کیاان سوالات کے ویسے ہی جوابات دیئے جاسکتے ہیں جیساکہ ابن دائود نے اتباع والے تھریڈ میں دیاہےکیا نبی کریمﷺ کو صوفی کہا جا سکتا ہے؟
صحابہ کرام� میں سے کون کون صوفی تھے؟ اور کون نہیں؟
اور اگر تصوف عربی کا لفظ ہے اور تزکیہ کا مترادف ہے تو پھر عربی میں ہی تزکیہ چھوڑ کر تصوف کا لفظ اپنانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟؟؟
کیا قرآن وحدیث میں موجود لفظ تزکیہ اپنا مفہوم پورا ادا نہ کرتا تھا کہ باقاعدہ ایک نیا لفظ گھڑنے کی ضرورت پیش آئی؟؟؟
نیز لفظ شریعت میں کیا کمی تھی کہ ایک نیا لفظ طریقت نکالنے کی ضرورت پیش آئی؟؟؟
طریقت کسے کہتے ہیں اور اس کی صرف اور صرف ایک صحیح وصریح دلیل قرآن یا سنت سے بیان کر دیں؟؟؟
جمشید بھائی ! ابن داؤد بھائی اور راقم کا طریقہ پر توآپ غیر معقول اور نامناسب طرز عمل ہونے کا فتوی صادر کرچکےہیں ۔ ۔ ۔کیاان سوالات کے ویسے ہی جوابات دیئے جاسکتے ہیں جیساکہ ابن دائود نے اتباع والے تھریڈ میں دیاہے
تصوف تصوف ہے جب تک کہ وہ تصوف ہے
یاپھر خضرحیات والاجواب دیاجاسکتاہے کہ پہلے میرےسوالات کے جوابات دے دیں اس کی روشنی میں اآپ کے سوالات کا معقول جواب دیاجائے گا۔
اآپ کون ساطریقہ جواب پسند کرتے ہیں ابن دائود والا یاخضرحیات والا ۔
جوجواب پسند ہو اس کی نشاندہی کریں ویساہی جواب دیاجائے گا۔
مقلدین کا انداز ہمیشہ ہی سے یہ رہا ہے کہ اگر ان کی فقہ کے کسی خود ساختہ مسئلہ پر انگلی اٹھائی جائے تو یہ لوگ جوابا قرآن وحدیث پر اعتراض کردیتے ہیں حتی کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول کے اصحاب کو بھی الزام دینے سے باز نہیں آتے۔ یہی روایتی انداز شرر صاحب کی اس پوسٹ کا بھی ہے جس میں اہل حدیث پر تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے پر انتہائی یقین کے ساتھ زنا کا شرمناک فتوی لگایا گیا ہے۔ جبکہ صحیح مسلم کی حدیث بروایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پتا چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پورے دور میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک جب بھی کوئی شخص اکھٹی تین طلاقیں دیتا تھا تو اسے ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ اب آپ خود اندازہ کرلیں کہ شرر صاحب کے زنا کے فتوے کی زد اہل حدیث کے علاوہ اور کن کن مبارک ہستیوں پر پڑتی ہے۔ ہم ایسے مذہب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں جس کے دفاع کے لئے اسکے پیروکاروں کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر الزام تراشی اور ان مبارک ہستیوں کی کردارکشی کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو۔
اگر کوئی کافر مسلمانوں کو گالی دے تو اس کی زد بلا استثناء ہر مسلمان پر پڑتی ہے اور اس گالی کا مصداق ہر مسلمان ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو چاہے وہ دیوبندی ہو حنفی ہو یا اہل حدیث کیونکہ ان کے درمیان مسلمان ہونے کی قدر مشترک ہے۔ بعینہ اسی طرح جب کوئی غیر مقلد کو گالی دیتا ہے تو اس کی زد مشہور غیرمقلد ابوحنیفہ پر بھی پڑتی ہے۔ کیونکہ بقول اشرف علی تھانوی، امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے۔(مجالس حکیم الامت)
