• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف علم القراء ات… اَہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
جس طرح یہ نظریہ صحیح نہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ کا نزول اللہ کی طرف سے نہیں ہوا، بلکہ محمد رسول اللہﷺنے اپنی طرف سے انہیں جاری کردیا تھا، اسی طرح اس بات پر زور دینا کہ’حروف ِسبعہ‘ کے نزول کا معنی یہ ہے کہ ان کا ہر ہر جزء آسمانوں سے باقاعدہ صراحتاً اترا ہے، متعین نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ تلاوت قرآن کے ضمن میں’سبعۃ أحرف‘ میں شامل وہ مترادفات، جو کہ عرضۂ اَخیرہ میں بالاتفاق منسوخ کردئیے گئے تھے، کے حوالے سے یہ اصرار کہ یہ باقاعدہ یوں نازل ہوئے کہ جس طرح قرآن مجید تیئس سالہ عرصہ میں آہستہ آہستہ اترا، متعین نہیں، کیونکہ معاملہ کی نوعیت کے بارے میں اس قسم کی تصریح دین میں کہیں موجود نہیں۔ دین میں تو صرف یہ بات آئی ہے کہ متعدد اندازوں پر قرآن کو پڑھنے کی اجازت اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، لیکن نزول کی نوعیت کیا تھی؟ یہ کہیں واضح نہیں۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ اس بحث کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں، لیکن اس نوعیت کے بارے میں چونکہ بعض متقدمین اہل علم نے بحث چھیڑ دی ہے، چنانچہ ہم بھی بحث کر رہے ہیں۔
اللہ کی ہدایت، جو بصورت وحی انبیاء پر اترتی ہے، اس کے کئی ایک طریقے ہیں، جو محتاج بیان نہیں، البتہ اس ضمن میں ایک بات متعین ہے کہ رسول کی بات امت کے حق میں اپنی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،کیونکہ رسول کا کام پیغام رسانی ہی کا ہے۔ وحی کے معنی ’خفیہ طریقے سے سریع الہام‘ کے ہیں۔ اب اس مفہوم میں نزول کی کئی صورتیں داخل ہوسکتی ہیں۔ وحی کے آنے کی نوعیت صرف یہی نہیں ہوتی کہ فرشتہ آسمانوں سے ہی ایک شے کو باقاعدہ لے کر اترے،بلکہ یہ صورت بھی وحی ہی میں شامل ہے کہ ایک شے آپ کے سامنے یا آپ کے زمانہ میں کی جائے اور اس کا رد نازل نہ ہو تو رسول اللہﷺ کی’تقریر‘ اور اللہ تعالی کے ’استصواب‘ سے وہ وحی قرار پاجائے۔ اسی طرح وحی کا ایک اسلوب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر درپیش کسی مشکل کے حوالے سے نبی کو اللہ تعالیٰ یہ اِجازت دیدیں کہ وہ اس مشکل کے حوالے سے نصوص ِشرعیہ اور دینی مقاصد و عمومی مصالح کی روشنی میں اجتہاد کرکے کوئی بات بیان کرے اور اللہ کی طرف سے خاموشی وتصویب اسے وحی کی صورت دیدے۔ الغرض ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إنْ ہُوَ إلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘(النجم:۳،۴) میں صرف وحی کا صراحتاً نزول شامل نہیں، بلکہ مذکورہ قسم کی وحی کی دیگر صورتیں بھی شامل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
