھ۔۔۔
امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ سند صحیح ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موفقت کی ہے لیکن وہ غلطی پر ہیں کیونکہ سند میں ایک راوی خزیمہ مجہول ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے خود اپنی کتاب میزان الاعتدال میں کہا کہ خزیمہ معروف نہیں ہے(مجہول ہے) اس سے سعید بن ابی ھلال روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسکو مجہول کہا۔
اور سعید بن ابی ھلال ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اختلاط کا شکار بھی ہیں یہ بات ساجی نے امام احمد سے نقل کی۔
اور یحیی بن معین نے بھی اسکو اختلاط کا شکار کہا۔
اور بعض راوی اس حدیث کو خزیمہ کے واسطے کے بغیر ذکر کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ سند منقطع ہو گی کیونکہ حافظ مزی رحمہ اللہ نے سعید بن ابی ھلال کے اساتذہ میں عائشۃ بنت سعد کو ذکر نہیں کیا ۔۔
لہذا یہ روایت مجہول راوی کی علت یا انقطاع کی علت سے خالی نہیں تو صحیح یا حسن ہونا تو دور کی بات ہے۔۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
سب باتوں کا تعلق اور لنک پچھلی باتوں کے ساتھ ہی ہے رہی ایک یہ بات بلکہ یہ دعوہ۔۔۔۔



کیسے اور کس طرح کس جادوئی چھڑی سے یہ بات ثابت ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔!!!!!!!!!!!!

اگر تو شہرت ہی جہالت کو رفع کرنے کیلئے کافی ہے تو پھر ایسے بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں راوی کثیر الروایۃ ہے لیکن کسی نے توثیق تجریح نہیں کی اور وہ مجہول ہے۔۔
امام بزار کے باب باندھنے کو بھی پڑھ لیں وہ تو وہ امام ذھبی وغیرہ سے کئی سال قبل گزرے ہیں؟ کیا سعید اور عائشۃ بنت سعد دونوں مدینے کے رہنے والے نہیں ہیں ؟کیا ان کا زمانہ ایک نہیں ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ ایک خیالی بات ہے جس کا اصول حدیث سے تعلق نہیں میں نے اوپر بھی ذکر کیا ہے کہ روایات پر صحت اور ضعف کا حکم اصول حدیث کو مد نظر رکھ کر لگایا جاتا ہے اس طرح کی خیالی باتوں کے ساتھ نہیں
عالی جناب کیا آپ اس بات کو رد کر سکتے ہیں یہ دونوں راوی مدینہ کے رہنے والے ہیں اور دونوں ہم عصر ہیں ، ؟
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
پوری بات نہیں پڑھتے بھائی آپ

امام بزار کے باب باندھنے کو بھی پڑھ لیں وہ تو وہ امام ذھبی وغیرہ سے کئی سال قبل گزرے ہیں؟ کیا سعید اور عائشۃ بنت سعد دونوں مدینے کے رہنے والے نہیں ہیں ؟کیا ان کا زمانہ ایک نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔رہی یہ بات تو یہ بھی اس سماع کی قطعا کسی صورت میں دلیل نہیں بن سکتی مطلق باب باندھ دینے سے سماع کیسے ثابت ہوتا ہے؟؟
صحیح ابن حبان ، صحیح ابن خزیمہ ، سنن نسائی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں روات کے نام سے باب ہیں تو کیا وہ سب صحیح ہیں ؟؟؟
اور یہاں انہوں نے سماع کی بات بھی نہیں کی کیا عن سماع کا صیغہ ہے؟؟؟
بھائی یہاں تو مطلق ایک روایت کا ذکر کیا ہے کہ وہ روایت جو اس سند سے مروی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکہ یہاں تو یہ روایت اور تضعیف کی طرف جاتی ہے کہ اصل میں یہ روایت خزیمہ کے واسطے کے بغیر ہے اور وہ منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو گی۔۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
عالی جناب کیا آپ اس بات کو رد کر سکتے ہیں یہ دونوں راوی مدینہ کے رہنے والے ہیں اور دونوں ہم عصر ہیں ، ؟

بھائی پہلے تو آپ کسی صحیح دلیل کے ساتھ جس کا تعلق اصول حدیث سے ہو اس سے لقاء ثآبت کریں پھر میں رد بھی کر دونگا
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث کی مکمل تخریج ملاحظہ کیجئے،،،

خزیمۃ کے واسطے کے ساتھ طریق۔۔۔
1۔احمد بن صالح
2۔اصبغ بن الفرج
3۔عبد اللہ بن ابی موسی؟
4۔احمد بن عیسی المصری
یہ سب راوی اس سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں
عبد اللہ بن وھب عن عمرو بن الحارث عن سعید بن ابی ھلال عن خزیمۃ عن عائشۃ بنت سعد عن سعد بن ابی وقاص۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس طریق کا مدار عبد اللہ بن وھب پر ہے اور ان سے بیان کرنے والے راوی جو کہ چار ہیں ان میں سے عبد اللہ بن ابی موسی کے علاوہ تمام راوی ثقہ اور صدوق ہیں۔۔ عبد اللہ بن ابی موسی کے حالات تک میں پہنچ نہیں سکا اگر تو یہ التستری ہیں تو مستقیم الحدیث ہیں۔
لیکن اصل مسئلہ مدار کے بعد ہے جس میں تمام راوی ثقہ ہیں سوائے خزیمۃ کہ اسکے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں لا یعرف مزید تفصیل آگے آئے گی۔۔
باقی سعید بن ابی ھلال کے بارے میں بھی اختلاط کا کہا گیا ہے دیکھئے تقریب التھذیب۔ مزید تفصیل آگے آئے گی ان شاء اللہ۔

خزیمۃ کے واسطے کے بغیر طریق۔۔۔۔
1۔ھارون بن معروف
2۔حرملۃ بن یحیی
3۔اصبغ بن الفرج
یہ سب راوی اس سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
عن ابن وھب عن عمرو بن الحارث عن سعید بن ابی ھلال عن عائشۃ عن سعد

اس طریق کے راوی بھی جو عبد اللہ بن وھب سے بیان کر رہے ہیں وہ بھی ثقہ اور صدوق ہیں۔ باقی اس طریق میں علت یہ ہے کہ سعید بن ابی ھلال کی عائشہ بنت سعد سے روایت منقطع ہے۔

اب آتے ہیں علماء کے اقوال کی طرف۔۔۔
امام اثرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
سمعت أبا عبد الله يقول: سعيد بن أبي هلال ما أدري أي شيء حديثه؟! يخلط في الأحاديث.
(سؤالات الاثرم عن احمد 69)
کچھ ایسی روایات جن میں سعید نے دوسرے روات کی مخالفت کی۔۔

امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔۔
وَرَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ نُعَيْمٍ وَاخْتُلِفَ عَنْهُ۔ (علل : 1629)
وَخَالَفَهُمْ سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ فَرَوَاهُ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَوَهِمَ فِي ذَلِكَ۔۔۔۔ (علل : 1819)

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ ایک مسئلے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔۔۔
إِن هَذِه اللَّفْظَة انْفَرد بهَا سعيد بن أبي هِلَال وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ قد ذكره بالتخليط يحيى وَأحمد بن حَنْبَل۔
(الفصل فی الملل ج2 ص95)

قال ابن حجر رحمہ اللہ : اخرجہ الترمذی عن احمد بن الحسن عن اصبغ بن الفرج وقال بعدہ ورجالہ رجال الصحیح الا خزیمۃ فلا یعرف نسبہ ولا حالہ ولا روی الا سعید ، وقد ذکرہ ابن حبان فی الثقات کعادتہ فیمن لم یجرح ولم یات بمنکر۔
(نتائج الافکار فی تخریج احادیث الاذکار ج1 ص81،82)

امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔وقال الحاكم: صحيح الإسناد، ووافقه الذهبي فأخطأ، لأن خزيمة هذا مجهول، قال الذهبي نفسه في " الميزان ": خزيمة، لا يعرف، تفرد عنه سعيد بن أبي هلال وكذا قال الحافظ في " التقريب ": إنه لا يعرف، وسعيد بن أبي هلال مع ثقته حكى الساجي عن أحمد أنه اختلط، وكذلك وصفه بالاختلاط يحيى كما في " الفصل " لابن حزم (2 / 95) ، ولعله مما يؤيد ذلك روايته لهذا الحديث، فإن بعض الرواة الثقات عنه لم يذكروا في إسناده خزيمة فصار الإسناد منقطعا ولذلك لم يذكر الحافظ المزي عائشة بنت سعد في شيوخ ابن أبي هلال فلا يخلوهذا الإسناد من علة الجهالة أو الانقطاع فأنى للحديث الصحة أو الحسن؟ ! .
(سلسلۃ احادیث الضعیفۃ ج1 ص188 ح83)

دو باتوں کی وضاحت انتہائی ضروری ہے۔۔

1۔سعید بن ابی ھلال ثقہ راوی ہیں اور ثقہ راوی کو کبھی وہم ہو جانا عجیب بات نہیں (میں نے مذکورہ مسئلہ کی وضاحت کیلیئے یہان انکے چند اوھام کا ذکر کیا) کیونکہ یہ ایک فطری چیز ہے اس سے راوی ضعیف نہیں ہوتا الا یہ کہ اس کے وہم ذیادہ ہوں۔
2۔یہ تخریج ایک طالبعلم کی ہے کس بھی واضح دلیل کے ساتھ اس پر اعتراض کئے جا سکتے ہیں۔ اور کلی طور پر بھی اسکو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وفوق کل ذی علم علیم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جس مضمون کا لنک میں نے منسلک کیا ہے۔اس میں تسبیح کے جواز پر جو احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان پر اختلاف ہے۔
جیسے کہ صفیہ بن حیی سے مروی حدیث ، جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف بیان کیا ہے جبکہ دوسری جانب امام حاکم صحیح الاسناد کہا ہے ، اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سکوت فرمایا ہے۔تو ایسی صورت میں تسبیح کے جواز پر جو احادیث پیش کی گئی ہیں ، ان میں سے کس کی رائے اور تحقیق کو تسلیم کریں؟؟؟
کوئی بھائی برائے مہربانی اس کی وضاحت کریں۔
نوٹ
تسبیح بدعت ہے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے۔
 
Top