• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف علم القراء ات… اَہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سوال نمبر ٢٦: جب عرضہ اخیرہ میں متعدد قراء ات کے منسوخ ہونے کو علماء تسلیم کرتے ہیں تو یہ بحث اٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں یا بعض؟
جواب: آپ اپنے سوال کے ضمن میں غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو منسوخ ہوگیا وہ توختم ہوگیا، اس لیے معاملہ کو الجھانے کے بجائے سیدھا سیدھا کہنا چاہیے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں، کیونکہ جو ختم ہوگیا ہمیں اسے کالعدم خیال کرتے ہوئے بھول جانا چاہیے اور اب جو باقی ہے اسے بعد کی صورتحال کے مطابق کل ’سبعۃ أحرف‘سے ہی ماخوذ تعبیر کرنا چاہیے۔ـ یہ بات بظاہر تو ٹھیک ہے، لیکن اس بحث کو اہل علم نے اٹھایا کیوں ہے؟ اس کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ جو اہل علم ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح سبعہ لغات سے کرتے ہیں، ان کے ہاں عام طور پر ان لغات کا تعلق مترادفات ِ تلاوت سے ہے۔اب ’اختلاف ِ مترادفات‘ تو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگیا چنانچہ بحث یہ ہے کہ اب جو موجودہ قراء ات ہیں، کیا یہ تمام صرف ایک ’حرف‘ کا حاصل ہیں یا تمام ’احرف‘ کا۔ اس ضمن میں راجح موقف کیا ہے کہ عرضہ اخیرہ میں چھ حرف منسوخ ہوئے یا تمام حروف میں سے کچھ کچھ منسوخ ہوا؟ اس پر بحث تو ہم بعد میں کریں گے، لیکن یہاں سر دست اتنا بتا دینا کافی ہے کہ یہ سوال مذکورہ پس منظر کے ضمن میں پیدا ہواہے اور اگر یہ پس منظر سامنے نہ ہو تو اس تعبیر میں بھی کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ موجودہ قراء ات عشرہ ’احرف سبعہ‘ ہی میں سے ماخوذ ہیں اورجو چیز منسوخ ہوگئی ہے اب وہ کالعدم ہی ہے۔ اُس کو پہلے شمار میں لاکر پھر اس کے اوپر یہ سوال اٹھانا کہ اب وہ اس’کل‘ میں داخل ہے یا نہیں؟ ہم کہیں گے کہ جب تک وہ منسوخ نہیں ہوئی تھیں تب تک وہ ’کل‘ میں داخل تھیں اور جب وہ منسوخ ہوگئیں تو اب وہ کل میں سے ایسے نکل گئی ہیں جیسے داخل ہی نہیں تھیں، چنانچہ ہم عام تعبیر کے اعتبار سے یہ پس منظر چھوڑ دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ موجود قراء ات عشرہ ’سبعۃ أحرف‘ کا کل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سوال نمبر٢٧:قرآن کریم کی جمع ثالث کی نوعیت کیا تھی اور جمع عثمانی کا پس منظر کیا تھا، نیز بتائیں کہ حضرت عثمانtنے قراء ات کے ضمن میں موجود اختلاف کو ختم کیا تھا یانفس قراء ات کو؟
جواب : ہمارا کہنا یہ ہے کہ حضرت عثمان﷜نے عرضہ اخیرہ میں متعدد قراء ات منسوخ ہو جانے والی قراء ات کے ضمن میں موجود اختلاف کو ختم کیا تھا، ناکہ غیر منسوخ قراء اتوں کو بھی۔ جو شخص یہ بات کہتا ہے کہ انہوں نے ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں موجود تمام اختلاف کو ختم کیا تھا وہ سب سے پہلے اس بات کو ثابت کرے۔ اگرہم کہتے ہیں کہ انہوں نے قراء اتیں ختم نہیں کیں تھیں تو ہم بھی اس کی دلیل پیش کرنی پڑے گی۔ حضرت عثمان﷜نے جمع عثمانی کے ضمن میں کیا کام کیا تھا اور کیا نہیں؟ اس کا تعلق وقوعہ کی خبر سے ہے، جس کا اجتہاد یا رائے زنی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ حکم لقمان نے فلاں بات فرمائی تھی اور اس بارے میں میرااور آپ کا اختلاف ہوجاتا ہے کہ انہوں نے یہ بات فرمائی تھی یا نہیں؟ تو اس کا تعین واقعہ کی خبر اور پھر اس کی تحقیق سے ہوگا کہ آیا یہ خبر ثابت بھی ہے یا نہیں۔ جو لوگ حضرت عثمان﷜ کی نسبت سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور خلافت میں ’سبعۃ أحرف‘ کا منزل من اللہ غیر منسوخ اختلاف بھی ختم کر دیا تھا تو وہ حضرت عثمان﷜ کے حوالے سے ایک واقعہ کا تعین پیش کر رہے ہیں اور واقعہ کا تعین بغیر خبر کے نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح واقعہ کے بارے میں ہمارا دعویٰ بھی دلیل کا متقاضی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے سارا قرآن اپنے دور میں لکھوا دیاتھا،اسے جمع نبوی کا نام دیا گیا۔ اس بات کو سب مانتے ہیں، لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ آپ نے قرآن کریم ایک جگہ پر جمع نہیں فرمایا تھا، بلکہ متفرق حالت میں موجود تھا۔ حضرت ابوبکر﷜کے زمانے میں مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ قرآن مجید کے بے شمار قاری، (تقریبا سات سو) شہید ہوگئے۔ ان کے شہید ہونے کی وجہ سے اس ضرورت کا احساس پیداہوا کہ وہ قرآن ،جو اللہ کے رسولﷺ کی موجودگی میں مختلف لوگوں نے لکھا تھا، اسے ایک جگہ پراکٹھا کرلیا جائے، ورنہ یہ نہ ہو کہ لوگ فوت ہوتے جائیں اور وہ جو لکھا ہوا قرآن ہے وہ ضائع نہ ہوجائے، توحضرت ابوبکر﷜ نے قرآن مجید پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر﷜ نے قراء توں کو جمع کیا تھا یا قرآن کو جمع کیا تھا یا لکھے ہوئے قرآن کو جمع کیاتھا؟جواب یہ ہے کہ لکھے ہوئے قرآن کو ،جسے رسم الخط کہتے ہیں، یکجا کیا تھا، ورنہ قرآن کے پڑھنے والے ہزاروں لاکھوں میں تھے، چند سو کے شہید ہوجانے پر کونسی پریشانی لاحق ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر﷜نے لکھا ہوا قرآن ایک جگہ پر جمع کیا تھا۔
شروع شروع میں حضرت ابو بکر﷜ اس کام سے بہت گھبرائے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کیسا کروں، لیکن حضرت عمر﷜ کے بار بار قائل کرنے پر اللہ تعالی نے ان کا ذہن کھول دیا۔ پھر مناسب آدمی کی تلاش شروع ہوئی جو یہ کام کرے، تو نظر حضرت زید بن ثابت﷜ پر جا ٹھہری۔ حضرت زید﷜ بھی اس کام سے بہت گھبرائے کہ یہ کام میں کیسا کروں، جبکہ رسول اللہﷺنے خود قرآن کریم کو ایک جگہ جمع نہیں فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا سینہ بھی اس حوالے سے کھول دیا۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت زید﷜ فرماتے ہیں کہ مجھے عملاً یہ کام اتنا بوجھ والا محسوس ہوتا تھا کہ اگر مجھے اُحد پہاڑ اٹھا کر رکھ دینے کا حکم دیا جاتا تو وہ اس کام سے زیادہ سہل تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کس چیز کا بوجھ سمجھتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ بوجھ کی نوعیت یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں اس پر آئندہ قرآن کریم کی پرکھ کا معیار طے ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
