عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,870
- پوائنٹ
- 157
سوال:
اجماع کی حقیقت یہ ہےکہ نبی کریمﷺکے عہد مسعود کے بعد امت محمدیہﷺکے مجتہدوں کا کسی مسئلہ میں متفق ہونا ہے اور مذاہب کے فقہاء ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کو محال تصور کرتے ہیں۔اگرچہ ان کی یہ بات غلط اور باطل ہے اور ایسی بات وہی کہتا ہے جو حقائق سے بے خبر ہوتا ہے،تاہم ان کے خیال کے مطابق ائمہ اربعہ کے زمانے کے بعد کبھی اجماع نہیں ہوگا۔بنا بریں یہ اعتراض وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بدعت اور قبروں کا فتنہ ائمہ اربعہ کے زمانے میں نہیں تھا۔جیسا کہ عنقریب ہم ثابت کریں گے کیونکہ اب اجماع کو وقوع امر محال ہے،امت محمدیہ آب زمین کے گوشہ گوشہ پھیلی ہوئی ہے اور عَلم اسلام چار دانگ عالم میں لہرا رہا ہے،اب محقق علماء کا کوئی انحصار نہیں اور کوئی شخص ان کے حالات سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔جو شخص زمین کے تمام روئے زمین پر پھیل جانے کے بعد اور مسلمانوں میں کثرت علماء ہونے کے بعد اجماع کا دعوی کرتا ہےتو اس کا دعوی جھوٹا اور باطل ہے۔جیسا کہ ائمہ محققین نے ذکر کیا ہے۔
پھر اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیں کہ انہوں نے اس برائی کا علم ہو نے کے باوجود روکا نہیں بلکہ خاموشی سے کام لیا ہےتو ان کا یہ سکوت اس کے جواز کی دلیل نہیں ہو سکتا کیونکہ شریعت کے قاعدے سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ برائی کو روکنے کے تین طریقے ہیں:
1:انکار بالید:یعنی برائی کا ہاتھ سے روکا جائے،یہ اس طرح ہےکہ برائی کو ہاتھ سے مٹایا جائے۔
2:انکار باللسان:جب ہاتھ سے برائی روکنےکی ہمت نہ ہوتو زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کرے۔
3:انکار بالقلب:جب ہاتھ اور زبان سے برائی کو روکنے کی ہمت نہ ہو تو دل میں ہی اسے برا سمجھے کیونکہ ایک کی نفی دوسرے کی نفی کو مستلزم نہیں۔
غلط ہونے کی دلیل یہ ہےکہ جو وہ استدلال پکڑتے ہیں کہ کسی نے اس کا انکار نہیں کیا،یہ رجماً بالغیب ہےکیونکہ انسان دل سے ایک کام کو برا سمجھتا ہے لیکن ہاتھ وزبان سے اس کا انکار مشکل ہوتا ہے۔آپ اپنے زمانے میں دیکھیں کہ کتنے ایسے امور واقع ہوئے ہیں،جن کو ہاتھ اور زبان سے روکنے کی آپ سکت نہیں رکھتے حالانکہ دل سے آپ اس کو برا سمجھتے ہیں۔جب کوئی جاہل کسی عالم کو دیکھتا ہےکہ وہ اس برائی کے انکار سے خاموش ہےیہ سمجھتا ہےکہ یہ کام جائز ہےحالانکہ ایک عالم شخص بسا اوقات دل میں خاموشی سے اس کی ملامت کرتا ہے اور اس کا غم کرتا ہے۔تو کسی کے سکوت سےایک عالم اور عارف شخص استدلال نہیں پکڑتا،اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ فلاں آدمی نے ایسا کیا اور باقی خاموش رہےتو اجماع ہوگیا یہ استدلال بھی بودا ہے اور نا قابل التفات ہے،اس کی دو وجوہات ہیں:
1:یہ دعوی کے باقی لوگوں کا سکوت اختیار کرنا کسی کے فعل کو پختہ کرتا ہےغلط ہےکیونکہ سکوت کسی امر کے پختہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔
2:ان کا یہ کہنا کہ اجماع ہوچکا ہےکیونکہ اجماع امت محمدیہ کے اتفاق کا نام ہےاور کسی آدمی کا سکوت اختیار کرنا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اس کے موافق ہےیا مخالف نہیں،حتی کہ اپنی زبان سے وہ خود وضاحت کرےکسی بادشاہ کے پاس لوگوں نے اس کے کسی گورنر کی یا عامل کی بہت تعریف کی لیکن ایک شخص خاموش رہا بادشاہ نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں بولتے؟اس نے جواب دیا میں کیسے بولوں میں ان کے مخالف ہوں اگر بات کروں گا تو ان کے خلاف ہی کروں گااس لیے میں خاموش ہوں تو ہر سکوت سے رضا مندی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ان برائیوں کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی جو نیزوں اور تلواروں سے لیس تھے اور بندگان خدا کے جان ومال ان کے رحم وکرم پر تھے،ان کی آبرو اور انکی عزت و حرمت کا معاملہ بھی ان کے حکم کے ماتحت تھا،اندریں حالات فرد واحد اس کو روکنے کی ہمت کیسے کر سکتا ہے؟
تو یہ مزارات اورمشاہد جو شرک و الحاد کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں اور اسلام کی محل کو منہدم کرنے اورانکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا سبب ہیں،ان کو تعمیر کرنے والے اکثر بادشاہ،روسا اور گورنر تھےوہ ان کے رشتے دار،قرابت دار ہونے کی وجہ سےایسا کرتے تھےیا وہ ایسا شخص ہوتا تھاجس کے متعلق وہ حسن ظن رکھتےکہ یہ کوئی عالم،فاضل یا کوئی صوفی فقیر ہوگا یا کوئی اور بڑا آدمی ہوگاچنانچہ ان کی جان پہچان والے ان کی قبروں اور مزارات کی غرض سے آتے تھےلیکن ان کی زیارت یوں کرتے تھےجیسے عام مردوں کی قبروں کی زیارت کی جاتی ہےیعنی وہاں جا کر ان کا توسل حاصل نہیں کرتے اور ان کو پکاررتے تھےبلکہ ان کے لیے دعائے استغفار کرتے تھے۔پھر اس قبر کے مردے کو جاننے والے فوت ہو گئےیا ان میں سے اکثر دارِ دنیا سے رخصت ہو کر دار ملک عدم کی طرف چلے گئے تو ان کے بعد میں آنے والے لوگ جب اس قبر کے پاس آتے اور وہاں پر گنبد دیکھا،قبر کے در پر چراغ روشنی کرتے ہوئےدکھائی دیے،قیمتی کپڑے کا خلاف اس پر نظر آیا،اس پر رنگا رنگ کے پردے دکھائی دیے،چاروں طرف سےخوشبوؤں کی مہک سےدماغ معطر ہواتو انہوں نے یہ سمجھاکہ یہ کوئی بزرگ ہستی ہےجو نفع ونقصان پر قادر ہےوہاں پر انہوں نے مجاوروں کو دیکھاجو اس میت کے متعلق یہ جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں کہ اس نے یوں کیا اور یوں کیا،فلاں شخص مصیبت میں گرفتا رتھا،اس کے پاس آکر منت ماننے سےاس کی مصیبت رفع ہوگی اور فلاں شخص کو بڑا نفع پہنچا،حتی کہ ہر باطل بات ہی کو ذہین نشین کراتے ہیں،یہی وجہ ہےکہ:
جواب:اگرآپ یہ کہیں کہ اس سے یہ لازم آتا ہےکہ تمام امت گمراہی پر متفق ہوگئی کیونکہ وہ اسے برا کہنے پر خاموش رہے؟
اجماع کی حقیقت یہ ہےکہ نبی کریمﷺکے عہد مسعود کے بعد امت محمدیہﷺکے مجتہدوں کا کسی مسئلہ میں متفق ہونا ہے اور مذاہب کے فقہاء ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کو محال تصور کرتے ہیں۔اگرچہ ان کی یہ بات غلط اور باطل ہے اور ایسی بات وہی کہتا ہے جو حقائق سے بے خبر ہوتا ہے،تاہم ان کے خیال کے مطابق ائمہ اربعہ کے زمانے کے بعد کبھی اجماع نہیں ہوگا۔بنا بریں یہ اعتراض وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بدعت اور قبروں کا فتنہ ائمہ اربعہ کے زمانے میں نہیں تھا۔جیسا کہ عنقریب ہم ثابت کریں گے کیونکہ اب اجماع کو وقوع امر محال ہے،امت محمدیہ آب زمین کے گوشہ گوشہ پھیلی ہوئی ہے اور عَلم اسلام چار دانگ عالم میں لہرا رہا ہے،اب محقق علماء کا کوئی انحصار نہیں اور کوئی شخص ان کے حالات سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔جو شخص زمین کے تمام روئے زمین پر پھیل جانے کے بعد اور مسلمانوں میں کثرت علماء ہونے کے بعد اجماع کا دعوی کرتا ہےتو اس کا دعوی جھوٹا اور باطل ہے۔جیسا کہ ائمہ محققین نے ذکر کیا ہے۔
