انتہائی قابل قدر جناب شیخ اسحاق سلفی صاحب
شب معراج کے حوالے سے کچھ شبہات ہیں امید ہے وہ آپ دور فرمائیں
گذشتہ جمعہ کو ایک دیوبندی مفتی اسی موضوع پے بات کر رہے تھے انھوں نے کچھ بیان یوں کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب سدرۃ المنتہی پے پہنچے تو جبریل علیہ السلام وہیں رک گئے کہ اس سے آگے میں نہیں جا سکتا میرے پر اللہ کے نور سے جل جائیں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے گئے اللہ کے سامنے ہوئے اور گفتگو کا آغاز سلام سے ہوا ۔ پھر مفتی صاحب نے وہ تشہد والی روایت بیان کی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ التحیات للہ والصلوۃ و طیبات تو اللہ نے جواب دیا السلام علیک ایھاالنبی و رحمۃ اللہ و برکاۃ ۔۔۔۔تو المختصر میرے پوچھنے کا مطلب ہے کیا یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
هل ذكرت التحيات في قصة المعراج ؟
ما صحة قصة أن لفظ : ( التحيات ) كانت عندما عرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى السماء ، ووصل سدرة المنتهى ، أن الرسول صلى الله عليه وسلم قال : ( التحيات لله والصلوات والطيبات ، فقال الله : السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته ، فقالت الملائكة : السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين ) ، فهذه القصة تدرس للأطفال في المدارس لتساعدهم على حفظ التحيات ؟
تم النشر بتاريخ: 2008-05-07
الحمد لله
لا يعرف لهذه القصة أصل ولا سند ، ولم نقف لها على أثر في كتب السنة الصحيحة ، وقصة المعراج ثابتة بتفاصيلها في صحيحي البخاري ومسلم وغيرهما ، وليس فيها شيء عن مناسبة ذكر التشهد المعروف في الصلاة ، وكذلك لم يرد شيء عن هذه القصة حين عَلَّمَ النبي صلى الله عليه وسلم الصحابة الكرام هذا التشهد .
فقد روى الشيخان : البخاري (6328) ومسلم (402) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مسعود رضي الله عنه قَالَ : ( كُنَّا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ ، السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ :
إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ ، فَإِذَا قَعَدَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَقُلْ : التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ . - فَإِذَا قَالَهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ - أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنْ الْمَسْأَلَةِ مَا شَاءَ ) .
وغاية ما وقفنا عليه في هذه القصة :
ما تنقله بعض كتب التفسير عند قوله تعالى : ( سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ ) يّـس /58 ، فقالوا : " يشير إلى السلام الذي سلمه الله على حبيبه عليه السلام ليلة المعراج إذ قال له : " السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته " ، فقال في قبول السلام : " السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين " انتهى . انظر "روح المعاني" للآلوسي" (3/38) .
وما يذكره بعض شراح السنة عند الكلام على حديث التشهد ، ذكره بدر الدين العيني في "شرح سنن أبي داود" (4/238) ، ونقله الملا علي القاري في "مرقاة المفاتيح" عن ابن الملك ، وكذلك تذكره هذه القصة في بعض كتب الفقه ، مثل حاشية "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق" (1/121) ، وفي بعض كتب الصوفية كالقسطلاني والشعراني .
وجميع ذلك ذكر معلق غير مسند ، فلا يجوز نسبته إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، كما لا يجوز تعليمه الأولاد الصغار ، لأنه لا يعرف له أصل صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وقد اتفق أهل العلم على حرمة رواية الأحاديث الموضوعة إلا على سبيل التكذيب والتحذير.
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
واقعۂِ معراج کے موقع پر "التحیات" کا لفظ ذکر کیا گیا تھا؟
سوال: یہ قصے کی کیا حقیقت ہے کہ:
"التحیات" کا لفظ اس وقت استعمال کیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کیلیے آسمان پر تشریف لے گئے اور جس وقت آپ سدرۃ المنتہی پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ" کہا ۔
اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا: " اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ"
پھر فرشتوں نے کہا: " اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ:
اس واقعے کہ کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ کوئی سند ہے، ہمیں ثابت شدہ احادیث میں اس سے متعلق کوئی نام و نشان نہیں ملا، لیکن واقعۂِ معراج مکمل تفصیلات کیساتھ صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت دیگر کتابوں میں ثابت شدہ ہے، اس کے با وجود نماز کے تشہد سے متعلق ایسی کوئی بات ان میں ذکر نہیں کی گئی، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ تشہد صحابہ کرام کو سکھایا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیلات بیان نہیں فرمائیں۔
چنانچہ صحیح بخاری: (6328) اور مسلم: (402) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے کہا کرتے تھے: اللہ تعالی پر سلامتی ہو، فلاں پر بھی سلامتی ہو، تو ایک بار ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ اللہ تعالی تو بذاتِ خود ہی سلامتی ہے، اس لیے جب بھی کوئی تشہد میں بیٹھے تو یوں کہا کرے : ( اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ )[تمام زبانی، بدنی، اور مالی عبادات اللہ تعالی کیلیے ہیں، اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی جانب سے سلامتی ، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں، ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -ﷺ-اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں] (جب ایسے کہے گا تو آسمان و زمین میں موجود اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں تک نمازی کی دعا پہنچ جائے گی، یہ کہنے کے بعد جو مانگنا چاہے سو مانگ لے)"
ہمیں زیادہ سے زیادہ اس واقعہ کے بارے میں ( سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ ) نہایت رحم کرنے والے پروردگار کی طرف سے تم پر سلامتی ہو [يٰس:58] آیت کے تحت چند تفسیر کی کتابوں میں یہ بات ملی ہے کہ:
"مفسرین کا کہنا ہے کہ: اس سے اشارہ ہے اللہ تعالی کے اس سلام کی طرف جو شب معراج کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی نے فرمایا تھا: " السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ "[اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی سلامتی ، رحمتیں اور برکتیں ہوں] تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلام کو قبول کرتے ہوئے جواب دیا تھا: " اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ"[ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی ہو]" انتہی
"روح المعانی" از علامہ آلوسی" (3/38)
اسی طرح چند شارحینِ حدیث نے تشہد کی دعا ذکر کرتے ہوئے جو شرح کی ہے وہاں اس سے ملتی جلتی بات ملتی ہے، جیسے کہ بدر الدین عینی نے "شرح سنن ابو داود" (4/238) میں ذکر کی ہے، نیز ملا علی قاری نے اسے "مرقاۃالمفاتیح" میں ابن الملک سے نقل کیا ہے۔
اسی طرح یہ واقعہ کچھ فقہ کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہےمثال کے طور پر : "تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق" (1/121) اسی طرح قسطلانی اور شعرانی جیسے صوفیوں کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔
لیکن کسی نے بھی اس واقعہ کو سند کے ساتھ ذکر نہیں کیا، اس لیے اس واقعہ کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کرنا درست نہیں ہے، بالکل اسی طرح یہ واقعہ بچوں کو بھی نہیں سکھانا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی تمام احادیث کو بیان کرنا حرام ہے، صرف ایک صورت میں بیان کرنا جائز ہے جب ان احادیث کی حقیقت عیاں کرنا مقصود ہو اور ان سے لوگوں کو خبردار کرنا ہو۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب