• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوف اور اس کے اثرات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تصوف اور اس کے اثرات


توحید تمام انبیاء کرام کی مقدس تعلیمات کی بنیاد ہے۔ قرآن مجید کے صفحات توحید کے اثبات اور شرک کی نفی سے بھرے ہوۓ ہیں۔ دین اسلام کی پوری عمارت اساس توحید ہی پر قائم ہے۔ توحید کا مجروح ہو جانا دین کا سب سے بڑا نقصان ہے اور اس نقصان کو گوارہ کرنے کے بعد دین و اسلام کا سلامت رہ جانا ممکن نہیں۔
شرک توحید کی ضد ہےاور اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہےجس کی کوئی معافی نہیں۔ قرآن مجید میں اسے ظلم عظیم کہا گیا ہے۔ سورةالنساء میں ارشاد باری تعالٰی ہے:
"بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اسکے ساتھ کسی کو شریک بنایا جاۓ، ہاں اس کے علاوہ دوسرے گناہوں کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے، اور جو شخص کسی کو اللہ کا شریک بناتا ہے وہ ایک بڑے گناہ کی افتراء پردازی کراتا ہے۔"
شرک کے بعد عقیدہ و عمل کے فساد میں "بدعت" کا نمبر ہے۔ احادیث صحیحہ میں اسے ضلالت و گمراہی کہا گیا ہے اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ بدعت اپنے معنٰی و مفہوم کے اعتبار سے اسلام میں "شجر ممنوعہ" کی حیثیت رکھتی ہے۔ بلا شبہ یہ گمراہی کا پہلا زینہ اور شرک کا چور دروازہ ہے۔ ناممکن ہے کہ انسان بدعت میں مبتلا ہونے کے بعد شرک سے محفوظ رہ جاۓ۔ بدعت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین کا نقاب اوڑھ کے عوام کے سا منے آتی ہے، اور بظاہر اس سے متعلق سارے اعمال اسلام ہی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں، مگر درحقیقت یہ اسلام کے نام پر بدترین دھوکہ ہے۔
مسلمانوں میں شرک و بدعت کو رواج دینا اور انکے عقیدہ و اعمال میں فساد پیدا کرنا دشمنان اسلام کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ مقصد اس امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا وجود ختم کر دینا ہے۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے مبارک دور سے آج تک مسلسل اسلام کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت تک قوم یہود کو اسلام اور ملت اسلامیہ کی طرف بری نگاہ ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اسکے بعد حضرت عثمان ؓ کے عہد مبارک میں قوم یہود کو اپنے کل پرزے نکالنے کا موقعہ مل گیا اور عبداللہ بن سبا (یہودی) کا پیدا کردہ فتنہ شروع ہوا جس کے نتیجےمیں حضرت عثمان ؓ شہید ہوۓ اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئی اور دونوں طرف سے کثیر تعداد مسلمانوں اور صحابہ کرام کی قیمتی جانوں نقصان ہوا۔
قوم یہود کی دسیسہ کاریوں اور ملت اسلامیہ میں ان کے اثر و نفوذ کی داستان بہت طویل ہے۔ یہودی، اسلام اور مسلمانوں کو گذشتہ چودہ (١٤) سو برس مسلسل اور مختلف طریقوں سے ناقابل تلافی نقصاف پہنچاتے رہے ہیں۔ کبھی یہ شیعیت اور باطنیت کے روپ میں ہوتے ہیں تو کبھی درویش اور کبھی تارک الدنیا فقیروں کا بہروپ بنا کر جاہل اور سادہ لوح مسلمانوں کو بدعت و گمراہیوں میں مبتلا کرتے رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کا سارا اختلاف و افتراق اور ان میں بدعت و ضلالت کی آبیاری انہیں دشمنان اسلام کی مذموم کوششوں اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے۔
