ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
تعارف علم القراء ات… اَہم سوالات وجوابات
ڈاکٹرحافظ حمزہ مدنی
سوال نمبر٢٠: کیا قراء ات میں ہر ہر حرف کی سندموجود ہے ؟ اور کیا ان کے ثبوت کا ذریعہ قطعی و حتمی ہے؟جواب: قرآن مجید کی سند ایک ایک آیت کے طور پر یا ایک ایک لفظ کے طور پر یا ایک ایک سورت کے طور پر اس طرح موجود نہیں ہوا کرتی،جس طرح اُسوہ رسول 1متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور ساری روایات کو ملا کرواقعہ کی تصویر مکمل کی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس سے پہلے ذکر کی جاچکی ہے کہ قرآن مجید ایک نظم میں پرو کر اُمت محمدیہ کو دیا گیاہے، جبکہ سنت رسولﷺ اُمت کو اس شکل میں موصول نہیں ہوئی۔ قرآن مجید کو نظم کے اندر پُرو کر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اُمت کو کرناتھی اور اس تلاوت کو ایک منظم کلام کی صورت دینا ضروری تھا کہ اگر کوئی آدمی آدھ گھنٹہ یاگھنٹہ تلاوت کرنا چاہے تو ایک ترتیب سے پڑھ سکے، جبکہ حدیث میں ایسی کوئی ضرورت موجود نہیں ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے، دوسرا فرق وحی باللفظ اور وحی بالمعنی کا ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ کیا قرآن کے ہر ہر حرف یا ہرہر آیت کی کوئی سند ہے ؟ تو یہ بات پچھلی بات سے واضح ہے کہ اس طرح کرکے قرآن مجید کی سند نہیں ہوا کرتی، لیکن امر واقعہ میں ایک بات موجود ہے کہ کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے علماء کے ہاں دو طریقے معروف ہیں:
(١) کسی چیز کو بیان کیا جائے اور اس کی سند پیش کردی جائے، جس سے وہ روایت ثابت ہو۔
(٢) ایک چیز کو مجموعہ روایات کی روشنی میں دیکھا جائے کہ وہ ثابت ہے یا نہیں، چاہے کسی ایک روایت یا سند کی رو سے وہ غیر ثابت شدہ ہی کیوں نہ ہو۔
اس بحث کے لیے محدثین کے ہاں تواتر کے اندر ایک بحث موجود ہے، جس کا پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ محدثین قدر مشترک کی بنیاد پر بھی کسی بات کو ثابت کرتے ہیں، چاہے وہ بات اپنی ذات کے اعتبار سے خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح بسا اوقات ایک روایت اپنی انفرادی روایت کی جہت سے تو ضعیف ہوتی ہے، لیکن اس روایت کا قدر مشترک والا معنی، جب دیگر روایات سے ثابت ہوجاتاہے تو محدثین اس روایت کو ’حسن لغیرہ‘ کہہ کر یااس روایت کو ’سنداً ضعیف و مفہوماً صحیح‘ کہہ کر قبول کرلیتے ہیں، جیسا کہ معاذ بن جبل کی اجتہاد کے حوالے سے معروف روایت، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں قرآن مجید سے فیصلہ کروں گا اور اگر قرآن میں مجھے فیصلہ نہ ملا تو میںسنت سے فیصلہ کروں گا اور اگر سنت میں حل نہ پاؤں گا تو اپنے اجتہاد کے ساتھ دین میں غور کرکے رائے دوں گا… الخ (سنن الترمذي:۱۳۲۷،أبوداود:۳۵۹۲) کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اگرچہ اپنی سند کے اعتبارسے ثابت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود چونکہ مسئلہ اجتہاد کے بارے میں دین کے اندر بے شمار دلائل موجود ہیں، اسی وجہ سے اس حدیث کا خلاصہ دیگر احادیث کی تائید کی وجہ سے ثابت ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن مجیدکا ایک ایک حرف اور ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ اس قسم کے تواترسے ثابت ہے۔ جیسے سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘ قراء ات عشرہ کبری کے اَسّی طرق سے ثابت ہے۔ تمام کے تمام طرق میں میں بسم اللہ قدر مشترک کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ یہی حال بعد کی آیات کا ہے۔ الرحمن اور پھر الرحیم اَسّی کے اَسّی طرق میں یوں ہی ثابت ہوا ہے۔ اس طرح سے ایک ایک لفظ، ایک ایک کلمہ کو قدرِمشترک کا تواتر حاصل ہوا ہے اور جن جگہوں پر دو یازائد قراء ات ہیں،وہاں اسی طرق کو تقسیم کرکے دیکھ لیا جائے۔ اگر دو قراء ات ہیں تو چالیس چالیس کی نسبت سے اسی کوتقسیم کیاجاسکتا ہے اور اگر تین قراء ات ہیں تواَسّی کو۲۶، ۲۶ کی نسبت سے تقریباً تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کاایک ایک حرف اور ایک ایک شوشہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے متواترۃ و ثابت ہے۔