پھر اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیں کہ انہوں نے اس برائی کا علم ہو نے کے باوجود روکا نہیں بلکہ خاموشی سے کام لیا ہےتو ان کا یہ سکوت اس کے جواز کی دلیل نہیں ہو سکتا کیونکہ شریعت کے قاعدے سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ برائی کو روکنے کے تین طریقے ہیں:
1:انکار بالید:یعنی برائی کا ہاتھ سے روکا جائے،یہ اس طرح ہےکہ برائی کو ہاتھ سے مٹایا جائے۔
2:انکار باللسان:جب ہاتھ سے برائی روکنےکی ہمت نہ ہوتو زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کرے۔
3:انکار بالقلب:جب ہاتھ اور زبان سے برائی کو روکنے کی ہمت نہ ہو تو دل میں ہی اسے برا سمجھے کیونکہ ایک کی نفی دوسرے کی نفی کو مستلزم نہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ائمہ کے متعلق جو یہ استدلال پکڑتے ہیں کہ یہ امور واقع ہوئے ہیں کہیں کسی نے انکار نہیں کیا اور نہ اس سے روکا گیا تو گویا کہ اس پر اجماع ہوگیا یہ غلط اور بے بنیاد ہے۔اس کی مثال کچھ یوں ہےجیسے کوئی چونگی والے کے پاس سے گزرتا ہےوہ غریبوں کا مال ظلم سے لیتا ہےیہ عالم اس کو ہاتھ وزبان سے روکنے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ ایسی صورت میں نافرمان لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔اس صورت میں برائی روکنے کے دو طریقے ختم ہوگئےیعنی ہاتھ اور زبان سے برائی روکنے کی پابندی ختم ہو گئی اب صرف ایک صورت باقی رہ گئی یعنی دل سے اس برائی کو برا تصور کرنا اوریہ ضعیف الایمان ہونے کی نشانی ہےتو ایسا عالم جس کے سامنے ظالم وجابر لوگ برائی کرتے ہوں اور وہ اس کا رد کرنے سے خاموش رہےتو اس کے متعلق یہ حسن ظن ہونا چاہیے کہ ہاتھ وزبان سے برائی کو روکنا اس کے لیے مشکل ہےلیکن دل سے وہ اسے برا سمجھتا ہےمسلمان کے متعلق حسن ظن ہونا چاہیےکیونکہ جب تک ممکن ہو ان کے لیے تاویل کرنا واجب اورضروری ہے۔تو جو لوگ حرم شریف میں داخل ہوتے تھے اور ان شیطانی تعمیرات کو دیکھتے تھے،جنہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کر پارہ پارہ کردیا،مسلمانوں کی نمازوں کو الگ الگ کردیا،تو وہ ان کی برائی کا اظہار کرنے سے قاصر تھےوہ صرف دل سے برا سمجھتے تھےجیسے کوئی شخص قبر پرستوں کے پاس سے گزرتا ہےتو وہاں برائی روکنے کی ہمت نہیں رکھتا اور اسے معذور تصور کیا جاتا ہے۔
غلط ہونے کی دلیل یہ ہےکہ جو وہ استدلال پکڑتے ہیں کہ کسی نے اس کا انکار نہیں کیا،یہ رجماً بالغیب ہےکیونکہ انسان دل سے ایک کام کو برا سمجھتا ہے لیکن ہاتھ وزبان سے اس کا انکار مشکل ہوتا ہے۔آپ اپنے زمانے میں دیکھیں کہ کتنے ایسے امور واقع ہوئے ہیں،جن کو ہاتھ اور زبان سے روکنے کی آپ سکت نہیں رکھتے حالانکہ دل سے آپ اس کو برا سمجھتے ہیں۔جب کوئی جاہل کسی عالم کو دیکھتا ہےکہ وہ اس برائی کے انکار سے خاموش ہےیہ سمجھتا ہےکہ یہ کام جائز ہےحالانکہ ایک عالم شخص بسا اوقات دل میں خاموشی سے اس کی ملامت کرتا ہے اور اس کا غم کرتا ہے۔تو کسی کے سکوت سےایک عالم اور عارف شخص استدلال نہیں پکڑتا،اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ فلاں آدمی نے ایسا کیا اور باقی خاموش رہےتو اجماع ہوگیا یہ استدلال بھی بودا ہے اور نا قابل التفات ہے،اس کی دو وجوہات ہیں:
1:یہ دعوی کے باقی لوگوں کا سکوت اختیار کرنا کسی کے فعل کو پختہ کرتا ہےغلط ہےکیونکہ سکوت کسی امر کے پختہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔
2:ان کا یہ کہنا کہ اجماع ہوچکا ہےکیونکہ اجماع امت محمدیہ کے اتفاق کا نام ہےاور کسی آدمی کا سکوت اختیار کرنا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اس کے موافق ہےیا مخالف نہیں،حتی کہ اپنی زبان سے وہ خود وضاحت کرےکسی بادشاہ کے پاس لوگوں نے اس کے کسی گورنر کی یا عامل کی بہت تعریف کی لیکن ایک شخص خاموش رہا بادشاہ نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں بولتے؟اس نے جواب دیا میں کیسے بولوں میں ان کے مخالف ہوں اگر بات کروں گا تو ان کے خلاف ہی کروں گااس لیے میں خاموش ہوں تو ہر سکوت سے رضا مندی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ان برائیوں کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی جو نیزوں اور تلواروں سے لیس تھے اور بندگان خدا کے جان ومال ان کے رحم وکرم پر تھے،ان کی آبرو اور انکی عزت و حرمت کا معاملہ بھی ان کے حکم کے ماتحت تھا،اندریں حالات فرد واحد اس کو روکنے کی ہمت کیسے کر سکتا ہے؟
تو یہ مزارات اورمشاہد جو شرک و الحاد کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں اور اسلام کی محل کو منہدم کرنے اورانکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا سبب ہیں،ان کو تعمیر کرنے والے اکثر بادشاہ،روسا اور گورنر تھےوہ ان کے رشتے دار،قرابت دار ہونے کی وجہ سےایسا کرتے تھےیا وہ ایسا شخص ہوتا تھاجس کے متعلق وہ حسن ظن رکھتےکہ یہ کوئی عالم،فاضل یا کوئی صوفی فقیر ہوگا یا کوئی اور بڑا آدمی ہوگاچنانچہ ان کی جان پہچان والے ان کی قبروں اور مزارات کی غرض سے آتے تھےلیکن ان کی زیارت یوں کرتے تھےجیسے عام مردوں کی قبروں کی زیارت کی جاتی ہےیعنی وہاں جا کر ان کا توسل حاصل نہیں کرتے اور ان کو پکاررتے تھےبلکہ ان کے لیے دعائے استغفار کرتے تھے۔پھر اس قبر کے مردے کو جاننے والے فوت ہو گئےیا ان میں سے اکثر دارِ دنیا سے رخصت ہو کر دار ملک عدم کی طرف چلے گئے تو ان کے بعد میں آنے والے لوگ جب اس قبر کے پاس آتے اور وہاں پر گنبد دیکھا،قبر کے در پر چراغ روشنی کرتے ہوئےدکھائی دیے،قیمتی کپڑے کا خلاف اس پر نظر آیا،اس پر رنگا رنگ کے پردے دکھائی دیے،چاروں طرف سےخوشبوؤں کی مہک سےدماغ معطر ہواتو انہوں نے یہ سمجھاکہ یہ کوئی بزرگ ہستی ہےجو نفع ونقصان پر قادر ہےوہاں پر انہوں نے مجاوروں کو دیکھاجو اس میت کے متعلق یہ جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں کہ اس نے یوں کیا اور یوں کیا،فلاں شخص مصیبت میں گرفتا رتھا،اس کے پاس آکر منت ماننے سےاس کی مصیبت رفع ہوگی اور فلاں شخص کو بڑا نفع پہنچا،حتی کہ ہر باطل بات ہی کو ذہین نشین کراتے ہیں،یہی وجہ ہےکہ:
احادیث میں مذکور ہےجو شخص قبروں پر چراغ جلاتا ہےیا ان پر کتبہ لگاتا ہےیا ان پر کوئی تعمیر کرتا ہےتو اس پر اللہ کی لعنت ہواس سلسلہ میں کافی احادیث مذکور ہیں۔ان امور سے فی نفسہ ممانعت ہے،علاوہ ازیں یہ ایک بہت بڑی خرابی کا ذریعہ ہے۔