اگر شرر صاحب اہل حدیث اور امام ابوحنیفہ کی غیر مقلد ہونے کی مشترک قدر پر ہی زرا غور فرمالیتے تو شاید ان کے انداز میں کچھ شائستگی آجاتی۔ جو شخص اہل حدیث کی مخالفت میں اتنا بے لگام ہوجائے کہ اپنے ہی امام کی عزت کے درپے ہوجائے تو ایسے شخص کو معقول تو نہیں کہا جاسکتا۔ شرر صاحب کو غیر مقلدین کو گالی دینے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے تھا کہ خود ان کے امام بھی یقینی غیر مقلد تھے۔ اس لئے غیرمقلدین کی عزت پر حملہ سب سے پہلے امام ابوحنیفہ کی عزت پر حملہ ہے۔ لیکن افسوس کے تعصب انسان کو اندھا کردیتا ہے۔ جو فرقہ اہل حدیث کے بغض میں اپنے نبی کی عزت کا پاس نہیں کرتا وہ اپنے امام کو کیا اہمیت دے گا۔
لیکن اس کی تصدیق اورتائیدانس نضر صاحب نے نہیں کی ہے۔ اس لئے چاہتاہوں کہ اس کے تعلق سے کچھ ارشاد فرمادیں۔اگران کو یہ طرز مناسب لگتاہے تواسی طرز میں جواب دیاجائے اوراگرنامناسب لگتاہے توکھل کر وہ فرمائیں۔جمشید بھائی ! ابن داؤد بھائی اور راقم کا طریقہ پر توآپ غیر معقول اور نامناسب طرز عمل ہونے کا فتوی صادر کرچکےہیں ۔ ۔ ۔
اب آپ کو کوئی معقول اور مناسب طرز عمل ہی اختیار کرنا چاہیے ۔
جمشید بھائی اگر اتنی باتیں اور استفسارات کسی اور طرف سے ہو جاتیں تو یقینا آپ اس پر کوئی نہ کوئی فتوی لگا چکے ہوتے ۔ میرے خیال سے آپ کو بغیر کسی تأمل کے فورا جواب یا سکوت اختیار کرنا چاہیے تھا ۔ ۔ اس طرح کے سوالات کرنا تو آپ کے نزدیک غیر علمی اسلوب اور مناظرانہ روش ہے ۔ بلکہ ایسا وہ صلیکن اس کی تصدیق اورتائیدانس نضر صاحب نے نہیں کی ہے۔ اس لئے چاہتاہوں کہ اس کے تعلق سے کچھ ارشاد فرمادیں۔اگران کو یہ طرز مناسب لگتاہے تواسی طرز میں جواب دیاجائے اوراگرنامناسب لگتاہے توکھل کر وہ فرمائیں۔
ہم بھی آپ سے یہی عرض کریں گے جن باتوں سے آپ دوسروں کو منع کرتے ہیں یا ملامت کرتے ہیں کیا آپ کے لیے وہ جائز ہیں ؟اب یہ طریقہ توانتہائی غلط ہوگاکہ اآپ صرف یہ چاہیں کہ دوسراہمارے سوالات جوابات ضرور دے لیکن جب دوسراکوئی سوال کرے تواس کو اتباع اتباع ہے جب تک کہ وہ اتباع ہے اورپہلے ہمارے سوالات کے جوابات دیں پھر ہم جواب دیں گے سے ٹالاجائے۔کبھی کوشش کریں کہ دوسروں کے سوالات کے جوابات بھی دے دیئے جائیں۔یاپھر صاف الفاظ میں انکار کیاجائے کہ ہم جواب نہیں دے سکتے یاہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے
ہم بھی صرف اتناہی چاہتےہیں کہ دوسرے حضرات ایسے جوابات کے تعلق سے کوئی واضح موقف اختیار کریں تاکہ آئندہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔ہم بھی آپ سے یہی عرض کریں گے جن باتوں سے آپ دوسروں کو منع کرتے ہیں یا ملامت کرتے ہیں کیا آپ کے لیے وہ جائز ہیں ؟
کیاان سوالات کے ویسے ہی جوابات دیئے جاسکتے ہیں جیساکہ ابن دائود نے اتباع والے تھریڈ میں دیاہے
تصوف تصوف ہے جب تک کہ وہ تصوف ہے
یاپھر خضرحیات والاجواب دیاجاسکتاہے کہ پہلے میرےسوالات کے جوابات دے دیں اس کی روشنی میں اآپ کے سوالات کا معقول جواب دیاجائے گا۔
اآپ کون ساطریقہ جواب پسند کرتے ہیں ابن دائود والا یاخضرحیات والا ۔
جوجواب پسند ہو اس کی نشاندہی کریں ویساہی جواب دیاجائے گا۔
مذکورہ عبارات میں صرف (؟) کی کمی رہ گئی ہے نا ؟لیکن اس کی تصدیق اورتائیدانس نضر صاحب نے نہیں کی ہے۔ اس لئے چاہتاہوں کہ اس کے تعلق سے کچھ ارشاد فرمادیں۔اگران کو یہ طرز مناسب لگتاہے تواسی طرز میں جواب دیاجائے اوراگرنامناسب لگتاہے توکھل کر وہ فرمائیں۔
