- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
تصوف اور اس کے اثرات
توحید تمام انبیاء کرام کی مقدس تعلیمات کی بنیاد ہے۔ قرآن مجید کے صفحات توحید کے اثبات اور شرک کی نفی سے بھرے ہوۓ ہیں۔ دین اسلام کی پوری عمارت اساس توحید ہی پر قائم ہے۔ توحید کا مجروح ہو جانا دین کا سب سے بڑا نقصان ہے اور اس نقصان کو گوارہ کرنے کے بعد دین و اسلام کا سلامت رہ جانا ممکن نہیں۔
شرک توحید کی ضد ہےاور اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہےجس کی کوئی معافی نہیں۔ قرآن مجید میں اسے ظلم عظیم کہا گیا ہے۔ سورةالنساء میں ارشاد باری تعالٰی ہے:
شرک کے بعد عقیدہ و عمل کے فساد میں "بدعت" کا نمبر ہے۔ احادیث صحیحہ میں اسے ضلالت و گمراہی کہا گیا ہے اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ بدعت اپنے معنٰی و مفہوم کے اعتبار سے اسلام میں "شجر ممنوعہ" کی حیثیت رکھتی ہے۔ بلا شبہ یہ گمراہی کا پہلا زینہ اور شرک کا چور دروازہ ہے۔ ناممکن ہے کہ انسان بدعت میں مبتلا ہونے کے بعد شرک سے محفوظ رہ جاۓ۔ بدعت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین کا نقاب اوڑھ کے عوام کے سا منے آتی ہے، اور بظاہر اس سے متعلق سارے اعمال اسلام ہی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں، مگر درحقیقت یہ اسلام کے نام پر بدترین دھوکہ ہے۔"بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اسکے ساتھ کسی کو شریک بنایا جاۓ، ہاں اس کے علاوہ دوسرے گناہوں کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے، اور جو شخص کسی کو اللہ کا شریک بناتا ہے وہ ایک بڑے گناہ کی افتراء پردازی کراتا ہے۔"
مسلمانوں میں شرک و بدعت کو رواج دینا اور انکے عقیدہ و اعمال میں فساد پیدا کرنا دشمنان اسلام کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ مقصد اس امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا وجود ختم کر دینا ہے۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے مبارک دور سے آج تک مسلسل اسلام کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت تک قوم یہود کو اسلام اور ملت اسلامیہ کی طرف بری نگاہ ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اسکے بعد حضرت عثمان ؓ کے عہد مبارک میں قوم یہود کو اپنے کل پرزے نکالنے کا موقعہ مل گیا اور عبداللہ بن سبا (یہودی) کا پیدا کردہ فتنہ شروع ہوا جس کے نتیجےمیں حضرت عثمان ؓ شہید ہوۓ اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئی اور دونوں طرف سے کثیر تعداد مسلمانوں اور صحابہ کرام کی قیمتی جانوں نقصان ہوا۔
قوم یہود کی دسیسہ کاریوں اور ملت اسلامیہ میں ان کے اثر و نفوذ کی داستان بہت طویل ہے۔ یہودی، اسلام اور مسلمانوں کو گذشتہ چودہ (١٤) سو برس مسلسل اور مختلف طریقوں سے ناقابل تلافی نقصاف پہنچاتے رہے ہیں۔ کبھی یہ شیعیت اور باطنیت کے روپ میں ہوتے ہیں تو کبھی درویش اور کبھی تارک الدنیا فقیروں کا بہروپ بنا کر جاہل اور سادہ لوح مسلمانوں کو بدعت و گمراہیوں میں مبتلا کرتے رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کا سارا اختلاف و افتراق اور ان میں بدعت و ضلالت کی آبیاری انہیں دشمنان اسلام کی مذموم کوششوں اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے۔
تصوف قوم یہود کی اسلام دشمنی کی مختلف کوششوں میں سب سے خطرناک سازش تھی ۔ تصوف اپنے نتائج اور دور رس اثرات کی وجہ سے سب سے زیادہ موثر اور خطرناک ثابت ہوا. تصوف جو صوفیاء کے خیال کے مطابق اسلامی روایات کے تحفظ، اصلاح نفس اور تقرب الی اللہ کے پاکیزہ جذبے کے تحت وجود میں آیا تھا۔ دراصل یہ ایک قسم کی یا سیت اور ذہنی فرار کا عمل تھا جو مختلف وجوہات کے تحت اسلامی دنیا میں ہونے والی سیاسی اُتھل پتھل اور خلافت راشدہ و شورائی نظام کے خاتمہ کے فورا بعد اچانک ہی ملوکیت کی سخت گرفت اور عوامی استحصال کے نتیجہ میں بطور (ردعمل) پیدا ہوا تھا۔