تصوف قوم یہود کی اسلام دشمنی کی مختلف کوششوں میں سب سے خطرناک سازش تھی ۔ تصوف اپنے نتائج اور دور رس اثرات کی وجہ سے سب سے زیادہ موثر اور خطرناک ثابت ہوا. تصوف جو صوفیاء کے خیال کے مطابق اسلامی روایات کے تحفظ، اصلاح نفس اور تقرب الی اللہ کے پاکیزہ جذبے کے تحت وجود میں آیا تھا۔ دراصل یہ ایک قسم کی یا سیت اور ذہنی فرار کا عمل تھا جو مختلف وجوہات کے تحت اسلامی دنیا میں ہونے والی سیاسی اُتھل پتھل اور خلافت راشدہ و شورائی نظام کے خاتمہ کے فورا بعد اچانک ہی ملوکیت کی سخت گرفت اور عوامی استحصال کے نتیجہ میں بطور (ردعمل) پیدا ہوا تھا۔
تصوف اور اسلام کو نقصان پہنچانے والی دیگر تحریکوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ثانی الذکر کوشش اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا نتیجہ تھیں، مگر تصوف کی ابتداء نیک جذبے سے ہوئی اور اس کی داغ بیل ڈالنے والے بظاہر اسلام کے دشمن نہیں تھے بلکہ نیک اور عبادت گذار مسلمان تھے۔ مسلم معاشرے کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال سے مسلمانوں کو محفوظ کرنے کے لئے ان کے اکابرین اُمت نے اسلام کی امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کی اجتماعی روش سے دور ہوکر تزکیہ نفس کے انفرادی عمل کو اپنا یا اور حکومت وقت کی اصلاح سے مجبور و مایوس گوشہ نشین ہوجانے میں ہی دین کی عافیت سمجھی۔ دنیا طلبی کے تلخ نتائج انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کی اولادیں تک دولت وعشرت کی فراوانی کی وجہ سے دین سے غافل اور دنیا کی ہوس میں مبتلا ہو کر اپنی اسلامی روایات کو بھولی جارہی تھیں تو دیگر مسلمانوں خصوصا نومسلموں کے دین کے تحفظ کی کیا ضمانت ہو سکتی تھی۔ اس لئے انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ (ترک دنیا) کی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جائے کیونکہ سارے فتنے و فساد کی جڑ یہی دنیا کی ہوس ہے۔ دنیا چھوڑ دینے کے بعد زندگی گذارنے کے لئے توکل پر انحصار کرنا نا گزیر تھا۔ اس لئے تصوف نے (توکل) کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اس طرح (ترک دنیا) اور (توکل) کے عمل نے ان کی گوشہ نشینی کو رفتہ رفتہ (رہبانیت) کی شکل دے دی تھی۔
اُمت مسلمہ میں تصوف کا رجحان پیدا ہونے کے بعد کس قسم کی ذہنی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور اعمال و نظریات میں کیا کیا تغیرات پیدا ہوئے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوئے؟ تصوف جو شروع میں اسلامی اصطلاح میں (احسان) کا مترادف اور ہم معنی تھا عجمیت کی آمیزش کے بعد کیا سے کیا بن گیا؟ موجودہ تصوف اور اس کی راہ پر چلنے والے اسلامی تعلیمات سے کس قدر قریب ہیں اور انہوں نے ماضی میں اسلام کی تبلیغ و ترقی کے لئے کیا خدمات انجام دی ہیں؟ ان سب باتوں کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں تصوف، اس کے مآخذ اور اس کے ارتقاء کا تاریخی پس منظر دیکھنا پڑے گا تاکہ ہم اس کی روشنی میں موجود تصوف کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکیں کہ آیا یہ اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرقع ہے یا ویدانت، یونانی فلسفہ اور جوگی ازم کا مجموعہ؟
آئیے سب سے پہلے ہم لفظ "تصوف" پر غور کرتے ہیں!