جمشید بھائی اگر یہ مناظرانہ روش نہیں تو اور کیا ہے ؟ ؟ ؟ہم بھی صرف اتناہی چاہتےہیں کہ دوسرے حضرات ایسے جوابات کے تعلق سے کوئی واضح موقف اختیار کریں تاکہ آئندہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
اللہ ہمیں اس تصوف کے فتنہ سے محفوظ رکھے ۔ آمینخلاصہ بحث : الطحاوی صاحب کے مجدد کے پہلے مکتوب کے حوالے سے بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس مکتوب میں احمد سرہندی بالمعروف مجدد الف ثانی نے جو دعوی کیئے ہیں ان کی کوئی ایسی تاویل ممکن نہیں
جس کی بناء پر یہ دعوی شریعت کے خلاف نہ ہوں۔ لہذا ہمارے طحاوی دوراں کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ وہ شطحیات یعنی شریعت کے خلاف بکواس ہیں۔
ہمارے طحاوی دوراں کی جانب سے ، احمد سرہندی بالمعروف مجدد الف ثانی کی ان شطحیات یعنی شریعت کے خلاف بکواس کی کوئی ایسی تاویل بھی پیش نہ کی جا سکی جو لغت اور شرع کے اعتبار سے قابل قبول ہو، اور اس کی بنیاد پر احمد سرہندی بالمعروف مجدد الف ثانی کی یہ شطحیات یعنی شریعت کے خلاف بکواس کفر نہ ہوں۔
لہذا شیخ احمد سرہندی بالمعروف مجدد الف ثانی کے دعوی جو ان کے پہلے مکتوب میں ہیں دعوی کفریہ ہیں!!
نتیجہ : " تصوف کیا ہے؟ " یہ ہے تصوف کہ جس کی وجہ سے ایک کلمہ گو بھی کفر یہ دعوی اور اقوال کا مرتکب ہوتا ہے!!
سابقہ تمام پوسٹوں کاجائزہ لیں اوردیکھیں کہ کہاں ہم نے یہ بات کہی ہے کہ تصوف تصوف ہے جب تک کہ وہ تصوف ہے اورکہاں ہم نے اس کا مطالبہ کیاہے پہلے ہمارے فلاں سوال کا جواب دیاجائےاس کے بعد "معقول"جواب دیاجائے گا۔اچھا بھائی جمشید صاحب ! اس موضوع سے اور کچھ حاصل ہوا ہے یا نہیں ۔ آپ نے جو بلندو بانگ دعوے کیے تھے ان کی حقیقت ضرور واضح ہوگئی ہے ۔
آپ نے اتباع والے عنوان کے تحت ہماری مشارکت کے جواب میں برے طمطراق سے لکھا تھا کہ جب ہم سے سوال کیا جاتا ہے تو ہم سوال کا جواب دیتے ہیں الٹا سوال نہیں کرتے ۔ اور آپ نے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ مناظرانہ روش ہے ۔
نہ چوک ہوئی ہے اورنہ ہی موقف بدلاہے لیکن ون وے ٹریفک چلنے نہیں دیاجائے گا۔کہ ہم سے تواآپ سوال پر سوال کرتے جائیں کہ فلاں کی دلیل کیاہے فلاں پر سنجیدگی سے جواب دیاجائےاورجب خود کی باری اآئے تولایعنی حیلے بہانے شروع ہوجائیں ۔کہ پہلے اآپ ہمارے سوالوں کے جواب دیں پھ رہم جواب دیں گے۔لیکن یہاں میرے خیال سے آپ سے یا تو چوک ہو گئی ہے یا پھر آپ نے اپنا موقف بدل لیا ہے
اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ کتاب وسنت فورم کے ایک ذمہ دارا یسے جوابات پر واضح موقف اختیار کریں تویہ مناظرانہ روش قرارپاتی ہے لیکن پہلے ہمارے سوال کا جواب بعد میں تمہارے سوال کا جواب کی بے جاضد ہوتویہ شاید مناظرانہ روش نہیں ہے۔اگراتباع اتباع ہے جب تک کہ وہ اتباع ہے جیسے جواب ہوں تو وہ مناظرانہ روش نہیں ہے لیکن مناظرانہ روش اگرکوئی ہے تووہ صرف یہ ہے کہ ایسے جوابات پر واضح موقف اختیار کیاجائے۔ہم بھی صرف اتناہی چاہتےہیں کہ دوسرے حضرات ایسے جوابات کے تعلق سے کوئی واضح موقف اختیار کریں تاکہ آئندہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
جمشید بھائی اگر یہ مناظرانہ روش نہیں تو اور کیا ہے ؟ ؟ ؟