مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 469
- پوائنٹ
- 209
حقیقتا تصویر بنانا جائز نہیں تو اسے دیکھنا کیسے جائز ہوسکتا ہے ۔ مگر بہت ساری جگہوں پہ تصویر لگائے بغیر کام نہیں چلتا ، اسی طرح بہت سارے لوگوں کو ان تصویروں کو غور سے دیکھنا بھی پڑتا ہے جیسےلاسنس چیکر، پاسپورٹ چیک ، ووٹر چیکر وغیرہ اسی طرح ٹیلی ویزن دیکھتے ہوئے تصویر پر نظر پڑتی ہے ۔
اور ہمیں حکم دیا گیا ہے جب بھی کوئی چیز اچھی لگی تو اس پر رضامندی کا اظہار کرنا چاہئے اور برکت کی دعا کرنی چاہئے ۔ جیساکہ فرمان نبوی ﷺ ہے :
"عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَةِ"
کس بات پر تُم میں سے کوئی اپنے کسی (مُسلمان)بھائی کو قتل کرتا ہے ، (یاد رکھو کہ) اگر تُم میں سے کوئی اپنے (کسی مُسلمان) بھائی میں کچھ ایسا دیکھے جو اُسے پسند آئے تو(دیکھنے والا)اپنے اُس بھائی کے لیے برکت کی دُعا کرے.(سنن ابن ماجہ ح 3638) علامہ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
جب اس بات کا امکان ہے کہ تصویر سےنظر بد لگ سکتی ہے اور نظر بد سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ برکت کی دعا کی جائے تو میرے خیال سے تصویر دیکھتے ہوئے ماشاء اللہ کے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ کہنا چاہئے ۔
اہل علم نے مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں ماشاء اللہ کہنا واجب قرار دیا ہے کیونکہ یہ حدیث وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔
اور ہمیں حکم دیا گیا ہے جب بھی کوئی چیز اچھی لگی تو اس پر رضامندی کا اظہار کرنا چاہئے اور برکت کی دعا کرنی چاہئے ۔ جیساکہ فرمان نبوی ﷺ ہے :
"عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَةِ"
کس بات پر تُم میں سے کوئی اپنے کسی (مُسلمان)بھائی کو قتل کرتا ہے ، (یاد رکھو کہ) اگر تُم میں سے کوئی اپنے (کسی مُسلمان) بھائی میں کچھ ایسا دیکھے جو اُسے پسند آئے تو(دیکھنے والا)اپنے اُس بھائی کے لیے برکت کی دُعا کرے.(سنن ابن ماجہ ح 3638) علامہ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
جب اس بات کا امکان ہے کہ تصویر سےنظر بد لگ سکتی ہے اور نظر بد سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ برکت کی دعا کی جائے تو میرے خیال سے تصویر دیکھتے ہوئے ماشاء اللہ کے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ کہنا چاہئے ۔
اہل علم نے مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں ماشاء اللہ کہنا واجب قرار دیا ہے کیونکہ یہ حدیث وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