معاف کیجئے گا ایسے معاملوں میں میں دخل دئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ ابتسامہ۔
زیر بحث حدیث:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ حَدَّثَهُ ، عَنْ خُزَيْمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهَا ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوًى أَوْ حَصًى تُسَبِّحُ بِهِ ، فَقَالَ : " أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا ، أَوْ أَفْضَلُ ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الْأَرْضِ ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلُ ذَلِكَ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِثْلُ ذَلِكَ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ " (سنن ابی داود)
یہ حدیث درج ذیل علماء کی کتب میں درج ہے:
ابو داود (1500)، ترمذی (3568)، ابن حبان (2330)، الدورقی فی مسند سعد (ص 130)، المخلص فی الفوائد (9 / 17 / 2)، حاکم (1 / 547 - 548)، البغوی فی شرح السنہ (1264)، البیہقی فی الشعب (575) والدعوات الکبیر (258)، ضیاء المقدسی فی المختارہ (935، 936)، البحر الزخار بمسند البزار (1094)، ابی یعلی الموصلی (701)، المزی فی تہذیب الکمال (8:246)، اور الطبرانی فی الدعاء (1634)۔
یہ حدیث ضعیف و منکر ہے جیسا کہ محدث العصر امام البانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
اس حدیث کی سند میں اختلاف یہ ہے کہ کیا یہ روایت خزیمہ نامی شخص کے اضافہ کے ساتھ ٹھیک ہے یا خزیمہ کے اضافے کے بغیر سعید کی عائشہ سے براہ راست روایت کے طور پر صحیح ہے؟ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ اس سند میں خزیمہ کا اضافہ ہی ٹھیک ہے اور جن لوگوں نے اسے خزیمہ کے اضافے کے بغیر روایت کیا ہے انہوں نے ثقات کی مخالفت کی ہے۔
خزیمۃ کے واسطے کے بغیر طریق۔۔۔۔
جیسا کہ وقاص بھائی نے بتایا درج ذیل لوگوں نے اسے خزیمہ کے اضافے کے بغیر سعید کی عائشہ سے براہ راست روایت کے طور پر نقل کیا ہے:
1- حرملہ بن یحیی (متکلم فیہ، صدوق حسن الحدیث) - صحیح ابن حبان
2- ہارون بن معروف (ثقہ) - مسند ابی یعلی
بس
دو راوی ہی اس روایت کو
عن ابن وہب عن عمرو بن الحارث عن سعید بن ابی ہلال عن عائشہ عن سعد کے طریق سے نقل کرتے ہیں۔
نوٹ: وقاص بھائی نے تیسرا راوی بھی ذکر کیا ہے لیکن وہ صحیح نہیں جیسا کہ آگے آئے گا، ان شاء اللہ۔
خزیمۃ کے واسطے کے ساتھ طریق۔۔۔
جبکہ درج ذیل
ثقہ راویوں کی کثیر تعداد اس روایت کو خزیمہ کے طریق سے روایت کرتے ہیں:
1- احمد بن صالح المصری (ثقہ ثبت) - ابی داود، بیہقی
2- عبد اللہ بن ابی موسی یعنی ابو عبد اللہ بن ابی موسی یعنی احمد بن عیسی المصری (ثقہ) - مسند سعد للدورقی، بیہقی
نوٹ: وقاص بھائی نے ایک ہی شخص کو دو مختلف شخصیتیں سمجھ لیا۔ کیونکہ مسند سعد میں لفظ "ابو" حذف ہو گیا ہے۔ اس کی تصحیح کتب رجال اور بیہقی کی روایت سے ہو گئی ہے۔
3- یونس بن عبد الاعلی (ثقہ) - المخلص فی الفوائد، ضیاء المقدسی
4- احمد بن عمرو بن السرح (ثقہ) - احادیث المختارہ
5- اصبغ بن الفرج (ثقہ)
نوٹ: اصبغ بن الفرج کی ایک دوسری روایت میں خزیمہ کا ذکر نہیں ہے لیکن اگر اصبغ کی روایات کو اکٹھا کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے درج ذیل تلامذہ نے اسے خزیمہ کے اضافے کے ساتھ روایت کیا ہے:
ا- احمد بن الحسن الترمذی (ثقہ حافظ) - سنن الترمذی
ب- یحیی بن عثمان بن صالح (صدوق) - طبرانی
ج- حمید بن زنجویہ (ثقہ ثبت) - شرح السنہ
جبکہ صرف:
عمر بن الخطاب (صدوق) نے اسے اصبغ سے خزیمہ کے اضافے کے بغیر نقل کیا ہے - مسند البزار
لہٰذا اصبغ کی اصل روایت بھی خزیمہ کے اضافے کا ساتھ ہے۔
اور اس سب کا مطلب یہ ہے کہ زیر بحث روایت کی اصل
سعید عن خزیمہ عن عائشہ کا طریق ہے۔ جبکہ
سعید عن عائشہ محض دو راوی بیان کرتے ہیں اور انہوں نے ایسا کرنے میں کئی اوثق و ثقات کی مخالفت کی ہے۔
لہٰذا جب یہ ثابت ہو چکا کہ اصل روایت میں سعید خزیمہ سے روایت کرتے ہیں تو اب سعید کے اختلاط یا انقطاع کی بحث کی ضرورت نہیں۔
نوٹ: سعید مختلط نہیں تھے۔
خزیمہ کی توثیق