بہرحال یہ کا م کرلیا گیا کہ حضرت زید﷜مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ گئے اور پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول ان میں سے ایک گواہی تو اس بات کی تھی یہ مجھے اللہ کے رسول حضرت ابوبکر﷜نے قرآن مجید پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول ان دو گواہیوں کی نوعیت یہ تھی کہ ایک گواہی اس بات کی تھی یہ آیت مجھے اللہ کے رسولﷺنے لکھوائی ہے اور دوسری گواہی اس بات کہ یہ میں خود آپ کی جناب سے براہ راست لکھی ہے۔
ضروری محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کردی جائے کہ رسول اللہﷺنے اپنے زندگی میں مکمل قرآن جو لکھوا دیا تھا اس کی حکمت کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم چونکہ وحی باللفظ ہے، جس کے الفاظ کی بحفاظت امت کو منتقلی کافی مشکل امر تھا، چنانچہ آپ نے اس کو مکمل لکھوا دیا تاکہ کسی وقت الفاظ قرآن کے ضمن میں پیدا ہونے والے اختلاف کو حل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس لکھے ہوئے قرآن کو معیاربنا کر صحیح وغلط کا تعین کیا جاسکے، جیساکہ اس کی مثال یوں ہے کہ آج کل بھی جب ہم پڑھتے ہوئے بھول جاتے ہیں، تو قرآن مجید کھول کر درست کا تعین کرلیتے ہیں۔ الغرض قرآن کو لکھوانے کی دو وجہیں تھیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(١) قرآن مجید چونکہ وحی باللفظ ہے اور روایت باللفظ میں الفاظ کی تبدیلی کا چونکہ اندیشہ ہوتا ہے اس لیے قرآن کریم کا رسم خود لکھوا دیا، تاکہ قرآن کے الفاظ محفوظ رہ سکیں۔
(٢)مابعدادوار میں قرآن یا اس کے لفظوں کے حوالے سے کوئی اختلاف پیداہوجائے تو کوئی ایسا معیار موجود ہو، جو اختلا ف کی صورت میں بطور معیار موجود ہو۔
بہر حال اب بحث کرتے ہیں جمع عثمانی کے بارے میں۔ سب سے قبل حضرت عثمان ﷜ کے زمانے میں جو مسئلہ پیدا ہوا اس کو سمجھ لیں، کیونکہ جب تک بات کا پس منظر معلوم نہ ہو، پتہ چلنا مشکل ہوتا ہے کہ مسئلہ کیا تھا اورپھر اس مسئلہ کا علاج کیا تجویز کیا گیا۔ ضرورت یہ پیش آئی کہ حضرت عثمان﷜کے زمانے میں عرصہ دراز سے اختلاف قراء ت کے ضمن میں کچھ مسئلہ درپیش تھے:
(١) عرضۂ اخیرہ میں مترادفات کے قبیل کی کافی چیزیں منسوخ ہوگئی تھیں، لیکن چونکہ جبریل ﷤ کے ساتھ اس آخری دور میں اکثر صحابہ﷢ موجود ہی نہیں تھے، تو ان چیزوں کی تفصیلات کا علم نہ ہوسکنے کی وجہ سے کئی صحابہ﷢ ان منسوخ التلاوۃ الفاظ کی تلاوت کرتے، بلکہ انہوں نے اپنے ذاتی مصاحف میں ان کو باقاعدہ طور قرآن لکھ رکھا تھا۔ یہ صحابہ﷢ کئی ایسے امور کی تلاوت کر رہے تھے ، جو کہ منسوخ ہوچکے تھے اور مدینہ کے اندر وباہر یہ اختلاف صحابہ﷢ میں ہوتا رہتا تھا کہ کوئی کہتا تھا یہ قرآن ہے اور کوئی کہتا تھا یہ قرآن نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٢) دوسرا اختلاف یہ تھا کہ رسول اللہﷺنے قرآن مجید کی ابتدائے کتابت کے دور میں فرمایا تھا: ’’لا تکتبوا عنی، ومن کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ‘‘ (صحیح مسلم:۵۳۲۶)کہ مجھ سے قرآن کریم کے علاوہ کچھ نہ لکھو، تاکہ وحی باللفظ کا وحی بالمعنی سے اختلاط نہ ہوجائے، چنانچہ جب اختلاط کا اندیشہ ختم ہوگیا تو آپ نے حدیث لکھنے کی اجازت دیدی، جیسا کہ روایات میں موجود ہے۔ اس ضمن میں درپیش مشکل یہ تھی کہ لوگ قرآن کی تبیین کے ضمن میں رسول اللہﷺکے ارشادات کو بھی قرآن کے ہمراہ لکھ لیتے تھے، جنہیں بعد ازاں قرآن سے الگ نہ لکھنے کی وجہ سے غلطی سے تلاوت ِقرآن میں بطور قراء ات داخل کرلیا جاتا۔ حضرت عثمان﷜کے زمانہ میں کسی مصدقہ مصحف کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس قسم کے تفسیری کلمات کا اختلاف بھی زوروں پر پہنچا ہوا تھا۔ لوگوں میں ان تفسیری توضیحات کے ضمن میں شدید اختلاف چل رہا تھا کہ بعض لوگ انہیں قراء ت کا درجہ دے کر باقاعدہ تلاوت کرتے۔
(٣) قرآن کریم کے ضمن میں موجود اس قسم کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر یہود ونصاری نے بھی سازش کرکے کئی کلمات اور الفاظ کو درمیان میں داخل کردیا تھا۔ عبداللہ بن سبا یہودی سازشی کو کون نہیں جانتا ، ان جیسے لوگوں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی طرف سے کئی کئی چیزیں گھڑ کر قرآن مجید کی قراء ات پر درمیان میں پھیلانا شروع کردیں۔ ضرورت اس امر کی تھی حکومتی سطح پر حکومتی نگرانی میں کوئی ایسا مصدقہ مصحف تیار کروایا جائے جسے بطور معیار کے لاگو کرکے اس قسم کے اختلافات کا فیصلہ کیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اِدھر یہ معاملے توپہلے ہی چل رہے تھے کہ اُدھر ایک ایسا اہم واقعہ پیش آگیا کہ جو ان تمام اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایک تحریک کا سبب بن گیا۔ ہوا یوں کہ آذربائیجان اور آرمینیہ وغیرہ کے علاقے، جوکہ مدینہ وغیرہ سے کافی دور تھے، کیونکہ قریب کے لوگوں میں یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا، ان علاقوں میں یہ مسئلہ پیدا ہواکہ جو صحابہ﷢ و تابعین کے تلامذہ اور اولادیں تھیں، ان لوگوں کے اندر اپنے اساتذہ اور خاندانوں کی عصبیت کی وجہ سے یہ مسئلہ پیداہوا کہ میرے استاد کا جو اندازِ تلاوت ہے وہ تمہارے استاد سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جس آج بھی مختلف مسالک کے مشائخ ِقراء ات کے تلامذہ کے ہاں اس قسم کا احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ میرا استاد زیادہ قابل ہے، حالانکہ ایسانہیں ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی قراء ات میں ترجیح کا اختلاف جب زیادہ شدت اختیار کرگیا تو اس قسم کے مشاہدات بھی سامنے آئے کہ بعضوں نے تمہاری قراء ت غلط، ہماری صحیح ہے۔ دیگر بعضوں نے جوابی رد میں اس دوسری قراء ت کی تغلیط کردی۔
یاد رہے کہ اختلاف ِقراء ات کے ضمن میں اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں بھی کئی دفعہ صحابہy کے مابین اس قسم کے اختلافات رو نما ہوئے کہ آوازیں بلند ہوگئیں۔ آپﷺنے بارہا دفعہ اس اختلاف کو دبانے کی کوشش فرمائی، بلکہ بعض اوقات تو انتہائی ناراضگی بھی فرمائی۔ اس حوالے سے سب سے مشہور واقعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں آیا ہے کہ عبداللہ بن عمرو﷜فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام﷢ مسجد میں موجود تھے اور ان کے اندر قرآن کریم اور اس کی قراء ات کے ضمن میں اختلاف ہوا اور آوازیں بلند ہوگئیں، اللہ کے رسولﷺاپنے حجرہ سے نکلے، آپؐ کا چہرہ مبارک غصے سے سُرخ تھا، آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم لوگ اختلاف کیوں کررہے ہو، اختلاف نہ کرو‘‘ اور ناراضگی سے فرمایا کہ’’ تم سے پہلے لوگ اختلاف کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے ہیں‘‘۔ إنما ہلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتاب(صحیح مسلم: ۲۶۶۶)سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ جو چیز منزل من اللہ ہے، اس کو سرتسلیم خم کرکے مان لو، اس بارے میں خوامخواہ اختلاف نہ کرو۔ عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسی بنیاد پر اہل سنت کا یہ عقیدہ نقل فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرنا کفر ہے۔ متن طحاویہ کی شرح میں امام ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ نے اسی روایت کو پیش کرکے بتایا ہے کہ امام موصوف رحمہ اللہ کی مراد اس سے قراء ات کی قبولیت کا مسئلہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
میں کہنا چاہتا ہوں کہ آذربائیجان اور آرمینیہ وغیرہ میں جو اختلاف حضرت حذیفہ بن یمان ﷜ نے دیکھا، انہوں نے چونکہ اس سلسلہ میں ارشادات سن رکھے تھے چنانچہ جب مدینہ واپس تشریف لائے تو پہلا کام یہ کیا کہ حضرت عثمان﷜ کے پاس تشریف لائے اور وہی لفظ بولے جو عبد اللہ بن مسعود﷜ کی مذکورہ روایت میں رسول اللہﷺنے بولے تھے۔ کہنے لگے کہ ’’أدرکْ ھذہ الأمۃ‘‘(صحیح البخاري: ۴۹۸۷) یعنی اس اُمت کو تھام لیجئے، اگر آپ نے اس اُمت کونہ تھاما تو یہ بھی رسول اللہﷺ کی پیش گوئی کے مطابق بھی پچھلی امتوں کی طرح قرآن کو ضائع نہ کربیٹھے ۔
یہ نیا مسئلہ اس اعتبار سے زیادہ حساسیت کا متقاضی تھا کہ قرآن مجید کے بارے میں کھینچ تان جاری تھی، جبکہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں پہلے سے موجود اختلاف میں کھینچ تان کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ ایک طرح سے لا علمی کامعاملہ تھا۔
یہ ہے جمع عثمانی کا وہ پس منظر، جس پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے۔ حضرت عثمان﷜کو جو مسائل درپیش تھے وہ مذکورہ چار نوعیتوں کے تھے۔ ایسا کوئی مسئلہ وہاں زیر بحث ہی نہ تھا کہ اختلاف قراء ات کے ضمن میں رسول اللہﷺجو اختلاف غیر منسوخ طور پر چھوڑ گئے تھے، حضرت عثمان﷜ کو اس کے حوالے سے کوئی مشکل درپیش تھی۔ اختلاف قراء ات سے حضرت عثمان﷜ پریشان تھے اور نہ حذیفہ بن یمان﷜، کیونکہ ایسا ہوتا ہے تو اللہ کے رسولﷺکے اس فرمان کا کیامطلب ہوتا: ’’إنما ھلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتاب‘‘ (صحیح مسلم: ۲۶۶۶) آپؐ نے صحابہ﷢میں قراء ات کے تنوع پرتشویش کااظہار نہیں کیا، بلکہ آپﷺ کو تشویش اس پر ہوئی کہ اس تنوع قراء ات کے انکار کے سلسلہ میں انکار جو رویہ تھا،اس پر آپﷺکو تشویش ہوئی تھی۔ حضرت عثمان﷜اور حذیفہ بن یمان﷜ کو بھی وہی تشویش ہوئی تھی جو اس قسم کے اختلاف پر ہونی چاہیے تھی۔ ایک سے زیادہ روایات میں صراحت ہے کہ صحابہ﷢ میں جب بھی منزل من اللہ قرآن یا اس کی قراء ات کے ضمن میں کوئی اختلاف پیدا ہوا تو آپ نے ہر موقع پر ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ اور ’’فاقرؤا ما تیسَّر کلّھا شافٍ کافٍ‘‘ وغیرہ الفاظ بول کر اس قسم کے اختلاف کا خاتمہ فرمایا۔ حضرت عثمان﷜ نے بھی آذربائجان اور آرمینیہ میں منزل من اللہ غیر منسوخ قراء ات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کے لیے صحابہ﷢ کو مسجد نبوی میں جمع کرکے کہا تھا:
