ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
سوال نمبر ٢٦: جب عرضہ اخیرہ میں متعدد قراء ات کے منسوخ ہونے کو علماء تسلیم کرتے ہیں تو یہ بحث اٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں یا بعض؟
جواب: آپ اپنے سوال کے ضمن میں غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو منسوخ ہوگیا وہ توختم ہوگیا، اس لیے معاملہ کو الجھانے کے بجائے سیدھا سیدھا کہنا چاہیے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں، کیونکہ جو ختم ہوگیا ہمیں اسے کالعدم خیال کرتے ہوئے بھول جانا چاہیے اور اب جو باقی ہے اسے بعد کی صورتحال کے مطابق کل ’سبعۃ أحرف‘سے ہی ماخوذ تعبیر کرنا چاہیے۔ـ یہ بات بظاہر تو ٹھیک ہے، لیکن اس بحث کو اہل علم نے اٹھایا کیوں ہے؟ اس کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ جو اہل علم ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح سبعہ لغات سے کرتے ہیں، ان کے ہاں عام طور پر ان لغات کا تعلق مترادفات ِ تلاوت سے ہے۔اب ’اختلاف ِ مترادفات‘ تو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگیا چنانچہ بحث یہ ہے کہ اب جو موجودہ قراء ات ہیں، کیا یہ تمام صرف ایک ’حرف‘ کا حاصل ہیں یا تمام ’احرف‘ کا۔ اس ضمن میں راجح موقف کیا ہے کہ عرضہ اخیرہ میں چھ حرف منسوخ ہوئے یا تمام حروف میں سے کچھ کچھ منسوخ ہوا؟ اس پر بحث تو ہم بعد میں کریں گے، لیکن یہاں سر دست اتنا بتا دینا کافی ہے کہ یہ سوال مذکورہ پس منظر کے ضمن میں پیدا ہواہے اور اگر یہ پس منظر سامنے نہ ہو تو اس تعبیر میں بھی کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ موجودہ قراء ات عشرہ ’احرف سبعہ‘ ہی میں سے ماخوذ ہیں اورجو چیز منسوخ ہوگئی ہے اب وہ کالعدم ہی ہے۔ اُس کو پہلے شمار میں لاکر پھر اس کے اوپر یہ سوال اٹھانا کہ اب وہ اس’کل‘ میں داخل ہے یا نہیں؟ ہم کہیں گے کہ جب تک وہ منسوخ نہیں ہوئی تھیں تب تک وہ ’کل‘ میں داخل تھیں اور جب وہ منسوخ ہوگئیں تو اب وہ کل میں سے ایسے نکل گئی ہیں جیسے داخل ہی نہیں تھیں، چنانچہ ہم عام تعبیر کے اعتبار سے یہ پس منظر چھوڑ دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ موجود قراء ات عشرہ ’سبعۃ أحرف‘ کا کل ہیں۔
جواب: آپ اپنے سوال کے ضمن میں غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو منسوخ ہوگیا وہ توختم ہوگیا، اس لیے معاملہ کو الجھانے کے بجائے سیدھا سیدھا کہنا چاہیے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں، کیونکہ جو ختم ہوگیا ہمیں اسے کالعدم خیال کرتے ہوئے بھول جانا چاہیے اور اب جو باقی ہے اسے بعد کی صورتحال کے مطابق کل ’سبعۃ أحرف‘سے ہی ماخوذ تعبیر کرنا چاہیے۔ـ یہ بات بظاہر تو ٹھیک ہے، لیکن اس بحث کو اہل علم نے اٹھایا کیوں ہے؟ اس کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ جو اہل علم ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح سبعہ لغات سے کرتے ہیں، ان کے ہاں عام طور پر ان لغات کا تعلق مترادفات ِ تلاوت سے ہے۔اب ’اختلاف ِ مترادفات‘ تو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگیا چنانچہ بحث یہ ہے کہ اب جو موجودہ قراء ات ہیں، کیا یہ تمام صرف ایک ’حرف‘ کا حاصل ہیں یا تمام ’احرف‘ کا۔ اس ضمن میں راجح موقف کیا ہے کہ عرضہ اخیرہ میں چھ حرف منسوخ ہوئے یا تمام حروف میں سے کچھ کچھ منسوخ ہوا؟ اس پر بحث تو ہم بعد میں کریں گے، لیکن یہاں سر دست اتنا بتا دینا کافی ہے کہ یہ سوال مذکورہ پس منظر کے ضمن میں پیدا ہواہے اور اگر یہ پس منظر سامنے نہ ہو تو اس تعبیر میں بھی کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ موجودہ قراء ات عشرہ ’احرف سبعہ‘ ہی میں سے ماخوذ ہیں اورجو چیز منسوخ ہوگئی ہے اب وہ کالعدم ہی ہے۔ اُس کو پہلے شمار میں لاکر پھر اس کے اوپر یہ سوال اٹھانا کہ اب وہ اس’کل‘ میں داخل ہے یا نہیں؟ ہم کہیں گے کہ جب تک وہ منسوخ نہیں ہوئی تھیں تب تک وہ ’کل‘ میں داخل تھیں اور جب وہ منسوخ ہوگئیں تو اب وہ کل میں سے ایسے نکل گئی ہیں جیسے داخل ہی نہیں تھیں، چنانچہ ہم عام تعبیر کے اعتبار سے یہ پس منظر چھوڑ دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ موجود قراء ات عشرہ ’سبعۃ أحرف‘ کا کل ہیں۔