تصوف ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے جس کا عربی لغت میں کوئی وجود نہیں اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی میں خود صوفیاء کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لفظ کا کون سا مفہوم صحیح ہے جس کی رعایت سے اس کے حامل کو صوفی کہا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیث نبوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اور اس سے متعلق سارا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے اور ایک ایسی (بدعت) ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی بنیاد نہیں بے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تصوف کی تعریف!

صوفیاء کے نزدیک تصوف اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اخلاق رذیلہ سے پھیرنے اور اخلاق حمیدہ یعنی زہد وعلم، صبرواخلاص اور صدق وصفا جیسے خصائل حسنہ پر آمادہ کرنے کا نام ہے جس سے دنیا و آخرت میں کامرانی نصیب ہو۔
تصوف کا لفظ (صوف) سے بناہے جس کے معنی اُون کے ہیں، مراد اس سے وہ درویش اور اللہ ترس بندگان اللہ ہیں جو دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے کنارہ کش ہو کر یاد اللہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ موٹا چھوٹا پہنتے ہیں اور جیسا بھی کھانے کو مل جائے اس سے اپنا پیٹ پھر لیتے ہیں۔
لفظ (صوفی) کی اہل تصوف نے بہت سی توجہات کی ہیں۔ کچھ لوگ تصوف کو اہل صفہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس لئے کہ جس طرح اہل صفہ دنیاداری اور فکر معاش سے علیحدہ ہوکر دین کے حصول کی خاطر فقروفاقہ کو اپنائے ہوئے تھے اسی طرح اہل تصوف بھی مال وعیال سے دامن چھڑا کر اصلاح باطن کی غرض سے خانقاہوں اور جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی لیا گیا ہے صوفانہ سے جو ایک خوشنما اور خود روجنگلی ساگ ہے جو چھوٹے چھوٹے پتوں کی شکل کا ہوتا ہے اہل تصوف جنگل کے ساگ پات پر گذارہ کر لیتے ہیں اس لئے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ صوفی منسوب ہے (صوفة القفا) کی طرف، یعنی وہ چند بال جو گدی کے آخر میں جمتے ہیں گویا صوفی حق کی طرف متوجہ اور خلق کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہے۔ ابوریحان البیرونی کا خیال ہے کہ (صوفی) کا مادہ اشتقاق ایک یونانی لفظ ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے۔
"سوفی بمعنی فلاسفر ہے کیونکہ یونانی لفظ سوف بمعنی فلسفہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی زبان میں فیلسوف کو فلاسفا کہا جاتا ہے یعنی فلسفہ کا دلدادہ چونکہ اہل اسلام میں ایک جماعت ایسی تھی جو ان کے مسلک سے قریب تھی اس بناء پر ان کا نام بھی صوفی پڑ گیا"۔ (کتاب الہند، ابوریحان البیرونی صفحہ ١٦)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بہرحال تصوف کی وجہ تسمیہ چاہے کچھ بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ پہلی صدی ہجری کے اختتام تک لوگ اس نام سے واقف بھی نہیں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے زمانے میں تمام مسلمانوں کی نسبت اسلام اور ایمان کی طرف ہوا کرتی تھی اور اس وقت انہیں صرف مومن یا مسلم ہی کہا جاتا تھا۔ پھر بعد کے دور میں عابد و زاہد وغیرہ نام پیدا ہوئے۔ پھر کچھ لوگوں نے زہد و عبادت سے متعلق ہو کر دنیا سے انقطاع کر لیا اور ایک مخصوص گوشے میں بیٹھے رہے۔ ان کو لوگ (صوفی) اور (ولی اللہ) کہنے لگے۔ بعد میں یہی اولیا اللہ لوگوں کے لئے مطاع اور حاجت روا سمجھے جانے لگے۔ اس طرح شریعت کے مقابلہ میں ایک نئے دین یعنی (طریقت) کی بنیاد پڑگئی اور رفتہ رفتہ لوگ اس طریقت کو اس قدر اہمیت دینے لگے کہ اسلام کی تعلیمات اور شریعت کی ہدایات اور طور طریقے لوگوں کے ذہنوں سے بالکل فراموش ہو گئے، اللہ کی رضا اور خوشنودی کے بجائے (اولیاء اللہ) کو راضی رکھنے اور ان سے اپنی حاجتیں طلب کرنے کا ذوق و جذبہ پیدا ہوگیا جس کے نتیجہ میں نیاز فاتحہ، نذر چڑھاوے، عرس، گیارہویں جیسی بدعات اور دیگر شرکیہ اعمال کا اسلامی سوسائٹی میں دور دورہ ہو گیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد لوگ ان ساری خرافات ہی کو اصل دین سمجھنے لگے اور ان سے روکنے اور منع کرنے والوں کو طنز و تحقیر سے دیکھنے لگے۔ اس قسم کی خلاف شریعت باتوں پر عمل نہ کرنے والے ان کے نزدیک کافر ٹھہرائے گئے اور ان سے سلام و کلام، رشتہ و مناکحت اور باہمی تعلقات کے دروازے بند کر لئے گئے۔ یہ ہے اس تصوف کا انجام کار۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ شروع میں صوفیاء کتاب و سنت پر اعتماد کرتے تھے اور کوئی فعل ایسا کرنا ان کے نزدیک جائز نہ تھا جو قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہو۔ حضرت سری سقطی کا قول ہے کہ جو شخص ظاہر میں احکام شریعت کی پیروی چھوڑ کر باطن کا دعوٰی کرے وہ غلطی پر ہے۔ جنید بغدادی کہتے ہیں کہ ہمارا تصوف کتاب و سنت سے مقید ہے اور ہمارا علم کتاب و سنت سے بندھا ہوا ہے جس شخص کو کتاب اللہ یاد نہیں، حدیث نہیں لکھتا اور فقہ سے نابلد ہے اس کی پیروی نہ کی جائے۔ ابو بکر سقاف کہتے ہیں کہ جو شخص ظاہر میں امرونہی کی حدود ضائع کر دے وہ باطن میں مشاہدہ قلبی سے محروم رہے گا۔ بایزید بسطامی کا قول ہے کہ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت، شریعت کی حمایت، جماعت کا التزام، جنازے کے ساتھ چلنا اور مریضون کی عیادت چھوڑ دے اور ثناء شان باطنی کا دعوٰی کرے وہ (بدعتی) ہے۔ (تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ صفحہ ٢٣٢)
تصوف کی اس لائن میں جب جاہل اور مکار لوگ آ گھسے اور انہوں نے دین کی آڑ میں دنیا کمانے کے لئے تصوف کے طور طریق کو اختیار کر لیا، لوگوں کو علم سے روکا اور انہیں یہی سمجھایا کہ عمل ہی اصل مقصود ہے تو علم کا چراغ بجھ جانے کی وجہ سے تصوف کی دنیا تاریک ہوگئی اور لوگ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے۔ کچھ مکار صوفیاء نے ذاتی مفاد کی خاطر صوفیاء کے لئے جھوٹی روایتیں وضع کرنی شروع کر دیں جن کی کوئی سند نہیں تھی اور تصوف کی بنیاد شریعت کے احکام کے بجائے شیوخ کے اقوال و اعمال پر رکھ دی گئی، صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کے بجائے صوفیاء کے طور طریق حجت بنالئے گئے تو تصوف شرک و بدعت کی گندگیوں سے آلودہ ہوگیا اور صوفیوں کے خانہ ساز اعمال اور خلاف شریعت اقوال نے دین اسلام کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔
دشمنان اسلام یہود اور مجوسی جو شروع ہی سے مسلمانوں کے خلاف درپئے آزار رہے ہیں انہوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اپنی ساری توجہ تصوف کی طرف مرکوز کردی۔ مسلمانوں کو شریعت کے احکام سے بیزار کرنے، انہیں شرک و بدعت کے غار میں ڈھکیلنے، شیوخ اور اکابر پرستی کے مرض میں مبتلا کرنے اور اسلام کے بالمقابل ایک نیادین (طریقت) گھڑ کر مسلمانوں میں باہمی تفرقہ اندازی پیدا کرنے کے لئے تصوف سے اچھا کوئی نسخہ نہ تھا۔ چنانچہ ان یہود اور مجوسیوں نے تصوف کے محاذ پر خصوصی توجہ صرف کی اور اپنے آدمی چُن چُن کر اس لائن میں بھیجنے شروع کر دیئے جو معمولی کوششوں سے جاہل عوام کے پیر اور دین کے رہنما بن بیٹھے۔ اس کے بعد تصؤف جو صرف اسلامی تعلیمات اور احکام شریعت ہی سے عبارت تھا اس کا جو حشر بنا اسے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے برگ و بار ہمارے سامنے ہیں۔
دوسری خرابی یہ ہوئی کہ وہ تمام باطل اور گمراہ فرقے جن کا ذکر گذشتہ صفحات میں کیا گیا ہے ان میں بیشتر کو جب عامۃ المسلمین میں اپنے اختلاف کی پذیرائی نہیں مل سکی تو وہ صوفیاء کے طور طریقے اختیار کر کے گروہ صوفیاء میں شامل ہوگئے اور تصوف کے پلیٹ فارم سے اپنے باطل خیالات کی نشرواشاعت شروع کردی۔ اس طرح یہ لوگ مسلمانوں کے عقائد بگاڑنے اور انہیں دین حنیف سے برگشتہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مثال کے طور پر فرقہ زنادقہ جو (جہمیہ) کی ایک شاخ ہے، یہ لوگ اپنی جان بچانے کے لئے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر صوفیاء میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو صریح طور پر اللہ تعالٰی کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور بہت سے دوسرے جو اللہ کا انکار تو نہیں کرتے مگر نبوت کے منکر ہیں۔ یہ لوگ بظاہر صوفیاء میں شامل ہیں لیکن اصلیت میں قطعی کافر اور ایمان سے خارج ہیں۔
تصؤف کا مطالعہ کرتے وقت اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شریعیت اسلامیہ مسلمانوں کے لئے مکمل اور کافی ہے اور کتاب و سنت میں زندگی گزارنے کے لئے مہد سے لحد تک ایک ایک لمحہ کے لئے ہدایات موجود ہیں تو پھر اس میں (طریقت) کے نام سے اضافہ کی گنجائش کہاں سے پیدا کر لی گئی؟ اگر طریقت اخلاص فی العبادت کا نام ہے تو کیا شریعت میں یہ عنصر موجود نہیں تھا؟ اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد و وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تصؤف کا مآخذ

تصؤف کے ماخذ اور اس کے مخرج و منبع کے بارے میں علمائے اسلام اور مستشرقین نے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔ مشہور پروفیسر نکلسن کا کہنا ہے کہ تصوف یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہوا۔ نکلسن نے اپنی رائے کو بڑے وثوق کے ساتھ اپنی تصانیف میں پیش کیا ہے اور صوفیاء و حکماء یونان کے خیالات پیش کر کے ان میں باہم تطبیق کی کوشش کی ہے۔ ڈوزی اور فان کریمر کی رائے ہے کہ تصؤف ویدانیت سے ماخوذ ہے۔ کچھ لوگ اسے بدھ مذہب سے اخذ کردہ بتاتے ہیں۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال رحمہ اللہ نے ١٩١٦ء میں وکیل امرت سر میں کچھ مضامیں لکھے تھے جن میں تصوف کو بدھ مذہب سے ماخوذ قرار دینے کے لئے بطور ثبوت بخاری و مسلم کی روایت کردہ ایک حدیث پیش کی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔
"بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا، پھر تابعین کا، پھر اس کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جو گواہی دینے میں عجلت کریں گے حالانکہ ان سے کوئی شہادت طلب نہیں کی گئی تھی، وہ امانت میں خیانت کریں گے، وہ ایفاء نذرنہ کریں گے اور ان کے درمیان (سمن) کا ظہور ہوگا"۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ (سمن) سے مراد بدھ مذہب کے ایک راہب ہیں۔ (وکیل امرت سر ٢٥ نومبر ١٩١٦ء صفحہ ٥ بحوالہ تاریخ مشائخ چشت، پروفیسر خلیق نظامی صفحہ ٢٠)
پروفیسر خلیق نظامی اپنی کتاب (تاریخ مشائخ چشت) میں لکھتے ہیں جب کوئی انسانی تحریک اپنے مولد سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پھیلتی ہے تو وہاں کی ذہنی آب و ہوا مخصوص اقتصادی اور جغرافیائی حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ ہر تحریک نئے ملک اور نئے ماحول میں پہنچ کر اس جگہ کے ہم آہنگ عناصر کو ساتھ لینے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کو تقویت حاصل ہو اور نشو ونما کا صحیح موقع ملے۔ جب تصوف کی تحریک وسطی ایشیاء پہنچی تو ناگزیر تھا کہ بُدھ مذہب کے کچھ اثرات قبول کئے جائیں۔ حضرت علی ہجویری نے اپنی کتاب (کشف المحجوب) میں کچھ صوفی گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ غور سے پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ بدھ مذہب کے کتنے اثرات اس طبقے نے قبول کر لئے تھے۔ جب ہندوستان میں یہ تحریک پہنچی تو ناممکن تھا کہ یہاں کے ان قدیم مذہبی اصولوں کو جذب نہ کر لیتی جو اس کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکراتے ہوں۔ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری شطاری نے (بحرالحیات) میں اور شہزادہ داراشکوہ نے (مجمع البحرین) میں
اسلامی تصوف اور ہندو فلسفہ کا اسی نظر سے مطالعہ کیا ہے۔(تاریخ مشائخ چشت، پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ ٢٢، ٢٣)
پروفیسر نظامی اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔
کوئی انسانی تحریک خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو جب افراط و تفریط اورعمل درعمل کا بازیچہ بنتی ہے تو اس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ فقہ اسلامی کی تدوین نے مسلمانوں کی دینی اور سماجی زندگی کو سنوارنے میں عظیم الشان کام کیا لیکن جب اس کو حیلہ بازیوں اور مکاریوں کا ذریعہ بنایا گیا تو مسلمانوں کی عملی زندگی بے روح ہو کر رہ گئی۔ متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کے زد سے بچانے میں بڑی خدمت انجام دی لیکن جب علم کلام نے شکوک و شبہات پیدا کرنا مقصد بنالیا تو مسلمانوں کی ذہنی زندگی میں بڑا انتشار پیدا ہوگیا۔ یہی حال تصوف کا بھی ہوا۔ جب باطنی زندگی کو ظاہری سے الگ کر لیا گیا تو شریعت و طریقت کی تفریق پیدا ہوگئی۔ دنیا پرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دے دی گئی۔ مجاز پرستی، پیر پرستی، قبر پرستی، نغمہ و سرور کو روحانی ترقی کا لازمی جزء قرار دیا گیا۔ بیشک یہ سب گمراہیاں تصوف سے پیدا ہوئیں۔ ( تاریخ مشائخ چشت، پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ ١١)

ماخوذ: "اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات از ڈاکٹر ابوعدنان سہیل"
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس مضمون میں دعوے بہت سارے کئے گئے ہیں۔ لیکن دلیل کسی ایک بھی دعوے کی نہیں دی گئی ہے۔مثلایہ توکہہ دیاگیاکہ تصوف یہودیوں کی سازش ہے۔لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں پیش کی گئی۔اسی طرح لفظ تصوف کے مادہ اوراشتقاق میں اختلاف کو ذکرکرکے یہ کہہ دیاگیاکہ
