• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوف میں غیبی کردار کی جستجو

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تصوف میں غیبی کردار کی جستجو

اس کائنات کو پیدا کرنے کا اصل مقصد حق و باطل کی وہ کشمکش ہے جو ابلیس کی متکبرانہ بغاوت سے شروع ہوئی ، جو آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالی نے ایسی با شعور مخلوق بھی پیدا کی جس میں خیر و شر دونوں کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی استعداد و تحریک موجود ہے۔ اگر یہاں پر خیر ہی خیر مطلوب ہوتا اور اللہ صرف یہ چاہتا کہ اس کی عبادت کے سوا کچھ بھی نہ ہو تو اللہ کے فرشتے کچھ کم نہ تھے۔ اسی حقیقت کو قران پاک میں تخلیق آدم سے پہلے فرشتوں کی زبان سے یوں بیان کیا گیا ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (سورۃ بقرۃ :30)
اُنہوں نے کہاکہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیع اورپا کیزگی بیان کرنے والے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالی باطل کو بھی ایک حد تک پنپنے کا موقعہ دیتا ہے کہ یہ باطل خوب پھلے پھولے پھر اللہ اس باطل کو اپنی قہاریت کی مارسے توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ۔ لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ۔ (سورہ انبیاء 16۔18)
ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے۔بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ اسی وقت نا بود ہو جاتا ہے تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
باطل کو پھلنے پھولنے کا موقعہ دے کر پھر جب اس پر حق کا کوڑا برستا ہے تو یہ اللہ کی حقانیت کی شان کا اظہار کچھ اور ہی انداز میں ہوتا ہے بجائے اس کے کہ باطل کو ابھرنے ہی نہ دیا جائے۔آدم علیہ السلام کے اس دنیا میں آنے کے بعد سے اب تک یہی کشمکش جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی یہاں تک کہ قیامت میں اللہ رب العزت اپنی شان قہاری کا اظہار کچھ اور ہی انداز میں کرے گا جس کے بعد باطل کو کوئی مہلت نہیں دی جائے گی۔ دنیامیں خیر و شر کی اس کشمکش میں باطل کا سرخیل ابلیس لعین ہے اور اس کے ساتھ اس کے تمام چیلے چانٹے ہیں جن کو شیاطین کہا گیا ہے جس میں انسان اور جنات دونوں شامل ہیں۔اور اس کشمکش میں انبیاءعلیہم السلام کی جماعت اور ان کے متبعین حق کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ختم نبوت کے ساتھ ہی اب یہ طے ہے کہ اس کشمکش میں حق کا پرچم رہتی دنیا تک صرف اور صرف محمد ﷺ کی اس اُمّت کے ہاتھ میں ہی رہے گا۔اسی لئے اللہ تعالی حق کی اس رہنمائی کے لئے قران پاک میں انبیاء علیہم السلام کے واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انبیاءکے تقریبا ہر ہر واقعے میں حق و باطل کی اسی مخاصمت اور ٹکراؤ کو نمایاں کیا گیا ہے۔حق و باطل کے اس معرکے میں حق کے علمبرداروں کی اصل ذمہ داریاں یہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
1۔ ایمان لانا اپنے تمام لوازمات کے ساتھ
2۔ اس ایمان کے مطابق عمل کرکے اپنی زندگی کو اس ایمان کی عملی شکل دینا
3۔ اسی ایمان کے مطابق حق کی شہادت دیناجس میں باطل کی زوردار انداز میں نفی بھی شامل ہے۔
4۔ شہادت حق کے نتیجے میں جو بھی تکالیف اور آزمائشیں آئے اس کو برداشت کرنا اور ایک دوسرے کو ان آزمائشوں پر صبر و ثبات کی تلقین کرنا۔
