ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
جس طرح یہ نظریہ صحیح نہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ کا نزول اللہ کی طرف سے نہیں ہوا، بلکہ محمد رسول اللہﷺنے اپنی طرف سے انہیں جاری کردیا تھا، اسی طرح اس بات پر زور دینا کہ’حروف ِسبعہ‘ کے نزول کا معنی یہ ہے کہ ان کا ہر ہر جزء آسمانوں سے باقاعدہ صراحتاً اترا ہے، متعین نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ تلاوت قرآن کے ضمن میں’سبعۃ أحرف‘ میں شامل وہ مترادفات، جو کہ عرضۂ اَخیرہ میں بالاتفاق منسوخ کردئیے گئے تھے، کے حوالے سے یہ اصرار کہ یہ باقاعدہ یوں نازل ہوئے کہ جس طرح قرآن مجید تیئس سالہ عرصہ میں آہستہ آہستہ اترا، متعین نہیں، کیونکہ معاملہ کی نوعیت کے بارے میں اس قسم کی تصریح دین میں کہیں موجود نہیں۔ دین میں تو صرف یہ بات آئی ہے کہ متعدد اندازوں پر قرآن کو پڑھنے کی اجازت اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، لیکن نزول کی نوعیت کیا تھی؟ یہ کہیں واضح نہیں۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ اس بحث کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں، لیکن اس نوعیت کے بارے میں چونکہ بعض متقدمین اہل علم نے بحث چھیڑ دی ہے، چنانچہ ہم بھی بحث کر رہے ہیں۔
اللہ کی ہدایت، جو بصورت وحی انبیاء پر اترتی ہے، اس کے کئی ایک طریقے ہیں، جو محتاج بیان نہیں، البتہ اس ضمن میں ایک بات متعین ہے کہ رسول کی بات امت کے حق میں اپنی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،کیونکہ رسول کا کام پیغام رسانی ہی کا ہے۔ وحی کے معنی ’خفیہ طریقے سے سریع الہام‘ کے ہیں۔ اب اس مفہوم میں نزول کی کئی صورتیں داخل ہوسکتی ہیں۔ وحی کے آنے کی نوعیت صرف یہی نہیں ہوتی کہ فرشتہ آسمانوں سے ہی ایک شے کو باقاعدہ لے کر اترے،بلکہ یہ صورت بھی وحی ہی میں شامل ہے کہ ایک شے آپ کے سامنے یا آپ کے زمانہ میں کی جائے اور اس کا رد نازل نہ ہو تو رسول اللہﷺ کی’تقریر‘ اور اللہ تعالی کے ’استصواب‘ سے وہ وحی قرار پاجائے۔ اسی طرح وحی کا ایک اسلوب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر درپیش کسی مشکل کے حوالے سے نبی کو اللہ تعالیٰ یہ اِجازت دیدیں کہ وہ اس مشکل کے حوالے سے نصوص ِشرعیہ اور دینی مقاصد و عمومی مصالح کی روشنی میں اجتہاد کرکے کوئی بات بیان کرے اور اللہ کی طرف سے خاموشی وتصویب اسے وحی کی صورت دیدے۔ الغرض ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إنْ ہُوَ إلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘(النجم:۳،۴) میں صرف وحی کا صراحتاً نزول شامل نہیں، بلکہ مذکورہ قسم کی وحی کی دیگر صورتیں بھی شامل ہیں۔
اللہ کی ہدایت، جو بصورت وحی انبیاء پر اترتی ہے، اس کے کئی ایک طریقے ہیں، جو محتاج بیان نہیں، البتہ اس ضمن میں ایک بات متعین ہے کہ رسول کی بات امت کے حق میں اپنی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،کیونکہ رسول کا کام پیغام رسانی ہی کا ہے۔ وحی کے معنی ’خفیہ طریقے سے سریع الہام‘ کے ہیں۔ اب اس مفہوم میں نزول کی کئی صورتیں داخل ہوسکتی ہیں۔ وحی کے آنے کی نوعیت صرف یہی نہیں ہوتی کہ فرشتہ آسمانوں سے ہی ایک شے کو باقاعدہ لے کر اترے،بلکہ یہ صورت بھی وحی ہی میں شامل ہے کہ ایک شے آپ کے سامنے یا آپ کے زمانہ میں کی جائے اور اس کا رد نازل نہ ہو تو رسول اللہﷺ کی’تقریر‘ اور اللہ تعالی کے ’استصواب‘ سے وہ وحی قرار پاجائے۔ اسی طرح وحی کا ایک اسلوب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر درپیش کسی مشکل کے حوالے سے نبی کو اللہ تعالیٰ یہ اِجازت دیدیں کہ وہ اس مشکل کے حوالے سے نصوص ِشرعیہ اور دینی مقاصد و عمومی مصالح کی روشنی میں اجتہاد کرکے کوئی بات بیان کرے اور اللہ کی طرف سے خاموشی وتصویب اسے وحی کی صورت دیدے۔ الغرض ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إنْ ہُوَ إلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘(النجم:۳،۴) میں صرف وحی کا صراحتاً نزول شامل نہیں، بلکہ مذکورہ قسم کی وحی کی دیگر صورتیں بھی شامل ہیں۔