س لفظ کے معنی میں خود صوفیاء کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لفظ کا کون سا مفہوم صحیح ہے جس کی رعایت سے اس کے حامل کو صوفی کہا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیث نبوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اور اس سے متعلق سارا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے اور ایک ایسی (بدعت) ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی بنیاد نہیں بے۔
پھرتصوف کے ماخذ کے تعلق سے بھی یہ عجیب وغریب منطق پیش کی گئی ہے کہ پہلے توکہاگیاکہ تصوف کو کچھ نیگ اوربزرگ لوگوں نے سیاسی حالات سے کنارہ کش ہوکر اختیار کیاتھااورانہوں نے اس کی بنیاد قرآن وسنت پر رکھی تھی ۔ پھر تھوڑا آگے چل کر یہ کہاجانے لگاکہ تصوف کاماخذ بدھ مذہب ہے یاپھریونانی علم الاصنام یاپھرویدانت۔
اس دعوے میں محض کچھ مزید بزرگوں کے دعوے پیش کردیئے گئے ہیں۔ حالانکہ دعوی کی جب تک دلیل نہ پیش کی جائے تو وہ دعوی خیر اقبال کریں یاپروفیسر نکلس وہ دلیل نہیں بن جائے گی۔
ویسے تصوف اوراقبال کے تعلق سے پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے جوکچھ لکھاہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔
مضمون نگار کو یہ حق ہے کہوہ تصوف کاماخذ جوچاہے قراردے لیکن اس پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دعوی کو دلیل سے ثابت کرے۔ اگر وہ یہ دعوی کرتاہے کہ تصوف ویدانت سے ماخوذ ہے تو وہ بتائے کہ ویدانت اورتصوف کے کتنے اصول مشترک ہین اورکتنے فروعات میں ہم آہنگی نظرآتی ہے۔ اوردلائل سے صوفیاء حضرات کاویدانت کو جانناپڑھنااورمتاثرہونابھی ثابت کرے۔
یہی حال اس کابھی ہے کہ تصوف کو آپ بدھ مذہب سے ثابت کریں یاپھریونان کا کرشمہ قراردیں لیکن اس کیلئے بھی دلائل ذکرکرنے چاہئے۔ دلائل ایسے ہوں جو علم کی دنیا میں وقعت رکھتے ہوں وہ دلائل مولویانہ اورمناظرانہ انداز کے نہ ہوں۔
نعیم صاحب نے ڈاکٹرصاحب کا مضمون یہاں پیش کیاہے ان کی یہ کوشش قابل ستائش ہے لیکن اگرہوسکے توڈاکٹر صاحب تک میری معروضات پہنچادیں کہ یہ مضمون محض مدعی کا دعوی بن کر رہ گیاہے۔ والسلام
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
جمشید بھائی۔
آپ صرف اتنا کیجئے کہ تصوف اور اس کے متعلقات کو کتاب و سنت سے ثابت کردیجیئے۔۔ ڈاکڑ صاحب کے سارے دعوے خود بخود بے بنیاد و بلا دلیل ثابت ہوجائیں گے۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
محترم محمد نعیم یونس صاحب میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ فورم پر جو کتب یونیکوڈ میں پیش کر رہے ہیں ،یہ ایک بہت بڑی خدمت ہے،آپ اسی طرح کے سلسلوں کو جاری رکھیں ،اور ہم نا اہلوں کے علم میں اضافہ فرمائیں ۔اللہ اپکو اسے کے اجر سے نوازیں۔
تصوف و سلوک کی اپنی ایک دنیا ہے،اور اس دنیا کی سیر کیے بغیر اس پر نقد کرنا بہت مشکل کام ہے۔تصوف اسلامی بھی اور تصوف کے نام پر جہالت بھی ہے،اب اصلی اور نقلی تصوف میں فرق کرنا ضروری ہے ،صوفی تو ابن تیمیہ ؒ بھی تھے۔صوفی ابن قیم بھی تھے۔سید نذیر حسین دہلویؒ ،اور یہ خاندان غزنویہ اور لکھوی ؒ سب صوفی لوگ تھے،حتی کے مولانا حنیف ندویؒ بھی صوفی تھے،اور انکی تفسیر اپ لوڈ کی جا رہی ہے۔ گویا لاشعوری طور پر صوفیا کی ہی کتب کو نشر کیا جا رہا ہے۔،ابن تیمیہ ؒ کی کتب بین الفرقان نے شروع میں شاکر صاحب کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ؛۔