اللہ تعالی کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَالْعَصْرِ ۔إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ۔إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔
زمانے کی قسم۔ بیشک(بالیقین) انسان سرا سر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہ راستہ اہل حق کا وہ صراط مستقیم ہے جس کی گواہی قرآن پاک کے مواعظ، قرآن پاک میں موجود انبیاء علیہ السلام کے واقعات اور ایام اللہ سے صاف ثابت ہے۔ اپنی تمام حقیقتوں کے ساتھ یہ ایک دین مبین اور روشن راستہ جس پر چل کر ہی کامیابی مل سکتی ہے ۔ اسی راستے پر ہم کو چلنے کی ہدایت دی گئی ہے اور اسی راستے پر چلنے کی دعا بھی کرنے کا ہم کوحکم دیا گیا ہے۔
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ
ہمیں سچی اور سید ھی راہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔
صحابہ اور سلف صالحین نے بھی یہی راستہ اختیار کیااور اسی وجہ سے مختلف آزمائشوں میں ڈالے گئے اور نبی ﷺ کی پوری نبوی زندگی اسی جدو جہد اور آزماشوں سے عبارت ہے۔ بلکہ جیسے ہی اس جدو جہد میں نبوت کی ذمہ داری پوری ہوئی آپ ﷺ کو رفیق اعلی کی طرف اُٹھا لیا گیا۔کہ اب رسالت کے بعد صدیقیت کو اپنا کردار ادا کرنا تھا اور اس میں صدیق اکبر نے وہ استقامت دکھائی کہ اس کا حق ادا کردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الغرض بنی آدم کا اس دنیا میں یہی کام ہے اور یہی کردار ہے۔ اس ستھرے اور روشن راستے سے جو بھی بچھڑا وہ گمراہی پر پڑگیا۔
دوسری طرف شیاطین جن و انس کا راستہ فریب اور دھوکے کا راستہ ہے۔ باطل کا داعی کبھی باطل کی دعوت لے کر نہیں آتا بلکہ وہ باطل کو بھی حق کے قالب میں پیش کرتا ہے اور اس کے لئے دلفریب اوردلکش االفاظ اور پر کشش تصورات کو بروئے کار لاتا ہے۔ حق کا راستہ مشکل، نفس کی خواہشات کے خلاف ہے اور انسان سے صبر و استقامت کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ باطل اسے اسی آزمائش میں ڈٹنے کے مقابلے اس آزمائش سے فرار اور گریز کر کے کنارہ کشی کا راستہ دکھاتا ہے۔ اور جب یہ حق گریزی میں پختہ ہوجاتا ہے تو پھر یہ بھی حق کے نام پر باطل کا پرچم ہاتھ میں لے کر باطل کا داعی بن جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چونکہ انسان اپنی فطرت میں عمداً باطل کا علمبردار اور داعی نہیں بن سکتا اس لئے شیاطین اس کو دینی نصوص کی اس طرح سے تاویلات کرکے دیتے ہیں کہ وہ اس کے فریب میں آجاتا ہے۔ ان شیطانی تاویلات کا سب سے اہم نشانہ انسان کا وہ کردار ہے جس کو اسے اس دنیا میں ادا کرنا ہے یعنی، ایمان، عمل صالح، شہادت حق اور صبر کی تلقین۔ ان ذمہ داریوں کے بدلے اس کا نصب العین کچھ اور ہی کر کے پیش کردیا جاتا ہے جو کہ الفاظ و تصورات کی حد تک تو بہت پر کشش ہوتے ہیں لیکن نہ اللہ نے انسان کو اس لئے بنایا ہوتا ہے اور نہ یہ اس کے لئے قابل حصول ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
راہ حق سے روگرادنی کرنے کی ایک معروف جہت یہ ہے کہ دنیا کے ان ہنگاموں میں حق کی آذان دینے کے بجائے کوئی خفیہ قسم کا روحانی کردار ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔اس کی مختلف شکلیں مروجہ تصوف کے نام سے پائی جاتی ہیں۔ اس راستے پر پڑ کر کوئی فنا فی اللہ ہوکر عین حق بننے کی کوشش کرتا ہے، کوئی نبی کی برابری کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ اور ہیں جنہوں نے نئے نئے عہدے بنا لئے ہیں جیسے ابدال، قطب اور غوث۔