’سبعۃ أحرف‘ کے ثبوت کے حوالے سے مشہور ’حدیث جبریل ومیکائیل‘ سے یہ بات واضح ہے کہ ’حروفِ سبعہ‘ ایک ہی موقع پر مختصر وقت میں اتر آئے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’حروف سبعہ‘ میں شامل مترادفات کو پڑھنے کی اِجازت ایک وقتی مشکل کے تحت دی گئی تھی، جسے بعد ازاں عرضۂ اخیرہ میں مشکل ختم ہونے پر خود نبی کریمﷺنے وحی کی روشنی میں منسوخ فرمادیا تھا۔ عصر حاضر میں عام ذہنیت یہی ہے کہ ان کی تعداد احادیث میں وارد شدہ محض چند کلمات مثلا ہلمَّ، تعالِ اور أقبل وغیرہ تک ہی محدود تھی، جبکہ تحقیق کے مطابق یہ کئی ہزاروں پر مشتمل تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بارے میں وحی کی اجازت بھی یوں تھی کہ جن چیزوں کی ادائیگی ابتداء بعض قبائل ِعرب کے لیے عدم استعمال کی وجہ سے مشکل تھی انہیں مخصوص مقامات میں ان کلمات سے ملتے جلتے کلمات یعنی مترادفات سے پڑھنے کی اجازت دیدی گئی ہو۔ ان کے بارے میں نزول کا معنی یہ سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو اجازت دیدی تھی کہ جہاں کسی لفظ کی ادائیگی میں کسی کے لیے کوئی مشکل ہو، اسے اس کی لغت کے مطابق اس لفظ کے ہم معنی یا قریب المعنی لفظ سے کلمہ بدلنے کی رخصت دے دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آہستہ آہستہ متعدد قبائل سے متعلق وہ لوگ قرآنی لغت سے مانوس گئے تو مترادفات سے پڑھنے کی یہ اجازت بھی منسوخ کردی گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مترادفات کے بارے میں اس توجیہ کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ مترادفات کے مطابق پڑھنے کی اجازت ایک وقتی مجبوری کے تحت بطور ِتدریج دی گئی تھی ، کیونکہ روایات کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ نیز ان کا اختلاف بھی حقیقی اختلاف کے قبیل سے ہوتا ہے، جس کے معانی پر انتہائی باریک قسم کے اثرات پڑتے ہیں۔ البتہ ’سبعۃ أحرف‘ میں شامل دیگر قسم کے اختلافات کا یا تومعانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، جیسے متنوع لہجوں کا اختلاف(یعنی قراء کی اصطلاح میں قراء ات کا اصولی اختلاف)، یا اثر تو ہوتا ہے لیکن وہ توضیح ِمعانی کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے، جیسے اسالیب ِبلاغت کا اختلاف (یعنی قراء کی اصطلاح میں قراء ات کا فرشی اختلاف)۔
مترادفات سے متعلق ہماری اس توجیہ کو یہ بات بھی تقویت دیتی ہے کہ حضرت عثمان﷜وغیرہ کے زمانہ میں عام معروف اندازے کے بالمقابل ان مترادفات کی تعداد کئی ہزاروں پرمشتمل تھی۔ ان کے حوالے سے متعدد معروف کتب قراء ات، خصوصا کتاب المصاحف از ابن ابی داؤدرحمہ اللہ وغیرہ سے مستشرقین میں سے صرف ایک شخص آرتھرجیفری نے جو ایک انتہائی ناقص اور محدود جائزہ پیش کیا ہے، صرف اس میں ان کی تعداد ۶۰۰۰ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان مترادفات کا حقیقی جائزہ اُن مصاحف کی روشنی میں لیا جانا ممکن ہوتا، جوکہ حضرت عثمان﷜نے ختم کر دیے تھے تو مترادفات کے قبیل کے یہ اختلافات مذکورہ تعداد سے کئی گنا بڑھ کر ہوتے۔ ان اختلافات کا ایک سرسری جائزہ لینے کے لیے مناسب ہوگا کہ قراء ات نمبر (حصہ اوّل) میں مطبوع ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کے مضمون کا قارئین دوبارہ مطالعہ کر لیں، جس سے بہ آسانی سے احساس ہوجائے گا کہ صحیح بخاری میں پیش کردہ حضرت حذیفہ بن یمان﷜کے مشاہدے کے مطابق بیان کردہ اختلاف ِقراء ات سے قطع نظر اس سے قبل مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں منسوخ التلاوۃ کلمات (اور تفسیری کلمات کو بطور قرآن پڑھنے) کے ضمن میں اختلاف قراء ات کا جو معاملہ درپیش تھا،حضرت عثمان﷜اورکبار صحابہ﷢خود اس سلسلہ میں انتہائی پریشان تھے۔ حضرت حذیفہ بن یمان﷜ کی توجہ دلانا تو صرف ایک سبب بن گیا، ورنہ جمع عثمانی کا اصل پس منظر آذربائجان اور آرمینیہ وغیرہ علاقوں میں موجود اختلاف کے ساتھ ساتھ درحقیقت ’قراء ات شاذہ‘ ،جو کہ منسوخ التلاوۃکلمات اور تفسیری کلمات کا بطور قرآن رائج پذیر ہو جانا جیسے اختلافات پر مشتمل ہوتی ہیں، کے ضمن میں عرضہ اخیرہ میں منسوخ شدہ وہ اختلاف ِقراء ات بھی تھا جو کہ انتہائی پریشان کن نوعیت اختیار کرگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثمان﷜نے اس کام کو کرنے کا ارادہ کیا تو ابتداء بھی اس کام کی بھرپور تائید کی گئی اور کر چکنے کے بعد بھی ہزاروں صحابہ﷢نے اس عمل کے صحیح ہونے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اسی طرح یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ حضرت عثمان﷜نے اصلا ’سبعۃ أحرف‘ کے موجود اختلافات پر تو صرف اس قدر کام کیا تھاکہ ایک ایسا جامع رسم، جو کہ قبل ازیں رسول اللہﷺسے توقیفی طور پر چلا آرہا تھا اور اسے حضرت ابو بکر﷜نے یکجا کردیا تھا، پیش کردیا جو کہ اعراب ونقط سے خالی ہونے کی وجہ سے جمیع غیر منسوخ اختلافاتِ قراء ات کو شامل تھا، لیکن ان کا اصل کام، جس وجہ سے انہیں ’جامع القرآن‘ کا لقب ملا وہ یہ تھا کہ وہ غیر مصدقہ مصاحف، جوکہ منسوخ التلاوۃ کلمات کے ایک بڑے ذخیرے پر مشتمل تھے، کو ختم کرنے اور اُمت میں متفقہ متن ِمصحف کو پیش کرنے کا باعث بنے، ورنہ جمع قرآن کے سلسلہ میں حضرت ابو بکر﷜کی خدمات بھی معمولی نہ تھیں کہ انہیں جامع القرآن کا لقب نہ ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ مستشرقین نے قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کے لیے اس کے متن کو خصوصا موضوع بحث بنایا ہے اور اس ضمن میں جس شے سے انہوں نے بہت ہی فائدہ اٹھایا ہے وہ اختلاف قراء ات کے ضمن میں مترادفات کا اختلاف ہے، ناکہ لہجات واسالیب بلاغت کے قبیل کا اختلاف، کیونکہ ان دونوں شکلوں کا اختلاف قراء ات تو ہر صورت میں رسم ِعثمانی میں آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت قراء ت کی متفقہ شرط رسم عثمانی کی موافقت ہے اور موجودہ قراء ات عشرہ کے اصولی وفرشی سب قسم کے اختلافات اس شرط پر پورا اترتے ہیں۔
نوٹ: قراء ات شاذہ مترافات کے قبیل کے منسوخ التلاوۃ کلمات اور تفسیری الفاظ پرمشتمل ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جوکہ ثبوت قرآن وقراء ات متواترہ کی شرائط پر ثابت نہ ہوسکے۔ انہی کی ایک صورت اُن موضوع روایات (قراء ات) پر بھی مشتمل ہے، جو کہ حضرت عثمان﷜وغیرہ کے زمانہ میں منسوخ التلاوۃ وغیرہ کے ضمن میں موجود اختلاف ِقرآن سے فائدہ اٹھا کر ملاحدہ اور یہود ونصاری نے داخل کردیں تھیں، اگرچہ ماہرین فن نے ان کا اصطلاحی نام ’موضوع قراء ات‘ ہی رکھا ہے۔ جمع عثمانی کے اسباب میں یہ سارے اسباب ہی پیش نظر تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
یہاں ہمیں نزول ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں امام طحاوی رحمہ اللہ کی اس رائے کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان کا یہ کہنا کہ ’سبعۃ أحرف‘ میں سے حرف قریش کے علاوہ باقی حروف نازل ہی نہیں ہوئے تھے، بلکہ اجازت کے قبیل سے تھے، یہ تعبیر درست نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب صراحتاً روایات میں موجود ہے کہ قرآن کریم کا نزول ’حروف سبعہ‘ پر ہوا ہے، تو ہم نزول کا کس طرح انکار کرسکتے ہیں، بلکہ اس طرح تو ایک نیا سوال یہ پیدا ہوگا کہ اگر قرآن کا نزول محض لغت قریش پر ہوا تھا تو عرضہ اخیرہ میں چھ لغات کا منسوخ ہونے کا کیا معنی ہوا۔ نسخ تو منزل من اللہ احکام ہی کی تنسیخ کا نام ہے۔ اس لیے امام طحاوی رحمہ اللہ کے بالمقابل امام ابن جریررحمہ اللہ سمیت عام اہل علم کی یہ رائے بالکل صحیح ہے کہ قرآن کا نزول سات حروف پر ہوا ہے۔ البتہ اگر امام موصوف کا مقصود یہ ہے کہ ایک حرف قریش اور اس کے ضمن میں قرآن مجید کی تمام الفاظ، آیات اور سورتوں کا تو باقاعدہ نزول ہوا تھا، جبکہ باقی چھ حروف کے نزول کی کیفیت عام نزول سے مختلف تھی، جیساکہ ہم نے تفصیلاً پیش کیا ہے، تو اس بات میں واقعتا کوئی حرج نہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ کسی مصلحت کے تحت اور فتنہ وفساد کے تدارک کے لیے اسلامی سلطنت کے خلیفہ کو کیا اس بات کا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ دین میں موجود کسی حکم کو وقتی اور عارضی طور پر موقوف کردے؟ تو اس بارے میں اِن شاء اللہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے ’سبعۃ أحرف‘ میں موقف کے ضمن میں بحث ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سوال نمبر٢٥: عرضہ اَخیرہ میں متعدد قراء ات منسوخ ہوئی ہیں یا نہیں؟ بالفاظ دیگر موجودہ قراء ات ’احرفِ سبعہ‘ کاکل ہیں یا بعض؟ وضاحت فرمائیے۔
جواب: پیچھے یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ عرضۂ اخیرہ کے وقت متنوع قراء ات میں سے بہت کچھ منسوخ ہوا ہے، اسی حوالے سے ہم بالاختصار اپنی بات کو دوبارہ دھرا دیتے ہیں کہ جب حدیث میں ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کا ذکر آتا ہے تو راجح رائے کے مطابق اس میں ’ احرف سبعہ‘ سے ابتدائی زمانوں میں قرآن مجید کی سات لغات کا اختلاف مراد لیا جاتا تھا۔ قبل ازیں یہ بھی واضح کیا چکا ہے کہ کوئی بھی لغت ہو وہ متعدد لہجات، مترادفات اور اَسالیب بلاغت وغیرہ کو شامل ہوتی ہے۔ تعددِ قراء ات کے ضمن میں موجود تقدیم وتاخیر ، حرکات و سکنات، غیب وخطاب اور حذف وزیادت وغیرہ کے قبیل کے اختلافات بات کو سمجھانے کے لیے متعدد اَسالیب بلاغت سے تعلق رکھتے ہیں۔ علمائے قراء ات کی اصطلاح میں اس قسم کے اختلاف کو فرش الکلمات کے نام سے بیان کیا جاتا ہے۔ لہجوں کے اختلاف کی مثالوں کے ضمن میں امالہ وتقلیل، اظہار واِدغام، مدو قصر اور ہمزہ قطعیہ میں تحقیق وتسہیل، نقل وابدال وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ انہیں قراء حضرات فروش کے بالمقابل اُصولی اختلاف کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
باقی رہے مترادفات، تو ان کا دائرہ ابتدائی دور میں بے حساب و بے شمار تھا، جس کا اندازہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان کے بارے میں پیچھے گذر چکا ہے کہ ان کے نزول کی نوعیت یہ تھی کہ ابتدائی زمانہ نزول ِقرآن کے دور میں نبی کریم کو آپ کی طلب پر اس چیز کی اِجازت دی گئی تھی کہ اگر کسی فرد کو کوئی لفظ زبان سے اَدا کرنا مشکل محسوس ہو تو آپ اس کو اس سے ملتے جلتے قریب المعنی لفظ سے تلفظ کی اجازت دے سکتے ہیں، چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے ایک فارسی نژاد شخص کو قرآن کریم کی آیت کریم طَعَامُ الاَثِیْم کو طعام الظَّالم، بعض روایات کے مطابق طعام الظلَاَّم اور بعض روایات کی رو سے طعام الفَاجِر پڑھنے کی اجازت دیدی تھی، کیونکہ وہ بار بار سیکھائے جانے پر طَعَامُ الاَثِیمِ کو طعام الیتیم ہی پڑھتا تھا اور لفظ ’الاثیم‘اس کی زبان پر چڑھتا نہیں تھا۔