تصوف اور اسلام کو نقصان پہنچانے والی دیگر تحریکوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ثانی الذکر کوشش اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا نتیجہ تھیں، مگر تصوف کی ابتداء نیک جذبے سے ہوئی اور اس کی داغ بیل ڈالنے والے بظاہر اسلام کے دشمن نہیں تھے بلکہ نیک اور عبادت گذار مسلمان تھے۔ مسلم معاشرے کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال سے مسلمانوں کو محفوظ کرنے کے لئے ان کے اکابرین اُمت نے اسلام کی امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کی اجتماعی روش سے دور ہوکر تزکیہ نفس کے انفرادی عمل کو اپنا یا اور حکومت وقت کی اصلاح سے مجبور و مایوس گوشہ نشین ہوجانے میں ہی دین کی عافیت سمجھی۔ دنیا طلبی کے تلخ نتائج انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کی اولادیں تک دولت وعشرت کی فراوانی کی وجہ سے دین سے غافل اور دنیا کی ہوس میں مبتلا ہو کر اپنی اسلامی روایات کو بھولی جارہی تھیں تو دیگر مسلمانوں خصوصا نومسلموں کے دین کے تحفظ کی کیا ضمانت ہو سکتی تھی۔ اس لئے انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ (ترک دنیا) کی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جائے کیونکہ سارے فتنے و فساد کی جڑ یہی دنیا کی ہوس ہے۔ دنیا چھوڑ دینے کے بعد زندگی گذارنے کے لئے توکل پر انحصار کرنا نا گزیر تھا۔ اس لئے تصوف نے (توکل) کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اس طرح (ترک دنیا) اور (توکل) کے عمل نے ان کی گوشہ نشینی کو رفتہ رفتہ (رہبانیت) کی شکل دے دی تھی۔
اُمت مسلمہ میں تصوف کا رجحان پیدا ہونے کے بعد کس قسم کی ذہنی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور اعمال و نظریات میں کیا کیا تغیرات پیدا ہوئے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوئے؟ تصوف جو شروع میں اسلامی اصطلاح میں (احسان) کا مترادف اور ہم معنی تھا عجمیت کی آمیزش کے بعد کیا سے کیا بن گیا؟ موجودہ تصوف اور اس کی راہ پر چلنے والے اسلامی تعلیمات سے کس قدر قریب ہیں اور انہوں نے ماضی میں اسلام کی تبلیغ و ترقی کے لئے کیا خدمات انجام دی ہیں؟ ان سب باتوں کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں تصوف، اس کے مآخذ اور اس کے ارتقاء کا تاریخی پس منظر دیکھنا پڑے گا تاکہ ہم اس کی روشنی میں موجود تصوف کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکیں کہ آیا یہ اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرقع ہے یا ویدانت، یونانی فلسفہ اور جوگی ازم کا مجموعہ؟
آئیے سب سے پہلے ہم لفظ "تصوف" پر غور کرتے ہیں!
تصوف ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے جس کا عربی لغت میں کوئی وجود نہیں اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی میں خود صوفیاء کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لفظ کا کون سا مفہوم صحیح ہے جس کی رعایت سے اس کے حامل کو صوفی کہا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیث نبوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اور اس سے متعلق سارا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے اور ایک ایسی (بدعت) ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی بنیاد نہیں بے۔