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خزیمہ حسن الحدیث ہے یا مجھول الحال ہے؟
خزیمہ اصل میں مجھول الحال ہے۔ کیونکہ نہ تو اس کا کوئی نام و نسب پتہ ہے اور نہ کچھ۔ اوپر سے یہ شخص صرف ایک ہی روایت کرتا ہے! لہٰذا اگر کوئی بعد کا ناقد اس کی توثیق کرتا بھی ہے تو محض ایک روایت کی بناء پر توثیق کیسے ممکن ہے؟ اسی لئے اس فن کے ماہر حفاظ ابن حجر و ذہبی کا قول ہی درست ہے کہ وہ لا یعرف ہے۔ جہاں یہ دو حفاظ ایک بات پر متفق ہو جائیں تو مخالفت کرنا بہت مشکل ہے۔
اور ان چند محدثین (جو کہ صرف حاکم، ترمذی، ابن حبان اور بغوی ہیں) نے جو خزیمہ کی حدیث کی تحسین کی ہے تو ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ تساہل پر مبنی ہیں، کیونکہ:
یہ تمام ہی اپنے تساہل کے لئے مشہور ہیں۔
ایک تو یہ متساہل ہیں اوپر سے ان کی توثیق بھی مجمل ہے (یعنی صرف حدیث پر حکم سے توثیق ثابت کی جارہی ہے)۔
اور اس میں سے ترمذی کی تحسین تو خزیمہ کے لئے ہے ہی نہیں بلکہ انہوں نے سعید کی حدیث کو حسن غریب کہا ہے یعنی سعید تک پہنچنے کے اعتبار سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ واللہ اعلم۔ اور بغوی نے غالبا ترمذی کی تقلید میں ہی بعینہ وہی الفاظ نقل کر دیے یعنی "حسن غریب"
اور سب سے اہم بات یہ کہ جیسا اوپر بیان کیا گیا ہے کہ خزیمہ سے صرف ایک ہی روایت مروی ہے، اور محض ایک روایت سے کسی کی توثیق ممکن نہیں ہے الا یہ کہ اس کا کوئی معاصر اس کی صراحتا توثیق کرے۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔
لہٰذا خزیمہ مجھول الحال رہے گا۔
متن میں نکارت
شیخ البانی نے اس حدیث میں ایک اور علت بیان کی ہے اور وہ ہے اس کے متن کی نکارت۔ کیونکہ صحیح مسلم میں اسی طرح کی حدیث ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے مگر اس میں کنکڑیوں سے تسبیح کا کوئی ذکر نہیں ہے:
وعن أم المؤمنيين جويرية بنت الحارث رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج من عندها بكرة حين صلى الصبح وهي في مسجدها، ثم رجع بعد أن أضحي وهي جالسة، فقال: "مازلت على الحالة التي فارقت عليها؟" قالت: نعم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "لقد كنت بعدك أربع كلمات ثلاث مرات، لو وزنت بما قلت منذ اليوم لوزنتهن: سبحان الله وبحمده عدد خلقه، ورضا نفسه، وزنة عرشه، ومداد كلماته" ((رواه مسلم)).
وفي رواية له: سبحان الله عدد خلقه، سبحان الله رضا نفسه، سبحان الله زنة عرشه، سبحان الله مداد كلماته".
وفي رواية الترمذي: ألا أعلمك كلمات تقولينها؟ سبحان الله عدد خلقه، سبحان الله عدد خلقه، سبحان الله عدد خلقه، سبحان الله رضا نفسه، سبحان الله رضا نفسه، سبحان الله رضا نفسه، سبحان الله زنة عرشه، سبحان الله زنة عرشه، سبحان الله زنة عرشه، سبحان الله مداد كلماته، سبحان الله مداد كلماته، سبحان الله مداد كلماته".
شیخ البانی کے الفاظ ہیں:
ومما يدل على ضعف هذين الحديثين أن القصة وردت عن ابن عباس بدون ذكر الحصى ولفظه قال: عن جويرية أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج من عندها بكرة حين صلى الصبح وهي في مسجدها، ثم رجع بعد أن أضحى وهي جالسة، فقال: ما زلت على الحال التي فارقتك عليها؟ قالت: نعم، قال النبي صلى الله عليه وسلم: " لقد قلت بعدك أربع كلمات ثلاث مرات لووزنت بما قلت منذ اليوم لوزنتهن: سبحان الله وبحمده عدد خلقه، ورضا نفسه، وزنة عرشه ومداد كلماته "، أخرجه مسلم (8 / 83 - 84) والترمذي (4 / 274) وصححه والنسائي في " عمل اليوم والليلة " (161 - 165) وابن ماجه (1 / 23) وأحمد (6 / 325 و429 - 430) ، فدل هذا الحديث الصحيح على أمرين:
الأول: أن صاحبة القصة هي جويرية، لا صفية كما في الحديث الثاني؟ .
الآخر: أن ذكر الحصى في القصة منكر، ويؤيد هذا إنكار عبد الله بن مسعود رضي الله عنه على الذين رآهم يعدون بالحصى، وقد جاء ذلك عنه من طرق سبق أحدها ولوكان ذلك مما أقره صلى الله عليه وسلم لما خفي على ابن مسعود إن شاء الله وقد تلقى هذا الإنكار منه بعض من تخرج من مدرسته ألا وهو إبراهيم بن يزيد النخعي الفقيه۔۔۔
واللہ اعلم۔