اور اس میں جو مجموعی طور پر طریق اہل سنت کی پابندی کا اہتمام کرتے ہیں وہ بھی کم از کم روحانی اعمال کے ذریعے سے شرف صحابیت کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ حالانکہ جن کو اللہ نے پسند کیا ان کو صحابی بنا لیا اور اس میں مزید کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے انسان کواپنا بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ اس سے زیادہ کچھ نہیں بن سکتا۔سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے اور اب اللہ سے براہ راست ہدایت لینے کے بجائے ہر ہدایت کے لئے نبی سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ دین کا طے شدہ امر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس گمراہی کے راستے پر پڑ کر انسانوں کے لئے وہ مقام طے کئے جاتے ہیں جن کے لئے نہ انسان بنا ہے اور نہ اللہ کے کلام میں اس کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے۔ یہی گمراہی ہے جس میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ابدال، قطب اور غوث اس دنیا میں رہ کر دنیا کے اوامر کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں بلکہ ان کو نافذ بھی کرتے ہیں ۔ حق وباطل کی کشمکش میں اللہ کے رسول اور صحابہ کا جو معلوم و معروف کردار ہے اس کو نظر انداز کر کے ان کے کچھ خفیہ رول کی جستجو کی جاتی ہے اور ان کے بارے میں ایسی باتیں منسوب کی جاتی ہے جس کا نہ انہوں نے دعوی کیا نہ ہی قرآن نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا۔ انکے ایسے غیبی اور باطنی کردار متعین کئے جاتے ہیں جس میں اللہ کی بعض صفات جیسے، تدبیر امر ، تکوین ، علم غیب وغیرہ میں وہ اللہ کے شریک بن جاتے ہیں۔ بلکہ یہی صفات نہ صرف ان کے لئے بلکہ اپنے لئے بھی یا تو متعین کئے جاتے ہیں یا پھر ان کی جستجو کی جاتی ہے۔اس پورے سلسلے میں ضعیف اور موضوع احادیث ان کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اتنی اہم بات چونکہ قرآن پاک میں دور دور تک پائی نہیں جاتی اس لئے کلام اللہ جو کہ ایک روشن اور محکم کتاب ہے اس میں کچھ چھپے ہوئے باطنی نکات جو کہ صحابہ کرام کے فہم سے مختلف ہوتے ان کی اتباع کی جاتی ہے۔
هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ۔ (آل عمران: 7)
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ،حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتااور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں،یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ایک طرف قرآن کے ساتھ یہ معاملہ دوسری طرف رسول ﷺ کی مکی اورمدنی زندگی کے بجائے قبل ولادت اور مابعد الموت حیات و کردار ان کی توجہ کے خصوصی مرکز ہوتے ہیں۔ محمد ﷺ کی زندگی کا ذکر ہوگا تو بھی حق کے عظیم ترین قائد کے بجائے اس حیثیت میں ہوگا کہ نبی کا علم واختیار کتنا تھا، نبی نوری ہے یا خاکی، اللہ نے کائنات سے کتنے لاکھوں برس پہلے نبی کو پیدا کیا، نبی کی موت کی بعد ان کی حیات کی کیفیت کیسی ہے، نبی کو کلی علم غیب یا جزوی!! پھر ان نکات کو ایسے اعمال و اقوال کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جن کی کوئی اصل دین میں نظر نہیں آتی۔ کبھی اُمت کی حالت زار پر رسول سے فریاد کی جاتی ہے، کبھی اصحاب قبر سے "استفادہ" کیا جاتا ہے ، کبھی "غوث پاک" کی مدد طلب کی جاتی ہے، کبھی روحانی منزلوں کو سر کرنے کے لئے رسول ﷺ سے براہ راست تعلق قائم کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔اور یہ سب کچھ کر کے یہی باور کیا جاتا ہے کہ اصل دین یہی ہے۔
 
Top