(مقدمہ تفسیر ابن کثیر) اس طرح کی اجازت کی وجہ سے صحابہ﷢ کی طرف منسوب مختلف قراء ات میں جو حیرت انگیز فرق نظر آتا ہے اس کا مطالعہ زیر بحث موضوع کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ذیل میں صرف سورہ الفاتحہ سے چند مثالیں صحابہ﷢ کے نام کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں کہ وہ کس طرح مختلف قرآنی کلمات کو ملتے جلتے کلمات یعنی مترادفات سے بدل کر پڑھتے تھے۔ اگر دیگر سورتوں کا بھی اس ضمن میں جائزہ پیش کیا جائے تو مترادفات کے ضمن میں معاملہ کی گھمبیر صورتحال کا مکمل جائزہ سامنے آسکتا ہے:
قرآنی کلمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تبدیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔صحابی
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملیک یوم الدین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابی بن کعب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملاَّک یوم الدین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابی بن کعب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارشدنا الصراط المستقیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبد اللہ بن مسعود﷜
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثبتنا الصراط المستقیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابی بن کعب، علی رضی اللہ عنہما
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔۔۔۔۔۔۔۔۔دلّنا الصراط المستقیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابی بن کعب﷜
اَہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہدنا صراطا مستقیما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابی بن کعب﷜
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صراط من أنعمت علیہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابن مسعود، عمر، ابن زبیر﷢
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِیْن۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیر الضالین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابی بن کعب، علی، عمر﷢
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں روایات میں مذکور ہے کہ وہ سورہ الم نشرح میں وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِِزْرَک کو وحللنا عنک وزرک اور وحططنا عنک وزرک پڑھا کرتے تھے۔ (تفسیر القرطبی)
منسوخ التلاوہ قراء ات میں موجود اس قسم کی قراء ات کی تخریج معروف کتب تفاسیر طبری، قرطبی، ابن کثیر، بیضاوی سے بہ سہولت ممکن ہے۔ مترادفات کے حوالے سے علمائے قراء ات سمیت جمیع اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ عرضۂ اخیرہ میں مترادفات کے قبیل کے تمام اختلافات بالعموم منسوخ ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں مرادفات کا اختلاف موجود نہیں تھا۔ عرضہ اخیرہ میں مترادفات کا اختلاف منسوخ ہوجانے کے بعد اب ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں جو اختلاف باقی بچا ہے وہ لہجوں اور اَسالیب بلاغت کے اختلافات کی دو نوعیتوں پر مشتمل ہے، یہی وجہ ہے کہ علم قراء ات پر لکھی جانے والی قدیم اور جدید کتب میں اصول وفروش کے نام سے انہی دو قسم کے اختلافات کو پیش کیا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ہمارے ہاں عام طور پر یہ معروف ہے کہ اختلاف قراء ات کے ذیل میں موجود مترادفات کا وہ اختلاف ،جوکہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگیا تھا، کوئی زیادہ نہیں تھا، جس کی مثالوں میں عام طور پر قراء حضرات صرف حَتّٰی کو عَتّٰی پڑھنا، ہَلُمَّ کے جگہ پر تعالِ اور أَقْبِلْ وغیرہ بولنا اور بعض اہل عرب کا علامت ِمضارع کو کسرہ دے کر پڑھنا وغیرہ کلمات پیش کرتے ہیں، جبکہ تحقیق یہ ہے کہ عرضۂ اخیرہ میں باقی رہ جانے والے اختلاف کے بالمقابل وہ قراء ات (مترادفات) جو منسوخ ہوئیں تھیں وہ کئی گنا تھیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے بطور مثال سورۃ الفاتحہ میں جن منسوخ قراء ات کو اوپر ابھی پیش کیا ہے، وہ سورۃ الفاتحہ میں موجود غیر منسوخ قراء ات کے بالمقابل کہیں زیادہ ہیں۔ مزید برآں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ قراء ات شاذہ تو ایک لفظ میں بسا اوقات دسیوں ہوتی ہیں، جبکہ قراء ات متواترہ میں لہجات سے قطع نظر دیگر قسم کے اختلافات اس کے مقابلے میں کہیں تھوڑے ہیں۔ جن حضرات نے اس ضمن میں تفسیر بیضاوی اور ’قراء ات سبعہ وعشرہ‘ سے اُوپر کی مزید غیر متواتر شاذہ چار قراء ات اور آٹھ روایات کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے متن ِقرآن کو محرف ثابت کرنے کے لیے مستشرقین کے کام کا دقت سے جائزہ لیا ہے وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ قراء ات عشرہ میں کوئی ایسا اختلاف شائد ہی موجود ہو جوکہ متن ِقرآن میں تحریف کی دلیل بن سکے۔ مستشرقین نے اس ضمن میں سارا فائدہ اُن اختلافات ِقراء ات سے اٹھایا ہے، جن کے بارے میں اُمت کا اتفاق ہے کہ یہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگئے تھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مستشرقین نے قراء ات شاذہ اور عرضۂ اخیرہ میں منسوخ التلاوہ الفاظ سے کس طرح قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس کی تفصیلات جاننے کے لیے قارئین کے لیے جناب محمد فیروز الدین شاہ کھگہ﷾کی تحقیقی کاوش ’اختلاف قراء ات اور نظریہ تحریف قرآن‘ اور مولانا محمد اسلم صدیق﷾کے تحقیقی مقالہ ’قراء ات شاذہ، شرعی حیثیت اور تفسیر وفقہ میں ان کے اَثرات‘ کے باب پنجم کامطالعہ بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔
مذکورہ حقائق کی روشنی میں علمائے قراء ات کی کتب میں ایک مسئلہ عمومی طور پر زیر بحث آیا ہے کہ موجودہ قراء ات (عشرہ صغری وکبری) ’حروف ِسبعہ‘ کا کل ہیں یا بعض؟ علمائے قراء ات کے ہاں بالعموم اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘ کے کل نہیں، بلکہ بعض میں سے ماخوذ ہیں۔ اس تعبیر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر عرضہ اخیرہ میں تھوڑی بہت قراء ات منسوخ ہوئی ہوتیں تو معاملہ کی تعبیر اور طرح سے ہوتی۔ ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں اتارے گئے اختلاف ِقراء ات میں سے جو اختلاف بعد ازاں غیر منسوخ طور پر باقی رہ گیا تھا، وہ اصل ’سبعۃ أحرف‘ کا ایک حصہ تھا، کل نہیں۔
 
Top