ابن تیمیہ ؒ کا تعارف اور کتب کو متعارف ہی علماء غزنویہؒ نے ہندوستان میں کروایا( مفہوم یہی ہے)
اسی طرح خاندان شاہ ولی اللہ کو دیکھ لیں۔مجدد الف ثانی ؒ کی خدمات دیکھ لیں۔صرف سترہ کتابیں نواب صدیق الحسن خان ؒ نے تصوف پر تصنیف فرمائی ،اسی طرح مولانا ثنا ء اللہ مرتسری ؒ نے شریعیت وطریقت لکھی ہے،ان سب میں تصوف و سلوک کی اہمیت و افا دیت اور دلائل پر مشتمل ہیں ،کبھی فرصت ملے تو ان کتب کا مطالعہ فرما لیں،
میرے بھائی کیا آپ کیا سمجھتے ہیں۔ کہ یہ تمام لوگ۔۔۔؟
تصوف قوم یہود کی اسلام دشمنی کی مختلف کوششوں میں سب سے خطرناک سازش تھی ۔ تصوف اپنے نتائج اور دور رس اثرات کی وجہ سے سب سے زیادہ موثر اور خطرناک ثابت ہوا
اب اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ در پردہ یہودی تھے یا پھر یہودیوں کی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔اور عجیب بات یہ کہ سینکڑوں بار شیخ الکل ؒ نے تفسیر قرآن اور ختم بخاری کی ہے ،مگر یہودیوں کے ہاتھوں کھیلتے رہے ہیں ،شرم کا مقام لکھنے والوں کے لئے ،کیسے الفاظ کی ہاڑ میں بزرگان دین کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔اللہ ہم کو معاف کریں ۔
ابھی آپ خود بتا ئے کیا آپ انکو شرک وبدعت کے داعی سمجھتے ہیں:َ۔

مولانا حنیف ندویؒ فرماتے ہیں:۔
تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ( سید داؤد غزنویؒ )از حد شاکی اور پریشان تھے۔جماعت اہلحدیث کے مزاج کی موجودہ کفیت ہے،مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اسکے ان انعکات کا نام ہے،جو معاشرہ اور اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔اسلئے تحریک اہلحدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جماعت میں محبت الہی کے جذبوں کو عا م کرے۔تعلق باللہ کی برکات جو پھیلائے،اور اطاعت زہد واتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو روا ج دے،لیکن ہماری محرومی و تیرہ بخشی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام خواص تک تصوف وا حسان کی لذتوں سے نا آشنا ہیں۔حلانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔آپ پوچھے گے مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔؟ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا ۔انکی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہئے،کہ جو جماعت اہلحدیث کی تعمیر کے لئے زیادہ ساز گار ثابت ہو سکے۔اور اسکے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پہ قائم کر سکے، جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں ۔جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑاسکے‘‘۔
( حضرت مولانا داؤد غزنوی ص (
اوپر ڈاکٹرابو عدنان صاحب کی ایک ایک بات کا جواب دیا جا سکتا ہے۔مگر تب جو انکے ذہن سے ڈاکٹریٹ کا خمار نکلا ہو۔یاد رکھنا ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لینا اور بات ہے ۔اور علم احسان سلوک اور بات ہے۔ڈگری کا تعلق ذہنی کاوش سے ہے اور علم احسان وسلوک کا تعلق قلبی کفیات سے ہے۔امید ہے کہ آپ میری اس گستاخی کو معاف فرماتے ہوئے میری گذارشات پر غور فرمائیں گے۔
 
Top