’’اذکر اللّٰہ رجلا سمع النبی قال ان القرآن انزل علی سبعۃ أحرف کلھا شاف کاف الا قام ، فقاموا حتی لم یحصوا فشھدوا بذلک۔‘‘ (مسند أبو یعلی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
معلوم ہوا کہ جب حضرت عثمان﷜ نے ان کو اللہ کی قسم دے کرگواہی طلب کی کہ جس جس نے حدیث ’سبعۃ أحرف‘ آپﷺسے سن رکھی ہے تو وہ کھڑا ہوجائے، تو اتنی بڑی تعداد کھڑی ہوگئی کہ اسے شمار کرنا ممکن نہ تھا۔
فرض کریں کہ حضرت عثمان﷜کو جو مشکل درپیش ہوئی، اگر یہ مشکل آپ کو درپیش ہوتی تو آپ کیا کرتے؟ میں یہ کہتاہوں کہ ہمارے زمانے میں اس قسم کا اختلاف ہوا ہے۔ سعودی عرب میں بھی ہوا، مصر میں بھی اور پاکستان میں بھی، بلکہ دیگر ممالک میں بھی ایسا اختلاف پیدا ہوا، اگرچہ اس کی نوعیت کچھ مختلف تھی وہ یہ کہ جب سے مطبع خانے آئے اور قرآن کریم کتابت کے بجائے پرنٹنگ پریس سے دھڑا دھڑ چھپنے لگے تو املائی اغلاط کی کثرت ہوگئی، حتی کہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ایسے محقق نسخے تیار کیے جائیں، جنہیں معیار کا درجہ دے دیا جائے۔ لوگوں نے انفرادی کوششیں بھی کیں اور حکومتی سطح پر بھی کوششیں ہوئی۔ مصر میں ملک فواد الاول نے اور سعودیہ میں شاہ فہد بن عبد العزیز وغیرہ نے اپنی نگرانی میں باقاعدہ اس کام کو کروایا۔ پاکستان میں وسائل کی قلت کی وجہ سے غالبا بھٹو دور میں ایک آرڈیننس جاری کردیا گیا، جس کی رو سے لازم کردیا گیا کہ قرآن کریم کی کوئی طباعت وزارت الاوقاف کی طرف سے مقرر دو پروف ریڈروں کی نظر ثانی کے بغیر نہیں کی جاسکے گی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سعودی عرب نے تو اپنے وسائل کی کثرت کے پیش نظر یہ کام بھی بعد ازاں کیا کہ تمام غیر مصدقہ مصاحف کو ضبط کرکے حکومتی سطح پر تیار شدہ تحقیقی مصحف، جس کا نام مصحف مدینہ تھا، کو لازم کردیا ہے۔ حتی کہ سعودیہ میں عمرہ یا حج کے مواقع پر باہر سے کوئی قرآن لانے پر ایک دور تک سخت پابندی بھی رہی ہے۔ آج بھی سعودی عرب میں کوئی نجی ادارہ ذاتی طور پر کوئی قرآن طبع نہیں کرسکتا، جس نے اس سلسلہ میں کوئی ہدیہ دینا ہوتا ہے وہ بھی وزارۃ الأوقاف والشئوون الإسلامیۃکو ہی آکر تعاون دیتا ہے،وزارت اس کے تبرع کو مصحف مدنیہ کی اشاعت میں شامل کرلیتی ہے۔
اسی قسم کا حضرت عثمان﷜نے کیا، جو آج کے زمانہ میں سعودی حکومت نے کیا۔ انہوں نے اس سارے اختلاف کو حل کرنے کے لیے تین قسم کے اقدامات کیے:
(١) پہلے مرحلہ پر مدینہ اور اس کے قرب جوار میں مترادفات اور تفسیری کلمات کے بطور قرآن رائج ہونے کے ضمن میں جو اختلاف تھا اس کا حل یہ سوچا گیا حکومتی نگرانی میں ایک مصدقہ نسخہ تیار کروا کر باقی موجود تمام غیر مصدقہ مصاحف کو ضبط کرکے ختم کردیا جائے، تاکہ ضرورت کی تکمیل حکومتی نسخہ سے پوری ہوجائے اور قرآن مجید میں کمی وزیادہ یا الفاظ کی تبدیلی کے ضمن میں جس قسم کے غیر منزل اللہ یا منسوخ شدہ اختلافات ِ تلاوت موجود تھے، جنہیں مستشرقین نے بعد ازاں تحریف قرآن کی بنیاد بنایا تھا، انہیں ختم کیا جا سکے۔
 
Top